مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

طینت مومن و کافر

(4-1)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ النَّبِيِّينَ مِنْ طِينَةِ عِلِّيِّينَ قُلُوبَهُمْ وَأَبْدَانَهُمْ وَخَلَقَ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ تِلْكَ الطِّينَةِ وَجَعَلَ خَلْقَ أَبْدَانِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ وَخَلَقَ الْكُفَّارَ مِنْ طِينَةِ سِجِّينٍ قُلُوبَهُمْ وَأَبْدَانَهُمْ فَخَلَطَ بَيْنَ الطِّينَتَيْنِ فَمِنْ هَذَا يَلِدُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ وَيَلِدُ الْكَافِرُ الْمُؤْمِنَ وَمِنْ هَاهُنَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنُ السَّيِّئَةَ وَمِنْ هَاهُنَا يُصِيبُ الْكَافِرُ الْحَسَنَةَ فَقُلُوبُ الْمُؤْمِنِينَ تَحِنُّ إِلَى مَا خُلِقُوا مِنْهُ وَقُلُوبُ الْكَافِرِينَ تَحِنُّ إِلَى مَا خُلِقُوا مِنْهُ۔

فرمایا حضرت علی ابن الحسین نے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے قلوب و ابدان کو علیین سے بنایا ہے اور اسی طینت سے مومنین کے قلوب کو پیدا کیا ہے اور ابدان کو دوسری طینت سے اور کفار کے قلوب طینت سجیین سے بنائے گئے ہیں اور اسی سے ان کے ابدان، پھر ان دو طینتوں کو ملا کر بنا ہے یہی وجہ ہے کہ مومن سے کافر پیدا ہوتا ہے اور کافر سے مومن اور یہی وجہ ہے کہ مومن سے بدی سرزد ہوتی ہے اور کافر سے نیکی۔ مومن کا دل اس چیز کی طرف مائل ہوتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا ہے اور کافر کا دل اس چیز کی طرف مائل ہوتا ہے جس سے وہ خلق ہوا ہے۔
توضیح: اخبار و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو بلند مرتبہ اور پاک و صاف طینت سے پیدا کیا ہے اور اشقیاء کو سجین یا دوزخ کی مٹی سے بنایا ہے اور ایک گروہ کو دونوں کے امتزاج سے۔ اس حدیث سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بندہ سعادت و شقاوت پر مجبور ہے۔ ہر انسان اپنی خلقت کے بعد اس دنیا میں جو کچھ کرنے والا تھا وہ اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی علم الہٰی میں تھا۔ لہذا بااختیار خود جیسا جس کا عمل ہونے والا تھا اس کو اسی طینت سے پیدا کیا گیا اسی اندازہ کو تقدیر الہٰی کہتے ہیں چونکہ اس کا علم عین ذات ہے۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الْغَفَّارِ الْجَازِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ الْمُؤْمِنَ مِنْ طِينَةِ الْجَنَّةِ وَخَلَقَ الْكَافِرَ مِنْ طِينَةِ النَّارِ وَقَالَ إِذَا أَرَادَ الله عَزَّ وَجَلَّ بِعَبْدٍ خَيْراً طَيَّبَ رُوحَهُ وَجَسَدَهُ فَلا يَسْمَعُ شَيْئاً مِنَ الْخَيْرِ إِلا عَرَفَهُ وَلا يَسْمَعُ شَيْئاً مِنَ الْمُنْكَرِ إِلا أَنْكَرَهُ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ الطِّينَاتُ ثَلاثٌ طِينَةُ الأنْبِيَاءِ وَالْمُؤْمِنُ مِنْ تِلْكَ الطِّينَةِ إِلا أَنَّ الأنْبِيَاءَ هُمْ مِنْ صَفْوَتِهَا هُمُ الأصْلُ وَلَهُمْ فَضْلُهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ الْفَرْعُ مِنْ طِينٍ لازِبٍ كَذَلِكَ لا يُفَرِّقُ الله عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ شِيعَتِهِمْ وَقَالَ طِينَةُ النَّاصِبِ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ وَأَمَّا الْمُسْتَضْعَفُونَ فَمِنْ تُرَابٍ لا يَتَحَوَّلُ مُؤْمِنٌ عَنْ إِيمَانِهِ وَلا نَاصِبٌ عَنْ نَصْبِهِ وَلله الْمَشِيئَةُ فِيهِمْ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے مومن کو طینت جنت سے پیدا کیا اور کافر کو طینت نار سے اور فرمایا کہ جب خدا کسی بندہ سے نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی روح اور جسد کو پاک بنا دیتا ہے ایسا آدمی جب کوئی اچھی بات سنتا ہے تو اسے پہچان لیتا ہے اور جب بری بات سنتا ہے تو انکار کرتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ طینیات تین ہیں۔ طینت الانبیاء اور طینت مومن اسی طینت سے فرق یہ ہے کہ طینت نکھری ہوئی ہے اور وہ اصل ہے اور یہی وجہ فضیلت ہے اور مومن کی طینت اس لسدار طینت کی فرع ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے تابعین کے درمیان افتراق نہیں ہوتا تیسری طینت ناصب سڑی ہوئی مٹی سے ہے اور ضعیف الایمان کی خلقت تراب سے ہے مومن اپنے ایمان سے اور ناصبی اپنے نصب سے نہیں ہٹتا اور ان میں مشیتِ خدا جاری ہے۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) جُعِلْتُ فِدَاكَ مِنْ أَيِّ شَيْ‏ءٍ خَلَقَ الله عَزَّ وَجَلَّ طِينَةَ الْمُؤْمِنِ فَقَالَ مِنْ طِينَةِ الأنْبِيَاءِ فَلَمْ تَنْجَسْ أَبَداً۔

