مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

والدین سے نیکی

(4-69)

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي وَلادٍ الْحَنَّاطِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً مَا هَذَا الإحْسَانُ فَقَالَ الإحْسَانُ أَنْ تُحْسِنَ صُحْبَتَهُمَا وَأَنْ لا تُكَلِّفَهُمَا أَنْ يَسْأَلاكَ شَيْئاً مِمَّا يَحْتَاجَانِ إِلَيْهِ وَإِنْ كَانَا مُسْتَغْنِيَيْنِ أَ لَيْسَ يَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) وَأَمَّا قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما قَالَ إِنْ أَضْجَرَاكَ فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا إِنْ ضَرَبَاكَ قَالَ وَقُلْ لَهُما قَوْلاً كَرِيماً قَالَ إِنْ ضَرَبَاكَ فَقُلْ لَهُمَا غَفَرَ الله لَكُمَا فَذَلِكَ مِنْكَ قَوْلٌ كَرِيمٌ قَالَ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ قَالَ لا تَمْلأ عَيْنَيْكَ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِمَا إِلا بِرَحْمَةٍ وَرِقَّةٍ وَلا تَرْفَعْ صَوْتَكَ فَوْقَ أَصْوَاتِهِمَا وَلا يَدَكَ فَوْقَ أَيْدِيهِمَا وَلا تَقَدَّمْ قُدَّامَهُمَا۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا اس آیت کے متعلق والدین سے احسان کرو۔ اس احسان سے کیا مراد ہے۔ فرمایا احسان سے مراد یہ ہے کہ ان سے اچھی طرح ملو اور انھیں کسی ایسی شے کے مانگنے کی تکلیف نہ دو جس کی انہیں ضرورت ہو چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا خدا نے نہیں فرمایا تم ہرگز نیکی نہ پاؤ گے جب تک اپنی محبوب چیز صرف نہ کرو، پھر حضرت نے فرمایا خدا فرماتا ہے اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو جائے یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو ان سے اف نہ کہو اور ان کو مت جھڑکو اور فرمایا کہ اگر وہ تم کو سرزنش کریں تب بھی اف نہ کرو اگر وہ تمہیں ماریں بھی تو بھی انہیں نہ جھڑکو اور ان سے بہت ادب سے بات کرو اور یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ تم کو ماریں تو ان سے کہو خدا آپ دونوں کو مغفرت کرے سب سے اچھا کلام یہی ہے اور خدا نے فرمایا ہے عاجزی کے ساتھ ان کے سامنے جھک جاؤ اور حضرت نے فرمایا ان کی طرف رحم اور نرم دلی سے دیکھو اور ان کی آواز پر اپنی آواز اونچی نہ کرو اور نہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے بلند کرو اور اپنا قدم ان سے آگے نہ بڑھاؤ۔

حدیث نمبر 2

ابْنُ مَحْبُوبٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ نَافِعٍ الْبَجَلِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ يَا رَسُولَ الله أَوْصِنِي فَقَالَ لا تُشْرِكْ بِالله شَيْئاً وَإِنْ حُرِّقْتَ بِالنَّارِ وَعُذِّبْتَ إِلا وَقَلْبُكَ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمَانِ وَوَالِدَيْكَ فَأَطِعْهُمَا وَبَرَّهُمَا حَيَّيْنِ كَانَا أَوْ مَيِّتَيْنِ وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ فَافْعَلْ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنَ الإيمَانِ۔

میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ ارشاد فرمایا اللہ کی ذات میں کسی کو شریک نہ کر چاہے تو آگ میں جلایا جائے یا سخت سردی سزا دی جائے مگر جب کہ تیرا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو اور والدین کی اطاعت کر ان سے نیکی کر چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر حکم دیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے اور اسکے مال سے دست کش ہو تو ایسا کر گزر یہ علامتِ ایمان ہے۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ سَيْفٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَيْ‏ءٌ مِثْلُ الْكُبَّةِ فَيَدْفَعُ فِي ظَهْرِ الْمُؤْمِنِ فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ فَيُقَالُ هَذَا الْبِرُّ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ روز قیامت ایک چیز مثلِ شتر بزرگ آئے گی اور تیزی سے دھکا دے گی پشت مومن کو اور اسے جنت میں داخل کر دے گی۔ ملائکہ کہیں گے یہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کا بدلہ ہے۔

