مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

دعا برائے دفع کرب و غم و خوف

(5-43)

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ السَّرَّاجِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ (عَلَيهِما السَّلام) يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا لَكَ إِذَا أَتَى بِكَ أَمْرٌ تَخَافُهُ أَنْ لا تَتَوَجَّهَ إِلَى بَعْضِ زَوَايَا بَيْتِكَ يَعْنِي الْقِبْلَةَ فَتُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ تَقُولَ يَا أَبْصَرَ النَّاظِرِينَ وَيَا أَسْمَعَ السَّامِعِينَ وَيَا أَسْرَعَ الْحَاسِبِينَ وَيَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ سَبْعِينَ مَرَّةً كُلَّمَا دَعَوْتَ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ مَرَّةً سَأَلْتَ حَاجَةً۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی سے فرمایا اگر کوئی ایسا امر باعث خوف ہو کہ تم گھر کے ایک گوشہ یعنی قبلہ کی طرف بھی توجہ نہ کر سکے تو دو رکعت نماز پڑھ کر کہو، اے سب سے زیادہ دیکھنے والے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے جلد حساب کرنے والے، سب سے زیادہ رحم کرنے والے ستر بار، جب ان کلمات کا ورد کرو تو ایک بار جو حاجت ہو بیان کرو۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَنْ أَصَابَهُ هَمٌّ أَوْ غَمٌّ أَوْ كَرْبٌ أَوْ بَلاءٌ أَوْ لاوَاءٌ فَلْيَقُلِ الله رَبِّي وَلا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لا يَمُوتُ۔

اسماء کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی غم رنج یا اضطراب لاحق ہو تو یہ کلمات کہو، اللہ میرا رب ہے میں کسی چیز کو اس کا شریک نہیں بناتا میں نے اس ذات پر توکل کیا ہے تو حی لا یموت ہے۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا نَزَلَتْ بِرَجُلٍ نَازِلَةٌ أَوْ شَدِيدَةٌ أَوْ كَرَبَهُ أَمْرٌ فَلْيَكْشِفْ عَنْ رُكْبَتَيْهِ وَذِرَاعَيْهِ وَلْيُلْصِقْهُمَا بِالأرْضِ وَلْيُلْزِقْ جُؤْجُؤَهُ بِالأرْضِ ثُمَّ لْيَدْعُ بِحَاجَتِهِ وَهُوَ سَاجِدٌ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب کسی پر کوئی بلا نازل ہو یا کوئی سختی آئے یا کسی مصیبت کے آنے کا خوف ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے دونوں زانو اور کلائیوں پر سے کپڑا ہٹائے اور زمین پر لگائے اور اپنا سینہ زمین پر لگا دے اور پھر سجدہ میں خدا سے دعا کرے۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمَّارٍ الدَّهَّانِ عَنْ مِسْمَعٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا طَرَحَ إِخْوَةُ يُوسُفَ يُوسُفَ فِي الْجُبِّ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ (عَلَيهِ السَّلام) فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا غُلامُ مَا تَصْنَعُ هَاهُنَا فَقَالَ إِنَّ إِخْوَتِي أَلْقَوْنِي فِي الْجُبِّ قَالَ فَتُحِبُّ أَنْ تَخْرُجَ مِنْهُ قَالَ ذَاكَ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِنْ شَاءَ أَخْرَجَنِي قَالَ فَقَالَ لَهُ إِنَّ الله تَعَالَى يَقُولُ لَكَ ادْعُنِي بِهَذَا الدُّعَاءِ حَتَّى أُخْرِجَكَ مِنَ الْجُبِّ فَقَالَ لَهُ وَمَا الدُّعَاءُ فَقَالَ قُلِ اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ ذُو الْجَلالِ وَالإكْرَامِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَجْعَلَ لِي مِمَّا أَنَا فِيهِ فَرَجاً وَمَخْرَجاً قَالَ ثُمَّ كَانَ مِنْ قِصَّتِهِ مَا ذَكَرَ الله فِي كِتَابِه۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تو جبرئیل ان کے پاس آئے اور فرمایا اے لڑکے کیا حال ہے انھوں نے کہا میرے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا ہے جبرئیل نے کہا اس سے نکلنا چاہتے ہو۔ فرمایا اگر خدا چاہے گا تو نکال دے گا جبرئیل نے کہا خدا فرماتا ہے ان کلمات کے ساتھ دعا کرو، میں تمہیں کنویں سے نکال دوں گا۔ پوچھا وہ دعا کیا ہے انھوں نے کہا یا اللہ میں اقرار کرتا ہوں کہ سزاوار حمد تو ہی ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو بڑا احسان کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے صاحب عظمت و جلال ہے میں سوال کرتا ہوں محمد و آل محمد پر درود بھیجنے کا اور اس کا کہ میری موجودہ حالت میں کشادگی اور اس سے نکلنے کی صورت پیدا کر امام نے فرمایا اس کے بعد کا قصہ قرآن میں مذکور ہے۔

