مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

تواضع

(4-59)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَرْسَلَ النَّجَاشِيُّ إِلَى جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابِهِ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ وَهُوَ فِي بَيْتٍ لَهُ جَالِسٌ عَلَى التُّرَابِ وَعَلَيْهِ خُلْقَانُ الثِّيَابِ قَالَ فَقَالَ جَعْفَرٌ (عَلَيهِ السَّلام) فَأَشْفَقْنَا مِنْهُ حِينَ رَأَيْنَاهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ فَلَمَّا رَأَى مَا بِنَا وَتَغَيُّرَ وُجُوهِنَا قَالَ الْحَمْدُ لله الَّذِي نَصَرَ مُحَمَّداً وَأَقَرَّ عَيْنَهُ أَ لا أُبَشِّرُكُمْ فَقُلْتُ بَلَى أَيُّهَا الْمَلِكُ فَقَالَ إِنَّهُ جَاءَنِي السَّاعَةَ مِنْ نَحْوِ أَرْضِكُمْ عَيْنٌ مِنْ عُيُونِي هُنَاكَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ قَدْ نَصَرَ نَبِيَّهُ مُحَمَّداً (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَأَهْلَكَ عَدُوَّهُ وَأُسِرَ فُلانٌ وَفُلانٌ وَفُلانٌ الْتَقَوْا بِوَادٍ يُقَالُ لَهُ بَدْرٌ كَثِيرِ الأرَاكِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَيْثُ كُنْتُ أَرْعَى لِسَيِّدِي هُنَاكَ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي ضَمْرَةَ فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ أَيُّهَا الْمَلِكُ فَمَا لِي أَرَاكَ جَالِساً عَلَى التُّرَابِ وَعَلَيْكَ هَذِهِ الْخُلْقَانُ فَقَالَ لَهُ يَا جَعْفَرُ إِنَّا نَجِدُ فِيمَا أَنْزَلَ الله عَلَى عِيسَى (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّ مِنْ حَقِّ الله عَلَى عِبَادِهِ أَنْ يُحْدِثُوا لَهُ تَوَاضُعاً عِنْدَ مَا يُحْدِثُ لَهُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَلَمَّا أَحْدَثَ الله عَزَّ وَجَلَّ لِي نِعْمَةً بِمُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَحْدَثْتُ لله هَذَا التَّوَاضُعَ فَلَمَّا بَلَغَ النَّبِيَّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ لأصْحَابِهِ إِنَّ الصَّدَقَةَ تَزِيدُ صَاحِبَهَا كَثْرَةً فَتَصَدَّقُوا يَرْحَمْكُمُ الله وَإِنَّ التَّوَاضُعَ يَزِيدُ صَاحِبَهُ رِفْعَةً فَتَوَاضَعُوا يَرْفَعْكُمُ الله وَإِنَّ الْعَفْوَ يَزِيدُ صَاحِبَهُ عِزّاً فَاعْفُوا يُعِزَّكُمُ الله۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ نجاشی بادشاہِ حبشہ نے جناب جعفر اور ان کے اصحاب کو بلا بھیجا ۔ وہ لوگ آئے تو دیکھا کہ وہ اپنے مکان میں خاک پر بیٹھا ہے اور پرانا لباس پہنے ہوئے ہے۔ جعفر کا بیان ہے کہ ہم اس کی یہ حالت دیکھ کر ڈر گئے۔ جب اس نے ہمارے چہروں کا تغیر دیکھا تو کہنے لگا حمد ہے اس خدا کا جس نے محمد کی نصرت کی اس کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ کیا میں خوشخبری سناؤں۔ میں نے کہا ضرور اے بادشاہ۔ اس نے کہا میرے پاس ابھی ابھی تمہارے ملک کی طرف سے میرا ایک جاسوس آیا ہے جو وہاں رہتا ہے اور یہ خبر لایا ہے کہ خدا نے اپنے نبی محمد کی مدد کی ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور فلاں فلاں نامور قریش قید کر لیے گئے یہ مقابلہ مقام بدر میں ہوا تھا جہاں پیلو کے درخت بکثرت ہیں۔ گویا میں اپنے کو وہاں دیکھ رہا ہوں جبکہ میں اپنے آقا کے جو بنی ضمرہ سے تھا اونٹ چراتا تھا۔ جناب جعفر نے کہا اے بادشاہ یہ تو فرمائیے کہ آپ خاک پر کیوں بیٹھے ہیں اور یہ پرانے کپڑے کیوں پہنے ہوئے ہیں۔ اس نے کہا ہم نے جناب عیسیٰ پر نازل ہوئی کتاب میں پڑھا ہے کہ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ جب کسی نعمت کے وقت بندوں سے بات کریں تو تواضع سے کریں جب خدا نے مجھے محمد جیسے نبی کی نعمت دی تو میں تواضع و انکساری سے بات کیوں نہ کروں یہ تواضع خوشنودی خدا کے لیے ہے جب حضرت رسولِ خدا کو یہ خبر ملی تو اپنے اصحاب سے یہ فرمایا صدقہ دینے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے تم صدقہ دو اللہ تم پر رحم کرے گا تواضع متواضع کی رفعت کو زیادہ کرتا ہے لہذا تواضع اختیار کرو خدا تمہارا مرتبہ بلند کرے گا اور عفو کرنا عزت کو بڑھاتا ہے پس تم عفو کرو اللہ تمہیں عزت دے گا۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ فِي السَّمَاءِ مَلَكَيْنِ مُوَكَّلَيْنِ بِالْعِبَادِ فَمَنْ تَوَاضَعَ لله رَفَعَاهُ وَمَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَاهُ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے آسمان میں دو فرشتے بندوں پر موکل ہیں جو کوئی قربۃ الی اللہ تواضع کرتا ہے اس کا رتبہ بلند کرتے ہیں اور جو تکبر کرتا ہے اسے گرا دیتے ہیں۔