حدیث نمبر 4

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ أَيُّ الأعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلاةُ لِوَقْتِهَا وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله عَزَّ وَجَلَّ۔

فرمایا راوی نے کون سا عمل افضل ہے فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے وقت پر نماز اور والدین سے نیکی اور جہاد فی سبیل اللہ۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ دُرُسْتَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ قَالَ لا يُسَمِّيهِ بِاسْمِهِ وَلا يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلا يَجْلِسُ قَبْلَهُ وَلا يَسْتَسِبُّ لَهُ۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا کسی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ باپ کا حق اولاد پر کیا ہے۔ فرمایا باپ کا نام نہ لے اس کے آگے نہ چلے اس کے سامنے نہ بیٹھے اور اس کی گالی کا سبب نہ بنے۔

حدیث نمبر 6

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ بَحْرٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَمَّنْ رَوَاهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ وَأَنَا عِنْدَهُ لِعَبْدِ الْوَاحِدِ الأنْصَارِيِّ فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً فَظَنَنَّا أَنَّهَا الآيَةُ الَّتِي فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ وَقَضى‏ رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ سَأَلْتُهُ فَقَالَ هِيَ الَّتِي فِي لُقْمَانَ وَوَصَّيْنَا الإنْسانَ بِوالِدَيْهِ حُسْناً وَإِنْ جاهَداكَ عَلى‏ أَنْ تُشْرِكَ بِي ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُما فَقَالَ إِنَّ ذَلِكَ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ يَأْمُرَ بِصِلَتِهِمَا وَحَقِّهِمَا عَلَى كُلِّ حَالٍ وَإِنْ جاهَداكَ عَلى‏ أَنْ تُشْرِكَ بِي ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَقَالَ لا بَلْ يَأْمُرُ بِصِلَتِهِمَا وَإِنْ جَاهَدَاهُ عَلَى الشِّرْكِ مَا زَادَ حَقَّهُمَا إِلا عِظَماً۔

راوی کہتا ہے کہ میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے عبدالواحد انصاری سے والدین سے نیکی کے بارے میں یہ آیت بیان فرمائی ، اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ ہم نے گمان کیا کہ یہ سورہ بنی اسرائیل کی ہے اور خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کرو۔ جب میں نے سوال کیا تو فرمایا یہ سورہ لقمان میں ہے ہم نے انسان کو والدین سے نیکی کرنے کی وصیت کی اور اگر وہ زور دیں اور مجبور کریں اس امر پر کہ تو میرا شریک قرار دے اس چیز کو جس کا تجھے علم ہی نہیں تو اس صورت میں ان کی اطاعت نہ کرے یہ امر عظیم تر ہے اس سے کہ ان سے صلہ رحم کیا جائے اور ان کے حق کا ہر حال میں لحاظ رکھا جائے دراں صورت کہ وہ مشرک بنانا چاہیں۔ فرمایا نہیں حکم ہے ان سے صلہ رحم کا اور اگر وہ شرک پر زور دیں تو نہیں ہے ان کا حق مگر تعظیم۔

حدیث نمبر 7

عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ مِسْكِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا يَمْنَعُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ أَنْ يَبَرَّ وَالِدَيْهِ حَيَّيْنِ وَمَيِّتَيْنِ يُصَلِّيَ عَنْهُمَا وَيَتَصَدَّقَ عَنْهُمَا وَيَحُجَّ عَنْهُمَا وَيَصُومَ عَنْهُمَا فَيَكُونَ الَّذِي صَنَعَ لَهُمَا وَلَهُ مِثْلُ ذَلِكَ فَيَزِيدَهُ الله عَزَّ وَجَلَّ بِبِرِّهِ وَصِلَتِهِ خَيْراً كَثِيراً۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کس چیز نے تم میں سے کسی کو ماں باپ سے نیکی کرنے کو منع کیا ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ اور وہ نیکی یہ ہے کہ ان کی طرف سے نماز پڑھے ، صدقہ دے، حج کرے ، روزہ رکھے۔ جو کوئی اپنے ماں باپ کے ساتھ ایسی نیکی کرے گا تو اللہ اس کو اس نیکی اور صلہ رحم کے بدلے میں خیر کثیر عطا کرے گا۔

