إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى جَعَلَ الدُّنْيَا كُلَّهَا بِأَسْرِهَا لِخَلِيفَتِهِ حَيْثُ يَقُولُ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جاعِلٌ فِي الارْضِ خَلِيفَةً فَكَانَتِ الدُّنْيَا بِأَسْرِهَا لآِدَمَ وَصَارَتْ بَعْدَهُ لابْرَارِ وُلْدِهِ وَخُلَفَائِهِ فَمَا غَلَبَ عَلَيْهِ أَعْدَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِمْ بِحَرْبٍ أَوْ غَلَبَةٍ سُمِّيَ فَيْئاً وَهُوَ أَنْ يَفِيءَ إِلَيْهِمْ بِغَلَبَةٍ وَحَرْبٍ وَكَانَ حُكْمُهُ فِيهِ مَا قَالَ الله تَعَالَى وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لله خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى وَالْيَتامى وَالْمَساكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَهُوَ لله وَلِلرَّسُولِ وَلِقَرَابَةِ الرَّسُولِ فَهَذَا هُوَ الْفَيْءُ الرَّاجِعُ وَإِنَّمَا يَكُونُ الرَّاجِعُ مَا كَانَ فِي يَدِ غَيْرِهِمْ فَأُخِذَ مِنْهُمْ بِالسَّيْفِ وَأَمَّا مَا رَجَعَ إِلَيْهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُوجَفَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ فَهُوَ الانْفَالُ هُوَ لله وَلِلرَّسُولِ خَاصَّةً لَيْسَ لاحَدٍ فِيهِ الشِّرْكَةُ وَإِنَّمَا جُعِلَ الشِّرْكَةُ فِي شَيْءٍ قُوتِلَ عَلَيْهِ فَجُعِلَ لِمَنْ قَاتَلَ مِنَ الْغَنَائِمِ أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَلِلرَّسُولِ سَهْمٌ وَالَّذِي لِلرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَقْسِمُهُ عَلَى سِتَّةِ أَسْهُمٍ ثَلاثَةٌ لَهُ وَثَلاثَةٌ لِلْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَأَمَّا الانْفَالُ فَلَيْسَ هَذِهِ سَبِيلَهَا كَانَ لِلرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) خَاصَّةً وَكَانَتْ فَدَكُ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) خَاصَّةً لانَّهُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَتَحَهَا وَأَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) لَمْ يَكُنْ مَعَهُمَا أَحَدٌ فَزَالَ عَنْهَا اسْمُ الْفَيْءِ وَلَزِمَهَا اسْمُ الانْفَالِ وَكَذَلِكَ الاجَامُ وَالْمَعَادِنُ وَالْبِحَارُ وَالْمَفَاوِزُ هِيَ لِلامَامِ خَاصَّةً فَإِنْ عَمِلَ فِيهَا قَوْمٌ بِإِذْنِ الامَامِ فَلَهُمْ أَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ وَلِلامَامِ خُمُسٌ وَالَّذِي لِلامَامِ يَجْرِي مَجْرَى الْخُمُسِ وَمَنْ عَمِلَ فِيهَا بِغَيْرِ إِذْنِ الامَامِ فَالامَامُ يَأْخُذُهُ كُلَّهُ لَيْسَ لاحَدٍ فِيهِ شَيْءٌ وَكَذَلِكَ مَنْ عَمَرَ شَيْئاً أَوْ أَجْرَى قَنَاةً أَوْ عَمِلَ فِي أَرْضٍ خَرَابٍ بِغَيْرِ إِذْنِ صَاحِبِ الارْضِ فَلَيْسَ لَهُ ذَلِكَ فَإِنْ شَاءَ أَخَذَهَا مِنْهُ كُلَّهَا وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهَا فِي يَدِهِ۔
اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کو اپنے خلیفہ کے لیے بنایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اپنے ملائکہ سے میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں لہذا یہ تمام دنیا آدم کی ملکیت ہوئی اور ان کی نیک اولاد اور ان کے جانشینوں کو ملی۔ پس ان کے دشمنوں نے ازراہِ غلبہ جس حصہ زمین کو لے لیا ہے پھر وہ جنگ یا غلبہ سے ان کے پاس واپس آئی۔ اس کا نام فئے ہے کیوں کہ وہ لوٹی ہے ان کی طرف جنگ میں غالب آنے سے اور اس کا حکم بہ فرمودہ الہٰی ہو گا۔ جان لو کہ جو چیز تم کو غنیمت میں ملی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور ذوی القربیٰ، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ پس وہ اللہ و رسول اور قرابتدارانِ رسول کے لیے ہے اور وہ فئے الراجع کہلاتی ہے راجع کے معنی یہی ہیں کہ جو غیروں کے پاس تھی وہ بزور شمشیر لے لی گئی۔ اور جو چیز بغیر جنگ و پیکار کے حاصل ہو جائے وہ انفال ہے وہ مخصوص ہے اللہ اور اس کے رسول سے دوسرے کی اس میں شرکت نہیں۔ شرکت تو اس میں ہے جس پر جنگ ہو۔ جو لوگ رسول کے ساتھ شریک جنگ ہوں ان کے لیے چار حصے ہوں گے اور رسول کے لیے ایک جس کی تقسیم چھ حصوں میں ہو گی تین رسول کے اور تین یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے۔ لیکن انفال میں یہ طریقہ نہ ہو گا۔ وہ سب رسول کا ہو گا اور امیر المومنین کا اور کسی کا اس میں حصہ نہیں۔ اس پر لفظ فئے کا اطلاق نہ ہو گا بلکہ اس کو انفال کہیں گے۔ یہی حکم ہے نیستانوں ، کانوں دریاؤں اور جنگلوں کا یہ سب امام سے مخصوص ہوں گے اگر لوگ ان میں بہ اذن امام کام کریں گے تو ان کے چار حصے ہوں گے اور پانچواں امام کا اور جو حصہ امام کا ہے اس کی تقسیم خمس کی طرف ہو گی اور بغیر اذن امام کام کریں گے تو وہ سب امام کا حق ہو گا۔ ایسے ہی حکم ہے اس کا جو کسی جگہ کو آباد کرے یا اس کی اصلاح کرے یا پڑتی کو قابلِ کاشت بنائے بغیر اذن صاحبِ زمین، اس سے چاہے توکل لے لے اور چاہے اس کے پاس باقی رکھے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ نَحْنُ وَالله الَّذِينَ عَنَى الله بِذِي الْقُرْبَى الَّذِينَ قَرَنَهُمُ الله بِنَفْسِهِ وَنَبِيِّهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ ما أَفاءَ الله عَلى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى فَلله وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى وَالْيَتامى وَالْمَساكِينِ مِنَّا خَاصَّةً وَلَمْ يَجْعَلْ لَنَا سَهْماً فِي الصَّدَقَةِ أَكْرَمَ الله نَبِيَّهُ وَأَكْرَمَنَا أَنْ يُطْعِمَنَا أَوْسَاخَ مَا فِي أَيْدِي النَّاسِ۔