صالح ابن سہل نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ خدا نے طینت مومن کو کس چیز سے پیدا کیا ہے۔ فرمایا طینتِ انبیاء سے، یہی وجہ ہے کہ وہ نجاست کفر و شرک سے کبھی آلودہ نہیں ہوتے۔
توضیح: یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب طینت مومن اور طینت انبیاء ایک ہیں تو پھر مومن بھی معصوم ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ طینت کے درجات ہیں کوئی زیادہ پاک و صاف ہے کوئی کم، پس انبیاء جس طینت سے خلق ہوتے ہیں وہ طینتِ مومن سے زیادہ اصطفیٰ و اطہر ہوتی ہے۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَغَيْرِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَلَفٍ عَنْ أَبِي نَهْشَلٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ الله جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَنَا مِنْ أَعْلَى عِلِّيِّينَ وَخَلَقَ قُلُوبَ شِيعَتِنَا مِمَّا خَلَقَنَا مِنْهُ وَخَلَقَ أَبْدَانَهُمْ مِنْ دُونِ ذَلِكَ وَقُلُوبُهُمْ تَهْوِي إِلَيْنَا لأنَّهَا خُلِقَتْ مِمَّا خُلِقْنَا مِنْهُ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ كَلا إِنَّ كِتابَ الأبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ وَما أَدْراكَ ما عِلِّيُّونَ كِتابٌ مَرْقُومٌ يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ وَخَلَقَ عَدُوَّنَا مِنْ سِجِّينٍ وَخَلَقَ قُلُوبَ شِيعَتِهِمْ مِمَّا خَلَقَهُمْ مِنْهُ وَأَبْدَانَهُمْ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَقُلُوبُهُمْ تَهْوِي إِلَيْهِمْ لأنَّهَا خُلِقَتْ مِمَّا خُلِقُوا مِنْهُ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ كَلا إِنَّ كِتابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ وَما أَدْراكَ ما سِجِّينٌ كِتابٌ مَرْقُومٌ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ۔