حدیث نمبر 3

ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَفْطَرَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) عَشِيَّةَ خَمِيسٍ فِي مَسْجِدِ قُبَا فَقَالَ هَلْ مِنْ شَرَابٍ فَأَتَاهُ أَوْسُ بْنُ خَوَلِيٍّ الأنْصَارِيُّ بِعُسِّ مَخِيضٍ بِعَسَلٍ فَلَمَّا وَضَعَهُ عَلَى فِيهِ نَحَّاهُ ثُمَّ قَالَ شَرَابَانِ يُكْتَفَى بِأَحَدِهِمَا مِنْ صَاحِبِهِ لا أَشْرَبُهُ وَلا أُحَرِّمُهُ وَلَكِنْ أَتَوَاضَعُ لله فَإِنَّ مَنْ تَوَاضَعَ لله رَفَعَهُ الله وَمَنْ تَكَبَّرَ خَفَضَهُ الله وَمَنِ اقْتَصَدَ فِي مَعِيشَتِهِ رَزَقَهُ الله وَمَنْ بَذَّرَ حَرَمَهُ الله وَمَنْ أَكْثَرَ ذِكْرَ الْمَوْتِ أَحَبَّهُ الله ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ شب پنجشنبہ میں رسول اللہ نے مسجد قبا میں افطار صوم کیا اور فرمایا کچھ پینے کے لیے بھی ہے اوس ابن خولی انصاری دہی میں شد ملا ہوا لے آئے۔ حضرت نے منہ سے لگا کر اسے الگ کر لیا اور فرمایا دو چیزوں کی کیا ضرورت ہے جب کہ ایک ہی کافی ہے۔ میں دونوں کو نہ پیوں گا۔ میں حرام نہیں کرتا بلکہ بلحاظ تواضع خوشنودی خدا کے لیے ایسا کرتا ہوں جو تواضع پسند ہے خدا اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے اس کو ذلیل کرتا ہے اور امور معاش میں کفایت شعاری سے کام لیتا ہے اللہ اس پر رزق زیادہ کرتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ اسے رزق سے محروم رکھتا ہے اور جو ذکر موت کثرت سے کرتا ہے اللہ اس کو دوست رکھتا ہے۔