حدیث نمبر 8

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلادٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيهِ السَّلام) أَدْعُو لِوَالِدَيَّ إِذَا كَانَا لا يَعْرِفَانِ الْحَقَّ قَالَ ادْعُ لَهُمَا وَتَصَدَّقْ عَنْهُمَا وَإِنْ كَانَا حَيَّيْنِ لا يَعْرِفَانِ الْحَقَّ فَدَارِهِمَا فَإِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ إِنَّ الله بَعَثَنِي بِالرَّحْمَةِ لا بِالْعُقُوقِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کیا میں دعا کروں اپنے والدین کے لیے ایسی حالت میں کہ وہ مذہب حق نہ رکھتے ہوں۔ فرمایا دعا کر اور ان کی طرف سے صدقہ دے اور اگر وہ زندہ ہوں تو باوجود حق پر نہ ہونے کے ان کی مدارات کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں رحمت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں نہ کہ نافرمانی کی تعلیم کے لیے۔

حدیث نمبر 9

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ يَا رَسُولَ الله مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبَاكَ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا میں کس کی فرمانبرداری کرو۔ فرمایا اپنی ماں کی اس نے کہا پھر ، فرمایا اپنی ماں کی اس نے کہا پھر، فرمایا اپنی ماں کی اس نے کہا پھر، فرمایا اپنے باپ کی۔

حدیث نمبر 10

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ يَا رَسُولَ الله إِنِّي رَاغِبٌ فِي الْجِهَادِ نَشِيطٌ قَالَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَجَاهِدْ فِي سَبِيلِ الله فَإِنَّكَ إِنْ تُقْتَلْ تَكُنْ حَيّاً عِنْدَ الله تُرْزَقْ وَإِنْ تَمُتْ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُكَ عَلَى الله وَإِنْ رَجَعْتَ رَجَعْتَ مِنَ الذُّنُوبِ كَمَا وُلِدْتَ قَالَ يَا رَسُولَ الله إِنَّ لِي وَالِدَيْنِ كَبِيرَيْنِ يَزْعُمَانِ أَنَّهُمَا يَأْنَسَانِ بِي وَيَكْرَهَانِ خُرُوجِي فَقَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقِرَّ مَعَ وَالِدَيْكَ فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأنْسُهُمَا بِكَ يَوْماً وَلَيْلَةً خَيْرٌ مِنْ جِهَادِ سَنَةٍ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے آ کر کہا میں جہاد کی طرف راغب ہوں۔ فرمایا راہِ خدا میں جہاد کر اگر قتل ہو جائے تو زندہ رہے گا تو خدا کی طرف سے رزق پائے گا اور اگر اپنی موت مرے گا تو تیرا اجر اللہ پر ہو گا اور اگر جہاد سے زندہ لوٹ آیا تو تیرے سارے گناہ یوم ولادت سے اب تک معاف ہو جائیں گے ۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ بوڑھے ہیں اور مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں وہ میرا جانا ناپسند کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا تو رک جا اپنے ماں باپ کے پاس رہ۔ قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ ان کا تجھ سے ایک دن یا ایک رات کا انس ایک سال کے جہاد سے بہتر ہے۔