حدیث نمبر 5

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ السَّرَّاجِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّ الَّذِي دَعَا بِهِ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَلَى دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ قَتَلَ الْمُعَلَّى بْنَ خُنَيْسٍ وَأَخَذَ مَالَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِنُورِكَ الَّذِي لا يُطْفَى وَبِعَزَائِمِكَ الَّتِي لا تُخْفَى وَبِعِزِّكَ الَّذِي لا يَنْقَضِي وَبِنِعْمَتِكَ الَّتِي لا تُحْصَى وَبِسُلْطَانِكَ الَّذِي كَفَفْتَ بِهِ فِرْعَوْنَ عَنْ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام)۔

جب داؤد بن علی نے معلی ابن خنین کو قتل کیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا مال ضبط کر لیا تو حضرت نے ان الفاظ میں اس کے لیے بد دعا کی یا اللہ میں سوال کرتا ہوں تیرے اس نور سے جو بجھنے والا نہیں اور تیرے ان عزائم سے جو مخفی نہیں اور تیری اس عزت سے جو ختم ہونے والی نہیں اور تیری اس نعمت سے جس کا احصا اور شمار نہیں اور تیری اس قدرت سے جس سے تو نے موسیٰ کو فرعون پر غالب کیا۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي الْهَمِّ قَالَ تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَتَقُولُ يَا فَارِجَ الْهَمِّ وَيَا كَاشِفَ الْغَمِّ يَا رَحْمَانَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا فَرِّجْ هَمِّي وَاكْشِفْ غَمِّي يَا الله الْوَاحِدُ الأحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ اعْصِمْنِي وَطَهِّرْنِي وَاذْهَبْ بِبَلِيَّتِي وَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب کوئی غم لاحق ہو تو غسل کرو اور دو رکعت نماز پڑھو اور کہو اے غموں کے دور کرنے والے اے مصیبت کو رفع کرنے والے اے دنیا و آخرت میں رحم کرنے والے میرے غم کو دور کر اے اللہ اے واحد اے واحد و صمد اے وہ نہ جس سے کوئی بچہ پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا مجھے بچا لے گناہوں سے پاک کر دے اور میری بلا کو دور کر دے پھر آیت الکرسی اور قل اعوذ برب الفلق اورر قل اعوذ برب الناس پڑھے۔

حدیث نمبر 7

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا خِفْتَ أَمْراً فَقُلِ اللهمَّ إِنَّكَ لا يَكْفِي مِنْكَ أَحَدٌ وَأَنْتَ تَكْفِي مِنْ كُلِّ أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَاكْفِنِي كَذَا وَكَذَا وَفِي حَدِيثٍ آخَرَ قَالَ تَقُولُ يَا كَافِياً مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَلا يَكْفِي مِنْكَ شَيْ‏ءٌ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ اكْفِنِي مَا أَهَمَّنِي مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَنْ دَخَلَ عَلَى سُلْطَانٍ يَهَابُهُ فَلْيَقُلْ بِالله أَسْتَفْتِحُ وَبِالله أَسْتَنْجِحُ وَبِمُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَتَوَجَّهُ اللهمَّ ذَلِّلْ لِي صُعُوبَتَهُ وَسَهِّلْ لِي حُزُونَتَهُ فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ وَتَقُولُ أَيْضاً حَسْبِيَ الله لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ وَأَمْتَنِعُ بِحَوْلِ الله وَقُوَّتِهِ مِنْ حَوْلِهِمْ وَقُوَّتِهِمْ وَأَمْتَنِعُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِالله۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب تم کو کسی امر میں خوف لاحق ہو تو کہو یا اللہ تیرے سوا کوئی کسی مہم کو آسان نہیں کر سکتا اور تو اپنی مخلوق میں سے ہر ایک کی مشکل آسان کر دیتا ہے پس میری فلاں فلاں حاجت بر لا۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یوں کہو اے ہر معاملہ کے پورا کرنے والے آسمان اور زمین میں تیرے سوا کوئی کسی امر کا پورا کرنے والا نہیں دنیا و آخرت کے امور میں جو دشواریاں ہیں ان کو تو ہی آسان کر اور درود ہو محمد و آل محمد پر اور ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا جو ایسے حاکم کے پاس جانے والا ہو جس سے خائف ہو تو کہے یا اللہ نجات دے کامیابی دے میں محمد ﷺ کے واسطہ سے توجہ دلاتا ہوں۔ یا اللہ جو مصیبت آنے والی ہے اسے آسان کر اور میرے رنج و غم کو ہلکا کر تو جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے اور ام الکتاب کا مالک تو ہی ہے اور فرمایا یہ بھی کہے اللہ میرے لیے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے میں بچا رہوں گا اللہ کی مدد اور قوت سے سب دشمنوں کی طاقت سے اور صبح کے ظاہر کرنے والے خدا کی مدد سے محفوظ رہوں گا مخلوق کے شر سے اور نہیں ہے قوت اور مدد مگر اللہ سے۔

