مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَبْدِيِّ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الْعَبْدَ مِنْ عَبِيدِيَ الْمُؤْمِنِينَ لَيُذْنِبُ الذَّنْبَ الْعَظِيمَ مِمَّا يَسْتَوْجِبُ بِهِ عُقُوبَتِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ فَأَنْظُرُ لَهُ فِيمَا فِيهِ صَلاحُهُ فِي آخِرَتِهِ فَأُعَجِّلُ لَهُ الْعُقُوبَةَ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا لأجَازِيَهُ بِذَلِكَ الذَّنْبِ وَأُقَدِّرُ عُقُوبَةَ ذَلِكَ الذَّنْبِ وَأَقْضِيهِ وَأَتْرُكُهُ عَلَيْهِ مَوْقُوفاً غَيْرَ مُمْضًى وَلِي فِي إِمْضَائِهِ الْمَشِيئَةُ وَمَا يَعْلَمُ عَبْدِي بِهِ فَأَتَرَدَّدُ فِي ذَلِكَ مِرَاراً عَلَى إِمْضَائِهِ ثُمَّ أُمْسِكُ عَنْهُ فَلا أُمْضِيهِ كَرَاهَةً لِمَسَاءَتِهِ وَحَيْداً عَنْ إِدْخَالِ الْمَكْرُوهِ عَلَيْهِ فَأَتَطَوَّلُ عَلَيْهِ بِالْعَفْوِ عَنْهُ وَالصَّفْحِ مَحَبَّةً لِمُكَافَاتِهِ لِكَثِيرِ نَوَافِلِهِ الَّتِي يَتَقَرَّبُ بِهَا إِلَيَّ فِي لَيْلِهِ وَنَهَارِهِ فَأَصْرِفُ ذَلِكَ الْبَلاءَ عَنْهُ وَقَدْ قَدَّرْتُهُ وَقَضَيْتُهُ وَتَرَكْتُهُ مَوْقُوفاً وَلِي فِي إِمْضَائِهِ الْمَشِيئَةُ ثُمَّ أَكْتُبُ لَهُ عَظِيمَ أَجْرِ نُزُولِ ذَلِكَ الْبَلاءِ وَأَدَّخِرُهُ وَأُوَفِّرُ لَهُ أَجْرَهُ وَلَمْ يَشْعُرْ بِهِ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ أَذَاهُ وَأَنَا الله الْكَرِيمُ الرَّءُوفُ الرَّحِيمُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے خدا نے کہا ہے کہ میرا مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے جو میرے عذاب دینے کا سبب ہو دنیا و آخرت میں تو میں اس بارے میں نظر کرتا ہوں کہ آخرت کی بہتری کے لیے کیا صورت ہو سکتی ہے۔ لہذا میں دنیا میں اسکے سزا دینے میں جلدی کرتا ہوں تاکہ اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے۔ میں اس سزا کو معین کرتا ہوں اور اس کو جاری کرتا ہوں اور بغیر جاری کیے روکے رہتا ہوں اور اس کے جاری کرنے میں میری مشیت ہوتی ہے جس کو میرا بندہ نہیں جانتا میں اس کو جاری کرنے میں کئی بار تامل کرتا ہوں پھر اس کو روک لیتا ہوں تاکہ اسے آزردگی نہ ہو اس تکلیف کے داخل ہونے میں۔ میں آخر اس سے درگزر کرتا ہوں اور اس گناہ معاف کر دیتا ہوں بہ سبب اس کے نوافل کے بجا لانے کے جو رات اور دن وہ بجا لایا ہے میرا تقرب حاصل کرنے کے لیے لہذا میں اس مشیت کو اس سے ہٹا دیتا ہوں میں نے ہی اس کو مقدر کیا میں نے ہی اس کو جاری کیا میں نے ہی اپنی مشیت سے اس کا اجر روک دیا اور اس مصیبت کے نزول میں اس کے لیے اجر عظیم لکھتا ہوں حالانکہ اسے نہ اس کی خبر ہوتی ہے نہ کوئی تکلیف پہنچتی ہے میں خدائے کریم و مہربان و رحیم ہوں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ فَقَالَ هُوَ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ قَالَ قُلْتُ لَيْسَ هَذَا أَرَدْتُ أَ رَأَيْتَ مَا أَصَابَ عَلِيّاً وَأَشْبَاهَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ (عَلَيهِم السَّلام) مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) كَانَ يَتُوبُ إِلَى الله فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً مِنْ غَيْرِ ذَنْبٍ۔
میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق جو مصیبت تم پر نازل ہوتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے آتی ہے حضرت نے فرمایا یہ بھی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے گناہ بخش دیتا ہے ۔ راوی کہتا ہے میں نے حضرت علی اور ان کے اہلبیت پر جو مصائب نازل ہوئے کیا وہ ان کے لائے ہوئے تھے۔ فرمایا رسول اللہ بغیر کوئی گناہ کیے روز ستر بار توبہ کرتے تھے۔
توضیح: چونکہ سائل نے آیت کا جزو آخر چھوڑ دیا تھا لہذا حضرت نے اسے پورا کر دیا نیز یہ کہ سائل کا خیال یہ تھا کہ ہر گناہ کے لیے کسی بلا کا آنا ضروری ہے لہذا حضرت نے اس آیت کا آخری حصہ پڑھ کر بتایا کہ خدا بہت سے گناہ معاف بھی کر دیتا ہے۔ رہا دوسرا امر تو اس کا جواب حضرت نے یوں دیا کہ استغفار نبی ﷺ صدور گناہ کی وجہ سے نہ تھا بلکہ بلندی درجات کی وجہ سے تھا اسی طرح اہلبیت علیہم السلام کی ابتلا و مصیبت کفارہ ذنوب نہیں ہے بلکہ کثرت ثواب اور بلندی درجات کے لیے ہے پس اس آیت میں جو خطاب ہے وہ غیر معصومین سے ہے جن سے صدور گیا ہوتا ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ أَ رَأَيْتَ مَا أَصَابَ عَلِيّاً وَأَهْلَ بَيْتِهِ (عَلَيهِم السَّلام) مِنْ بَعْدِهِ هُوَ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَهُمْ أَهْلُ بَيْتِ طَهَارَةٍ مَعْصُومُونَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) كَانَ يَتُوبُ إِلَى الله وَيَسْتَغْفِرُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ مِائَةَ مَرَّةٍ مِنْ غَيْرِ ذَنْبٍ إِنَّ الله يَخُصُّ أَوْلِيَاءَهُ بِالْمَصَائِبِ لِيَأْجُرَهُمْ عَلَيْهَا مِنْ غَيْرِ ذَنْبٍ۔
علی بن رئاب کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا جو مصیبت تم پر آئی ہے وہ تمہارے ہی کرتوتوں سے ہے اور کہا کہ آپ نے اس پر بھی غور کیا کہ حضرت علی اور ان کے اہل بیت پر ان کے بعد جو مصیبت آئی کیا یہ ان کے ہاتھوں سے آئی۔ درآنحالیکہ وہ اہلبیت طہارت اور معصوم ہیں۔ فرمایا رسول اللہ ہر دن اور رات میں سو بار بغیر گناہ استغفار کرتے تھے۔ اللہ نے اپنے اولیاء کو مصائب سے مخصوص کیا ہے تاکہ ان کے اجر کو زیادہ کرے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ رَفَعَهُ قَالَ لَمَّا حُمِلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَأُوقِفَ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ يَزِيدُ لَعَنَهُ الله وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) لَيْسَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِينَا إِنَّ فِينَا قَوْلَ الله عَزَّ وَجَلَّ ما أَصابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الأرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلا فِي كِتابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَها إِنَّ ذلِكَ عَلَى الله يَسِيرٌ۔
راوی نے بہ سند حضرت جعفر صادق علیہ السلام بیان کیا کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام کو یزید کے سامنے لا کھڑا کیا تو اس نے یہ آیت پڑھی کہ تم پر جو مصیبت آئی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے آئی ہے۔ فرمایا یہ آیت ہم سے متعلق نہیں ہمارے بارے میں سورہ حدید کی یہ آیت ہے جو مصیبت زمین پر یا تمہارے نفسوں پر آئی ہے ہم نے اس کو خلق سے پہلے اپنی کتاب لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے اور یہ اللہ پر آسان ہے یعنی یہ مصیبت ہمارے ازیاد مراتب کے لیے پہلے سے لکھی ہوئی ہے نہ کہ کسی گناہ کی وجہ سے نازل ہوئی ہے۔