حدیث نمبر 4

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَنْ دَاوُدَ الْحَمَّارِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مِثْلَهُ وَقَالَ مَنْ أَكْثَرَ ذِكْرَ الله أَظَلَّهُ الله فِي جَنَّتِهِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جو اللہ کا ذکر اکثر کرتا ہے خدا اسے جنت کے سایہ میں رکھتا ہے۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَذْكُرُ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَلَكٌ فَقَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يُخَيِّرُكَ أَنْ تَكُونَ عَبْداً رَسُولاً مُتَوَاضِعاً أَوْ مَلِكاً رَسُولاً قَالَ فَنَظَرَ إِلَى جَبْرَئِيلَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ أَنْ تَوَاضَعْ فَقَالَ عَبْداً مُتَوَاضِعاً رَسُولاً فَقَالَ الرَّسُولُ مَعَ أَنَّهُ لا يَنْقُصُكَ مِمَّا عِنْدَ رَبِّكَ شَيْئاً قَالَ وَمَعَهُ مَفَاتِيحُ خَزَائِنِ الأرْضِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جبرئیل رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ تعالیٰ آپ سے کہتا ہے چاہے رسول متواضع ہو کر میرا بندہ ہو اور چاہے رسول رہ کر بادشاہ بنو۔ حضرت نے فرمایا جبرئیل نے میری طرف دیکھ کر فرمایا اور اشارہ کیا ہاتھ سے کہ تواضع اختیار کرو۔ حضرت نے فرمایا میں عبد متواضع کی صورت میں رسول ہوں۔ فرشتہ نے کہا آپ کے رب کے نزدیک اس صورت میں کوئی شے آپ کے مرتبہ سے کم نہ ہوئی امام نے فرمایا کہ فرشتہ کے پاس خزائن ارض کی کنجیاں تھیں (جو دینے آیا تھا)۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مِنَ التَّوَاضُعِ أَنْ تَرْضَى بِالْمَجْلِسِ دُونَ الْمَجْلِسِ وَأَنْ تُسَلِّمَ عَلَى مَنْ تَلْقَى وَأَنْ تَتْرُكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كُنْتَ مُحِقّاً وَأَنْ لا تُحِبَّ أَنْ تُحْمَدَ عَلَى التَّقْوَى۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے تواضع یہ ہے کہ کسی مجلس میں نیچے مقام پر بیٹھے اور جس سے ملے اس پر سلام کرے اور جھگڑے کو ترک کرے اگرچہ حق پر ہو اور اسے پسند نہ کرے کہ تقویٰ پر تیری تعریف کرے۔

حدیث نمبر7

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ عَمَّنْ رَوَاهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) أَنْ يَا مُوسَى أَ تَدْرِي لِمَ اصْطَفَيْتُكَ بِكَلامِي دُونَ خَلْقِي قَالَ يَا رَبِّ وَلِمَ ذَاكَ قَالَ فَأَوْحَى الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَيْهِ أَنْ يَا مُوسَى إِنِّي قَلَّبْتُ عِبَادِي ظَهْراً لِبَطْنٍ فَلَمْ أَجِدْ فِيهِمْ أَحَداً أَذَلَّ لِي نَفْساً مِنْكَ يَا مُوسَى إِنَّكَ إِذَا صَلَّيْتَ وَضَعْتَ خَدَّكَ عَلَى التُّرَابِ أَوْ قَالَ عَلَى الأرْضِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ وحی کی اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف اے موسیٰ تم جانتے ہو کہ میں نے اپنی مخلوق کو چھوڑ کر تم ہی کو اپنے کلام سے کیوں مخصوص کیا۔ انھوں نے عرض کیا مجھے بتا کہ ایسا کیوں کیا۔ خدا نے وحی کی اے موسیٰ میں نے اپنے بندوں کی خوب جانچ کی ان میں سے کسی کے نفس کو میں نے اپنے سامنے تیرے نفس سے زیادہ متواضع نہ پایا۔ جب تو نماز پڑھتا ہے تو اپنے رخسار کو خاک پر رکھتا ہے اور ایک روایت میں ہے زمین پر رکھتا ہے۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَرَّ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) عَلَى الْمُجَذَّمِينَ وَهُوَ رَاكِبٌ حِمَارَهُ وَهُمْ يَتَغَدَّوْنَ فَدَعَوْهُ إِلَى الْغَدَاءِ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ لا أَنِّي صَائِمٌ لَفَعَلْتُ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ أَمَرَ بِطَعَامٍ فَصُنِعَ وَأَمَرَ أَنْ يَتَنَوَّقُوا فِيهِ ثُمَّ دَعَاهُمْ فَتَغَدَّوْا عِنْدَهُ وَتَغَدَّى مَعَهُمْ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے حضرت علی بن الحسینؑ چند جزامیوں کی طرف سے گزرے درآنحالیکہ اپنے حمار پر سوار تھے ۔ وہ لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔ انھوں نے حضرت سے کھانے میں شرکت کی درخواست کی۔ فرمایا اگر میں روزہ سے نہ ہوتا تو ضرور تمہارے ساتھ کھاتا۔ جب وہاں سے گھر آئے تو حکم دیا کہ پرتکلف کھانا تیار کریں جب دوسرا دن ہوا تو آپ نے ان لوگوں کو ناشتہ پر بلایا اور ان کے ساتھ خود بھی کھایا۔

حدیث نمبر 9

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ مِنَ التَّوَاضُعِ أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ دُونَ شَرَفِهِ۔

فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تواضع سے ایک امر یہ بھی ہے کہ اپنے رتبہ سے پست مقام پر بیٹھے

