عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّمَا الدَّهْرُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ أَنْتَ فِيمَا بَيْنَهُنَّ مَضَى أَمْسِ بِمَا فِيهِ فَلا يَرْجِعُ أَبَداً فَإِنْ كُنْتَ عَمِلْتَ فِيهِ خَيْراً لَمْ تَحْزَنْ لِذَهَابِهِ وَفَرِحْتَ بِمَا اسْتَقْبَلْتَهُ مِنْهُ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ فَرَّطْتَ فِيهِ فَحَسْرَتُكَ شَدِيدَةٌ لِذَهَابِهِ وَتَفْرِيطِكَ فِيهِ وَأَنْتَ فِي يَوْمِكَ الَّذِي أَصْبَحْتَ فِيهِ مِنْ غَدٍ فِي غِرَّةٍ وَلا تَدْرِي لَعَلَّكَ لا تَبْلُغُهُ وَإِنْ بَلَغْتَهُ لَعَلَّ حَظَّكَ فِيهِ فِي التَّفْرِيطِ مِثْلُ حَظِّكَ فِي الأمْسِ الْمَاضِي عَنْكَ فَيَوْمٌ مِنَ الثَّلاثَةِ قَدْ مَضَى أَنْتَ فِيهِ مُفَرِّطٌ وَيَوْمٌ تَنْتَظِرُهُ لَسْتَ أَنْتَ مِنْهُ عَلَى يَقِينٍ مِنْ تَرْكِ التَّفْرِيطِ وَإِنَّمَا هُوَ يَوْمُكَ الَّذِي أَصْبَحْتَ فِيهِ وَقَدْ يَنْبَغِي لَكَ أَنْ عَقَلْتَ وَفَكَّرْتَ فِيمَا فَرَّطْتَ فِي الأمْسِ الْمَاضِي مِمَّا فَاتَكَ فِيهِ مِنْ حَسَنَاتٍ أَلا تَكُونَ اكْتَسَبْتَهَا وَمِنْ سَيِّئَاتٍ أَلا تَكُونَ أَقْصَرْتَ عَنْهَا وَأَنْتَ مَعَ هَذَا مَعَ اسْتِقْبَالِ غَدٍ عَلَى غَيْرِ ثِقَةٍ مِنْ أَنْ تَبْلُغَهُ وَعَلَى غَيْرِ يَقِينٍ مِنِ اكْتِسَابِ حَسَنَةٍ أَوْ مُرْتَدَعٍ عَنْ سَيِّئَةٍ مُحْبِطَةٍ فَأَنْتَ مِنْ يَوْمِكَ الَّذِي تَسْتَقْبِلُ عَلَى مِثْلِ يَوْمِكَ الَّذِي اسْتَدْبَرْتَ فَاعْمَلْ عَمَلَ رَجُلٍ لَيْسَ يَأْمُلُ مِنَ الأيَّامِ إِلا يَوْمَهُ الَّذِي أَصْبَحَ فِيهِ وَلَيْلَتَهُ فَاعْمَلْ أَوْ دَعْ وَالله الْمُعِينُ عَلَى ذَلِكَ۔
فرمایا علی بن الحسین علیہ السلام نے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تیری زندگی کے تین دن ہیں ایک وہ دن جو گزر گیا اور وہ لوٹ کر نہ آئے گا اگر تو نے اس میں عمل خیر کیا تو اس کے جانے پر رنج نہ کرنا چاہئے اور خوش ہونا چاہیےکہ جو آگے اس کا صلہ ملنے والا ہے اور اگر تو نے اس میں کوتاہی کی تو اس دن کے گزرنے پر تیری حسرت بہت زیادہ ہونی چاہیے اس کوتاہی پر جو اس میں واقع ہوئی۔ اور تو جس کل کا انتظار کر رہا ہے تو کیا جانے کہ تو اس تک پہنچے گا یا نہیں اور اگر پہنچ بھی گیا تو ممکن ہے اس میں تجھ سے ایسی ہی کوتاہی ہو جیسی گزشتہ کل میں ہوئی پس تین میں سے ایک دن تو کوتاہی میں ختم ہوا۔ رہا وہ دن جس کا تو انتظار کر رہا ہے تو اس کے متعلق تجھے کیسے یقین ہو کہ کوتاہی نہ کرے گا اور اب وہ دن رہا جس میں تو نے صبح کی تو اب تجھے غور و فکر کرنا چاہیے کہ تو نے روز گزشتہ حسنات سے کیا کھویا کیا تجھے حاصل کرنا نہیں تھا اور گناہوں سے بچنا نہیں تھا۔ اب تو آنے والی کل کا منتظر ہے حالانکہ اس پر وثوق نہیں کہ تو اس تک پہنچے گا اور نہ اس پر یقین ہے کہ نیکی حاصل ہو ہی جائے گی یا اس شخص کا سا عمل کرو جو ایام میں صرف اسی دن سے لو لگاتا ہے جس میں اس نے دن اور رات کو بسر کیا پس عمل کرو یا چھوڑو اللہ اس میں مددگار ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَاضِي (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُحَاسِبْ نَفْسَهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ فَإِنْ عَمِلَ حَسَناً اسْتَزَادَ الله وَإِنْ عَمِلَ سَيِّئاً اسْتَغْفَرَ الله مِنْهُ وَتَابَ إِلَيْهِ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہم میں سے نہیں ہے جو ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے اگر نیک عمل کیا ہے تو اللہ سے زیادتی چاہے اور اگر گناہ کیا تو اللہ سے استغفار کرے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ الْعِجْلِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَا أَبَا النُّعْمَانِ لا يَغُرَّنَّكَ النَّاسُ مِنْ نَفْسِكَ فَإِنَّ الأمْرَ يَصِلُ إِلَيْكَ دُونَهُمْ وَلا تَقْطَعْ نَهَارَكَ بِكَذَا وَكَذَا فَإِنَّ مَعَكَ مَنْ يَحْفَظُ عَلَيْكَ عَمَلَكَ وَأَحْسِنْ فَإِنِّي لَمْ أَرَ شَيْئاً أَحْسَنَ دَرَكاً وَلا أَسْرَعَ طَلَباً مِنْ حَسَنَةٍ مُحْدَثَةٍ لِذَنْبٍ قَدِيمٍ. عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ مِثْلَهُ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اے ابو نعمان عجلی لوگ تیرے نفس کو مغرور نہ بنا دیں کیونکہ تیرے عمل کا تعلق تجھ سے ہے نہ ان سے۔ اپنا دن ادھر اُدھر کی لغو باتوں میں نہ گزار کیونکہ تیرے ساتھ وہ فرشتے ہیں جو تیرے عمل کو لکھتے ہیں اور نیکی کو کیوں کہ بلحاظ درک و طلب کوئی چیز زیادہ عجلت والی اس نیکی سے نہیں جو گناہ کہنہ کو برطرف کرنے والی ہو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ اصْبِرُوا عَلَى الدُّنْيَا فَإِنَّمَا هِيَ سَاعَةٌ فَمَا مَضَى مِنْهُ فَلا تَجِدُ لَهُ أَلَماً وَلا سُرُوراً وَمَا لَمْ يَجِئْ فَلا تَدْرِي مَا هُوَ وَإِنَّمَا هِيَ سَاعَتُكَ الَّتِي أَنْتَ فِيهَا فَاصْبِرْ فِيهَا عَلَى طَاعَةِ الله وَاصْبِرْ فِيهَا عَنْ مَعْصِيَةِ الله۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ صبر کرو دنیا کے غم پر کہ وہ ایسی ساعت کی مانند ہے کہ جس کے گزرنے والے پر نہ الم رہے گا نہ سرور اور جو گھڑی ابھی نہیں آئی تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے تمہاری تو گھڑی وہ ہے جس پر تم ہو۔ پس اس میں صبر کرو طاعت اللہ پر اور صبر کرو معصیت اللہ پر۔
عَنْهُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) احْمِلْ نَفْسَكَ لِنَفْسِكَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ لَمْ يَحْمِلْكَ غَيْرُكَ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اپنے نفس کے لیے جو کچھ کرنا ہے خود کرو تمہارے مرنے پر غیر تمہارے لیے کچھ نہ کرے گا۔
عَنْهُ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) لِرَجُلٍ إِنَّكَ قَدْ جُعِلْتَ طَبِيبَ نَفْسِكَ وَبُيِّنَ لَكَ الدَّاءُ وَعُرِّفْتَ آيَةَ الصِّحَّةِ وَدُلِلْتَ عَلَى الدَّوَاءِ فَانْظُرْ كَيْفَ قِيَامُكَ عَلَى نَفْسِكَ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص سے کہ تو اپنے نفس کے طبیب کی طرف پہنچایا گیا اور اس نے تجھ سے تیرا درد (معصیت) ظاہر کیا اور صحت کی علامت اور دوا بھی (گناہوں سے اجتناب) بتا دی پس اب غور کر تجھے اپنے نفس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔
عَنْهُ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) لِرَجُلٍ اجْعَلْ قَلْبَكَ قَرِيناً بَرّاً أَوْ وَلَداً وَاصِلاً وَاجْعَلْ عَمَلَكَ وَالِداً تَتَّبِعُهُ وَاجْعَلْ نَفْسَكَ عَدُوّاً تُجَاهِدُهَا وَاجْعَلْ مَالَكَ عَارِيَّةً تَرُدُّهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص سے کہ اپنے دل کو احسان کرنے والے بھائی اور مہربان بیٹے کی طرح بناؤ اور اپنے عمل کو باپ جیسا بناؤ جس کی پیروی کرتے ہو اور اپنے نفس کو اپنا دشمن جانو، جس سے جہاد کرو اور اپنے مال کو عاریتی جانو جس کو رد کیا جائے گا۔
وَعَنْهُ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) اقْصُرْ نَفْسَكَ عَمَّا يَضُرُّهَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تُفَارِقَكَ وَاسْعَ فِي فَكَاكِهَا كَمَا تَسْعَى فِي طَلَبِ مَعِيشَتِكَ فَإِنَّ نَفْسَكَ رَهِينَةٌ بِعَمَلِك۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقصان رساں عمل سے اپنے نفس کو بچاؤ اس سے پہلے کہ تم سے جدا ہو جاؤ اور اس کی آزادی کے لیے ایسی ہی کوشش کرو جیسے روزی کے لیے کرتے ہو تمہارا نفس تمہارے عمل کا رہین ہے۔
عَنْهُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كَمْ مِنْ طَالِبٍ لِلدُّنْيَا لَمْ يُدْرِكْهَا وَمُدْرِكٍ لَهَا قَدْ فَارَقَهَا فَلا يَشْغَلَنَّكَ طَلَبُهَا عَنْ عَمَلِكَ وَالْتَمِسْهَا مِنْ مُعْطِيهَا وَمَالِكِهَا فَكَمْ مِنْ حَرِيصٍ عَلَى الدُّنْيَا قَدْ صَرَعَتْهُ وَاشْتَغَلَ بِمَا أَدْرَكَ مِنْهَا عَنْ طَلَبِ آخِرَتِهِ حَتَّى فَنِيَ عُمُرُهُ وَأَدْرَكَهُ أَجَلُهُ. وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) الْمَسْجُونُ مَنْ سَجَنَتْهُ دُنْيَاهُ عَنْ آخِرَتِهِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جس نے دنیا کو طلب کیا اس نے اس کو نہ پایا اور اس کو پانے کے مقام سے جدا ہو گیا۔ پس اس کی طلب تم کو عمل خیر سے بے پرواہ نہ کر دے اور دنیا کو مانگو اس کے عطا کرنے والے اور مالک سے۔ بہت سے دنیا کے حریص ایسے ہیں کہ اس نے ان کو پچھاڑ دیا ہے اور طلب آخرت سے بے پرواہ کر دیا ہے یہاں تک کہ ان کی عمر ختم ہو گئی اور موت نے ان کو پا لیا۔ فرمایا حضرت نے قیدی درحقیقت وہ ہے جسے دنیا نے آخرت سے جدا کر کے قید کر لیا ہو۔
وَعَنْهُ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ إِذَا أَتَتْ عَلَى الرَّجُلِ أَرْبَعُونَ سَنَةً قِيلَ لَهُ خُذْ حِذْرَكَ فَإِنَّكَ غَيْرُ مَعْذُورٍ وَلَيْسَ ابْنُ الأرْبَعِينَ بِأَحَقَّ بِالْحِذْرِ مِنِ ابْنِ الْعِشْرِينَ فَإِنَّ الَّذِي يَطْلُبُهُمَا وَاحِدٌ وَلَيْسَ بِرَاقِدٍ فَاعْمَلْ لِمَا أَمَامَكَ مِنَ الْهَوْلِ وَدَعْ عَنْكَ فُضُولَ الْقَوْلِ۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے احتیاط سے کام کر تو معذور نہیں اور یہ بات نہیں کہ بیس سال والے سے چالیس سال والا زیادہ احتیاط کرے کیونکہ موت جو ان دونوں کے گھات میں ہے وہ دونوں کے لیے یکساں ہے پس