سلیم بن قیس سے مروی ہے کہ میں نے امیر المومنین کو فرماتے سنا، واللہ ہم ہی وہ ہیں جن کو اللہ نے ذوی القربیٰ فرما کر اپنی ذات اور نبی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے پھر مال فئے میں اللہ نے جو اہلِ قریہ سے حاصل ہو حق قرار دیا ہے اپنا اور رسول کا اور ذوی القربیٰ اور یتیموں اور ہمارے مسکینوں کا اور ہمارے لیے صدقہ میں کوئی حصہ نہیں رکھا خدا نے اپنے نبی کو مکرم اور ہم کو مکرم سمجھ کر بچایا ہے جو لوگون کے ہاتھوں میں میل کچیل ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله تَعَالَى وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لله خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى قَالَ هُمْ قَرَابَةُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَالْخُمُسُ لله وَلِلرَّسُولِ وَلَنَا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے آیت کے متعلق فرمایا کہ خمس اللہ کا ہے اور رسول کا اور ذوی القربیٰ کا۔ فرمایا اس سے مراد قرابت رسول اللہ ہے اور خمس اللہ کا اور رسول کا اور ہمارا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ الانْفَالُ مَا لَمْ يُوجَفْ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ أَوْ قَوْمٌ صَالَحُوا أَوْ قَوْمٌ أَعْطَوْا بِأَيْدِيهِمْ وَكُلُّ أَرْضٍ خَرِبَةٍ وَبُطُونُ الاوْدِيَةِ فَهُوَ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَهُوَ لِلامَامِ مِنْ بَعْدِهِ يَضَعُهُ حَيْثُ يَشَاءُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے انفال وہ ہے جو بغیر جنگ حاصل ہو یا کسی قوم نے صلح کرنے پر دیا ہو یا عطا کیا ہو اس میں تمام بنجر زمین اور وادیاں شامل ہیں پس یہ سب رسول کا حق ہے اور ان کے بعد امام کا وہ جیسے چاہے اسے صرف کرے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنِ الْعَبْدِ الصَّالِحِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ الْخُمُسُ مِنْ خَمْسَةِ أَشْيَاءَ مِنَ الْغَنَائِمِ وَالْغَوْصِ وَمِنَ الْكُنُوزِ وَمِنَ الْمَعَادِنِ وَالْمَلاحَةِ يُؤْخَذُ مِنْ كُلِّ هَذِهِ الصُّنُوفِ الْخُمُسُ فَيُجْعَلُ لِمَنْ جَعَلَهُ الله تَعَالَى لَهُ وَيُقْسَمُ الارْبَعَةُ الاخْمَاسِ بَيْنَ مَنْ قَاتَلَ عَلَيْهِ وَوَلِيَ ذَلِكَ وَيُقْسَمُ بَيْنَهُمُ الْخُمُسُ عَلَى سِتَّةِ أَسْهُمٍ سَهْمٌ لله وَسَهْمٌ لِرَسُولِ الله وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ وَسَهْمٌ لابْنَاءِ السَّبِيلِ فَسَهْمُ الله وَسَهْمُ رَسُولِ الله لاولِي الامْرِ مِنْ بَعْدِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وِرَاثَةً فَلَهُ ثَلاثَةُ أَسْهُمٍ سَهْمَانِ وِرَاثَةً وَسَهْمٌ مَقْسُومٌ لَهُ مِنَ الله وَلَهُ نِصْفُ الْخُمُسِ كَمَلاً وَنِصْفُ الْخُمُسِ الْبَاقِي بَيْنَ أَهْلِ بَيْتِهِ فَسَهْمٌ لِيَتَامَاهُمْ وَسَهْمٌ لِمَسَاكِينِهِمْ وَسَهْمٌ لابْنَاءِ سَبِيلِهِمْ يُقْسَمُ بَيْنَهُمْ عَلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ مَا يَسْتَغْنُونَ بِهِ فِي سَنَتِهِمْ فَإِنْ فَضَلَ عَنْهُمْ شَيْءٌ فَهُوَ لِلْوَالِي وَإِنْ عَجَزَ أَوْ نَقَصَ عَنِ اسْتِغْنَائِهِمْ كَانَ عَلَى الْوَالِي أَنْ يُنْفِقَ مِنْ عِنْدِهِ بِقَدْرِ مَا يَسْتَغْنُونَ بِهِ وَإِنَّمَا صَارَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُونَهُمْ لانَّ لَهُ مَا فَضَلَ عَنْهُمْ وَإِنَّمَا جَعَلَ الله هَذَا الْخُمُسَ خَاصَّةً لَهُمْ دُونَ مَسَاكِينِ النَّاسِ وَأَبْنَاءِ سَبِيلِهِمْ عِوَضاً لَهُمْ مِنْ صَدَقَاتِ النَّاسِ تَنْزِيهاً مِنَ الله لَهُمْ لِقَرَابَتِهِمْ بِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَكَرَامَةً مِنَ الله لَهُمْ عَنْ أَوْسَاخِ النَّاسِ فَجَعَلَ لَهُمْ خَاصَّةً مِنْ عِنْدِهِ مَا يُغْنِيهِمْ بِهِ عَنْ أَنْ يُصَيِّرَهُمْ فِي مَوْضِعِ الذُّلِّ وَالْمَسْكَنَةِ وَلا بَأْسَ بِصَدَقَاتِ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ وَهَؤُلاءِ الَّذِينَ جَعَلَ الله لَهُمُ الْخُمُسَ هُمْ قَرَابَةُ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) الَّذِينَ ذَكَرَهُمُ الله فَقَالَ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الاقْرَبِينَ وَهُمْ بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْفُسُهُمْ الذَّكَرُ مِنْهُمْ وَالانْثَى لَيْسَ فِيهِمْ مِنْ أَهْلِ بُيُوتَاتِ قُرَيْشٍ وَلا مِنَ الْعَرَبِ أَحَدٌ وَلا فِيهِمْ وَلا مِنْهُمْ فِي هَذَا الْخُمُسِ مِنْ مَوَالِيهِمْ وَقَدْ تَحِلُّ صَدَقَاتُ النَّاسِ لِمَوَالِيهِمْ وَهُمْ وَالنَّاسُ سَوَاءٌ وَمَنْ كَانَتْ أُمُّهُ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَأَبُوهُ مِنْ سَائِرِ قُرَيْشٍ فَإِنَّ الصَّدَقَاتِ تَحِلُّ لَهُ وَلَيْسَ لَهُ مِنَ الْخُمُسِ شَيْءٌ لانَّ الله تَعَالَى يَقُولُ ادْعُوهُمْ لابائِهِمْ وَلِلامَامِ صَفْوُ الْمَالِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ هَذِهِ الامْوَالِ صَفْوَهَا الْجَارِيَةَ الْفَارِهَةَ وَالدَّابَّةَ الْفَارِهَةَ وَالثَّوْبَ وَالْمَتَاعَ بِمَا يُحِبُّ أَوْ يَشْتَهِي فَذَلِكَ لَهُ قَبْلَ الْقِسْمَةِ وَقَبْلَ إِخْرَاجِ الْخُمُسِ وَلَهُ أَنْ يَسُدَّ بِذَلِكَ الْمَالِ جَمِيعَ مَا يَنُوبُهُ مِنْ مِثْلِ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرِ. ذَلِكَ مِمَّا يَنُوبُهُ فَإِنْ بَقِيَ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْءٌ أَخْرَجَ الْخُمُسَ مِنْهُ فَقَسَمَهُ فِي أَهْلِهِ وَقَسَمَ الْبَاقِيَ عَلَى مَنْ وَلِيَ ذَلِكَ وَإِنْ لَمْ يَبْقَ بَعْدَ سَدِّ النَّوَائِبِ شَيْءٌ فَلا شَيْءَ لَهُمْ وَلَيْسَ لِمَنْ قَاتَلَ شَيْءٌ مِنَ الارَضِينَ وَلا مَا غَلَبُوا عَلَيْهِ إِلا مَا احْتَوَى عَلَيْهِ الْعَسْكَرُ وَلَيْسَ لِلاعْرَابِ مِنَ الْقِسْمَةِ شَيْءٌ وَإِنْ قَاتَلُوا مَعَ الْوَالِي لانَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) صَالَحَ الاعْرَابَ أَنْ يَدَعَهُمْ فِي دِيَارِهِمْ وَلا يُهَاجِرُوا عَلَى أَنَّهُ إِنْ دَهِمَ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مِنْ عَدُوِّهِ دَهْمٌ أَنْ يَسْتَنْفِرَهُمْ فَيُقَاتِلَ بِهِمْ وَلَيْسَ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ نَصِيبٌ وَسُنَّتُهُ جَارِيَةٌ فِيهِمْ وَفِي غَيْرِهِمْ وَالارَضُونَ الَّتِي أُخِذَتْ عَنْوَةً بِخَيْلٍ وَرِجَالٍ فَهِيَ مَوْقُوفَةٌ مَتْرُوكَةٌ فِي يَدِ مَنْ يَعْمُرُهَا وَيُحْيِيهَا وَيَقُومُ عَلَيْهَا عَلَى مَا يُصَالِحُهُمُ الْوَالِي عَلَى قَدْرِ طَاقَتِهِمْ مِنَ الْحَقِّ النِّصْفِ أَوِ الثُّلُثِ أَوِ الثُّلُثَيْنِ وَعَلَى قَدْرِ مَا يَكُونُ لَهُمْ صَلاحاً وَلا يَضُرُّهُمْ فَإِذَا أُخْرِجَ مِنْهَا مَا أُخْرِجَ بَدَأَ فَأَخْرَجَ مِنْهُ الْعُشْرَ مِنَ الْجَمِيعِ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ أَوْ سُقِيَ سَيْحاً وَنِصْفَ الْعُشْرِ مِمَّا سُقِيَ بِالدَّوَالِي وَالنَّوَاضِحِ فَأَخَذَهُ الْوَالِي فَوَجَّهَهُ فِي الْجِهَةِ الَّتِي وَجَّهَهَا الله عَلَى ثَمَانِيَةِ أَسْهُمٍ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ الله وَابْنِ السَّبِيلِ ثَمَانِيَةَ أَسْهُمٍ يَقْسِمُ بَيْنَهُمْ فِي مَوَاضِعِهِمْ بِقَدْرِ مَا يَسْتَغْنُونَ بِهِ فِي سَنَتِهِمْ بِلا ضِيقٍ وَلا تَقْتِيرٍ فَإِنْ فَضَلَ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ رُدَّ إِلَى الْوَالِي وَإِنْ نَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ وَلَمْ يَكْتَفُوا بِهِ كَانَ عَلَى الْوَالِي أَنْ يَمُونَهُمْ مِنْ عِنْدِهِ بِقَدْرِ سَعَتِهِمْ حَتَّى يَسْتَغْنُوا وَيُؤْخَذُ بَعْدُ مَا بَقِيَ مِنَ الْعُشْرِ فَيُقْسَمُ بَيْنَ الْوَالِي وَبَيْنَ شُرَكَائِهِ الَّذِينَ هُمْ عُمَّالُ الارْضِ وَأَكَرَتُهَا فَيُدْفَعُ إِلَيْهِمْ أَنْصِبَاؤُهُمْ عَلَى مَا صَالَحَهُمْ عَلَيْهِ وَيُؤْخَذُ الْبَاقِي فَيَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ أَرْزَاقَ أَعْوَانِهِ عَلَى دِينِ الله وَفِي مَصْلَحَةِ مَا يَنُوبُهُ مِنْ تَقْوِيَةِ الاسْلامِ وَتَقْوِيَةِ الدِّينِ فِي وُجُوهِ الْجِهَادِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا فِيهِ مَصْلَحَةُ الْعَامَّةِ لَيْسَ لِنَفْسِهِ مِنْ ذَلِكَ قَلِيلٌ وَلا كَثِيرٌ وَلَهُ بَعْدَ الْخُمُسِ الانْفَالُ وَالانْفَالُ كُلُّ أَرْضٍ خَرِبَةٍ قَدْ بَادَ أَهْلُهَا وَكُلُّ أَرْضٍ لَمْ يُوجَفْ عَلَيْهَا بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ وَلَكِنْ صَالَحُوا صُلْحاً وَأَعْطَوْا بِأَيْدِيهِمْ عَلَى غَيْرِ قِتَالٍ وَلَهُ رُءُوسُ الْجِبَالِ وَبُطُونُ الاوْدِيَةِ وَالاجَامُ وَكُلُّ أَرْضٍ مَيْتَةٍ لا رَبَّ لَهَا وَلَهُ صَوَافِي الْمُلُوكِ مَا كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ مِنْ غَيْرِ وَجْهِ الْغَصْبِ لانَّ الْغَصْبَ كُلَّهُ مَرْدُودٌ وَهُوَ وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ يَعُولُ مَنْ لا حِيلَةَ لَهُ وَقَالَ إِنَّ الله لَمْ يَتْرُكْ شَيْئاً مِنْ صُنُوفِ الامْوَالِ إِلا وَقَدْ قَسَمَهُ وَأَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ وَالْفُقَرَاءَ وَالْمَسَاكِينَ وَكُلَّ صِنْفٍ مِنْ صُنُوفِ النَّاسِ فَقَالَ لَوْ عُدِلَ فِي النَّاسِ لاسْتَغْنَوْا ثُمَّ قَالَ إِنَّ الْعَدْلَ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَلا يَعْدِلُ إِلا مَنْ يُحْسِنُ الْعَدْلَ قَالَ وَكَانَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَقْسِمُ صَدَقَاتِ الْبَوَادِي فِي الْبَوَادِي وَصَدَقَاتِ أَهْلِ الْحَضَرِ فِي أَهْلِ الْحَضَرِ وَلا يَقْسِمُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ عَلَى ثَمَانِيَةٍ حَتَّى يُعْطِيَ أَهْلَ كُلِّ سَهْمٍ ثُمُناً وَلَكِنْ يَقْسِمُهَا عَلَى قَدْرِ مَنْ يَحْضُرُهُ مِنْ أَصْنَافِ الثَّمَانِيَةِ عَلَى قَدْرِ مَا يُقِيمُ كُلَّ صِنْفٍ مِنْهُمْ يُقَدِّرُ لِسَنَتِهِ لَيْسَ فِي ذَلِكَ شَيْءٌ مَوْقُوتٌ وَلا مُسَمًّى وَلا مُؤَلَّفٌ إِنَّمَا يَضَعُ ذَلِكَ عَلَى قَدْرِ مَا يَرَى وَمَا يَحْضُرُهُ حَتَّى يَسُدَّ فَاقَةَ كُلِّ قَوْمٍ مِنْهُمْ وَإِنْ فَضَلَ مِنْ ذَلِكَ فَضْلٌ عَرَضُوا الْمَالَ جُمْلَةً إِلَى غَيْرِهِمْ وَالانْفَالُ إِلَى الْوَالِي وَكُلُّ أَرْضٍ فُتِحَتْ فِي أَيَّامِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِلَى آخِرِ الابَدِ وَمَا كَانَ افْتِتَاحاً بِدَعْوَةِ أَهْلِ الْجَوْرِ وَأَهْلِ الْعَدْلِ لانَّ ذِمَّةَ رَسُولِ الله فِي الاوَّلِينَ وَالاخِرِينَ ذِمَّةٌ وَاحِدَةٌ لانَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ الْمُسْلِمُونَ إِخْوَةٌ تَتَكَافَى دِمَاؤُهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَلَيْسَ فِي مَالِ الْخُمُسِ زَكَاةٌ لانَّ فُقَرَاءَ النَّاسِ جُعِلَ أَرْزَاقُهُمْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ عَلَى ثَمَانِيَةِ أَسْهُمٍ فَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ أَحَدٌ وَجَعَلَ لِلْفُقَرَاءِ قَرَابَةِ الرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) نِصْفَ الْخُمُسِ فَأَغْنَاهُمْ بِهِ عَنْ صَدَقَاتِ النَّاسِ وَصَدَقَاتِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَوَلِيِّ الامْرِ فَلَمْ يَبْقَ فَقِيرٌ مِنْ فُقَرَاءِ النَّاسِ وَلَمْ يَبْقَ فَقِيرٌ مِنْ فُقَرَاءِ قَرَابَةِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِلا وَقَدِ اسْتَغْنَى فَلا فَقِيرَ وَلِذَلِكَ لَمْ يَكُنْ عَلَى مَالِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَالْوَالِي زَكَاةٌ لانَّهُ لَمْ يَبْقَ فَقِيرٌ مُحْتَاجٌ وَلَكِنْ عَلَيْهِمْ أَشْيَاءُ تَنُوبُهُمْ مِنْ وُجُوهٍ وَلَهُمْ مِنْ تِلْكَ الْوُجُوهِ كَمَا عَلَيْهِمْ۔
فرمایا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے خمس پانچ چیزوں سے نکالا جاتا ہے۔ مالِ غنیمت اور غوطہ لگانے سے جو از قسم در و گوہر وغیرہ دریاؤں سے نکلے اور خزانے اور کانیں اور نمک زار سے ان تمام چیزوں سے خمس نکالا جائے گا اور اس کی تقسیم بہ حکم خدا یوں ہو گی۔ خمس کے چار حصے جنگ کرنے والوں کو ملیں گے اور ایک حصہ امام اور ولی کا ہو گا اور یہ حصہ پھر چھ حصوں میں تقسیم ہو گا۔ ایک سہم اللہ کا ایک سہم رسول کا اور سہم ذو القربیٰ کا اور ایک سہم یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا اللہ اور رسول کا حصہ رسول کے بعد اولی الامر کو ملے گا ورثتہً پس امام کے تین حصے ہوں گے۔ دو ورثہً اور ایک اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حق یعنی خمس کا نصف حق امام ہے اور باقی ان کے اہلبیت کا حق ہو گا یعنی ایک حصہ ان کے یتیموں کا اور ایک حصہ ان کے مسکینوں کا اور ایک حصہ ان کے مسافروں کا اور یہ تقسیم ہو گی کتاب و سنت کے مطابق ان کو اتنا دیا جائیگا کہ ان کے ایک سال کے نفقہ کے لیے کافی ہو اگر اس سے زیادہ ہو تو وہ امام کا حق ہے اور اگر اتنا نہ ہو کہ ان کو ایک سال کے خرچ سے بے نیاز کر سکے تو امام پر لازم ہو گا کہ اپنے پاس سے اتنا دے دے کہ وہ بے نیاز ہو جائیں اور یہ صورت رہے گی ان کے مرتے دم تک اور یہ اس لیے ہے کہ جو باقی بچتا ہے وہ امام کو ملتا ہے خمس خاص طور سے آل رسول کا حق ہے کیوں کہ عام لوگوں کے لیے جو صدقہ ہے اس میں ان لوگوں کا حق نہیں رکھا گیا یہ قرابت رسول کی وجہ سے خدا نے ان کو میل کچیل سے بچایا ہے اور اس لیے بھی کہ وہ خدا کے نزدیک مکرم ہیں۔ پس ان کو خدا نے مخصوص کیا اپنے حصہ سے تاکہ بے پرواہ کر دے ان کو اس چیز سے جو ان کے لیے باعثِ ذلت و توہین و گداگری ہے ہاں جو صدقات ان کے ہوں گے تو وہ ایک دوسرے سے لے سکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے خدا نے خمس قرار دیا ہے اور یہ وہ قرابت داران رسول ہیں جن کا ذکر خدا نے یوں کیا ہے، اے رسول اپنے قبیلہ کے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ اور وہ اولاد عبدالمطلب ہے عورت ہو یا مرد، ان میں قریش کے اور گھرانے شامل نہیں اور نہ عربوں میں سے کوئی اس خمس کا حق دار ہے ان کے لیے لوگوں کے صدقات ہیں جن میں وہ دیگر افراد امت کے برابر ہیں جن کی ماں ہاشمی ہو اور باپ قریش کے عوام سے ہو تو ان کا خمس میں حصہ نہیں ہے کیونکہ خدا نے فرمایا ہے ان کو ان کے باپوں کے نام سے بلاؤ اور اموال سے امام خالص اور پاک مال لے گا جیسے خوبرو کنیز، اچھا گھوڑا، کپڑے اور دوسری قسم کا سامان جس کو وہ لینا چاہے گا اور اس کا وہ حق تقسیم مال سے پہلے نکالا جائیگا اور اس کے لیے جائز ہو گا کہ وہ اس مال سے دوسروں کی ضرورتیں پوری کرے۔ مثلاً مؤلفہ القلوب کو دے یا اور جس کو چاہے اگر اس سے کچھ بچ رہے تو اس میں سے خمس نکالے اور ان مستحقوں کو دے اور جو باقی بچے وہ انکو دے جنھوں نے لشکریوں میں سے اس مال کو جمع کیا اور اگر کچھ نہ بچے تو ان لشکریوں کے لیے جنھوں نے جنگ کی ہے۔ مشرکین کی چھوڑی ہوئی چیزوں سے کچھ نہ ملے گا اور نہ اس چیز سے جس پر غلبہ حاصل کیا ہے البتہ جو انھوں نے جمع کیا ہے اس میں سے ملے گا۔
اور بادہ نشینوں کے لیے تقسیم میں کوئی حصہ نہیں اگرچہ وہ امام کے ساتھ لڑیں۔ کیونکہ رسول اللہ نے ان بادہ نشینوں سے اس شرط پر صلح کی تھی کہ وہ اپنے مقامات پر رہیں گے اور ہجرت نہ کریں گے اور اگر دشمن حملہ کرے گا رسول پر تو وہ مدد کریں گے اور ان کے ساتھ جنگ کریں گے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور یہ طریق کار ان میں اور ان کے غیر میں جاری رہے گا اور جو زمینیں جنگ سے لی جائیں گی وہ موقوفہ اور متروکہ ہو گا ان لوگوں کے ہاتھوں میں جو اسے آباد کریں گے اور زرخیز بنائیں ا ور ان کا معاملہ امام کی مرضی سے طے ہو گا بہ قدر ان کی محنت کے نصف دیا جائے گا یا ثلث یا دو ثلث جیسا مناسب ہو تاکہ ان کو نقصان نہ پہنچے۔ ضروری اخراجات وضع کرنے کے بعد امام سب پیداوار میں سے دسواں حصہ لے گا اگر وہ زراعت بارش یا زمین جاری ہونے والے پانی سے ہوئی ہو اور بیسواں حصہ لے گا اگر آبپاشی رہٹ یا اونٹوں کے ذریعہ ہوئی ہو اور اس کو امام موافق بہ حکم الہٰی آٹھ حصوں میں تقسیم کرے گا اور دیا جائے گا فقراء اور مساکین کام کرنے والوں اور مؤلفہ القلوب لوگوں، غلاموں کو آزاد کرانے اور مقروضوں کا قرض ادا کرنے اور راہِ خدا میں اور مسافروں کی مدد میں یہ آٹھوں حصے ان میں تقسیم ہوں گے اور ہر ایک طبقہ کو اتنا دیا جائئے گا کہ وہ بے تنگی اور کمی سال بھر کے خرچ سے بےنیاز ہو جائیں۔ اور جو ان سب کو دینے کے بعد بچے گا وہ امام کی طرف رد ہو گا اور ان شرکاء کار کی طرف جو اس زمین میں کام کرنے والے اور گڑھے کھودنے والے ہوں گے پانی جمع ہونے کے لیے پس حسب مصلحت امام ان کو حصہ دیا جائے گا اور باقی سے ان لوگوں کو دیا جائے گا جو دین خدا کے مددگار ہوں اور جن سے اسلام کو قوت پہنچے۔
جہاد وغیرہ کے معاملات میں برائے مصلحت امامہ، امام کے لیے اس میں سے کچھ نہیں کم ہو یا زیادہ اس کے لیے مال فئے میں خمس کے بعد انفال ہے۔ انفال ہر وہ تباہ شدہ زمین ہے جس کے باشندے ترکِ سکونت کر گئے ہوں اور بغیر جنگ و پیکار حاصل ہوئی ہو۔ خواہ ان لوگوں نے صلح کر لی ہو یا بغیر قتال عطا کر دی اور داخل انفال ہیں پہاڑوں کی چوٹیاں وادیوں کے صحرا اور زمین مردہ جس کا کوئی مالک نہ ہو اور شرک شلوک کے وہ قطعات جو بدوں غصب کیے گئے ہوں یعنی مسلمانوں سے غصب نہ کیے گئے ہوں کیونکہ ایسی املاک کو ان کے ورثاء کی طرف سے رد کیا جائے گا اور امام وارث ہو گا اس چیز کا جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ فرمایا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ نے اموال کی قسموں کو بغیر تقسیم کے نہیں چھوڑا۔ خاص و عام میں سے ہر ایک کو اس کا حق دیا ہے فقراء و مساکین ہوں یا دوسری اصناف۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ان لوگوں کے درمیان عدل سے کام لیا جائئے تو وہ غنی ہو جائیں عدل شہد سے زیادہ شیریں ہے اور عدل نہیں کرتا مگر وہی جو خوبی عدل سے واقف ہے اور اس کا صحیح علم رکھتا ہے اور رسول بادیہ نشینوں کے صدقات بادیہ نشینوں میں صرف کرتے تھے اور شہریوں کے شہریوں میں آٹھ اصناف ہیں برابر تقسیم نہیں کرتے تھے کہ ہر ایک کو 1/8 مل جائے بلکہ تقسیم کرتے تھے آٹھ اقسام میں سے ان لوگوں پر جو موجود ہوں اور ہر صنف کو اتنا دیتے تھے کہ اس کے سال بھر کا خرچ کافی ہو۔ یہ تقسیم کسی خاص صورت میں معین نہ تھی اور نہ کسی سے نامزد تھی اور نہ بغرض تالیف قلب تھی یہ تو حضرت کی صوابدید پر منحصر تھی اور موجود ہونےے والوں پر مقصود یہ تھا کہ وہ فاقہ کشی سے بچ جائیں اور اس تقسیم کے بعد جو بچتا وہ دوسرے لوگوں کو دیا جاتا تھا اور انفال حق امام ہے اور ہر وہ زمین جو زمانہ رسول میں فتح ہوئی اس کا حکم آخر تک ایک ہی رہے گا خواہ وہ اہل جور سے لی گئی ہو یا اہل عدل سے۔ رسول کی ذمہ داری اولین و آخرین کے لیے برابر ہے رسول اللہ نے فرمایا مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ان کے خون بلحاط قدر و قیمت برابر ہیں جو فقراء و مساکین ہیں ان کی خبر گیری امراء کے ذمہ ہے جو مالِ خمس سال بھر تک امام کے پاس رہے اس میں زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ فقراء جو آٹھ قسم کے ہیں اپنا حصہ اموال مردم سے پا چکے ہیں اب ان میں کوئی باقی نہ رہا۔ اور جو فقراء اور قرابتداران رسول ہیں ان کے لیے خمس تھا جس نے بے نیاز کر دیا ان کو صدقات نبی و امام سے پس نہ کوئی مستحق باقی رہتا ہے فقراء و عوام میں اور نہ قرابتداران رسول میں مگر یہ کہ وہ بے نیاز ہے اسی لیے مال نبی و امام پر زکوٰۃ نہ ہو گی کیونکہ کوئی فقیر و محتاج باقی نہیں رہا سب اپنا اپنا حق اپنے اپنے طریقہ سے پا چکے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا أَظُنُّهُ السَّيَّارِيَّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ قَالَ لَمَّا وَرَدَ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَى الْمَهْدِيِّ رَآهُ يَرُدُّ الْمَظَالِمَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا بَالُ مَظْلِمَتِنَا لا تُرَدُّ فَقَالَ لَهُ وَمَا ذَاكَ يَا أَبَا الْحَسَنِ قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمَّا فَتَحَ عَلَى نَبِيِّهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَدَكاً وَمَا وَالاهَا لَمْ يُوجَفْ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ فَأَنْزَلَ الله عَلَى نَبِيِّهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَآتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ فَلَمْ يَدْرِ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) مَنْ هُمْ فَرَاجَعَ فِي ذَلِكَ جَبْرَئِيلَ وَرَاجَعَ جَبْرَئِيلُ (عَلَيْهِ السَّلام) رَبَّهُ فَأَوْحَى الله إِلَيْهِ أَنِ ادْفَعْ فَدَكاً إِلَى فَاطِمَةَ (عليها السلام) فَدَعَاهَا رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ لَهَا يَا فَاطِمَةُ إِنَّ الله أَمَرَنِي أَنْ أَدْفَعَ إِلَيْكِ فَدَكاً فَقَالَتْ قَدْ قَبِلْتُ يَا رَسُولَ الله مِنَ الله وَمِنْكَ فَلَمْ يَزَلْ وُكَلاؤُهَا فِيهَا حَيَاةَ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَلَمَّا وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَ عَنْهَا وُكَلاءَهَا فَأَتَتْهُ فَسَأَلَتْهُ أَنْ يَرُدَّهَا عَلَيْهَا فَقَالَ لَهَا ائْتِينِي بِأَسْوَدَ أَوْ أَحْمَرَ يَشْهَدُ لَكِ بِذَلِكِ فَجَاءَتْ بِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَأُمِّ أَيْمَنَ فَشَهِدَا لَهَا فَكَتَبَ لَهَا بِتَرْكِ التَّعَرُّضِ فَخَرَجَتْ وَالْكِتَابُ مَعَهَا فَلَقِيَهَا عُمَرُ فَقَالَ مَا هَذَا مَعَكِ يَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ قَالَتْ كِتَابٌ كَتَبَهُ لِيَ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ قَالَ أَرِينِيهِ فَأَبَتْ فَانْتَزَعَهُ مِنْ يَدِهَا وَنَظَرَ فِيهِ ثُمَّ تَفَلَ فِيهِ وَمَحَاهُ وَخَرَقَهُ فَقَالَ لَهَا هَذَا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ أَبُوكِ بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ فَضَعِي الْحِبَالَ فِي رِقَابِنَا فَقَالَ لَهُ الْمَهْدِيُّ يَا أَبَا الْحَسَنِ حُدَّهَا لِي فَقَالَ حَدٌّ مِنْهَا جَبَلُ أُحُدٍ وَحَدٌّ مِنْهَا عَرِيشُ مِصْرَ وَحَدٌّ مِنْهَا سِيفُ الْبَحْرِ وَحَدٌّ مِنْهَا دُومَةُ الْجَنْدَلِ فَقَالَ لَهُ كُلُّ هَذَا قَالَ نَعَمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا كُلُّهُ إِنَّ هَذَا كُلَّهُ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَى أَهْلِهِ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ فَقَالَ كَثِيرٌ وَأَنْظُرُ فِيه۔
علی بن اسباط سے مروی ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مہدی عباسی کے پاس آئے تو وہ لوگوں کے غصب شدہ مال واپس کر رہا تھا۔ حضرت نے فرمایا ہمارے غصب شدہ کو بھی واپس دے دو۔ اس نے کہا وہ کیا ہے۔ فرمایا جب اللہ نے اپنے نبی کو فدک پر فتح دی اور بغیر جنگ حاصل ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اے رسول ذوی القربیٰ کا حق اسے دے دو۔ جبرئیل سے حضرت نے پوچھا یہ کون ہیں جبرئیل نے خدا سے پوچھا۔ خدا نے وحی کی فدک فاطمہ کو دے دو۔ پس حضرت نے ان کو بلایا اور فرمایا خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تم کو دے دوں۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ جو خدا اور رسول نے عطا کیا ہے میں نے اسے قبول کیا۔ پس حضرت فاطمہ کے وکلاء حیات رسول تک اس کی آمدنی وصول کرتے رہے جبکہ ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے وکلاء فاطمہ کو فدک سے نکال باہر کیا ۔ وہ ابوبکر کے پاس آئیں اور واپسی کا سوال کیا۔ انھوں نے کہا تم کوئی کالا گورا گواہ لاؤ وہ امیر المومنین اور ام ایمن کو لے کر گئیں انھوں نے گواہی دی۔ ابوبکر نے واگذاشت کے لیے ایک تحریر لکھ دی وہ اس تحریر کو لے کر نکلیں، راہ میں عمر ملے انھوں نے کہا یہ کیا ہے سیدہ نے فرمایا یہ تحریر ابوبکر نے مجھے لکھ دی ہے انھوں نے کہا مجھے دکھاؤ۔ انھوں نے انکار کیا۔ عمر نے ان کے ہاتھ سے وہ تحریر چھین لی اور اس کو پڑھ کر تھوک سے مٹایا اور پھاڑ ڈالا اور کہا اس علاقہ پر تمہارے باپ نے فوج کشی نہیں کی تھی۔ تم ہماری گردن میں رسی ڈال رہی ہو۔ مہدی نے کہا اس علاقہ کی حدود کیا ہیں۔ فرمایا ایک کوہ احد ہے دوسری عریشِ مصر تیسری سیف البحر اور چوتھی دومتہ الجندل۔ اس نے کہا یہ ہے کل علاقہ۔ فرمایا ہاں اس علاقہ پر لڑائی نہیں ہوئی اس نے کہا یہ تو بڑا علاقہ ہے میں غور کروں گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ الانْفَالُ هُوَ النَّفْلُ وَفِي سُورَةِ الانْفَالِ جَدْعُ الانْف۔
محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ میں نے ابو جعفر علیہ السلام سے سنا انفال بخشش الہٰی ہے سورہ انفال نازل کر کے خدا نے ہمارے مخالفوں کی ناک رگڑ دی ہے۔
أَحْمَدُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سُئِلَ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لله خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى فَقِيلَ لَهُ فَمَا كَانَ لله فَلِمَنْ هُوَ فَقَالَ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَمَا كَانَ لِرَسُولِ الله فَهُوَ لِلامَامِ فَقِيلَ لَهُ أَ فَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ صِنْفٌ مِنَ الاصْنَافِ أَكْثَرَ وَصِنْفٌ أَقَلَّ مَا يُصْنَعُ بِهِ قَالَ ذَاكَ إِلَى الامَامِ أَ رَأَيْتَ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) كَيْفَ يَصْنَعُ أَ لَيْسَ إِنَّمَا كَانَ يُعْطِي عَلَى مَا يَرَى كَذَلِكَ الامَامُ۔
امام رضا علیہ السلام سے آیت واعلمو انما غنمتم الخ کے متعلق کسی نے پوچھا اللہ کے سہم کا مالک کون ہے۔ فرمایا رسول اللہ اور جو رسول کا سہم ہے اس کا مالک امام ہے۔ کسی نے پوچھا اگر مستحقین کی ایک صنف کے زیادہ تعداد میں ہوں اور دوسری کم تو اس حالت میں تقسیم کی کیا صورت ہو گی۔ فرمایا یہ امام کی رائے پر موقوف ہے جیسا کہ رسول اللہ کے وقت ہوتا تھا۔ حضرت اپنی رائے سے جتنا جس کو چاہتے تھے دیتے تھے پس یہی صورت امام کے لیے ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْحَدِيدِ وَالرَّصَاصِ وَالصُّفْرِ فَقَالَ عَلَيْهَا الْخُمُسُ۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت سے پوچھا کیا ہے سونے، چاندی، لوہا، رانگا اور تانبے کی کانوں کے متعلق۔ فرمایا ان پر خمس ہے۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ الامَامُ يُجْرِي وَيُنَفِّلُ وَيُعْطِي مَا شَاءَ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ السِّهَامُ وَقَدْ قَاتَلَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بِقَوْمٍ لَمْ يَجْعَلْ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ نَصِيباً وَإِنْ شَاءَ قَسَمَ ذَلِكَ بَيْنَهُمْ۔