ابو حمزہ ثمالی نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ خدا نے ہم کو اعلیٰ علیین سے پیدا کیا اور ہمارے شیعوں کے قلوب کو اسی چیز سے پیدا کیا جس سے ہم کو پیدا کیا اور ان کے ابدان کو دوسری چیز سے۔ ان کے قلوب ہماری طرف اسی لیے مائل ہیں کہ ان کی اور ہماری خلقت ایک ہی چیز سے ہے پھر سورہ المطففین کی یہ آیت پڑھی۔ بے شک ابرار کی کتاب علیین میں ہے اور اے رسول تم جانتے ہو علیین کیا ہے وہ لکھی ہوئی کتاب ہے جس کی گواہی خدا کے مقرب بندے دیتے ہیں اور ہمارے دشمن سجین سے بنے ہیں اور اسی سے ان کی پیرو پیدا ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دل ہمارے دشمنوں کی طرف جھکتے ہیں کہ دونوں کی طینت ایک ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی کتاب فجاز سجین میں ہے اور تم جانتے ہو سجین کیا وہ کتاب مرقوم ہے۔ ہلاکت ہے روز قیامت جھٹلانے والوں کے لیے۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الله بْنُ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنَا مَوْلاكَ عَبْدُ الله بْنُ كَيْسَانَ قَالَ أَمَّا النَّسَبُ فَأَعْرِفُهُ وَأَمَّا أَنْتَ فَلَسْتُ أَعْرِفُكَ قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنِّي وُلِدْتُ بِالْجَبَلِ وَنَشَأْتُ فِي أَرْضِ فَارِسَ وَإِنَّنِي أُخَالِطُ النَّاسَ فِي التِّجَارَاتِ وَغَيْرِ ذَلِكَ فَأُخَالِطُ الرَّجُلَ فَأَرَى لَهُ حُسْنَ السَّمْتِ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَكَثْرَةَ أَمَانَةٍ ثُمَّ أُفَتِّشُهُ فَأَتَبَيَّنُهُ عَنْ عَدَاوَتِكُمْ وَأُخَالِطُ الرَّجُلَ فَأَرَى مِنْهُ سُوءَ الْخُلُقِ وَقِلَّةَ أَمَانَةٍ وَزَعَارَّةً ثُمَّ أُفَتِّشُهُ فَأَتَبَيَّنُهُ عَنْ وَلايَتِكُمْ فَكَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ فَقَالَ لِي أَ مَا عَلِمْتَ يَا ابْنَ كَيْسَانَ أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَخَذَ طِينَةً مِنَ الْجَنَّةِ وَطِينَةً مِنَ النَّارِ فَخَلَطَهُمَا جَمِيعاً ثُمَّ نَزَعَ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ وَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ فَمَا رَأَيْتَ مِنْ أُولَئِكَ مِنَ الأمَانَةِ وَحُسْنِ الْخُلُقِ وَحُسْنِ السَّمْتِ فَمِمَّا مَسَّتْهُمْ مِنْ طِينَةِ الْجَنَّةِ وَهُمْ يَعُودُونَ إِلَى مَا خُلِقُوا مِنْهُ وَمَا رَأَيْتَ مِنْ هَؤُلاءِ مِنْ قِلَّةِ الأمَانَةِ وَسُوءِ الْخُلُقِ وَالزَّعَارَّةِ فَمِمَّا مَسَّتْهُمْ مِنْ طِينَةِ النَّارِ وَهُمْ يَعُودُونَ إِلَى مَا خُلِقُوا مِنْه۔