عمل کرو یہ خیال کرتے ہوئے کہ موت سامنے ہے اور فضول باتوں کو چھوڑو۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ حَسَّانَ عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) خُذْ لِنَفْسِكَ مِنْ نَفْسِكَ خُذْ مِنْهَا فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ وَفِي الْقُوَّةِ قَبْلَ الضَّعْفِ وَفِي الْحَيَاةِ قَبْلَ الْمَمَاتِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اپنے لیے اپنے نفس سے کچھ فائدہ حاصل کرو بیماری سے پہلے صحت میں ضعیف ہونے سے پہلے قوت میں اور موت سے پہلے زندگی میں۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ النَّهَارَ إِذَا جَاءَ قَالَ يَا ابْنَ آدَمَ اعْمَلْ فِي يَوْمِكَ هَذَا خَيْراً أَشْهَدْ لَكَ بِهِ عِنْدَ رَبِّكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَإِنِّي لَمْ آتِكَ فِيمَا مَضَى وَلا آتِيكَ فِيمَا بَقِيَ وَإِذَا جَاءَ اللَّيْلُ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے دن جب آتا ہے تو وہ کہتا ہے اے ابن آدم آج عملِ خیر کر اس لیے کہ میں گواہی دوں گا تیرے رب کے سامنے روز قیامت میں جو دن گزر گیا اس کے لیے تیرے پاس نہیں آیا اور نہ جو آنے والا ہے اس کے لیے یعنی جو عمل خیر کرنا ہے وہ آج ہی کر گزشتہ و آئندہ کا خیال چھوڑ دے۔ رات جب آتی ہے تو وہ بھی اسی طرح کہتی ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ رَفَعَهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْصِنِي بِوَجْهٍ مِنْ وُجُوهِ الْبِرِّ أَنْجُو بِهِ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) أَيُّهَا السَّائِلُ اسْتَمِعْ ثُمَّ اسْتَفْهِمْ ثُمَّ اسْتَيْقِنْ ثُمَّ اسْتَعْمِلْ وَاعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ ثَلاثَةٌ زَاهِدٌ وَصَابِرٌ وَرَاغِبٌ فَأَمَّا الزَّاهِدُ فَقَدْ خَرَجَتِ الأحْزَانُ وَالأفْرَاحُ مِنْ قَلْبِهِ فَلا يَفْرَحُ بِشَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا وَلا يَأْسَى عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا فَاتَهُ فَهُوَ مُسْتَرِيحٌ وَأَمَّا الصَّابِرُ فَإِنَّهُ يَتَمَنَّاهَا بِقَلْبِهِ فَإِذَا نَالَ مِنْهَا أَلْجَمَ نَفْسَهُ عَنْهَا لِسُوءِ عَاقِبَتِهَا وَشَنَآنِهَا لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَى قَلْبِهِ عَجِبْتَ مِنْ عِفَّتِهِ وَتَوَاضُعِهِ وَحَزْمِهِ وَأَمَّا الرَّاغِبُ فَلا يُبَالِي مِنْ أَيْنَ جَاءَتْهُ الدُّنْيَا مِنْ حِلِّهَا أَوْ مِنْ حَرَامِهَا وَلا يُبَالِي مَا دَنَّسَ فِيهَا عِرْضَهُ وَأَهْلَكَ نَفْسَهُ وَأَذْهَبَ مُرُوءَتَهُ فَهُمْ فِي غَمْرَةٍ يَضْطَرِبُونَ۔
ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا اے امیر المومنین مجھے کوئی نصیحت کیجیے تاکہ وہ میرے لیے باعث نجات ہو۔ حضرت نے فرمایا اے سائل کان لگا کر سن ، سمجھ پھر یقین کر پھر عمل کر اور جان لے کہ لوگ تین قسم کے ہیں زاہد، صابر، راغب۔ زاہد کے دل سے غم و خوشی نکل جاتی ہے وہ نہ دنیا کی کسی چیز سے خوش ہوتا ہے اور نہ اس کے نہ ملنے سے مایوس و رنجیدہ ہوتا ہے ، آرام سے رہتا ہے۔ اور صابر وہ ہے جو دل سے کسی شے کی تمنا کرتا ہے اور جب اسے پا لیتا ہے تو اپنے نفس کو اس سے روکتا ہے تاکہ عاقبت برباد نہ ہو اور اسے عیب نہ لگے اگر تم اس کے دل حالت پر اطلاع پا لو تو تم کو اس کی پاک دامنی، تواضع اور دانائی پر تعجب ہو گا۔ اور راغب وہ ہے جو حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتا اور اسکا کچھ خیال نہیں کرتا کہ اس کہ اس کی آبرو جاتی رہے گی اور نفس ہلاکت میں پڑ جائے گا اور مروت برباد ہو جائے گی اور وہ ضلالت کی تاریکی میں مضطرب ہو گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لا يَصْغَرُ مَا يَنْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا يَصْغَرُ مَا يَضُرُّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَكُونُوا فِيمَا أَخْبَرَكُمُ الله عَزَّ وَجَلَّ كَمَنْ عَايَنَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ جو چیز روز قیامت نفع دے اسے حقیر نہ سمجھو اور جو روز قیامت نقصان دے اسے بھی حقیر نہ سمجھو ۔ جو خبریں تمہیں اللہ نے دی ہیں تم ان کو ایسا سمجھو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله يَقُولُ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ لا تُعْرَفَ فَافْعَلْ وَمَا عَلَيْكَ أَلا يُثْنِيَ عَلَيْكَ النَّاسُ وَمَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ مَذْمُوماً عِنْدَ النَّاسِ إِذَا كُنْتَ مَحْمُوداً عِنْدَ الله ثُمَّ قَالَ قَالَ أَبِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيهِ السَّلام) لا خَيْرَ فِي الْعَيْشِ إِلا لِرَجُلَيْنِ رَجُلٍ يَزْدَادُ كُلَّ يَوْمٍ خَيْراً وَرَجُلٍ يَتَدَارَكُ مَنِيَّتَهُ بِالتَّوْبَةِ وَأَنَّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ وَالله لَوْ سَجَدَ حَتَّى يَنْقَطِعَ عُنُقُهُ مَا قَبِلَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْهُ إِلا بِوَلايَتِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَلا وَمَنْ عَرَفَ حَقَّنَا وَرَجَا الثَّوَابَ فِينَا وَرَضِيَ بِقُوتِهِ نِصْفِ مُدٍّ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَمَا سَتَرَ عَوْرَتَهُ وَمَا أَكَنَّ رَأْسَهُ وَهُمْ وَالله فِي ذَلِكَ خَائِفُونَ وَجِلُونَ وَدُّوا أَنَّهُ حَظُّهُمْ مِنَ الدُّنْيَا وَكَذَلِكَ وَصَفَهُمُ الله عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ ما آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلى رَبِّهِمْ راجِعُونَ ثُمَّ قَالَ مَا الَّذِي آتَوْا آتَوْا وَالله مَعَ الطَّاعَةِ الْمَحَبَّةَ وَالْوَلايَةَ وَهُمْ فِي ذَلِكَ خَائِفُونَ لَيْسَ خَوْفُهُمْ خَوْفَ شَكٍّ وَلَكِنَّهُمْ خَافُوا أَنْ يَكُونُوا مُقَصِّرِينَ فِي مَحَبَّتِنَا وَطَاعَتِنَا۔