حدیث نمبر 10

عَنْهُ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ وَمُحَسِّنِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ نَظَرَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قَدِ اشْتَرَى لِعِيَالِهِ شَيْئاً وَهُوَ يَحْمِلُهُ فَلَمَّا رَآهُ الرَّجُلُ اسْتَحْيَا مِنْهُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) اشْتَرَيْتَهُ لِعِيَالِكَ وَحَمَلْتَهُ إِلَيْهِمْ أَمَا وَالله لَوْ لا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لأحْبَبْتُ أَنْ أَشْتَرِيَ لِعِيَالِيَ الشَّيْ‏ءَ ثُمَّ أَحْمِلَهُ إِلَيْهِمْ۔

راوی کہتا ہے کہ حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مدینہ کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے عیال کے لیے کچھ سامان خریدا اور لے کر چلا جب اس نے حضرت کو دیکھا تو شرما گیا۔ حضرت نے فرمایا اے شخص یہ تو نے اپنے بال بچوں کے لیے خریدا ہے اور اسے ان کے پاس لیے جا رہا ہے خدا کی قسم اگر اہلِ مدینہ کی طعن کا خوف نہ ہوتا تو میں یہ پسند کرتا کہ اپنے بچوں کے لیے سامان خرید کر کے جاؤں۔

حدیث نمبر 11

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ فِيمَا أَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى دَاوُدَ (عَلَيهِ السَّلام) يَا دَاوُدُ كَمَا أَنَّ أَقْرَبَ النَّاسِ مِنَ الله الْمُتَوَاضِعُونَ كَذَلِكَ أَبْعَدُ النَّاسِ مِنَ الله الْمُتَكَبِّرُونَ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے خدا نے داؤد علیہ السلام کو وحی کی، اے داؤد جس طرح تواضع کرنے والے خدا سے زیادہ قریب ہیں اسی طرح تکبر کرنے والے اس سے زیادہ دور ہیں۔

حدیث نمبر 12

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي بَصِيرٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) فِي السَّنَةِ الَّتِي قُبِضَ فِيهَا أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا لَكَ ذَبَحْتَ كَبْشاً وَنَحَرَ فُلانٌ بَدَنَةً فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ نُوحاً (عَلَيهِ السَّلام) كَانَ فِي السَّفِينَةِ وَكَانَ فِيهَا مَا شَاءَ الله وَكَانَتِ السَّفِينَةُ مَأْمُورَةً فَطَافَتْ بِالْبَيْتِ وَهُوَ طَوَافُ النِّسَاءِ وَخَلَّى سَبِيلَهَا نُوحٌ (عَلَيهِ السَّلام) فَأَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى الْجِبَالِ أَنِّي وَاضِعٌ سَفِينَةَ نُوحٍ عَبْدِي عَلَى جَبَلٍ مِنْكُنَّ فَتَطَاوَلَتْ وَشَمَخَتْ وَتَوَاضَعَ الْجُودِيُّ وَهُوَ جَبَلٌ عِنْدَكُمْ فَضَرَبَتِ السَّفِينَةُ بِجُؤْجُؤِهَا الْجَبَلَ قَالَ فَقَالَ نُوحٌ (عَلَيهِ السَّلام) عِنْدَ ذَلِكَ يَا مَارِي أَتْقِنْ وَهُوَ بِالسُّرْيَانِيَّةِ يَا رَبِّ أَصْلِحْ قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) عَرَّضَ بِنَفْسِهِ۔

ابو بصیر سے مروی ہے جس سال امام جعفر صادق علیہ السلام کا انتقال ہونے والا تھا میں مقام منیٰ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں آپ پر فدا ہوں آپ نے قربانی میں مینڈھا ذبح کیا اور فلاں یعنی آپ کے بھائی عبداللہ افطح نے اونٹ نحر کیا۔ فرمایا اے ابو محمد نوح کشتی میں تھے اور اس میں جو اللہ نے چاہا وہ تھا اور کشتی محکوم امر نوح تھی۔ اس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور وہ مناسک حج کا آخری طواف نسا تھا اور خدا نے کہا میرے بندے نوح نے کشتی کو چھوڑ دیا کہ اے پہاڑو وہ تم میں سے کسی پہاڑ پر جا ٹھہرے۔ بلند پہاڑوں نے تکبر کیا اور اپنا سر فخر ازراہ تکبر ابھارا اور جودی نے جو عراق کا سب سے چھوٹا پہاڑ ہے تواضع کا اظہار کیا۔ پس نوح کی کشتی نے اپنے سینے کو اسی پہاڑ سے ٹکرایا۔ نوح نے بزبان سریانی بارگاہ الہٰی میں عرض کی۔ خداوندا مجھے غرق ہونے سے بچا لے۔ ابوبصیر کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنی امامت اور عبداللہ افطح کے غلط دعوے کی طرف اشارہ کیا۔