حدیث نمبر 8

عَنْهُ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِنَا رَفَعُوهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ مِنْ دُعَاءِ أَبِي (عَلَيهِ السَّلام) فِي الأمْرِ يَحْدُثُ اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَزَكِّ عَمَلِي وَيَسِّرْ مُنْقَلَبِي وَاهْدِ قَلْبِي وَآمِنْ خَوْفِي وَعَافِنِي فِي عُمُرِي كُلِّهِ وَثَبِّتْ حُجَّتِي وَاغْفِرْ خَطَايَايَ وَبَيِّضْ وَجْهِي وَاعْصِمْنِي فِي دِينِي وَسَهِّلْ مَطْلَبِي وَوَسِّعْ عَلَيَّ فِي رِزْقِي فَإِنِّي ضَعِيفٌ وَتَجَاوَزْ عَنْ سَيِّئِ مَا عِنْدِي بِحُسْنِ مَا عِنْدَكَ وَلا تَفْجَعْنِي بِنَفْسِي وَلا تَفْجَعْ لِي حَمِيماً وَهَبْ لِي يَا إِلَهِي لَحْظَةً مِنْ لَحَظَاتِكَ تَكْشِفْ بِهَا عَنِّي جَمِيعَ مَا بِهِ ابْتَلَيْتَنِي وَتَرُدَّ بِهَا عَلَيَّ مَا هُوَ أَحْسَنُ عَادَاتِكَ عِنْدِي فَقَدْ ضَعُفَتْ قُوَّتِي وَقَلَّتْ حِيلَتِي وَانْقَطَعَ مِنْ خَلْقِكَ رَجَائِي وَلَمْ يَبْقَ إِلا رَجَاؤُكَ وَتَوَكُّلِي عَلَيْكَ وَقُدْرَتُكَ عَلَيَّ يَا رَبِّ أَنْ تَرْحَمَنِي وَتُعَافِيَنِي كَقُدْرَتِكَ عَلَيَّ أَنْ تُعَذِّبَنِي وَتَبْتَلِيَنِي إِلَهِي ذِكْرُ عَوَائِدِكَ يُؤْنِسُنِي وَالرَّجَاءُ لِإِنْعَامِكَ يُقَوِّينِي وَلَمْ أَخْلُ مِنْ نِعَمِكَ مُنْذُ خَلَقْتَنِي وَأَنْتَ رَبِّي وَسَيِّدِي وَمَفْزَعِي وَمَلْجَئِي وَالْحَافِظُ لِي وَالذَّابُّ عَنِّي وَالرَّحِيمُ بِي وَالْمُتَكَفِّلُ بِرِزْقِي وَفِي قَضَائِكَ وَقُدْرَتِكَ كُلُّ مَا أَنَا فِيهِ فَلْيَكُنْ يَا سَيِّدِي وَمَوْلايَ فِيمَا قَضَيْتَ وَقَدَّرْتَ وَحَتَمْتَ تَعْجِيلُ خَلاصِي مِمَّا أَنَا فِيهِ جَمِيعِهِ وَالْعَافِيَةُ لِي فَإِنِّي لا أَجِدُ لِدَفْعِ ذَلِكَ أَحَداً غَيْرَكَ وَلا أَعْتَمِدُ فِيهِ إِلا عَلَيْكَ فَكُنْ يَا ذَا الْجَلالِ وَالإكْرَامِ عِنْدَ أَحْسَنِ ظَنِّي بِكَ وَرَجَائِي لَكَ وَارْحَمْ تَضَرُّعِي وَاسْتِكَانَتِي وَضَعْفَ رُكْنِي وَامْنُنْ بِذَلِكَ عَلَيَّ وَعَلَى كُلِو دَاعٍ دَعَاكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے میرے پدر بزرگوار یہ دعا کیا کرتے تھے جب کوئی امر حادث ہوتا تھا یا اللہ محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور میرے عمل کو پاک بنا اور میری بازگشت کو آسان بنا اور میرے قلب کو ہدایت کر اور میرے خوف کو دور کر اور مجھے پوری عمر امین عطا فرما اور میری حجت کو برقرار رکھ میری خطاؤں کو بخش دے اور میرے چہرے کو نورانی بنا اور دینی معاملات میں پاک دامن رکھ میرے رزق میں وسعت دے میں کمزور ہوں، میرے مطلب کو آسان کر میرے گناہوں کو در گزر کر میرے نفس کو اندوہناک کر اور میرے دوستوں کو میرے معاملے میں تکلیف نہ ہو یا اللہ مجھے اپنے انعامات میں سے انعام دے اور جن بلاؤں میں مبتلا ہوں ان کو دور کر دے اور جو تیرے نزدیک بہتر ہو وہ کر میری قوت کمزور ہو گئی ہے میری تدبیر سست پڑ گئی ہے تیری مخلوق کی طرف سے میری امید منقطع ہو گئی ہے اور صرف تجھی سے میری امید وابستہ ہے میرا توکل تیرے اوپر ہے اور تیری قدرت میرے اوپر ہےے اگر تو رحم کرے اور معاف کر دے تو اگر عذاب کرے تو یا اللہ تیری نعمتوں کا ذکر میرے مونس ہے اور تیرے انعام کی امید میرے دل کو قوت پہنچاتی ہے جب سے تو نے مجھے پیدا کیا ہے میں تیری رحمت سے خالی نہیں رہا، تو میرا رب ہے میرا سردار ہے میرے پناہ کی جگہ ہے میری امیدوں کا مقام ہے اور میرا محافظ ہے اور میرے دشمنوں کو مجھ سے دفع کرنے والا ہے اور مجھ پر مہربان ہے اور میرے رزق کا ضامن ہے اور جس حالت میں بھی میں ہوں وہ تیری قضا و قدر کے تحت ہے پس اے میرے سردار میرے مولا جو کچھ تیری مشیت میں ہے جلد اس سے مجھے خلاصی دے اور مجھے عافیت میں رکھ میری مصیبت دور کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں اور مجھے تیرے سوا کسی پر اعتماد نہیں پس اے ذوالجلال میرے ساتھ وہی کر جو میرا حسن ظن ہے اور میری امید تجھ سے وابستہ ہے اور یا اللہ رحم کر میری گریہ و زاری ذلت اور کمزوری پر اور میرے اوپر احسان کر اور ہر دعا کرنے والے پر اے ارحم الراحمین اور درود ہو محمد و آل محمد پر۔

