مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّ بَعْضَ قُرَيْشٍ قَالَ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) بِأَيِّ شَيْءٍ سَبَقْتَ الأنْبِيَاءَ وَأَنْتَ بُعِثْتَ آخِرَهُمْ وَخَاتَمَهُمْ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِرَبِّي وَأَوَّلَ مَنْ أَجَابَ حَيْثُ أَخَذَ الله مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ نَبِيٍّ قَالَ بَلَى فَسَبَقْتُهُمْ بِالإقْرَارِ بِالله عَزَّ وَجَلَّ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قریش کے کچھ لوگوں نے حضرت رسولِ خدا سے کہا کس وجہ سے آپ نے انبیاء پر سبقت حاصل کی حالانکہ آپ سب سے آخری نبی ہیں۔ فرمایا میں سب سے پہلے اپنے رب پر ایمان لایا اور جب خدا نے نبیوں سے میثاق لیا اور ان کے نفسوں پر ان کو گواہ بنایا اور کہا کیا تمہارا رب نہیں۔ پس سب سے پہلے بلیٰ کہنے والا میں تھا میں نے سب انبیاء پر اقرار باللہ میں سبقت کی۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي لأرَى بَعْضَ أَصْحَابِنَا يَعْتَرِيهِ النَّزَقُ وَالْحِدَّةُ وَالطَّيْشُ فَأَغْتَمُّ لِذَلِكَ غَمّاً شَدِيداً وَأَرَى مَنْ خَالَفَنَا فَأَرَاهُ حَسَنَ السَّمْتِ قَالَ لا تَقُلْ حَسَنَ السَّمْتِ فَإِنَّ السَّمْتَ سَمْتُ الطَّرِيقِ وَلَكِنْ قُلْ حَسَنَ السِّيمَاءِ فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ قَالَ قُلْتُ فَأَرَاهُ حَسَنَ السِّيمَاءِ وَلَهُ وَقَارٌ فَأَغْتَمُّ لِذَلِكَ قَالَ لا تَغْتَمَّ لِمَا رَأَيْتَ مِنْ نَزَقِ أَصْحَابِكَ وَلِمَا رَأَيْتَ مِنْ حُسْنِ سِيمَاءِ مَنْ خَالَفَكَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ خَلَقَ تِلْكَ الطِّينَتَيْنِ ثُمَّ فَرَّقَهُمَا فِرْقَتَيْنِ فَقَالَ لأصْحَابِ الْيَمِينِ كُونُوا خَلْقاً بِإِذْنِي فَكَانُوا خَلْقاً بِمَنْزِلَةِ الذَّرِّ يَسْعَى وَقَالَ لأهْلِ الشِّمَالِ كُونُوا خَلْقاً بِإِذْنِي فَكَانُوا خَلْقاً بِمَنْزِلَةِ الذَّرِّ يَدْرُجُ ثُمَّ رَفَعَ لَهُمْ نَاراً فَقَالَ ادْخُلُوهَا بِإِذْنِي فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَهَا مُحَمَّدٌ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) ثُمَّ اتَّبَعَهُ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَأَوْصِيَاؤُهُمْ وَأَتْبَاعُهُمْ ثُمَّ قَالَ لأصْحَابِ الشِّمَالِ ادْخُلُوهَا بِإِذْنِي فَقَالُوا رَبَّنَا خَلَقْتَنَا لِتُحْرِقَنَا فَعَصَوْا فَقَالَ لأصْحَابِ الْيَمِينِ اخْرُجُوا بِإِذْنِي مِنَ النَّارِ لَمْ تَكْلِمِ النَّارُ مِنْهُمْ كَلْماً وَلَمْ تُؤَثِّرْ فِيهِمْ أَثَراً فَلَمَّا رَآهُمْ أَصْحَابُ الشِّمَالِ قَالُوا رَبَّنَا نَرَى أَصْحَابَنَا قَدْ سَلِمُوا فَأَقِلْنَا وَمُرْنَا بِالدُّخُولِ قَالَ قَدْ أَقَلْتُكُمْ فَادْخُلُوهَا فَلَمَّا دَنَوْا وَأَصَابَهُمُ الْوَهَجُ رَجَعُوا فَقَالُوا يَا رَبَّنَا لا صَبْرَ لَنَا عَلَى الإحْتِرَاقِ فَعَصَوْا فَأَمَرَهُمْ بِالدُّخُولِ ثَلاثاً كُلَّ ذَلِكَ يَعْصُونَ وَيَرْجِعُونَ وَأَمَرَ أُولَئِكَ ثَلاثاً كُلَّ ذَلِكَ يُطِيعُونَ وَيَخْرُجُونَ فَقَالَ لَهُمْ كُونُوا طِيناً بِإِذْنِي فَخَلَقَ مِنْهُ آدَمَ قَالَ فَمَنْ كَانَ مِنْ هَؤُلاءِ لا يَكُونُ مِنْ هَؤُلاءِ وَمَنْ كَانَ مِنْ هَؤُلاءِ لا يَكُونُ مِنْ هَؤُلاءِ وَمَا رَأَيْتَ مِنْ نَزَقِ أَصْحَابِكَ وَخُلُقِهِمْ فَمِمَّا أَصَابَهُمْ مِنْ لَطْخِ أَصْحَابِ الشِّمَالِ وَمَا رَأَيْتَ مِنْ حُسْنِ سِيمَاءِ مَنْ خَالَفَكُمْ وَوَقَارِهِمْ فَمِمَّا أَصَابَهُمْ مِنْ لَطْخِ أَصْحَابِ الْيَمِينِ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا میں آپ پر فدا ہوں اپنے بعض اصحاب کو دیکھتا ہوں کہ ان کو سبکی، تندی اور سفاہت عارض ہوتی ہے ان کے اس کردار سے مجھے رنج ہوتا ہے اور جب اپنے مخالف کو دیکھتا ہوں تو اس کو خوش راہ پاتا ہوں آپ نے فرمایا خوش راہ نہ کہو اچھی راہ تو ہمارا ہی راستہ بلکہ کہو اچھی صورت، خدا فرماتا ہے ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر کا حسن ہے۔ میں نے کہا میں نے اس میں حسن سیما دیکھا اور وقار پایا۔ پس میں یہ دیکھ کر رنجیدہ ہوا کہ میرے اصحاب میں تو ذلت اور سبکی ہے اور ہمارے شیعوں میں سکینہ اور وقار ہے۔ فرمایا اپنے اصحاب کی اس حالت سے رنجیدہ نہ ہو۔ جب اللہ نے آدم کو پیدا کرنا چاہا تو دو قسم کی مٹی پیدا کی اور اس سے دو گروہ بنائے داہنی طرف والوں سے کہا کہ تم چلتی چیونٹیوں کی ایک مخلوق بن جاؤ اور بائیں طرف والوں سے کہا میرے حکم سے تم ایک مخلوق بن جاؤ جو چلتے پھرتے مورچوں کی طرح ہو۔ وہ ہو گئے۔ پھر ان کے امتحان کے لیے آگ بھڑکائی اور فرمایا میرے حکم سے تم اس میں داخل ہو جاؤ پس سب سے پہلے اس میں محمد داخل ہوئے پھر آپ کے پیچھے اولوالعزم رسول اور ان کے اوصیاء اور تابعین داخل ہوئے پھر اصحاب شمال سے فرمایا میرے حکم سے تم بھی داخل ہو انھوں نے کہا اے ہمارے پالنے والے کیا تو نے ہم کو جلانے کے لیے پیدا کیا ہے انھوں نے نافرمانی کی۔ خدا نے اصحاب یمین سے کہا میرے حکم سے آگے سے باہر نکل آؤ۔ آگ نے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی اور نہ کوئی آگے سے جلنے کا اثر تھا۔ جب اصحاب شمال نے انہیں صحیح و سالم دیکھا تو کہنے لگے پروردگار ہم اپنے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ صحیح و سالم ہیں پس ہماری نافرمانی سے درگذر کر کے دوبارہ پھر داخلے کا حکم دے۔ فرمایا اچھا میں نے درگذر کی اب داخل ہو جاؤ۔ جب وہ آگ کے قریب گئے تو لپٹ لگی اور لوٹ پڑے اور کہنے لگے پروردگارا ہم جلنے پر صبر نہیں کر سکتے پس دوسری بار نافرمانی کی۔ خدا نے تیسری بار پھر داخلہ کا حکم دیا سب نے اطاعت کی اور آگ میں سے نکل آئے تب خدا نے ان سے کہا تم مٹی بن جاؤ آدم کو اسی مٹی سے پیدا کیا۔ امام نے فرمایا جو اصحاب یمین ہیں وہ اصحاب شمال سے نہ ہوں گے اور برعکس اور تم نے اپنے اصحاب میں جو کمزوری دیکھی وہ اس وجہ سے ہے کہ اصحاب شمال سے ان کی مجالست و مخالفت رہی ہے اور اپنے مخالفوں میں جو خوشنمائی اور وقار دیکھتے ہو وہ نتیجہ ہے اصحاب یمین سے ملنے جلنے کا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سُئِلَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) بِأَيِّ شَيْءٍ سَبَقْتَ وُلْدَ آدَمَ قَالَ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَقَرَّ بِرَبِّي إِنَّ الله أَخَذَ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ أَجَابَ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول اللہ سے کسی نے پوچھا آپ کو اولاد آدم پر کس وجہ سے سبقت ہوئی۔ فرمایا جب خدا نے نبیوں سے میثاق لیا اور ان کے نفسوں پر ان کو گواہ بنا کر کہا کیا میں تمہارا رب نہیں۔ سب نے کہا ہاں، میں ان میں سب سے پہلے جواب دینے والا تھا۔