حدیث نمبر 11

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كُنْتُ نَصْرَانِيّاً فَأَسْلَمْتُ وَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَقُلْتُ إِنِّي كُنْتُ عَلَى النَّصْرَانِيَّةِ وَإِنِّي أَسْلَمْتُ فَقَالَ وَأَيَّ شَيْ‏ءٍ رَأَيْتَ فِي الإسْلامِ قُلْتُ قَوْلَ الله عَزَّ وَجَلَّ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ وَلا الإيمانُ وَلكِنْ جَعَلْناهُ نُوراً نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشاءُ فَقَالَ لَقَدْ هَدَاكَ الله ثُمَّ قَالَ اللهمَّ اهْدِهِ ثَلاثاً سَلْ عَمَّا شِئْتَ يَا بُنَيَّ فَقُلْتُ إِنَّ أَبِي وَأُمِّي عَلَى النَّصْرَانِيَّةِ وَأَهْلَ بَيْتِي وَأُمِّي مَكْفُوفَةُ الْبَصَرِ فَأَكُونُ مَعَهُمْ وَآكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ فَقَالَ يَأْكُلُونَ لَحْمَ الْخِنْزِيرِ فَقُلْتُ لا وَلا يَمَسُّونَهُ فَقَالَ لا بَأْسَ فَانْظُرْ أُمَّكَ فَبَرَّهَا فَإِذَا مَاتَتْ فَلا تَكِلْهَا إِلَى غَيْرِكَ كُنْ أَنْتَ الَّذِي تَقُومُ بِشَأْنِهَا وَلا تُخْبِرَنَّ أَحَداً أَنَّكَ أَتَيْتَنِي حَتَّى تَأْتِيَنِي بِمِنًى إِنْ شَاءَ الله قَالَ فَأَتَيْتُهُ بِمِنًى وَالنَّاسُ حَوْلَهُ كَأَنَّهُ مُعَلِّمُ صِبْيَانٍ هَذَا يَسْأَلُهُ وَهَذَا يَسْأَلُهُ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْكُوفَةَ أَلْطَفْتُ لأمِّي وَكُنْتُ أُطْعِمُهَا وَأَفْلِي ثَوْبَهَا وَرَأْسَهَا وَأَخْدُمُهَا فَقَالَتْ لِي يَا بُنَيَّ مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِي هَذَا وَأَنْتَ عَلَى دِينِي فَمَا الَّذِي أَرَى مِنْكَ مُنْذُ هَاجَرْتَ فَدَخَلْتَ فِي الْحَنِيفِيَّةِ فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ نَبِيِّنَا أَمَرَنِي بِهَذَا فَقَالَتْ هَذَا الرَّجُلُ هُوَ نَبِيٌّ فَقُلْتُ لا وَلَكِنَّهُ ابْنُ نَبِيٍّ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ إِنَّ هَذَا نَبِيٌّ إِنَّ هَذِهِ وَصَايَا الأنْبِيَاءِ فَقُلْتُ يَا أُمَّهْ إِنَّهُ لَيْسَ يَكُونُ بَعْدَ نَبِيِّنَا نَبِيٌّ وَلَكِنَّهُ ابْنُهُ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ دِينُكَ خَيْرُ دِينٍ اعْرِضْهُ عَلَيَّ فَعَرَضْتُهُ عَلَيْهَا فَدَخَلَتْ فِي الإسْلامِ وَعَلَّمْتُهَا فَصَلَّتِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ الآخِرَةَ ثُمَّ عَرَضَ لَهَا عَارِضٌ فِي اللَّيْلِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ أَعِدْ عَلَيَّ مَا عَلَّمْتَنِي فَأَعَدْتُهُ عَلَيْهَا فَأَقَرَّتْ بِهِ وَمَاتَتْ فَلَمَّا أَصْبَحَتْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ الَّذِينَ غَسَّلُوهَا وَكُنْتُ أَنَا الَّذِي صَلَّيْتُ عَلَيْهَا وَنَزَلْتُ فِي قَبْرِهَا۔