فرمایا صادق آل محمد نے اگر تو لوگوں میں نہ پہچانا جائے تو عمل نیک کیے جا بغیر اس کی پرواہ کیے ہوئے کہ لوگ تیری تعریف نہیں کرتے اور اس کی بھی پرواہ نہ کر کہ لوگ تیری مذمت کرتے ہیں جب کہ خدا کے نزدیک تو تعریف کیا ہوا ہو۔ اور میرے جد حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا نہیں ہے بہتری عیش میں مگر دو آدمیوں کے لیے۔ ایک وہ جو ہر روز اپنی نیکی کو بڑھاتا ہے اور دوسرے وہ جو اپنی موت سے پہلے توبہ کرتا ہے اور کہاں ہے اسکے لیے توبہ واللہ سجدہ کرتے کرتے بھی مر جائے تو خدا اس کی توبہ قبول نہ کرے گا جب تک ہم اہل بیت کی ولایت کا اقرار نہ کرے جس نے ہمارا حق پہچانا اور راضی ہوا بقدر نصف مد غذا پر اور بقدر ستر عورت لباس اور سر پر سایہ کے بقدر اور یہ وہ لوگ ہیں جو خائف و ترساں ہیں اور اس کو دوست رکھتے ہیں کہ خدا سے بس ان کا یہی حصہ ہو۔ خدا نے قرآن میں ان کا وصف بیان کیا ہے کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو وہ دیتے ہیں جو انھوں نے خدا اور رسول سے پایا۔ ان کے دلوں میں خوف خدا ہوتا ہے اور وہ لوگ اللہ کی طرف بازگشت کرنے والے ہیں۔ پھر فرمایا انھوں نے دیا اور تم جانتے ہو انھوں نے کیا دیا۔ ہم اہلبیت کی اطاعت و محبت و ولایت دی اور وہ خوفزدہ رہے لیکن ان کا یہ خوف، خوفِ شک نہ تھا۔ بلکہ اس سے خائف رہے کہ ہماری محبت و ولایت میں کوتاہی نہ ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مِهْزَمٍ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ دَخَلَ قَوْمٌ فَوَعَظَهُمْ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلا وَقَدْ عَايَنَ الْجَنَّةَ وَمَا فِيهَا وَعَايَنَ النَّارَ وَمَا فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تُصَدِّقُونَ بِالْكِتَابِ۔
راوی کہتا ہے کہ ایک قوم امام علیہ السلام کی خدمت میں آئی۔ آپ نے ان کو وعظ کیا۔ پھر فرمایا تم میں سے ہر ایک ایسا ہونا چاہے کہ وہ جنت کو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو اور دوزخ کو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اگر تم کتاب خدا کی تصدیق کرتے ہو تو ایسے بنو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ لا تَسْتَكْثِرُوا كَثِيرَ الْخَيْرِ وَتَسْتَقِلُّوا قَلِيلَ الذُّنُوبِ فَإِنَّ قَلِيلَ الذُّنُوبِ يَجْتَمِعُ حَتَّى يَصِيرَ كَثِيراً وَخَافُوا الله فِي السِّرِّ حَتَّى تُعْطُوا مِنْ أَنْفُسِكُمُ النَّصَفَ وَسَارِعُوا إِلَى طَاعَةِ الله وَاصْدُقُوا الْحَدِيثَ وَأَدُّوا الأمَانَةَ فَإِنَّمَا ذَلِكَ لَكُمْ وَلا تَدْخُلُوا فِيمَا لا يَحِلُّ لَكُمْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ عَلَيْكُمْ۔
فرمایا حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے زیادہ نیکی کو بھی زیادہ نہ سمجھو اور کم گناہوں کو کم نہ جانو کیونکہ تھوڑے تھوڑے گناہ جمع ہو کر بہت سے ہو جاتے ہیں اور اللہ سے خفیہ طور پر ڈرو تاکہ تمہارے نفسوں کے ساتھ انصاف کرے اور اطاعت خدا کی طرف جلدی کرو اور ہماری حدیث کو سچا جانو امانتوں کو ادا کرو اس میں تمہارا فائدہ ہے اور جو امر تمہارے لیے حلال نہیں ہے اسے نہ کرو کہ اس میں تمہارا نقصان ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مَا أَحْسَنَ الْحَسَنَاتِ بَعْدَ السَّيِّئَاتِ وَمَا أَقْبَحَ السَّيِّئَاتِ بَعْدَ الْحَسَنَاتِ۔
محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا برائیوں کے بعد نیکیاں کس قدر حسین ہیں اور نیکیوں کے بعد برائیاں کس قدر قبیح ہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّكُمْ فِي آجَالٍ مَقْبُوضَةٍ وَأَيَّامٍ مَعْدُودَةٍ وَالْمَوْتُ يَأْتِي بَغْتَةً مَنْ يَزْرَعْ خَيْراً يَحْصُدْ غِبْطَةً وَمَنْ يَزْرَعْ شَرّاً يَحْصِدْ نَدَامَةً وَلِكُلِّ زَارِعٍ مَا زَرَعَ وَلا يَسْبِقُ الْبَطِيءَ مِنْكُمْ حَظُّهُ وَلا يُدْرِكُ حَرِيصٌ مَا لَمْ يُقَدَّرْ لَهُ مَنْ أُعْطِيَ خَيْراً فَالله أَعْطَاهُ وَمَنْ وُقِيَ شَرّاً فَالله وَقَاهُ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ تمہاری عمریں قبضہ میں آ چکی ہیں اور تمہاری زندگی کے دن شمار ہو چکے ہیں۔ موت اچانک آتی ہے جس نے نیکی بوئی ہے وہ غبط کاٹے گا اور جس نے بدی کا بیج بویا ہے وہ ندامت کاٹے گا ہر بونے والا جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے سست رفتار آدمی اپنے حصہ میں سبقت نہیں لے جاتا جس کو دولت ملی ہے وہ اسے اللہ نے دی ہے اور جو شر سے بچا تو اللہ نے اسے بچایا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ فَقَالَ لأنَّكُمْ عَمَرْتُمُ الدُّنْيَا وَأَخْرَبْتُمُ الآخِرَةَ فَتَكْرَهُونَ أَنْ تُنْقَلُوا مِنْ عُمْرَانٍ إِلَى خَرَابٍ فَقَالَ لَهُ فَكَيْفَ تَرَى قُدُومَنَا عَلَى الله فَقَالَ أَمَّا الْمُحْسِنُ مِنْكُمْ فَكَالْغَائِبِ يَقْدَمُ عَلَى أَهْلِهِ وَأَمَّا الْمُسِيءُ مِنْكُمْ فَكَالآبِقِ يُرَدُّ عَلَى مَوْلاهُ قَالَ فَكَيْفَ تَرَى حَالَنَا عِنْدَ الله قَالَ اعْرِضُوا أَعْمَالَكُمْ عَلَى الْكِتَابِ إِنَّ الله يَقُولُ إِنَّ الأبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ فَأَيْنَ رَحْمَةُ الله قَالَ رَحْمَةُ الله قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) وَكَتَبَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ يَا أَبَا ذَرٍّ أَطْرِفْنِي بِشَيْءٍ مِنَ الْعِلْمِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنَّ الْعِلْمَ كَثِيرٌ وَلَكِنْ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ لا تُسِيءَ إِلَى مَنْ تُحِبُّهُ فَافْعَلْ قَالَ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ وَهَلْ رَأَيْتَ أَحَداً يُسِيءُ إِلَى مَنْ يُحِبُّهُ فَقَالَ لَهُ نَعَمْ نَفْسُكَ أَحَبُّ الأنْفُسِ إِلَيْكَ فَإِذَا أَنْتَ عَصَيْتَ الله فَقَدْ أَسَأْتَ إِلَيْهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا ایسا کیوں ہے کہ ہم موت کو برا سمجھتے ہیں۔ فرمایا تم نے دنیا کو آباد سمجھا ہے اور آخرت کو خراب۔ پس تم آباد سے خراب کی طرف جانا برا سمجھتے ہو۔ اس نے کہا تم خدا کے سامنے ہمارا آنا کیسا سمجھتے ہو۔ فرمایا جو تم میں نیک ہیں وہ ایسے جائیں گے جیسے مسافر اپنے گھر کی طرف اور جو گنہگار ہیں وہ اس طرح جائیں گے جیسے بھاگا ہوا غلام اپنے آقا کے سامنے آتا ہے۔ اس نے کہا یہ فرمائیے کہ خدا کے سامنے ہمارا حال کیا ہو گا۔ فرمایا اپنے اعمال کتاب خدا میں پیش کرو وہ فرماتا ہے نیک لوگ جنت کی نعمتوں میں ہوں گے اور بدکار دوزخ میں اس نے کہا رحمت خدا کہاں ہے۔ فرمایا احسان کرنے والوں کے قریب ہے۔ فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو لکھا مجھے کچھ علم دیجیے۔ فرمایا علم تو بہت کچھ ہے اگر تو اس پر قادر ہے تو جسے تو سب سے زیادہ دوست رکھتا ہے اس کے ساتھ برائی نہ کرے تو ایسا کر اس نےکہا کوئی ایسا ہے جو اپنے دوست سے برائی کرے۔ فرمایا ہاں تیرا نفس تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے جب تو نے خدا کی نافرمانی کی تو تو نے اپنے نفس سے برائی کی۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ اصْبِرُوا عَلَى طَاعَةِ الله وَتَصَبَّرُوا عَنْ مَعْصِيَةِ الله فَإِنَّمَا الدُّنْيَا سَاعَةٌ فَمَا مَضَى فَلَيْسَ تَجِدُ لَهُ سُرُوراً وَلا حُزْناً وَمَا لَمْ يَأْتِ فَلَيْسَ تَعْرِفُهُ فَاصْبِرْ عَلَى تِلْكَ السَّاعَةِ الَّتِي أَنْتَ فِيهَا فَكَأَنَّكَ قَدِ اغْتَبَطْتَ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اطاعت خدا میں مشقت برداشت کرو اور ترک معصیت میں اسے زیادہ تکلیف اٹھاؤ کیونکہ اطاعت سے زیادہ ترک معصیت میں تکلیف ہوتی ہے دنیا ایک ساعت کے برابر ہے جو گزر چکا اس کی خوشی اور غم ختم اور جو آنے والا ہے اس کے متعلق تمہیں خبر نہیں۔ پس جس حال میں ہو اس پر قناعت کرو گویا تم قابل غبط ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) يَا مُوسَى إِنَّ أَصْلَحَ يَوْمَيْكَ الَّذِي هُوَ أَمَامَكَ فَانْظُرْ أَيُّ يَوْمٍ هُوَ وَأَعِدَّ لَهُ الْجَوَابَ فَإِنَّكَ مَوْقُوفٌ وَمَسْئُولٌ وَخُذْ مَوْعِظَتَكَ مِنَ الدَّهْرِ فَإِنَّ الدَّهْرَ طَوِيلٌ قَصِيرٌ فَاعْمَلْ كَأَنَّكَ تَرَى ثَوَابَ عَمَلِكَ لِيَكُونَ أَطْمَعَ لَكَ فِي الآخِرَةِ فَإِنَّ مَا هُوَ آتٍ مِنَ الدُّنْيَا كَمَا هُوَ قَدْ وَلَّى مِنْهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خضر نے موسیٰ سے کہا تمہارے دو ایام میں بہتر وہ ہے جو تمہارے سامنے ہے پس غور کرو وہ کون سا دن ہے اس کے جواب کے لیے تیار ہو جاؤ کیونکہ ایک دن تم پیش خدا کھڑے ہو گے اور تم سے سوال کیا جائے گا۔ دنیا سے نصیحت حاصل کرو زمانہ طویل ہے اور کوتاہ بھی۔ عمل کرو یہ سمجھ کر گویا تم اپنے عمل کا ثواب دیکھ رہے ہو تاکہ آخرت کی تمہیں طمع ہو دنیا میں جو وقت آنے والا ہے وہ ایسا ہے جیسے اس سے روگردانی کرنے والا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قِيلَ لأمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) عِظْنَا وَأَوْجِزْ فَقَالَ الدُّنْيَا حَلالُهَا حِسَابٌ وَحَرَامُهَا عِقَابٌ وَأَنَّى لَكُمْ بِالرَّوْحِ وَلَمَّا تَأَسَّوْا بِسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ تَطْلُبُونَ مَا يُطْغِيكُمْ وَلا تَرْضَوْنَ مَا يَكْفِيكُمْ۔
کسی نے امیر المومنین علیہ السلام سے کہا ہمیں نصیحت کیجیے مگر مختصر۔ فرمایا دنیا کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب اور تمہارے لیے دنیا میں راحت کیسے ہو سکتی ہے جبکہ تم نے سنت نبی کی تاسی نہیں کی۔ تم وہ طلب کرتے ہو جس سے تم سرکش بنو اور تم راضی نہیں ہوتے اس چیز پر جو تمہیں کفایت کرے۔