زرارہ سے مروی ہے کہ امام کو یہ حق حاصل ہے کہ قبل تقسیم سہام جسے چاہے بخشے جسے چاہے عطا کرے۔ رسول اللہ نے جنگ کی ایسی قوم کی مدد سے جن کا حصہ مال فئے میں نہ تھا لہذا حضرت نے نہ دیا لیکن اگر چاہتے تو ان کے درمیان تقسیم کر دیتے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ حُكَيْمٍ مُؤَذِّنِ ابْنِ عِيسَى قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله تَعَالَى وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لله خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبى فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) بِمِرْفَقَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ أَشَارَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ هِيَ وَالله الافَادَةُ يَوْماً بِيَوْمٍ إِلا أَنَّ أَبِي جَعَلَ شِيعَتَهُ فِي حِلٍّ لِيَزْكُوا۔
حکیم موذن بن عیسیٰ سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا آیہ واعلمو انما غنمتم کے متعلق حضرت نے اپنی دو کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر اپنے سینے کے طرف اشارہ کیا۔ پھر فرمایا واللہ فائدہ پہنچانا روز بروز ہے میرے والد نے اپنے شیعوں کے لیے فائدہ پہنچانا اس لیے قرار دیا کہ وہ روزی سے بے نیاز ہو کر اپنے نفسوں کو پاک و پاکیزہ رکھیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ سَمَاعَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) عَنِ الْخُمُسِ فَقَالَ فِي كُلِّ مَا أَفَادَ النَّاسُ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ۔
سماعہ سے مروی ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے خمس کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا ہر اس شے میں ہے جس سے لوگ فائدہ پائیں کم ہو یا زیادہ۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَتَبْتُ جُعِلْتُ لَكَ الْفِدَاءَ تُعَلِّمُنِي مَا الْفَائِدَةُ وَمَا حَدُّهَا رَأْيَكَ أَبْقَاكَ الله تَعَالَى أَنْ تَمُنَّ عَلَيَّ بِبَيَانِ ذَلِكَ لِكَيْلا أَكُونَ مُقِيماً عَلَى حَرَامٍ لا صَلاةَ لِي وَلا صَوْمَ فَكَتَبَ الْفَائِدَةُ مِمَّا يُفِيدُ إِلَيْكَ فِي تِجَارَةٍ مِنْ رِبْحِهَا وَحَرْثٍ بَعْدَ الْغَرَامِ أَوْ جَائِزَة۔
احمد بن محمد عیسیٰ بن یزید سے مروی ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو لکھا میں آپ پر فدا ہوں مجھے فائدہ کی حد بتائیے۔ خدا آپ کو سلامت رکھے اس توضیح سے مجھ پر احسان کیجیے تاکہ امر حرام مجھ سے سرزد نہ ہو اور روزہ و نماز ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت نے جواب میں لکھا ہر وہ چیز جس کے نفع سے فائدہ حاصل کیا جائے اس نفع پر خمس ہو گا اور زراعت پر بعد منہائی اخراجات وغیرہ۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) الْخُمُسُ أُخْرِجُهُ قَبْلَ الْمَئُونَةِ أَوْ بَعْدَ الْمَئُونَةِ فَكَتَبَ بَعْدَ الْمَئُونَةِ۔
ابو نصر سے مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کو لکھا کہ خمس منہائی اخراجات سے پہلے دیا جائے گا یا بعد میں۔ حضرت نے لکھا بعد میں۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كُلُّ شَيْءٍ قُوتِلَ عَلَيْهِ عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله فَإِنَّ لَنَا خُمُسَهُ وَلا يَحِلُّ لاحَدٍ أَنْ يَشْتَرِيَ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئاً حَتَّى يَصِلَ إِلَيْنَا حَقَّنَا۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر وہ جنگ جو مسلمان خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر کریں گے تو اس کے مال غنیمت میں ہمارا پانچواں حصہ ہے اور کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس خمس کی کوئی شے خریدے جب تک وہ حق ہم تک پہنچے۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ نَافِعٍ قَالَ طَلَبْنَا الاذْنَ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِ فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا ادْخُلُوا اثْنَيْنِ اثْنَيْنِ فَدَخَلْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مَعِي فَقُلْتُ لِلرَّجُلِ أُحِبُّ أَنْ تَسْتَأْذِنَ بِالْمَسْأَلَةِ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ أَبِي كَانَ مِمَّنْ سَبَاهُ بَنُو أُمَيَّةَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ أَنْ يُحَرِّمُوا وَلا يُحَلِّلُوا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ مِمَّا فِي أَيْدِيهِمْ قَلِيلٌ وَلا كَثِيرٌ وَإِنَّمَا ذَلِكَ لَكُمْ فَإِذَا ذَكَرْتُ رَدَّ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ دَخَلَنِي مِنْ ذَلِكَ مَا يَكَادُ يُفْسِدُ عَلَيَّ عَقْلِي مَا أَنَا فِيهِ فَقَالَ لَهُ أَنْتَ فِي حِلٍّ مِمَّا كَانَ مِنْ ذَلِكَ وَكُلُّ مَنْ كَانَ فِي مِثْلِ حَالِكَ مِنْ وَرَائِي فَهُوَ فِي حِلٍّ مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَقُمْنَا وَخَرَجْنَا فَسَبَقَنَا مُعَتِّبٌ إِلَى النَّفَرِ الْقُعُودِ الَّذِينَ يَنْتَظِرُونَ إِذْنَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لَهُمْ قَدْ ظَفِرَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ نَافِعٍ بِشَيْءٍ مَا ظَفِرَ بِمِثْلِهِ أَحَدٌ قَطُّ قَدْ قِيلَ لَهُ وَمَا ذَاكَ فَفَسَّرَهُ لَهُمْ فَقَامَ اثْنَانِ فَدَخَلا عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ أَحَدُهُمَا جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ أَبِي كَانَ مِنْ سَبَايَا بَنِي أُمَيَّةَ وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ مِنْ ذَلِكَ قَلِيلٌ وَلا كَثِيرٌ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَجْعَلَنِي مِنْ ذَلِكَ فِي حِلٍّ فَقَالَ وَذَاكَ إِلَيْنَا مَا ذَاكَ إِلَيْنَا مَا لَنَا أَنْ نُحِلَّ وَلا أَنْ نُحَرِّمَ فَخَرَجَ الرَّجُلانِ وَغَضِبَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهِ أَحَدٌ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ إِلا بَدَأَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ أَ لا تَعْجَبُونَ مِنْ فُلانٍ يَجِيئُنِي فَيَسْتَحِلُّنِي مِمَّا صَنَعَتْ بَنُو أُمَيَّةَ كَأَنَّهُ يَرَى أَنَّ ذَلِكَ لَنَا وَلَمْ يَنْتَفِعْ أَحَدٌ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ بِقَلِيلٍ وَلا كَثِيرٍ إِلا الاوَّلَيْنِ فَإِنَّهُمَا غَنِيَا بِحَاجَتِهِمَا۔