راوی کہتا ہے کہ میں نصرانی تھا پھر میں اسلام لے آیا اور میں نے حج کیا اسی زمانہ میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا میں پہلے نصرانی تھا اب مسلمان ہوں۔ فرمایا تو نے اسلام میں کیا بات دیکھی۔ میں نے کہا اللہ کا یہ قول باعثِ ہدایت ہوا۔ اے رسول تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا لیکن ہم نے تو اس نبوت کو ایک نور قرار دیا اور اس سے جس کو ہم چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا خدا نے تجھے ہدایت کی پھر تین بار فرمایا خدایا اسے ثابت قدم رکھ ۔ پھر فرمایا دریافت کر جو چاہتا ہے ۔ میں نے کہا میرے ماں باپ نصرانی ہیں اور میرے خاندان والے بھی اور ماں اندھی ہے کیا میں اس کے ساتھ رہوں اور ان کے برتنوں میں کھاؤں۔ فرمایا کیا وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا تو کوئی مضائقہ نہیں تو اپنی ماں کی نگرانی کر اور نیکی سے پیش آ اور اگر وہ مر جائے تو اس کو کسی دوسرے کے سپرد نہ کرنا۔ تو خود تمام امور بجا لانا اور کسی کو خبر نہ کرنا کہ تو میرے ہاس آیا تھا یہاں تک کہ تو منیٰ میں انشاء اللہ میرے پاس پہنچ جائے۔ راوی کہتا ہے کہ جب میں حضرت کے پاس منیٰ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ حضرت کے گرد لوگ جمع ہیں گویا حضرت معلم سے کوئی کچھ پوچھتا ہے کوئی کچھ۔ جب میں کوفہ واپس آیا تو میں نے اپنی ماں سے مہربانی کا برتاؤ کیا۔ میں اسے کھانا کھلاتا تھا اور اس کے کپڑوں اور سر سے جوئیں چنتا تھا اس کی خدمت کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا جب تو میرے دین پر تھا اس وقت تو تو نے کبھی ایسا نہ کیا تھا۔ جب ہمارا دین چھوڑا اور اسلام میں داخل ہوا میں نے ایسا عمل تجھ سے کبھی نہ دیکھا۔ میں نے کہا ہمارے نبی کی اولاد میں ایک شخص ہیں انھوں نے ایسا حکم دیا ہے۔ اس نے کہا کیا یہ شخص نبی ہے میں نے کہا نہیں وہ نبی کے فرزند ہیں اس نے کہا یہ تو نبی ہی ہے ایسی نصائح تو انبیاء ہی کرتے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ یہ ان کے فرزند ہیں اس نے کہا بیٹا تیرا دین بہترین دین ہے مجھے اس کے متعلق بتا۔ میں نے سمجھایا تو وہ مسلمان ہو گئی۔ میں نے اسکو احکام دین کی تعلیم دی اس نے ظہر و عصر و مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر وہ بیمار پڑی اس نے مجھ سے کہا جو تو نے مجھے تعلیم دی تھی اس کا اعادہ کر میں نے اعادہ کیا۔ اس نے اقرار کیا اور مر گئی ۔ جب صبح ہوئی تو مسلمان جمع ہوئے اس کو غسل دیا میں نے نماز جنازہ پڑھی اور اسے قبر میں اتارا۔
توضیح: اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے برتنوں میں کھانا جائز ہے لیکن امام کا مقصد ان برتنوں سے ہے جن میں کھانے کا کوئی جز لگا ہوا نہ ہو صاف ستھرے ہوں اور انہیں آسانی سے پاک کر سکتے ہوں۔ البتہ اگر سور کا گوشت کھایا ہو تو جب تک سات بار مٹی سے خوب مانجھا نہ جائے ان میں کھانا جائز نہ ہو گا اسی طرح اگر شراب پینے کا ظرف ہو تو اسے بھی مٹی سے مانجھنا ضروری ہے مگر چونکہ شراب اڑ جاتی ہے لہذا تین بار مٹی سے مانجھنا کافی ہو گا رہے سالن یا دودھ وغیرہ کے برتن تو ان کو اگر وہ صاف ستھرے ہوں تو پانی میں ڈال کر طاہر کیا جا سکتا ہے۔ اس حدیث سے امام کے ایک معجزے کا بھی اظہار ہوا ور وہ اس طرح کہ آپ نے ایک نو مسلم سے فرمایا کہ جب تیری ماں مر جائے تو اس کی تجہیز و تکفین خود کرنا غیروں (نصرانیوں) کے سپرد نہ کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت بعلم امامت جانتے تھے کہ اس کی ماں مسلمان ہو کر مرے گی۔

حدیث نمبر 12

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ جَمِيعاً عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ خَبَّرْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) بِبِرِّ إِسْمَاعِيلَ ابْنِي بِي فَقَالَ لَقَدْ كُنْتُ أُحِبُّهُ وَقَدِ ازْدَدْتُ لَهُ حُبّاً إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَتَتْهُ أُخْتٌ لَهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا سُرَّ بِهَا وَبَسَطَ مِلْحَفَتَهُ لَهَا فَأَجْلَسَهَا عَلَيْهَا ثُمَّ أَقْبَلَ يُحَدِّثُهَا وَيَضْحَكُ فِي وَجْهِهَا ثُمَّ قَامَتْ وَذَهَبَتْ وَجَاءَ أَخُوهَا فَلَمْ يَصْنَعْ بِهِ مَا صَنَعَ بِهَا فَقِيلَ لَهُ يَا رَسُولَ الله صَنَعْتَ بِأُخْتِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ بِهِ وَهُوَ رَجُلٌ فَقَالَ لأنَّهَا كَانَتْ أَبَرَّ بِوَالِدَيْهَا مِنْهُ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو خبر دی اپنے بیٹے اسماعیل کی اس کی نیکی جو اس نے میرے ساتھ کی۔ حضرت نے فرمایا میں اس کو پہلے بھی دوست رکھتا تھا اب اور زیاہ دوست رکھتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت کی رضاعی بہن آئی حضرت اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اپنی چادر اس کے لیے بچھائی اور اس پر اسے اپنے پاس بٹھایا اور اس سے باتیں کی اور اس کے چہرے کو دیکھ کر خوش ہوئے اس کے بعد وہ چلی گئی۔ اس کا بھائی آیا حضرت نے اس کے ساتھ وہ عمل نہ کیا جو اس کی بہن کے ساتھ کیا تھا۔ کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا وہ اپنے بھائی سے زیادہ اپنے والدین سے نیکی کرنے والی ہے۔

