مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ وَاقِدٍ الْحَرِيرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ الله الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَأَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَبَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَدَوَاءَهَا وَأَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلامِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے زہد فی الدنیا قلب انسان میں حکمت برقرار رکھتا ہے اور اس کی زبان کو گویا کرتا ہے اور عیوب دنیا اس کو نظر آ جاتے ہیں اس کی بیماری بھی اور اس کا علاج بھی اور اسے دنیا سے لے جاتا ہے صحیح سلامت دارالسلام کی طرف۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ جُعِلَ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي بَيْتٍ وَجُعِلَ مِفْتَاحُهُ الزُّهْدَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لا يَجِدُ الرَّجُلُ حَلاوَةَ الإيمَانِ فِي قَلْبِهِ حَتَّى لا يُبَالِيَ مِنْ أَكْلِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) حَرَامٌ عَلَى قُلُوبِكُمْ أَنْ تَعْرِفَ حَلاوَةَ الإيمَانِ حَتَّى تَزْهَدَ فِي الدُّنْيَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے خیر سب کی سب ایک گھر میں ہے جس کی کنجی زہد فی الدنیا ہے پھر فرمایا رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حلاوت اپنے قلب میں نہ پائے گا جب تک غذائے دنیا سے بے پرواہ نہ ہو اور حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا جب تک دنیا سے بے رغبت نہ ہوں دلوں پر حرام ہے کہ وہ حلاوت ایمان کو پائیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ مِنْ أَعْوَنِ الأخْلاقِ عَلَى الدِّينِ الزُّهْدَ فِي الدُّنْيَا۔
فرمایا امیر المومنین علیہ السلام نے دین میں سب سے زیادہ مددگار اخلاق میں زہد فی الدنیا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) عَنِ الزُّهْدِ فَقَالَ عَشَرَةُ أَشْيَاءَ فَأَعْلَى دَرَجَةِ الزُّهْدِ أَدْنَى دَرَجَةِ الْوَرَعِ وَأَعْلَى دَرَجَةِ الْوَرَعِ أَدْنَى دَرَجَةِ الْيَقِينِ وَأَعْلَى دَرَجَةِ الْيَقِينِ أَدْنَى دَرَجَةِ الرِّضَا أَلا وَإِنَّ الزُّهْدَ فِي آيَةٍ مِنْ كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ۔
ایک شخص نے حضرت علی بن الحسینؑ سے پوچھا زہد کے متعلق، فرمایا دس چیزیں ہیں ان میں ایک زہد ہے پس زہد کا اعلیٰ درجہ ورع کا ادنیٰ درجہ ہے اور ورع کا اعلیٰ درجہ یقین کا ادنیٰ درجہ ہے اور یقین کا اعلیٰ درجہ رضا کا ادنیٰ درجہ ہے زہد کی تعریف کتابِ خدا میں یہ ہے جو فوت ہو جائے اس پر افسوس نہ کرو جو مل جائے اس پر خوش نہ ہو۔
وَبِهَذَا الإسْنَادِ عَنِ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) وَهُوَ يَقُولُ كُلُّ قَلْبٍ فِيهِ شَكٌّ أَوْ شِرْكٌ فَهُوَ سَاقِطٌ وَإِنَّمَا أَرَادُوا بِالزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا لِتَفْرُغَ قُلُوبُهُمْ لِلآخِرَ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے ہر دل جس میں شک و شرک ہو وہ ساقط الاعتبار ہے انبیاء و اوصیا نے دنیا سے بے رغبتی اس لیے رکھی تاکہ آخرت کے لیے ان کے دل محبت دنیا سے خالی ہو جائیں۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ عَلامَةَ الرَّاغِبِ فِي ثَوَابِ الآخِرَةِ زُهْدُهُ فِي عَاجِلِ زَهْرَةِ الدُّنْيَا أَمَا إِنَّ زُهْدَ الزَّاهِدِ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لا يَنْقُصُهُ مِمَّا قَسَمَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ فِيهَا وَإِنْ زَهِدَ وَإِنَّ حِرْصَ الْحَرِيصِ عَلَى عَاجِلِ زَهْرَةِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لا يَزِيدُهُ فِيهَا وَإِنْ حَرَصَ فَالْمَغْبُونُ مَنْ حُرِمَ حَظَّهُ مِنَ الآخِرَةِ۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا جو شخص ثواب آخرت کی طرف رغبت رکھتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کی چند روزہ لذات کو ترک کرتا ہے جو شخص دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے تو وہ تقسیمِ الہٰی کی رو سے نقصان میں نہیں رہتا کیونکہ دنیا کے فائدے سے زیادہ اسے آخرت کا ثواب مل جاتا ہے لذات دنیا کے حریص کو حرص کرنے سے کچھ زیادہ نہیں مل جاتا تو وہ ثوابِ آخرت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْخَثْعَمِيِّ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَا أَعْجَبَ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) شَيْءٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلا أَنْ يَكُونَ فِيهَا جَائِعاً خَائِفاً۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے رسول اللہ کو دنیا سے کوئی چیز اس سے زیادہ پسند