عبدالعزیز سے مروی ہے کہ ہم چند آدمی جن میں غلام زادگان سلاطین بنی امیہ تھے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں اذنِ طلبی کے لیے حاضر ہوئے ہم نے کہلا کر بھیجا ۔ جواب آیا کہ دو دو داخل ہوں۔ میں داخل ہوا میرے ساتھ ایک اور شخص تھا۔ میں نے اس سے کہا میں چاہتا ہوں کہ تو اذن گفتگو حاصل کر کے سوال کر۔ میں جواب سنوں گا۔ اس نے حضرت سے کہا میرا باپ بنی امیہ کے قیدیوں میں سے تھا اور میں جانتا ہوں کہ بنی امیہ اس کے مجاز نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام کر دیں اور یہ کہ کم یا زیادہ جو کچھ ان کےپاس ہے وہ اس کے اہل نہیں اس کے مستحق تو آپ ہیں۔ پس جب میں نے اس پر غور کیا تو ان کی خدمت ترک کر دی اور توبہ کی کیونکہ اس تصور نے میری عقل کو فاسد کر دیا تھا۔ حضرت نے فرمایا جو ہو چکا وہ تیرے لیے حلال ہے اور جس کا حال تیرا سا ہو اس کے لیے بھی۔ راوی کہتا ہے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت کا غلام معتب ان لوگوں کے پاس آیا جو اذن امام کے منتظر تھے۔ پس دو کھڑے ہوئے غلام نے ان سے کہا کامیابی حاصل کی۔ عبدالعزیز ابن نافع نے ایسی کامیابی کہ دوسروں کو نصیب نہ ہو گی۔ پوچھا وہ کیا ہے اس نے بیان کیا یہ سن کر دونوں کھڑے ہوئے اور خدمت امام میں آ کر کہنے لگے۔ میرا باپ بنی امیہ کے قیدیوں میں سے تھا اور ہم جانتے ہیں کہ بنی امیہ اس کے اہل نہیں جو ان کے پاس ہے کم یا زیادہ، میں چاہتا ہوں کہ جو میں نے خدمتِ سلاطین بنی امیہ سے حاصل کیا ہے اسے حلال قرار دیجیے۔ فرمایا یہ ہمارے اختیار میں نہیں کہ ہم حلال و حرام قرار دیں یہ سن کر وہ دونوں چلے گئے۔ امام کو ان پر غصہ آیا اس رات جو کوئی آپ کے پاس آیا آپ نے یہی ذکر کیا۔ فرمایا کیا تم تعجب نہیں کرتے فلاں شخص سے کہ میں حلال کر دوں مال بنی امیہ کو۔ گویا وہ سمجھتے تھے کہ حرام کو حلال بنانا ہمارے اختیار میں ہے پس اس رات اور دن میں نہ فائدہ پایا۔ کسی نے قلیل و کثیر سے سوائے اول والے دو آدمیوں کے وہ بے پروا ہو گئے اپنی ضرورتوں سے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ ضُرَيْسٍ الْكُنَاسِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) مِنْ أَيْنَ دَخَلَ عَلَى النَّاسِ الزِّنَا قُلْتُ لا أَدْرِي جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ مِنْ قِبَلِ خُمُسِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ إِلا شِيعَتَنَا الاطْيَبِينَ فَإِنَّهُ مُحَلَّلٌ لَهُمْ لِمِيلادِهِمْ۔
راوی کہتا ہے کہ ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ لوگوں میں زنا کہاں سے داخل ہوتا ہے میں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ فرمایا وہ ہم اہلبیت کے خمس ادا نہ کرنے سےہوتا ہے لیکن ہمارے شیعہ جو خمس دینے والے ہیں ان کی اولاد حلال ہوتی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) نَحْنُ قَوْمٌ فَرَضَ الله طَاعَتَنَا لَنَا الانْفَالُ وَلَنَا صَفْوُ الْمَالِ۔
راوی کہتا ہے فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ ہم وہ ہیں کہ ہماری اطاعت کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے ہمارے لیے انفال ہے اور ہمارے لیے پاک و صاف مال ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ رِفَاعَةَ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فِي الرَّجُلِ يَمُوتُ لا وَارِثَ لَهُ وَلا مَوْلَى قَالَ هُوَ مِنْ أَهْلِ هَذِهِ الايَةِ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الانْفالِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کوئی ایسا شخص مر جائے جس کا کوئی وارث نہ ہو اور نہ آقا ہو تو اس کے مال کا مالک کون ہو گا۔ فرمایا اس کا حکم اس آیت کے تحت ہو گا یسئلونک عن الانفال یعنی امام اس کا مالک ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنِ الْكَنْزِ كَمْ فِيهِ قَالَ الْخُمُسُ وَعَنِ الْمَعَادِنِ كَمْ فِيهَا قَالَ الْخُمُسُ وَكَذَلِكَ الرَّصَاصُ وَالصُّفْرُ وَالْحَدِيدُ وَكُلُّ مَا كَانَ مِنَ الْمَعَادِنِ يُؤْخَذُ مِنْهَا مَا يُؤْخَذُ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ خزانوں کے متعلق کیا ہے۔ فرمایا خمس ہے پوچھا معدن کے متعلق کیا ہے۔ فرمایا خمس اسی طرح رانگا، تانبا اور لوہا ہے ہر معادنی چیز پر اسی طرح لیا جائے گا جیسے سونا چاندی پر لیا جاتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ صَبَّاحٍ الازْرَقِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ إِنَّ أَشَدَّ مَا فِيهِ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ يَقُومَ صَاحِبُ الْخُمُسِ فَيَقُولَ يَا رَبِّ خُمُسِي وَقَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِشِيعَتِنَا لِتَطِيبَ وِلادَتُهُمْ وَلِتَزْكُوَ وِلادَتُهُمْ۔
راوی نے امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہما السلام میں سے کسی ایک سے روایت کی ہے کہ قیامت کا دن لوگوں پر بڑا سخت ہو گا جبکہ صاحب خمس یعنی امام کھڑا ہو کر کہے گا اے میرے پروردگار میرا خمس یعنی اپنا حق طلب کریں گے اور ہم نے اپنے شیعوں کے لیے پاک قرار دیا ہے تاکہ ان کی اولاد پاک و صاف ہو۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَمَّا يُخْرَجُ مِنَ الْبَحْرِ مِنَ اللُّؤْلُؤِ وَالْيَاقُوتِ وَالزَّبَرْجَدِ وَعَنْ مَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا فِيهِ قَالَ إِذَا بَلَغَ ثَمَنُهُ دِينَاراً فَفِيهِ الْخُمُسُ۔
امام رضا علیہ السلام سے راوی نے سوال کیا ان چیزوں سے متعلق جو دریاؤں سے نکلتی ہیں جیسے موتی، یاقوت، زبر جد، سونے اور چاندی کی کتنی مقدار پر خمس ہے۔ فرمایا ان میں سے جب کسی کی قیمت ایک دینار تک پہنچ جائے تو اس میں خمس ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ قَالَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ يَا سَيِّدِي رَجُلٌ دُفِعَ إِلَيْهِ مَالٌ يَحُجُّ بِهِ هَلْ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ الْمَالِ حِينَ يَصِيرُ إِلَيْهِ الْخُمُسُ أَوْ عَلَى مَا فَضَلَ فِي يَدِهِ بَعْدَ الْحَجِّ فَكَتَبَ (عَلَيْهِ السَّلام) لَيْسَ عَلَيْهِ الْخُمُسُ۔
راوی نے امام سے سوال کیا کہ ایک شخص کو حج کرنے کے لیے مال دیا گیا آیا اس مال پر جب کہ اس کے پاس مال خمس بھی آیا ہو یا حج کے بعد جو اس کے پاس بچ رہے اس پر خمس ہے۔ فرمایا نہیں۔
سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ قَالَ سَرَّحَ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) بِصِلَةٍ إِلَى أَبِي فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَبِي هَلْ عَلَيَّ فِيمَا سَرَّحْتَ إِلَيَّ خُمُسٌ فَكَتَبَ إِلَيْهِ لا خُمُسَ عَلَيْكَ فِيمَا سَرَّحَ بِهِ صَاحِبُ الْخُمُس۔