حدیث نمبر 13

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شُعَيْبٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ أَبِي قَدْ كَبِرَ جِدّاً وَضَعُفَ فَنَحْنُ نَحْمِلُهُ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ فَقَالَ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَلِيَ ذَلِكَ مِنْهُ فَافْعَلْ وَلَقِّمْهُ بِيَدِكَ فَإِنَّهُ جُنَّةٌ لَكَ غَداً۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہا کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہو گیا ہے اور کمزور ہے جب قضائے حاجت کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اسے اٹھاتے ہیں۔ فرمایا اگر ممکن ہو تو یہ کام خود کر، نوکروں پر نہ چھوڑ اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا کر اس کے منہ میں دے کہ یہ امر روز قیامت تیرے لیے سپر ہو گا۔

حدیث نمبر 14

عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَجُلاً يَقُولُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ لِي أَبَوَيْنِ مُخَالِفَيْنِ فَقَالَ بَرَّهُمَا كَمَا تَبَرُّ الْمُسْلِمِينَ مِمَّنْ يَتَوَلانَا۔

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا میرے ماں باپ دونوں ہمارے مذہب کے مخالف ہیں۔ حضرت نے فرمایا ان کے ساتھ ایسی نیکی کر جیسی ان مسلمانوں سے کی جاتی ہے جو ہم کو دوست رکھتے ہیں۔

حدیث نمبر 15

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ مُصْعَبٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ ثَلاثٌ لَمْ يَجْعَلِ الله عَزَّ وَجَلَّ لأحَدٍ فِيهِنَّ رُخْصَةً أَدَاءُ الأمَانَةِ إِلَى الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ وَالْوَفَاءُ بِالْعَهْدِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ بَرَّيْنِ كَانَا أَوْ فَاجِرَيْنِ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ترک کی خدا نے اجازت نہیں دی۔ اول ادائے امانت خواہ امانت رکھنے والا نیک ہو یا بد، دوسرا عہد خواہ نیک ہو یا بد سے، تیسرا والدین سے نیکی خواہ نیک ہوں یا بد۔

حدیث نمبر 16

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مِنَ السُّنَّةِ وَالْبِرِّ أَنْ يُكَنَّى الرَّجُلُ بِاسْمِ أَبِيهِ۔

فرمایا صادقِ آلِ محمد نے سنت اور نیکی یہ ہے کہ ایک شخص اپنی کنیت اپنے باپ کے نام سے رکھے یعنی ابن فلاں۔

حدیث نمبر 17

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ جَمِيعاً عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنْ أَبِي خَدِيجَةَ سَالِمِ بْنِ مُكْرَمٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ وَسَأَلَ النَّبِيَّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) عَنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ فَقَالَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ وَبَدَأَ بِالأمِّ قَبْلَ الأبِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور والدین سے نیکی کے متعلق پوچھا۔ فرمایا ماں سے نیکی کر، ماں سے نیکی کر، ماں سے نیکی کر، باپ سے نیکی کر، باپ سے نیکی کر، باپ سے نیکی کر، ماں کا ذکر باپ سے پہلے کیا۔

