مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

عارضی اور مستقل ایمان کی علامت

(4-183)

حدیث نمبر 1

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ الْجُعْفِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الْحَسْرَةَ وَالنَّدَامَةَ وَالْوَيْلَ كُلَّهُ لِمَنْ لَمْ يَنْتَفِعْ بِمَا أَبْصَرَهُ وَلَمْ يَدْرِ مَا الأمْرُ الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ مُقِيمٌ أَ نَفْعٌ لَهُ أَمْ ضَرٌّ قُلْتُ لَهُ فَبِمَ يُعْرَفُ النَّاجِي مِنْ هَؤُلاءِ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ مَنْ كَانَ فِعْلُهُ لِقَوْلِهِ مُوَافِقاً فَأُثْبِتَ لَهُ الشَّهَادَةُ بِالنَّجَاةِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ فِعْلُهُ لِقَوْلِهِ مُوَافِقاً فَإِنَّمَا ذَلِكَ مُسْتَوْدَعٌ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ روز قیامت حسرت و ندامت اور افسوس ہو گا اس کے لیے جو باوجود بتائے جانے کے یہ جانے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے آیا وہ اس کے لیے نفع رساں ہے یا مضر۔ میں نے کہا یہ کیسے جانا جائے کہ اس میں کون ناجی ہے۔ فرمایا جس کا فعل اس کے قول کے موافق ہو اس کی نجات کی گواہی ثابت ہے اور جس کا قول اور فعل یکساں نہ ہو وہ عارضی ایمان والا ہے۔