امام زین العابدین نے فرمایا تمہارے اوپر خمس نہیں ہے جبکہ صاحبِ مال نے تصریح کر دی ہو یعنی نصاب یا خمس ادا کر دیا ہو۔ امام نے فرمایا اگر کسی شے پر خمس ادا کر دیا گیا ہو تو دوبارہ امام کو خمس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سَهْلٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهَمَذَانِيِّ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) أَقْرَأَنِي عَلِيُّ بْنُ مَهْزِيَارَ كِتَابَ أَبِيكَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِيمَا أَوْجَبَهُ عَلَى أَصْحَابِ الضِّيَاعِ نِصْفُ السُّدُسِ بَعْدَ الْمَئُونَةِ وَأَنَّهُ لَيْسَ عَلَى مَنْ لَمْ تَقُمْ ضَيْعَتُهُ بِمَئُونَتِهِ نِصْفُ السُّدُسِ وَلا غَيْرُ ذَلِكَ فَاخْتَلَفَ مَنْ قِبَلَنَا فِي ذَلِكَ فَقَالُوا يَجِبُ عَلَى الضِّيَاعِ الْخُمُسُ بَعْدَ الْمَئُونَةِ مَئُونَةِ الضَّيْعَةِ وَخَرَاجِهَا لا مَئُونَةِ الرَّجُلِ وَعِيَالِهِ فَكَتَبَ (عَلَيْهِ السَّلام) بَعْدَ مَئُونَتِهِ وَمَئُونَةِ عِيَالِهِ وَبَعْدَ خَرَاجِ السُّلْطَانِ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کو لکھا کہ پڑھی علی بن مہزیار نے آپ کے پدر بزرگوار کی تحریر میرے سامنے اس چیز کے متعلق جو واجب ہے ارباب زراعت پر کہ اخراجات نکالنے کے بعد چھٹے حصے کا نصف زکوٰۃ ہے اور نہیں اس پر نصف سدس جو اپنے خرچ سےے زمین کو قابل کاشت بنائے اس امر میں ہماری طرف سے اختلاف ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ زراعت پر خمس بھی ہے۔ بعد وضع اخراجات زراعت اور ٹیکس سرکاری بغیر اس کے ذاتی خرچ اور عیال کے خرچ کے۔ حضرت نے لکھا بعد خرچ زراعت و عیال و سرکاری ٹیکس واجب ہو گا۔
سَهْلٌ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدٍ الطَّبَرِيُّ قَالَ كَتَبَ رَجُلٌ مِنْ تُجَّارِ فَارِسَ مِنْ بَعْضِ مَوَالِي أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) يَسْأَلُهُ الاذْنَ فِي الْخُمُسِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّ الله وَاسِعٌ كَرِيمٌ ضَمِنَ عَلَى الْعَمَلِ الثَّوَابَ وَعَلَى الضِّيقِ الْهَمَّ لا يَحِلُّ مَالٌ إِلا مِنْ وَجْهٍ أَحَلَّهُ الله وَإِنَّ الْخُمُسَ عَوْنُنَا عَلَى دِينِنَا وَعَلَى عِيَالاتِنَا وَعَلَى مَوَالِينَا وَمَا نَبْذُلُهُ وَنَشْتَرِي مِنْ أَعْرَاضِنَا مِمَّنْ نَخَافُ سَطْوَتَهُ فَلا تَزْوُوهُ عَنَّا وَلا تَحْرِمُوا أَنْفُسَكُمْ دُعَاءَنَا مَا قَدَرْتُمْ عَلَيْهِ فَإِنَّ إِخْرَاجَهُ مِفْتَاحُ رِزْقِكُمْ وَتَمْحِيصُ ذُنُوبِكُمْ وَمَا تُمَهِّدُونَ لانْفُسِكُمْ لِيَوْمِ فَاقَتِكُمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ يَفِي لله بِمَا عَهِدَ إِلَيْهِ وَلَيْسَ الْمُسْلِمُ مَنْ أَجَابَ بِاللِّسَانِ وَخَالَفَ بِالْقَلْبِ وَالسَّلامُ۔
راوی کہتا ہے کہ ایک فارس کے سوداگر نے امام رضا علیہ السلام کے غلام کو خط لکھا کہ حضرت سے اجازت چاہیے میرے لیے خمس کو اپنے لیے صرف کرنے کی۔ حضرت نے جواب میں لکھا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالیٰ صاحب وسعت و بخشش ہے کسی کے مال کا محتاج نہیں۔ وہ ضامن ہے عمل خیر پر ثواب دینے کا، دل تنگی کے عوض کا نہیں۔ کوئی مال حلال نہ ہو گا مگر اسی طرح جیسے اللہ نے حلال کیا ہے۔ خمس ہمارے دین کی اعانت کے لیے ہے اور جو ہم خرچ کریں یا سامان خریدیں دشمنوں کے ظلم سے بچنے کے لیے تم اس کو ہم سے نہ روکو اور اپنے نفسوں کو ہماری دعاؤں سے محروم نہ کرو۔ اخراج تمہارے رزقوں کی کنجی ہے اور تمہارے گناہوں کو مٹانے والا ہے اور بچانے والا ہے تم کو فاقہ کے دن سے، مسلم وہ ہے جو وفا کرے اس عہد کو جو اس نے اللہ سے کیا ہے وہ مسلمان نہیں جو احکامِ خدا کو زبان سے تو قبول کرے اور دل سے مخالفت کرے۔
وَبِهَذَا الاسْنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَدِمَ قَوْمٌ مِنْ خُرَاسَانَ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) فَسَأَلُوهُ أَنْ يَجْعَلَهُمْ فِي حِلٍّ مِنَ الْخُمُسِ فَقَالَ مَا أَمْحَلَ هَذَا تَمْحَضُونَّا بِالْمَوَدَّةِ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَزْوُونَ عَنَّا حَقّاً جَعَلَهُ الله لَنَا وَجَعَلَنَا لَهُ وَهُوَ الْخُمُسُ لا نَجْعَلُ لا نَجْعَلُ لا نَجْعَلُ لاحَدٍ مِنْكُمْ فِي حِلّ۔
راوی کہتا ہے کہ خراسان کے کچھ لوگ امام رضا علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے ہمیں خمس سے بری کر دیجیے۔ فرمایا کیسی سخت ہے تمہاری یہ خواہش تو زبان سے ہماری محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور ہمارے حق کو ہم سے روکتے ہو حالانکہ وہ خدا کا مقرر کردہ ہے اور وہ خمس ہے میں ایسا نہیں کروں گا کہ تم میں سے کسی کے لیے حلال قرار ے دوں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَهْلٍ وَكَانَ يَتَوَلَّى لَهُ الْوَقْفَ بِقُمَّ فَقَالَ يَا سَيِّدِي اجْعَلْنِي مِنْ عَشَرَةِ آلافٍ فِي حِلٍّ فَإِنِّي أَنْفَقْتُهَا فَقَالَ لَهُ أَنْتَ فِي حِلٍّ فَلَمَّا خَرَجَ صَالِحٌ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ أَحَدُهُمْ يَثِبُ عَلَى أَمْوَالِ حَقِّ آلِ مُحَمَّدٍ وَأَيْتَامِهِمْ وَمَسَاكِينِهِمْ وَفُقَرَائِهِمْ وَأَبْنَاءِ سَبِيلِهِمْ فَيَأْخُذُهُ ثُمَّ يَجِيءُ فَيَقُولُ اجْعَلْنِي فِي حِلٍّ أَ تَرَاهُ ظَنَّ أَنِّي أَقُولُ لا أَفْعَلُ وَالله لَيَسْأَلَنَّهُمُ الله يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ ذَلِكَ سُؤَالاً حَثِيثاً۔
راوی کہتا ہے کہ میں امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ صالح بن محمد جو حضرت کی طرف سے قم کے وقف کا متولی تھا آیا اور کہنے لگا میں دس ہزار اپنے خرچ میں لے آیا ہوں مجھے معاف کر دیجیے۔ فرمایا معاف کیے جب وہ چلا گیا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا اس نے حملہ کیا آل محمد کے حق پر ان کے یتیموں، فقیروں اور مسافروں کے حق پر مال کو لے کر چھپا دیا ہے اور مجھ سے کہتا ہے وہ میرے لیے حلال قرار دیجیے اس کا گمان تھا میں ایسا نہ کروں گا ان لوگوں سے اللہ روز قیامت سخت باز پرس کرے گا۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنِ الْحَلَبِيِّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنِ الْعَنْبَرِ وَغَوْصِ اللُّؤْلُؤِ فَقَالَ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَيْهِ الْخُمُسُ۔
حلبی نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عنبر اور غوطہ سے نکلنے والے موتیوں کے متعلق پوچھا۔ فرمایا اس پر خمس ہے۔