حدیث نمبر 18

الْوَشَّاءُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَائِذٍ عَنْ أَبِي خَدِيجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ إِنِّي قَدْ وَلَدْتُ بِنْتاً وَرَبَّيْتُهَا حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ فَأَلْبَسْتُهَا وَحَلَّيْتُهَا ثُمَّ جِئْتُ بِهَا إِلَى قَلِيبٍ فَدَفَعْتُهَا فِي جَوْفِهِ وَكَانَ آخِرُ مَا سَمِعْتُ مِنْهَا وَهِيَ تَقُولُ يَا أَبَتَاهْ فَمَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ قَالَ أَ لَكَ أُمٌّ حَيَّةٌ قَالَ لا قَالَ فَلَكَ خَالَةٌ حَيَّةٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَابْرَرْهَا فَإِنَّهَا بِمَنْزِلَةِ الأمِّ يُكَفِّرْ عَنْكَ مَا صَنَعْتَ قَالَ أَبُو خَدِيجَةَ فَقُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَتَى كَانَ هَذَا فَقَالَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانُوا يَقْتُلُونَ الْبَنَاتِ مَخَافَةَ أَنْ يُسْبَيْنَ فَيَلِدْنَ فِي قَوْمٍ آخَرِينَ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور کہنے لگا میری ایک لڑکی تھی میں نے اسے پالا پوسا۔ جب جوان ہوئی تو اسے لباس اور زیور سے آراستہ کر کے ایک کنویں پر لایا اور اس میں اس کو دھکیل دیا۔ قعر چاہ میں سے میں اس کے آواز سنی۔ اے میرے باپ میری مدد کر۔ پس اس کا کفارہ کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا تیری ماں زندہ ہے اس نے کہا نہیں۔ فرمایا خالہ ہے اس نے کہا ہے۔ فرمایا اس کے ساتھ نیکی کر وہ بمنزلہ تیری ماں کے ہے جو کچھ تو نے کیا ہے یہی اس کا کفارہ ہے۔ ابو خدیجہ نے پوچھا امام جعفر صادق علیہ سے ایسا کب اس شخص نے کیا تھا۔ فرمایا عہد جاہلیت میں قبل آنحضرت کی بعثت کے۔ مشرکین عرب اپنی لڑکیوں کو اس خوف سے قتل کر دیا کرتے تھے کہ اگر وہ قید ہو گئیں تو دوسری قوم میں جا کر بچہ جنیں گی۔
توضیح: چونکہ یہ عمل اس شخص نے اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں کیا تھا لہذا شرع محمدی کی رو سے اس کو سزا نہیں دی جا سکتی اس لیے حضرت نے یہ کفارہ تجویز فرمایا۔

حدیث نمبر 19

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلا فِي خَصْلَتَيْنِ يَكُونُ الْوَالِدُ مَمْلُوكاً فَيَشْتَرِيهِ ابْنُهُ فَيُعْتِقُهُ أَوْ يَكُونُ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيهِ عَنْهُ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کیا بیٹا اپنے باپ کی خدمات کا بدل دے سکتا ہے۔ فرمایا دو چیزوں سے اگر باپ غلام ہے تو اسے آزاد کرا دے اور اگر مقروض ہو تو اس کے قرض کو ادا کرا دے۔

حدیث نمبر 20

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ نَشِيطٌ وَأُحِبُّ الْجِهَادَ وَلِي وَالِدَةٌ تَكْرَهُ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) ارْجِعْ فَكُنْ مَعَ وَالِدَتِكَ فَوَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ نَبِيّاً لأنْسُهَا بِكَ لَيْلَةً خَيْرٌ مِنْ جِهَادِكَ فِي سَبِيلِ الله سَنَةً۔

فرمایا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا میں مرد جوان اور صاحب قوت ہوں جہاد کرنا پسند کرتا ہوں لیکن میری ماں اس کو پسند نہیں کرتی۔ حضرت نے فرمایا تو واپس جا۔ خدا کی قسم اس کی صرف ایک رات کی محبت راہِ خدا میں ترے ایک سال کے جہاد سے بہتر ہے۔

حدیث نمبر 21

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَكُونُ بَارّاً بِوَالِدَيْهِ فِي حَيَاتِهِمَا ثُمَّ يَمُوتَانِ فَلا يَقْضِي عَنْهُمَا دُيُونَهُمَا وَلا يَسْتَغْفِرُ لَهُمَا فَيَكْتُبُهُ الله عَاقّاً وَإِنَّهُ لَيَكُونُ عَاقّاً لَهُمَا فِي حَيَاتِهِمَا غَيْرَ بَارٍّ بِهِمَا فَإِذَا مَاتَا قَضَى دَيْنَهُمَا وَاسْتَغْفَرَ لَهُمَا فَيَكْتُبُهُ الله عَزَّ وَجَلَّ بَارّاً۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا جو شخص اپنے ماں باپ کی حیات میں نیکی کرنے والا ہو لیکن مرنے کے بعد ان کا قرض ادا نہ کرے ان کے لیے استغفار نہ کرے تو خدا اس کو عاق لکھتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ماں باپ کی زندگی میں عاق ہوتا ہے کیونکہ اس سے ان کے لیے نیکی نہیں ہوتی لیکن مرنے پر ان کا قرض ادا کرتا ہے اور ان کے لیے استغفار کرتا ہے تو خدا اس کو نیکوں میں لکھتا ہے۔