عبداللہ بن کیسان کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میں آپ کا غلام عبداللہ بن کیسان ہوں۔ فرمایا نسب تو پہچان گیا مگر تجھ سے واقف نہیں۔ میں پہاڑی علاقہ میں پیدا ہوا۔ ملک فارس میں پلا بڑھا۔ میں تجارت وغیرہ کے سلسلے میں مختلف قسم کے لوگوں سے ملتا جلتا رہتا ہوں۔ میں ایک ایسے شخص سے ملا جو اچھے عادات و اخلاق والا اور امین تھا۔ جستجو سے پتہ چلا کہ اس کے دل میں آپ کی عداوت ہے۔ پھر ایک بد خلق اور خائن سے ملا لیکن اس کو آپ کا دوست پایا، ایسا کیوں ہے۔ فرمایا اے ابن کیسان تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ مٹی جنت کی لی اور کچھ دوزخ کی۔ ان دونوں کو ملا دیا پھر ایک میں سے دوسرے کو نکالا۔ پس امانت اور حسن خلق کا سبب طینت جنت ہے کیوں کہ لوگ اسی طرح لوٹیں گے جس سے وہ پیدا کیے گئے ہیں اور جن میں قلت امانت بدخلقی اور فتہ پردازی کو دیکھا اور اثر ہے دوزخ والی طینت کا وہ اسی کی طرف بازگشت کریں گے جس سے وہ پیدا ہوئے۔

حدیث نمبر 6

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) الْمُؤْمِنُونَ مِنْ طِينَةِ الأنْبِيَاءِ قَالَ نَعَم۔

راوی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کیا مومن طینت انبیاء سے پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا ہاں۔

حدیث نمبر 7

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ (عَلَيهِ السَّلام) بَعَثَ جَبْرَئِيلَ (عَلَيهِ السَّلام) فِي أَوَّلِ سَاعَةٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَقَبَضَ بِيَمِينِهِ قَبْضَةً بَلَغَتْ قَبْضَتُهُ مِنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَأَخَذَ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ تُرْبَةً وَقَبَضَ قَبْضَةً أُخْرَى مِنَ الأرْضِ السَّابِعَةِ الْعُلْيَا إِلَى الأرْضِ السَّابِعَةِ الْقُصْوَى فَأَمَرَ الله عَزَّ وَجَلَّ كَلِمَتَهُ فَأَمْسَكَ الْقَبْضَةَ الأولَى بِيَمِينِهِ وَالْقَبْضَةَ الأخْرَى بِشِمَالِهِ فَفَلَقَ الطِّينَ فِلْقَتَيْنِ فَذَرَا مِنَ الأرْضِ ذَرْواً وَمِنَ السَّمَاوَاتِ ذَرْواً فَقَالَ لِلَّذِي بِيَمِينِهِ مِنْكَ الرُّسُلُ وَالأنْبِيَاءُ وَالأوْصِيَاءُ وَالصِّدِّيقُونَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالسُّعَدَاءُ وَمَنْ أُرِيدُ كَرَامَتَهُ فَوَجَبَ لَهُمْ مَا قَالَ كَمَا قَالَ وَقَالَ لِلَّذِي بِشِمَالِهِ مِنْكَ الْجَبَّارُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْكَافِرُونَ وَالطَّوَاغِيتُ وَمَنْ أُرِيدُ هَوَانَهُ وَشِقْوَتَهُ فَوَجَبَ لَهُمْ مَا قَالَ كَمَا قَالَ ثُمَّ إِنَّ الطِّينَتَيْنِ خُلِطَتَا جَمِيعاً وَذَلِكَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الله فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى‏ فَالْحَبُّ طِينَةُ الْمُؤْمِنِينَ الَّتِي أَلْقَى الله عَلَيْهَا مَحَبَّتَهُ وَالنَّوَى طِينَةُ الْكَافِرِينَ الَّذِينَ نَأَوْا عَنْ كُلِّ خَيْرٍ وَإِنَّمَا سُمِّيَ النَّوَى مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ نَأَى عَنْ كُلِّ خَيْرٍ وَتَبَاعَدَ عَنْهُ وَقَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ فَالْحَيُّ الْمُؤْمِنُ الَّذِي تَخْرُجُ طِينَتُهُ مِنْ طِينَةِ الْكَافِرِ وَالْمَيِّتُ الَّذِي يَخْرُجُ مِنَ الْحَيِّ هُوَ الْكَافِرُ الَّذِي يَخْرُجُ مِنْ طِينَةِ الْمُؤْمِنِ فَالْحَيُّ الْمُؤْمِنُ وَالْمَيِّتُ الْكَافِرُ وَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ أَ وَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ فَكَانَ مَوْتُهُ اخْتِلاطَ طِينَتِهِ مَعَ طِينَةِ الْكَافِرِ وَكَانَ حَيَاتُهُ حِينَ فَرَّقَ الله عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَهُمَا بِكَلِمَتِهِ كَذَلِكَ يُخْرِجُ الله عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنَ فِي الْمِيلادِ مِنَ الظُّلْمَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ فِيهَا إِلَى النُّورِ وَيُخْرِجُ الْكَافِرَ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلْمَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ إِلَى النُّورِ وَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ لِيُنْذِرَ مَنْ كانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرِين۔