نہیں آئی کہ وہ بھوکے رہیں اور خدا سے ڈرتے رہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَهُوَ مَحْزُونٌ فَأَتَاهُ مَلَكٌ وَمَعَهُ مَفَاتِيحُ خَزَائِنِ الأرْضِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذِهِ مَفَاتِيحُ خَزَائِنِ الأرْضِ يَقُولُ لَكَ رَبُّكَ افْتَحْ وَخُذْ مِنْهَا مَا شِئْتَ مِنْ غَيْرِ أَنْ تُنْقَصَ شَيْئاً عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) الدُّنْيَا دَارُ مَنْ لا دَارَ لَهُ وَلَهَا يَجْمَعُ مَنْ لا عَقْلَ لَهُ فَقَالَ الْمَلِكُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيّاً لَقَدْ سَمِعْتُ هَذَا الْكَلامَ مِنْ مَلَكٍ يَقُولُهُ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ حِينَ أُعْطِيتُ الْمَفَاتِيحَ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ محزون و مغموم برآمد ہوئے ان کے پاس فرشتہ آیا اور اپنے ساتھ خزائنِ ارض کی کنجیاں لایا، کہنے لگا اے محمد یہ خزائنِ ارض کی کنجیاں ہیں خدا فرماتا ہے کہ قفل کھولو اور جتنا چاہو لے لو تمہارا ثوابِ آخرت میرے نزدیک کم نہ ہو گا۔ حضرت نے فرمایا دنیا گھر ہے اس کے لیے جس کے لیے دوسرا گھر نہ ہو۔ یہاں جمع کرے گا جس کی عقل نہ ہو۔ فرشتہ نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی برحق بنایا کہ یہی کلام میں نے آسمان چہارم پر اس فرشتہ سے سنا تھا جس نے مجھے کنجیاں دی تھیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَرَّ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) بِجَدْيٍ أَسَكَّ مُلْقًى عَلَى مَزْبَلَةٍ مَيْتاً فَقَالَ لأصْحَابِهِ كَمْ يُسَاوِي هَذَا فَقَالُوا لَعَلَّهُ لَوْ كَانَ حَيّاً لَمْ يُسَاوِ دِرْهَماً فَقَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى الله مِنْ هَذَا الْجَدْيِ عَلَى أَهْلِهِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ ﷺ گزرے ایک ایسے مردہ بکری کے بچہ کی طرف سے جس کے کان کٹے ہوئے تھے اورہ مزبلہ پر پڑا ہوا تھا۔ اپنے اصحاب سے فرمایا اس کی کیا قیمت ہو گی۔ انھوں نے کہا اگر یہ زندہ ہوتا تو ایک درہم اس کی قیمت نہ ہوتی اور اب تو قیمت کا کوئی سوال ہی نہیں۔ حضرت نے فرمایا خدا کی قسم یہ دنیا خدا کے نزدیک اہلِ زمین کے لیے اس سے زیادہ ذلیل ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا أَرَادَ الله بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَفَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَبَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَمَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَقَالَ لَمْ يَطْلُبْ أَحَدٌ الْحَقَّ بِبَابٍ أَفْضَلَ مِنَ الزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا وَهُوَ ضِدٌّ لِمَا طَلَبَ أَعْدَاءُ الْحَقِّ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مِمَّا ذَا قَالَ مِنَ الرَّغْبَةِ فِيهَا وَقَالَ أَ لا مِنْ صَبَّارٍ كَرِيمٍ فَإِنَّمَا هِيَ أَيَّامٌ قَلائِلُ أَلا إِنَّهُ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ أَنْ تَجِدُوا طَعْمَ الإيمَانِ حَتَّى تَزْهَدُوا فِي الدُّنْيَا. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِذَا تَخَلَّى الْمُؤْمِنُ مِنَ الدُّنْيَا سَمَا وَوَجَدَ حَلاوَةَ حُبِّ الله وَكَانَ عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا كَأَنَّهُ قَدْ خُولِطَ وَإِنَّمَا خَالَطَ الْقَوْمَ حَلاوَةُ حُبِّ الله فَلَمْ يَشْتَغِلُوا بِغَيْرِهِ. قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الْقَلْبَ إِذَا صَفَا ضَاقَتْ بِهِ الأرْضُ حَتَّى يَسْمُوَ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب خدا کسی بندے کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا سے بے رغبت کر دیتا ہے اور علم دین کا عالم بناتا ہے اور دنیا کے عیب اس کی نظر میں ظاہر کر دیتا ہے اور جس کو یہ چیزیں مل جاتی ہیں تو اس کو دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی مل گئی اور یہ بھی فرمایا زہد سے بہتر کسی نے حق کو اور کسی دروازہ سے نہیں پایا اور اعدا حق کے لیے ضد ہے اس چیز کی جو انھوں نے طلب کی۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ فرمایا اس لیے کہ دنیا کی طرف ان کو رغبت ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ بڑا صبر کرنے والے اور کریم الطبع ہیں وہ دنیا کی طرف رغبت نہیں کرتے کیوں کہ دنیا تو چند روزہ ہے جب تک تم دنیا سے بے رغبت نہ ہو گے تو لذت ایمان تمہارے لیے حرام ہو گی اور حضرت نے یہ بھی فرمایا جب مومن نے اپنے دل کو محبت دنیا سے خالی کر لیا تو وہ بلند مرتبہ ہوا اور محبت خدا کی لذت اسے حاصل ہوئی اور اہل دنیا اسے مخبوط الحواس سمجھنے لگے اور لوگ حلاوت حب اللہ کو خبط جانتے ہوئے اس خیال کو چھوڑتے نہیں اور حضرت نے فرمایا جب کسی دل میں صفائی پیدا ہوتی ہے تو دنیا اس پر تنگ ہو جاتی ہے اور اس کا تعلق بہشت سے ہو جاتا ہے جو آسمان میں ہے۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ بْنِ هَمَّامٍ عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ سُئِلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) أَيُّ الأعْمَالِ أَفْضَلُ عِنْدَ الله عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ مَا مِنْ عَمَلٍ بَعْدَ مَعْرِفَةِ الله جَلَّ وَعَزَّ وَمَعْرِفَةِ رَسُولِهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَفْضَلَ مِنْ بُغْضِ الدُّنْيَا وَإِنَّ لِذَلِكَ لَشُعَباً كَثِيرَةً وَلِلْمَعَاصِي شُعَباً فَأَوَّلُ مَا عُصِيَ الله بِهِ الْكِبْرُ وَهِيَ مَعْصِيَةُ إِبْلِيسَ حِينَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ وَالْحِرْصُ وَهِيَ مَعْصِيَةُ آدَمَ وَحَوَّاءَ حِينَ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا فَكُلا مِنْ حَيْثُ شِئْتُما وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونا مِنَ الظَّالِمِينَ فَأَخَذَا مَا لا حَاجَةَ بِهِمَا إِلَيْهِ فَدَخَلَ ذَلِكَ عَلَى ذُرِّيَّتِهِمَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَذَلِكَ أَنَّ أَكْثَرَ مَا يَطْلُبُ ابْنُ آدَمَ مَا لا حَاجَةَ بِهِ إِلَيْهِ ثُمَّ الْحَسَدُ وَهِيَ مَعْصِيَةُ ابْنِ آدَمَ حَيْثُ حَسَدَ أَخَاهُ فَقَتَلَهُ فَتَشَعَّبَ مِنْ ذَلِكَ حُبُّ النِّسَاءِ وَحُبُّ الدُّنْيَا وَحُبُّ الرِّئَاسَةِ وَحُبُّ الرَّاحَةِ وَحُبُّ الْكَلامِ وَحُبُّ الْعُلُوِّ وَالثَّرْوَةِ فَصِرْنَ سَبْعَ خِصَالٍ فَاجْتَمَعْنَ كُلُّهُنَّ فِي حُبِّ الدُّنْيَا فَقَالَ الأنْبِيَاءُ وَالْعُلَمَاءُ بَعْدَ مَعْرِفَةِ ذَلِكَ حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ وَالدُّنْيَا دُنْيَاءَانِ دُنْيَا بَلاغٍ وَدُنْيَا مَلْعُونَةٍ۔
حضرت علی بن الحسینؑ سے سوال کیا گیا عنداللہ کون سا عمل زیادہ افضل ہے۔ فرمایا اللہ اور رسول کی معرفت کے بعد بغض دنیا سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں اور معاصی کی بھی شاخیں ہیں پس سب سے پہلی چیز خدا کی نافرمانی تکبر ہے یہ معصیت ابلیس ہے اسنے انکار کیا۔ اس نے تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا اور حرص وہ معصیت آدم و حوا ہے اللہ نے ان سے کہا تھا کہ جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ اپنا نقصان کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ پس انھوں نے اس چیز کو لے لیا جس کی انھیں ضرورت نہ تھی۔ لہذا یہ چیز روز قیامت تک ان کی اولاد میں داخل ہو گئی اور اولاد آدم اکثر اس چیز کو طلب کرے گی جس کی اسے ضرورت نہ ہو پھر حسد کو جو آدم کے بیٹے میں پایا گیا اس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا اسی کی شاخ عورتوں کی محبت دنیا کی محبت، ریاست کی محبت، راحت و کلام پر پابندی، مرتبہ اور دولت کی محبت ہے یہ سات عادتیں ہیں یہ سب محبت دنیا میں جمع ہو گئی ہیں انبیاء اور علماء نے ان امور کو جانتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے دنیا بے ثباتت ہے اس کی دو قسمیں ہیں خدا تک پہنچانے والی بھی ہے اور معلونہ بھی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا إِضْرَاراً بِالآخِرَةِ وَفِي طَلَبِ الآخِرَةِ إِضْرَاراً بِالدُّنْيَا فَأَضِرُّوا بِالدُّنْيَا فَإِنَّهَا أَوْلَى بِالإضْرَارِ۔
فرمایا رسول اللہ نے طلب دنیا میں نقصان آخرت ہے اور طلب آخرت میں نقصان دنیا ہے اور دنیا کا نقصان آخرت کے نقصان سے بہتر ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) حَدِّثْنِي بِمَا أَنْتَفِعُ بِهِ فَقَالَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ أَكْثِرْ ذِكْرَ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ لَمْ يُكْثِرْ إِنْسَانٌ ذِكْرَ الْمَوْتِ إِلا زَهِدَ فِي الدُّنْيَا۔
راوی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو میرے لیے نفع بخش ہو۔ فرمایا اے ابو عبیدہ موت کا ذکر زیادہ کیا کرو جو موت کا ذکر زیادہ کرتا ہے وہ دنیا سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَيْمَنَ عَنْ دَاوُدَ الأبْزَارِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) مَلَكٌ يُنَادِي كُلَّ يَوْمٍ ابْنَ آدَمَ لِدْ لِلْمَوْتِ وَاجْمَعْ لِلْفَنَاءِ وَابْنِ لِلْخَرَابِ۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک فرشتہ ہر روز ندا کرتا ہے اے ابن آدم پیدا ہو موت کے لیے جمع کر فنا کے لیے گھر بنا بربادی کے لیے۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّ الدُّنْيَا قَدِ ارْتَحَلَتْ مُدْبِرَةً وَإِنَّ الآخِرَةَ قَدِ ارْتَحَلَتْ مُقْبِلَةً وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ وَلا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا أَلا وَكُونُوا مِنَ الزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا الرَّاغِبِينَ فِي الآخِرَةِ أَلا إِنَّ الزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا اتَّخَذُوا الأرْضَ بِسَاطاً وَالتُّرَابَ فِرَاشاً وَالْمَاءَ طِيباً وَقُرِّضُوا مِنَ الدُّنْيَا تَقْرِيضاً أَلا وَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلا عَنِ الشَّهَوَاتِ وَمَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ رَجَعَ عَنِ الْمُحَرَّمَاتِ وَمَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا هَانَتْ عَلَيْهِ الْمَصَائِبُ أَلا إِنَّ لله عِبَاداً كَمَنْ رَأَى أَهْلَ الْجَنَّةِ فِي الْجَنَّةِ مُخَلَّدِينَ وَكَمَنْ رَأَى أَهْلَ النَّارِ فِي النَّارِ مُعَذَّبِينَ شُرُورُهُمْ مَأْمُونَةٌ وَقُلُوبُهُمْ مَحْزُونَةٌ أَنْفُسُهُمْ عَفِيفَةٌ وَحَوَائِجُهُمْ خَفِيفَةٌ صَبَرُوا أَيَّاماً قَلِيلَةً فَصَارُوا بِعُقْبَى رَاحَةٍ طَوِيلَةٍ أَمَّا اللَّيْلَ فَصَافُّونَ أَقْدَامَهُمْ تَجْرِي دُمُوعُهُمْ عَلَى خُدُودِهِمْ وَهُمْ يَجْأَرُونَ إِلَى رَبِّهِمْ يَسْعَوْنَ فِي فَكَاكِ رِقَابِهِمْ وَأَمَّا النَّهَارَ فَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ بَرَرَةٌ أَتْقِيَاءُ كَأَنَّهُمْ الْقِدَاحُ قَدْ بَرَاهُمُ الْخَوْفُ مِنَ الْعِبَادَةِ يَنْظُرُ إِلَيْهِمُ النَّاظِرُ فَيَقُولُ مَرْضَى وَمَا بِالْقَوْمِ مِنْ مَرَضٍ أَمْ خُولِطُوا فَقَدْ خَالَطَ الْقَوْمَ أَمْرٌ عَظِيمٌ مِنْ ذِكْرِ النَّارِ وَمَا فِيهَا۔
فرمایا امام علی بن الحسین علیہ السلام نے دنیا پیچھے کی طرف جا رہی ہے اور آخرت آگے کی طرف آ رہی ہے اور ان دونوں کے لیے بیٹے ہیں پس تم آخرت کے بیٹے بنو اور ابنائے دنیا میں سے نہ بنو اور تم دنیا کے ترک کرنے والے اور آخرت کی طرف رغبت کرنے والے بن جاؤ جو لوگ ترک دنیا کرتے ہیں وہ زمین کو اپنا بستر اور خاک کو اپنا فرش بناتے ہیں اور پانی کو لذیذ مشروبات جانتے ہیں اور اسباب دنیا سے پورا پورا قطع تعلق کرتے ہیں آگاہ ہو کہ جو جنت کا مشتاق ہو اس نے خواہشات دنیا کو ترک کیا اور جو آتش جہنم سے ڈرا اس نے محرمات سے روگردانی کی اور زہد اختیار کیا مصائب دنیا اس کی نظر میں ہیچ ہو گئے ۔ آگاہ رہو خدا کے بندے ایسے بھی ہیں جو گویا اہل جنت کو جنت میں دائمی زندگی بسر کرتے دیکھ رہے ہیں اور دوزخ میں اہل دوزخ کو معذب ہوتے دیکھ رہے ہیں ان کے شر سے لوگ محفوظ رہتے ہیں ان کے قلوب محزون اور ان کے نفوس پاک اور ان کی حاجتیں مختصر ہوتی ہیں انھوں نے دنیا میں چند دن صبر سے کام لیا۔ عقبیٰ میں انہیں راحتِ طویل مل گئی وہ نماز کے قیام میں قدم ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے رب کے سامنے تضرع و زاری کرتے ہیں قرضداروں کے قرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں دن میں وہ حلیم و عالم اورر نیک و متقی نظر آتے ہیں تیروں کی طرح ان کے بدن لاغر ہوتے ہیں عبادات میں خوفِ خدا ان پر غالب ہوتا ہے لوگ انہیں دیکھ کر گمان کرتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے تو کیا وہ فسادِ عقل رکھتے ہیں اس قوم کو ایک امر عظیم نے مغالطہ میں ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا یہ حال ذکر جہنم اور اس کی تکالیف یاد کر کے ہے یعنی نہ ان کو کوئی دماغی عارضہ ہے جیسے جنون اور نہ کوئی جسمانی آزار ہے جیسا کہ لوگ ان کے متعلق خیال کرتے ہیں۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْمُؤْمِنِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ يَا جَابِرُ وَالله إِنِّي لَمَحْزُونٌ وَإِنِّي لَمَشْغُولُ الْقَلْبِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَمَا شُغُلُكَ وَمَا حُزْنُ قَلْبِكَ فَقَالَ يَا جَابِرُ إِنَّهُ مَنْ دَخَلَ قَلْبَهُ صَافِي خَالِصِ دِينِ الله شَغَلَ قَلْبَهُ عَمَّا سِوَاهُ يَا جَابِرُ مَا الدُّنْيَا وَمَا عَسَى أَنْ تَكُونَ الدُّنْيَا هَلْ هِيَ إِلا طَعَامٌ أَكَلْتَهُ أَوْ ثَوْبٌ لَبِسْتَهُ أَوِ امْرَأَةٌ أَصَبْتَهَا يَا جَابِرُ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ لَمْ يَطْمَئِنُّوا إِلَى الدُّنْيَا بِبَقَائِهِمْ فِيهَا وَلَمْ يَأْمَنُوا قُدُومَهُمُ الآخِرَةَ يَا جَابِرُ الآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ وَالدُّنْيَا دَارُ فَنَاءٍ وَزَوَالٍ وَلَكِنْ أَهْلُ الدُّنْيَا أَهْلُ غَفْلَةٍ وَكَأَنَّ الْمُؤْمِنِينَ هُمُ الْفُقَهَاءُ أَهْلُ فِكْرَةٍ وَعِبْرَةٍ لَمْ يُصِمَّهُمْ عَنْ ذِكْرِ الله جَلَّ اسْمُهُ مَا سَمِعُوا بِآذَانِهِمْ وَلَمْ يُعْمِهِمْ عَنْ ذِكْرِ الله مَا رَأَوْا مِنَ الزِّينَةِ بِأَعْيُنِهِمْ فَفَازُوا بِثَوَابِ الآخِرَةِ كَمَا فَازُوا بِذَلِكَ الْعِلْمِ وَاعْلَمْ يَا جَابِرُ أَنَّ أَهْلَ التَّقْوَى أَيْسَرُ أَهْلِ الدُّنْيَا مَئُونَةً وَأَكْثَرُهُمْ لَكَ مَعُونَةً تَذْكُرُ فَيُعِينُونَكَ وَإِنْ نَسِيتَ ذَكَّرُوكَ قَوَّالُونَ بِأَمْرِ الله قَوَّامُونَ عَلَى أَمْرِ الله قَطَعُوا مَحَبَّتَهُمْ بِمَحَبَّةِ رَبِّهِمْ وَوَحَشُوا الدُّنْيَا لِطَاعَةِ مَلِيكِهِمْ وَنَظَرُوا إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ وَإِلَى مَحَبَّتِهِ بِقُلُوبِهِمْ وَعَلِمُوا أَنَّ ذَلِكَ هُوَ الْمَنْظُورُ إِلَيْهِ لِعَظِيمِ شَأْنِهِ فَأَنْزِلِ الدُّنْيَا كَمَنْزِلٍ نَزَلْتَهُ ثُمَّ ارْتَحَلْتَ عَنْهُ أَوْ كَمَالٍ وَجَدْتَهُ فِي مَنَامِكَ فَاسْتَيْقَظْتَ وَلَيْسَ مَعَكَ مِنْهُ شَيْءٌ إِنِّي [ إِنَّمَا ] ضَرَبْتُ لَكَ هَذَا مَثَلاً لأنَّهَا عِنْدَ أَهْلِ اللُّبِّ وَالْعِلْمِ بِالله كَفَيْءِ الظِّلالِ يَا جَابِرُ فَاحْفَظْ مَا اسْتَرْعَاكَ الله جَلَّ وَعَزَّ مِنْ دِينِهِ وَحِكْمَتِهِ وَلا تَسْأَلَنَّ عَمَّا لَكَ عِنْدَهُ إِلا مَا لَهُ عِنْدَ نَفْسِكَ فَإِنْ تَكُنِ الدُّنْيَا عَلَى غَيْرِ مَا وَصَفْتُ لَكَ فَتَحَوَّلْ إِلَى دَارِ الْمُسْتَعْتَبِ فَلَعَمْرِي لَرُبَّ حَرِيصٍ عَلَى أَمْرٍ قَدْ شَقِيَ بِهِ حِينَ أَتَاهُ وَلَرُبَّ كَارِهٍ لأمْرٍ قَدْ سَعِدَ بِهِ حِينَ أَتَاهُ وَذَلِكَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلِيُمَحِّصَ الله الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ۔
جابر سے مروی ہے کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا اے جابر میں محزون ہوں اور میرا دل فکرمند ہے۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں کس چیز نے آپ کے دل کو محزون کیا۔ فرمایا اے جابر جس کے دل میں اللہ کے دین کی صاف اور خالص محبت ہو اس کا دل ماسوا کی طرف مشغول نہیں ہوتا۔ اے جابر دنیا ہے کیا یہی نا کہ کچھ کھانا کھا لیا اور کچھ لباس پہن لیا اور عورت سے محبت کر لی۔ اے جابر بندہ مومن تو دنیا میں بقاء کے لیے مطمئن نہیں ہوتا اور نہ آخرت میں جانے سے بے خوف ہوتا ہے۔ اے جابر آخرت دارِ قرار ہے اور دنیا فنا کا گھر ہے اور زوال کی جگہ، لیکن اہلِ دنیا غفلت میں پڑے ہوتے ہیں۔ مومنین فقہا و اہل فکر و عبرت ہیں ان کو ذکر خدا سے باز نہیں رکھتا وہ امر جسے وہ اپنے کانوں سے سنتے ہیں اور نہیں روکتی ذکر خدا سے لوگوں کی وہ زیب و زینت جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ ثواب آخرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جس طرح وہ اپنے علم کی بدولت کامیاب ہوتے ہیں۔ اے جابر جو لوگ اہل تقویٰ ہیں وہ بہ نسبت اہل دنیا کے بہت کم سامان زندگی رکھتے ہیں اور تمہاری مدد سب سے زیادہ کرنے والے ہوتے ہیں تم ان سے اپنی ضرورت بیان کرو تو وہ تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم بھول جاؤ تو وہ یاد دلائیں گے۔ وہ امر خدا کے سب سے زیادہ بیان کرنے والے ہیں اور امر خدا کے سب سے زیادہ قائم کرنے والے ہیں انھوں نے خدا کی محبت کی وجہ سے دنیا کی محبت کو قطع کر دیا اور اپنے مالک کی اطاعت کی بناء پر ان کو دنیا کے معاملات سے وحشت ہوتی ہے اور خدا کی عظمت شان کے لحاظ سے ان کی دوستی ان کے لیے منظور نظر ہوتی ہے دنیا ان کے نزدیک ایک سرائے کی مانند ہے جس میں کوئی آئے اور چلا جائے یا اس مال کی طرح ہے جسے خواب میں کوئی پائے اور جاگنے پر اس کے پاس کچھ نہ ہو۔ مثال میں نے تم سے اس لیے بیان کی ہے کہ تم سمجھ لو کہ اہلِ علم و عقل کے نزدیک دنیا سایہ کی مثل ہے اے جابر اللہ نے جو رعایت تمہارے ساتھ کی ہے اس کی حفاظت کرو اس کے دین و حکمت کے متعلق یہ سوال مت کرو کہ خدا کے نزدیک تمہارا مرتبہ کیا ہے یہ اتنا ہی ہو گا جتنی تمہارے دل میں اس کے احکام کی عزت ہو گی جو میں نے دنیا کے متعلق تم سے بیان کیا اگر اس کے علاوہ کوئی اور تخیل تمہارے دل میں ہے تو خدا سے عذر خواہی کی طرف لوٹو قسم اپنی عمر کی اکثر حریص کسی امر کی طرف ایسے ہیں کہ جب وہ چیز ان کو ملتی ہے تو ان کے لیے باعث شقاوت ہوتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں کہ جس چیز سے کراہت کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آتی ہے تو ان کے لیے باعث سعادت بن جاتی ہے اسی کے متعلق خدا نے فرمایا ہے اللہ مومنوں کو گناہوں سے الگ کر دیتا ہے اور کافروں کے لیے ثواب آخرت کو برطرف کر دیتا ہے یعنی مشرکوں کے مومنوں پر غالب آنے سے مومنوں کا اجر بڑھ جاتا ہے اور مشرکوں کے لیے آخرت میں کوئی اجر باقی نہیں رہتا۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُوسَى بْنِ بَكْرٍ عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ رَحِمَهُ الله جَزَى الله الدُّنْيَا عَنِّي مَذَمَّةً بَعْدَ رَغِيفَيْنِ مِنَ الشَّعِيرِ أَتَغَدَّى بِأَحَدِهِمَا وَأَتَعَشَّى بِالآخَرِ وَبَعْدَ شَمْلَتَيِ الصُّوفِ أَتَّزِرُ بِإِحْدَاهُمَا وَأَتَرَدَّى بِالأخْرَى۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ ابوذر نے کہا خدا مجھے جزا دے جب میں اس دنیا کی مذمت کرتا ہوں دو جو کی روٹیوں کے بعد جن میں سے ایک صبح کو کھاتا ہوں اور ایک شام کو اور دو اونی پوششوں کے بعد جن میں سے ایک کو لنگ بناتا ہوں اور دوسری کو چادر۔
وَعَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنِ الْمُثَنَّى عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ يَا مُبْتَغِيَ الْعِلْمِ كَأَنَّ شَيْئاً مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ شَيْئاً إِلا مَا يَنْفَعُ خَيْرُهُ وَيَضُرُّ شَرُّهُ إِلا مَنْ رَحِمَ الله يَا مُبْتَغِيَ الْعِلْمِ لا يَشْغَلُكَ أَهْلٌ وَلا مَالٌ عَنْ نَفْسِكَ أَنْتَ يَوْمَ تُفَارِقُهُمْ كَضَيْفٍ بِتَّ فِيهِمْ ثُمَّ غَدَوْتَ عَنْهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ وَالدُّنْيَا وَالآخِرَةُ كَمَنْزِلٍ تَحَوَّلْتَ مِنْهُ إِلَى غَيْرِهِ وَمَا بَيْنَ الْمَوْتِ وَالْبَعْثِ إِلا كَنَوْمَةٍ نِمْتَهَا ثُمَّ اسْتَيْقَظْتَ مِنْهَا يَا مُبْتَغِيَ الْعِلْمِ قَدِّمْ لِمَقَامِكَ بَيْنَ يَدَيِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّكَ مُثَابٌ بِعَمَلِكَ كَمَا تَدِينُ تُدَانُ يَا مُبْتَغِيَ الْعِلْمِ۔
ابوذر راوی ہیں کہ ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک خطبہ میں فرمایا ایک طالب علم کے لیے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کا خیر نفع نہ دے اور شر نقصان نہ پہنچائے مگر جس پر اللہ رحم کرے۔ اے علم کے طلبگار کہیں اہل و عیال اور مال تجھے اپنے نفس سے غافل نہ کر دے ایک دن تیرا ان سے جدا ہونا لازم ہے تو دنیا میں ان کے درمیان ایک مہمان جیسا ہے جو کہیں صبح کرے کہیں شام۔ دنیا ایک منزل ہے جس سے دوسری منزل کی طرف جانا ہے موت اور بعث کے درمیان اتنا ہی وقت ہے جیسے کوئی سو کر جاگ اٹھے۔ اے طلبگارِ علم آگے بڑھ ان مقامات کی طرف جو اللہ کے سامنے ہیں تجھے اپنے عمل کا اچھا بدلہ ملے گا جیسا تو نے کیا ہے اس کا بدلہ ویسا ہی اے طلبگار علم تجھے ملے گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَا لِي وَلِلدُّنْيَا إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُهَا كَمَثَلِ الرَّاكِبِ رُفِعَتْ لَهُ شَجَرَةٌ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَقَالَ تَحْتَهَا ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا سروکار میری اور اس کی مثال ایک سوار کی سی ہے جسے گرم دن میں ایک درخت مل جائے اور وہ اس کے نیچے قیلولہ کرے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقْبَةَ الأزْدِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) مَثَلُ الْحَرِيصِ عَلَى الدُّنْيَا كَمَثَلِ دُودَةِ الْقَزِّ كُلَّمَا ازْدَادَتْ عَلَى نَفْسِهَا لَفّاً كَانَ أَبْعَدَ لَهَا مِنَ الْخُرُوجِ حَتَّى تَمُوتَ غَمّاً قَالَ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كَانَ فِيمَا وَعَظَ بِهِ لُقْمَانُ ابْنَهُ يَا بُنَيَّ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا قَبْلَكَ لأوْلادِهِمْ فَلَمْ يَبْقَ مَا جَمَعُوا وَلَمْ يَبْقَ مَنْ جَمَعُوا لَهُ وَإِنَّمَا أَنْتَ عَبْدٌ مُسْتَأْجَرٌ قَدْ أُمِرْتَ بِعَمَلٍ وَوُعِدْتَ عَلَيْهِ أَجْراً فَأَوْفِ عَمَلَكَ وَاسْتَوْفِ أَجْرَكَ وَلا تَكُنْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا بِمَنْزِلَةِ شَاةٍ وَقَعَتْ فِي زَرْعٍ أَخْضَرَ فَأَكَلَتْ حَتَّى سَمِنَتْ فَكَانَ حَتْفُهَا عِنْدَ سِمَنِهَا وَلَكِنِ اجْعَلِ الدُّنْيَا بِمَنْزِلَةِ قَنْطَرَةٍ عَلَى نَهَرٍ جُزْتَ عَلَيْهَا وَتَرَكْتَهَا وَلَمْ تَرْجِعْ إِلَيْهَا آخِرَ الدَّهْرِ أَخْرِبْهَا وَلا تَعْمُرْهَا فَإِنَّكَ لَمْ تُؤْمَرْ بِعِمَارَتِهَا وَاعْلَمْ أَنَّكَ سَتُسْأَلُ غَداً إِذَا وَقَفْتَ بَيْنَ يَدَيِ الله عَزَّ وَجَلَّ عَنْ أَرْبَعٍ شَبَابِكَ فِيمَا أَبْلَيْتَهُ وَعُمُرِكَ فِيمَا أَفْنَيْتَهُ وَمَالِكَ مِمَّا اكْتَسَبْتَهُ وَفِيمَا أَنْفَقْتَهُ فَتَأَهَّبْ لِذَلِكَ وَأَعِدَّ لَهُ جَوَاباً وَلا تَأْسَ عَلَى مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا فَإِنَّ قَلِيلَ الدُّنْيَا لا يَدُومُ بَقَاؤُهُ وَكَثِيرَهَا لا يُؤْمَنُ بَلاؤُهُ فَخُذْ حِذْرَكَ وَجِدَّ فِي أَمْرِكَ وَاكْشِفِ الْغِطَاءَ عَنْ وَجْهِكَ وَتَعَرَّضْ لِمَعْرُوفِ رَبِّكَ وَجَدِّدِ التَّوْبَةَ فِي قَلْبِكَ وَاكْمُشْ فِي فَرَاغِكَ قَبْلَ أَنْ يُقْصَدَ قَصْدُكَ وَيُقْضَى قَضَاؤُكَ وَيُحَالَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ مَا تُرِيدُ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے حرصِ دنیا کی مثال ریشم کے کیڑے جیسی ہے جس قدر اپنے اوپر زیادہ تنتا جاتا ہے اتنا ہی اس میں لپٹتا جاتا ہے اور پھر اس کے لیے نکلنا ممکن نہیں ہوتا اور وہ اسی میں مر کر رہ جاتا ہے۔ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو ایک نصیحت یہ بھی کی تھی کہ بیٹا تجھ سے پہلے بھی لوگوں نے اپنی اولاد کے لیے جمع کیا لیکن جو جمع کیا تھا وہ باقی نہ رہا۔ تمہاری مثال اس مزدور کی سی ہے جسے کسی کام پر لگایا گیا اور اس سے مزدوری کا وعدہ کیا گیا ہو، پس تم اپنا کام پورا کرو تب مستحق اجر ہو گے اور اس دنیا میں اس بکری کی مانند نہ بنو جو کسی ہرے بھرے کھیت میں چرنے سے موٹی ہو جائے اور یہ موٹاپا اس کے لیے موت کا باعث بن جائے۔ دنیا مثل ایک پل کے ہے جو ایک نہر پر ہو تم اس سے گزرتے چلے گئے اب کبھی اس کی طرف نہ لوٹو گے اور اس کی بربادی کو آباد نہ کرو گے۔ یہ سمجھ لو کہ روز قیامت جب خدا کے سامنے جاؤ گے تو تم سے پوچھا جائے گا شباب کیسے گزارا عمر کو کن مشاغل میں ختم کیا۔ مال کس طرح سے کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا تھا۔ اس کے جواب کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جو چیز سامان دنیا سے گئی اس کا غم نہ کرو اگر وہ کم ہے تو اسے بقا نہیں زیادہ ہے تو اس کی بلاؤں سے امن نہیں، ڈرتے رہو اور اپنے معاملے میں کوشش کرتے رہو اور اپنے چہرے سے پردہ ہٹاؤ اور اپنے رب کے احسان کے قابل بنو دل سے توبہ بار بار کرتے رہو اور دنیا کے کاموں سے اس سےپہلے فارغ ہو جاؤ کہ ملک الموت آ دبائے اور زندگی کا خاتمہ کر کے تمہارے ارادوں کے درمیان حائل ہو جائے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ فِيمَا نَاجَى الله عَزَّ وَجَلَّ بِهِ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) يَا مُوسَى لا تَرْكَنْ إِلَى الدُّنْيَا رُكُونَ الظَّالِمِينَ وَرُكُونَ مَنِ اتَّخَذَهَا أَباً وَأُمّاً يَا مُوسَى لَوْ وَكَلْتُكَ إِلَى نَفْسِكَ لِتَنْظُرَ لَهَا إِذاً لَغَلَبَ عَلَيْكَ حُبُّ الدُّنْيَا وَزَهْرَتُهَا يَا مُوسَى نَافِسْ فِي الْخَيْرِ أَهْلَهُ وَاسْتَبِقْهُمْ إِلَيْهِ فَإِنَّ الْخَيْرَ كَاسْمِهِ وَاتْرُكْ مِنَ الدُّنْيَا مَا بِكَ الْغِنَى عَنْهُ وَلا تَنْظُرْ عَيْنُكَ إِلَى كُلِّ مَفْتُونٍ بِهَا وَمُوكَلٍ إِلَى نَفْسِهِ وَاعْلَمْ أَنَّ كُلَّ فِتْنَةٍ بَدْؤُهَا حُبُّ الدُّنْيَا وَلا تَغْبِطْ أَحَداً بِكَثْرَةِ الْمَالِ فَإِنَّ مَعَ كَثْرَةِ الْمَالِ تَكْثُرُ الذُّنُوبُ لِوَاجِبِ الْحُقُوقِ وَلا تَغْبِطَنَّ أَحَداً بِرِضَى النَّاسِ عَنْهُ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ الله رَاضٍ عَنْهُ وَلا تَغْبِطَنَّ مَخْلُوقاً بِطَاعَةِ النَّاسِ لَهُ فَإِنَّ طَاعَةَ النَّاسِ لَهُ وَاتِّبَاعَهُمْ إِيَّاهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ هَلاكٌ لَهُ وَلِمَنِ اتَّبَعَهُ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ وقت مناجات خدا نے موسیٰ سے کہا اے موسیٰ دنیا پر ایسا بھروسہ کرو جیسا ظالم لوگ کرتے ہیں یا جو دنیا کو ماں باپ سمجھ کر اعتماد کرتے ہیں۔ اے موسیٰ اگر میں اپنی توفیق کے بغیر تیرا کام تجھ پر چھوڑ دیتا تو حب دنیا ضرور تجھ پر غالب آ جاتی اور اس کی تازگی تیرا دل لبھاتی۔ اے موسیٰ امرِ خیر میں اسکے اہل کے لیے زیادتی کے طالب رہو اور لوگوں کو اس کی طرف بڑھاؤ۔ خیر مثل اپنے مفہوم کے خیر ہے۔ دنیا سے اس چیز کو رد کرو جس سے بے پرواہی حاصل نہ ہو اور اس کے پانے کی طرف تم مضطر نہ ہو اور للچائی ہوئی نظروں سے، دیتا ہے فدا ہونے والے کو جو ہر نیک و بد میں اپنے نفس پر اعتماد کرنے والا ہو اور لوگوں کے مال کثرت سے دل تنگ نہ ہو کیوں کہ زیادتی مال کثرت گناہ کا باعث ہوتی ہے حقوق واجبہ ادا نہ کرنے کے باعث اور اس پر بھی دل تنگ نہ ہو جس سے بہت سے لوگ راضی ہوں ہاں اس سے اللہ راضی ہو تو ضرور ضبط کرو اور ضبط نہ کرو اس شخص پر جس کی اطاعت لوگ کرتے ہوں کیونکہ غیر حق پر جو اطاعت ہو گی تو مطیع و مطاع دونوں کے لیے باعث ہلاکت ہو گی۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ غِيَاثِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ مَا أَلْيَنَ مَسَّهَا وَفِي جَوْفِهَا السَّمُّ النَّاقِعُ يَحْذَرُهَا الرَّجُلُ الْعَاقِلُ وَيَهْوِي إِلَيْهَا الصَّبِيُّ الْجَاهِل۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کتاب حضرت علی علیہ السلام میں ہے کہ دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے چھونے میں نرم اور اس کے پیٹ میں زہر قاتل، عاقل اس سے بچتا ہے اور نادان بچہ اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كَتَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ يَعِظُهُ أُوصِيكَ وَنَفْسِي بِتَقْوَى مَنْ لا تَحِلُّ مَعْصِيَتُهُ وَلا يُرْجَى غَيْرُهُ وَلا الْغِنَى إِلا بِهِ فَإِنَّ مَنِ اتَّقَى الله جَلَّ وَعَزَّ وَقَوِيَ وَشَبِعَ وَرَوِيَ وَرُفِعَ عَقْلُهُ عَنْ أَهْلِ الدُّنْيَا فَبَدَنُهُ مَعَ أَهْلِ الدُّنْيَا وَقَلْبُهُ وَعَقْلُهُ مُعَايِنُ الآخِرَةِ فَأَطْفَأَ بِضَوْءِ قَلْبِهِ مَا أَبْصَرَتْ عَيْنَاهُ مِنْ حُبِّ الدُّنْيَا فَقَذَّرَ حَرَامَهَا وَجَانَبَ شُبُهَاتِهَا وَأَضَرَّ وَالله بِالْحَلالِ الصَّافِي إِلا مَا لا بُدَّ لَهُ مِنْ كِسْرَةٍ مِنْهُ يَشُدُّ بِهَا صُلْبَهُ وَثَوْبٍ يُوَارِي بِهِ عَوْرَتَهُ مِنْ أَغْلَظِ مَا يَجِدُ وَأَخْشَنِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ فِيمَا لا بُدَّ لَهُ مِنْهُ ثِقَةٌ وَلا رَجَاءٌ فَوَقَعَتْ ثِقَتُهُ وَرَجَاؤُهُ عَلَى خَالِقِ الأشْيَاءِ فَجَدَّ وَاجْتَهَدَ وَأَتْعَبَ بَدَنَهُ حَتَّى بَدَتِ الأضْلاعُ وَغَارَتِ الْعَيْنَانِ فَأَبْدَلَ الله لَهُ مِنْ ذَلِكَ قُوَّةً فِي بَدَنِهِ وَشِدَّةً فِي عَقْلِهِ وَمَا ذُخِرَ لَهُ فِي الآخِرَةِ أَكْثَرُ فَارْفُضِ الدُّنْيَا فَإِنَّ حُبَّ الدُّنْيَا يُعْمِي وَيُصِمُّ وَيُبْكِمُ وَيُذِلُّ الرِّقَابَ فَتَدَارَكْ مَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِكَ وَلا تَقُلْ غَداً أَوْ بَعْدَ غَدٍ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ بِإِقَامَتِهِمْ عَلَى الأمَانِيِّ وَالتَّسْوِيفِ حَتَّى أَتَاهُمْ أَمْرُ الله بَغْتَةً وَهُمْ غَافِلُونَ فَنُقِلُوا عَلَى أَعْوَادِهِمْ إِلَى قُبُورِهِمُ الْمُظْلِمَةِ الضَّيِّقَةِ وَقَدْ أَسْلَمَهُمُ الأوْلادُ وَالأهْلُونَ فَانْقَطِعْ إِلَى الله بِقَلْبٍ مُنِيبٍ مِنْ رَفْضِ الدُّنْيَا وَعَزْمٍ لَيْسَ فِيهِ انْكِسَارٌ وَلا انْخِزَالٌ أَعَانَنَا الله وَإِيَّاكَ عَلَى طَاعَتِهِ وَوَفَّقَنَا الله وَإِيَّاكَ لِمَرْضَاتِهِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ امیر المومنین نے اپنے ایک صحابی کو نصیحت کی کہ میں تجھے اور خود اپنے نفس کو وصیت کرتا ہوں اس ذات سے ڈرنے کی جس کی معصیت جائز نہیں اور نہ اس کے غیر سے امید کی جاتی ہے اور استغنا اس کے غیر سے نہیں ملتا جو اللہ سے ڈرا اس نے عزت پائی قویٰ ہوا اور سیر و سیراب ہوا اور اس کی عقل کو اہل دنیا سے واللہ تبارک و تعالیٰ نے اونچا کر دیا اس کا بدن تو اہل دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی عقل آخرت کو دیکھنے والی ہوتی ہے جب دنیا میں اس کی آنکھیں جن چیزوں کو دیکھتی ہیں دل کی روشنی سے وہ دبا دیتا ہے پس وہ برا سمجھتا ہے حرام چیزوں کو اور کنارہ کش ہو جاتا ہے شبہات سے اور خدا کی قسم پاک و صاف چیزوں کو بھی اس لیے ترک کر دیا سوائے اس قوت لاموت کے جس سے عبادت کے لیے اس کی پشتت قوی رہے اور اتنا کپڑا لیا جس سے ستر عورتین ہو جائے اور وہ بھی موٹا اور کھردرا جس کے بغیر چارہ نہ ہو اور اس کو اس کے متعلق کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں ہوتی۔ اس کا اعتماد خدا پر ہوتا ہے اس نے ریاضت میں اپنے بدن کو بہت تعب میں ڈالا یہاں تک کہ اس کی پسلیاں نکل آئیں اور آنکھیں دھنس گئیں۔ خدا نے اس کے بدلے میں ایک دوسری قوت اس کے بدن میں پیدا کر دی اور اس کی عقل کو اور زیادہ قوی کر دیا اور اس کے ذخیرہ آخرت کو اور بڑھا دیا اس نے دنیا کو ترک کر دیا کیونکہ حب دنیا آدمی کو اندھا، گونگا اور بہرہ بنا دیتی ہے اور لوگوں کی گردنوں کو جھکا دیتی ہے لہذا جتنی عمر باقی ہے اس میں اپنی کمی کو پورا کر لو اور کل اور پرسوں پر اٹھانہ رکھو تم سے پہلے وہ لوگ ہلاک ہو گئے جو غلط امید باندھتے رہے اور سستی سے کام لیتے رہے یہاں تک کہ اچانک خدا کا حکم آ گیا اور وہ غفلت ہی میں پڑے رہے۔ لوگ ان کو تابوت میں رکھ کر ان کی قبروں تک لے گئے وہ قبریں جو تنگ و تاریک تھیں۔ اولاد اور خاندان والوں نے انہیں قبروں میں دبا دیا اور تمام امیدیں قطع ہو گئیں وہ جاتے ہیں ایسے قلب کے ساتھ جس میں ترک دنیا کا ارادہ ہی رہا تھا۔ خدا ہماری اور تمہار مدد کرے اپنی اطاعت میں اور توفیق دے ہم کو اور تم کو اپنی مرضی کی۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ وَغَيْرِهِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ مَاءِ الْبَحْرِ كُلَّمَا شَرِبَ مِنْهُ الْعَطْشَانُ ازْدَادَ عَطَشاً حَتَّى يَقْتُلَهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے دنیا کی مثال سمندر کے پانی کی سی ہے پیاسا جتنا پیے پیاس بڑھتی ہی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لِلْحَوَارِيِّينَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ لا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ مِنَ الدُّنْيَا كَمَا لا يَأْسَى أَهْلُ الدُّنْيَا عَلَى مَا فَاتَهُمْ مِنْ دِينِهِمْ إِذَا أَصَابُوا دُنْيَاهُمْ۔
فرمایا حضرت امام رضا علیہ السلام نے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا دنیا سے جو چیز چلی گئی اس پر افسوس نہ کرو جیسے اہل دنیا افسوس نہیں کرتے اس چیز پر جو دین کے متعلق ان سے فوت ہو گئی۔