عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جُنْدَبٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ السِّمْطِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الله إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَيْراً فَأَذْنَبَ ذَنْباً أَتْبَعَهُ بِنَقِمَةٍ وَيُذَكِّرُهُ الإسْتِغْفَارَ وَإِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ شَرّاً فَأَذْنَبَ ذَنْباً أَتْبَعَهُ بِنِعْمَةٍ لِيُنْسِيَهُ الإسْتِغْفَارَ وَيَتَمَادَى بِهَا وَهُوَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ بِالنِّعَمِ عِنْدَ الْمَعَاصِي۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جب خدا کسی بندہ سے نیکی کرنا چاہتا ہے تو وہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہی کوئی مصیبت اس پر آتی ہے خدا اس کو استغفار یادد دلاتا ہے اور جب خدا کسی بندہ پر عذاب ڈالنا چاہتا ہے تو جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی خدا اس کو کوئی نعمت دیتا ہے جس سے وہ استغفار بھول جاتا ہے اور اسی گناہ پر باقی رہتا ہے خدا فرماتا ہے ہم عنقریب ان کو رفتہ رفتہ جال میں پھانس لیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا اس کی صورت یہ ہو گی کہ گناہوں کے ساتھ ہم اس کو نعمتیں دیں گے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ ابْنِ رِئَابٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ قَالَ سُئِلَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنِ الإسْتِدْرَاجِ فَقَالَ هُوَ الْعَبْدُ يُذْنِبُ الذَّنْبَ فَيُمْلَى لَهُ وَتُجَدَّدُ لَهُ عِنْدَهَا النِّعَمُ فَتُلْهِيهِ عَنِ الإسْتِغْفَارِ مِنَ الذُّنُوبِ فَهُوَ مُسْتَدْرَجٌ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے استدراج کے متعلق سوال کیا گیا۔ فرمایا اس کی صورت یہ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ لکھ لیا جاتا ہے پھر اس پر نعمتوں کی بھرمار کی جاتی ہے جس سے وہ استغفار کو بھول جاتا ہے پس وہ لاعلم رہ کر گناہوں میں پھنس جاتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ قَالَ هُوَ الْعَبْدُ يُذْنِبُ الذَّنْبَ فَتُجَدَّدُ لَهُ النِّعْمَةُ مَعَهُ تُلْهِيهِ تِلْكَ النِّعْمَةُ عَنِ الإسْتِغْفَارِ مِنْ ذَلِكَ الذَّنْبِ۔
میں نے امام ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے اللہ عزوجل کے اس قول کے بارے میں پوچھا (ترجمہ آیت: "ہم اُنہیں آہستہ آہستہ ایسی جگہ سے پکڑیں گے جہاں سے اُنہیں شعور بھی نہ ہوگا۔") تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "یہ وہ بندہ ہے جو گناہ کرتا ہے، پھر اس کے ساتھ نعمت کو تازہ کر دیا جاتا ہے (یعنی اسے مزید نعمتیں دی جاتی ہیں)، وہ نعمت اسے اُس گناہ سے استغفار (توبہ) کرنے سے غافل کر دیتی ہے۔"
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَمْ مِنْ مَغْرُورٍ بِمَا قَدْ أَنْعَمَ الله عَلَيْهِ وَكَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِسَتْرِ الله عَلَيْهِ وَكَمْ مِنْ مَفْتُونٍ بِثَنَاءِ النَّاسِ عَلَيْهِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے بہت سے لوگ خدا کی نعمتوں پر مغرور ہیں اور بہت سے اپنے گناہوں سے بے خبر ہیں جو رفتہ رفتہ ہو رہے ہیں اور اللہ ان کو چھپا رہا ہے اور بہت سے ان تعریفوں پر جو لوگ کر رہے ہیں مفتون ہیں۔