راوی کہتا ہے فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے خدا نے جب آدم کو خلق کرنے کا ارادہ فرمایا تو روز اول کی ساعت میں بھیجا۔ انھوں نے اپنی داہنی مٹھی میں ساتویں آسمان سے لے کر آسمان دنیا تک کی خاک لے لی اور پھر بائیں ہاتھ میں زمین کے ساتوں طبقات کی مٹی لے لی۔ پھر اللہ نے اپنے کلمہ کو حکم دیا اس نے پہلے قبضہ کو داہنے ہاتھ میں لیا اور دوسرے قبضہ کو بائیں ہاتھ میں۔ پس خدا نے اس مٹی کو دو حصوں میں کر دیا اور بکھیر دیا زمین والی مٹی کو جو بائیں ہاتھ میں تھی اور آسمانوں والی مٹی کو جو داہنے ہاتھ میں تھی اور اس سے کہا۔ تجھ سے رسول، نبی، وصی، صدیق، مومن اور وہ نیک لوگ پیدا ہوں گے جن کو صاحب کرامت بنانا چاہتا ہوں۔ پس ثابت اور لازم ہوا ان کے لیے جو کچھ کہا تھا یعنی وہ تمام اقسام پیدا ہوئے اور بائیں ہاتھ والی مٹی سے کہا تجھ سے جبار مشرک و کافر پیدا ہوں گے اور ایسے سرکش و نافرمان جن کی ذلت و بدبختی کا میں ارادہ کروں گا۔ پس وہی ہوا جو اللہ نے کہا تھا پھر خدا نے ان دونوں طینتوں کو ملایا۔ اسی کو ظاہر کرتی ہے یہ آیت وہ دانہ اور گٹھلی کو شگافتہ کرنے والا ہے دانہ طینت مومن ہے اور گھٹلی طینت کافر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر خیر سے دور ہیں نویٰ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ نیکی سے الگ ہیں۔ خدا فرماتا ہے کہ وہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے پس زندہ وہ مومن ہے جس کی طینت، طینت کافر سے نکلتی ہے اور میت وہ ہے جو زندہ سے نکلتا ہے پس حی سے مراد مومن ہے اور میت سے مراد کافر، یہی مطلب ہے خدا کے اس قول سے جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کیا۔ اور یہ کہ اس کی موت تھی یہ کہ اس کی طینت کا اختلاط طینت کافر سے ہوا اور یہی اس کی زندگی ہے کیونکہ خدا نے ان دونوں طینتوں کے درمیان جدائی پیدا کر دی ہے اپنے کلمہ (جبرئیل) کے ذریعہ سے پس خدا مومن کو ولادت کے وقت تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے اور کافر کو نور کی طرف سے نکال کر ظلمت کی طرف لے جاتا ہے جیسا کہ سورہ یاسین میں ہے تاکہ ڈرائے عذاب سے اس کو جو زندہ تھا اور کافروں پر اللہ کا قول سچ ثابت ہوا۔