حدیث نمبر 9

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ بَعْضِ مَنْ رَوَاهُ قَالَ قَالَ إِذَا أَحْزَنَكَ أَمْرٌ فَقُلْ فِي آخِرِ سُجُودِكَ يَا جَبْرَئِيلُ يَا مُحَمَّدُ يَا جَبْرَئِيلُ يَا مُحَمَّدُ تُكَرِّرُ ذَلِكَ اكْفِيَانِي مَا أَنَا فِيهِ فَإِنَّكُمَا كَافِيَانِ وَاحْفَظَانِي بِإِذْنِ الله فَإِنَّكُمَا حَافِظَانِ۔

ایک روایت میں ہے کہ فرمایا اصحاب امام میں سے کسی نے جب کوئی معاملہ رنجیدہ نہ کرے تو آخر سجدہ میں کہو اے جبرئیل اے محمد تم دونوں میری موجودہ حالت میں مدد کرو تم دونوں کی مدد میرے لیے کافی ہے تم دونوں میری مدد کرو تم دونوں میری حفاظت کرو اللہ کے اذن سے تم دونوں حفاظت کرنے والے ہو۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ بِشْرِ بْنِ مَسْلَمَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) يَقُولُ مَا أُبَالِي إِذَا قُلْتُ هَذِهِ الْكَلِمَاتِ لَوِ اجْتَمَعَ عَلَيَّ الإنْسُ وَالْجِنُّ بِسْمِ الله وَبِالله وَمِنَ الله وَإِلَى الله وَفِي سَبِيلِ الله وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) اللهمَّ إِلَيْكَ أَسْلَمْتُ نَفْسِي وَإِلَيْكَ وَجَّهْتُ وَجْهِي وَإِلَيْكَ أَلْجَأْتُ ظَهْرِي وَإِلَيْكَ فَوَّضْتُ أَمْرِي اللهمَّ احْفَظْنِي بِحِفْظِ الإيمَانِ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَمِنْ تَحْتِي وَمِنْ قِبَلِي وَادْفَعْ عَنِّي بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ فَإِنَّهُ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِكَ. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ مِثْلَهُ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا جب میں یہ کلمات کہوں کہ اگر تمام جن و انس میرے خلاف جمع ہوں تو مجھے پروا نہ ہو، یا اللہ میں نے اپنے نفس کو تیرا فرمانبردار بنایا اور تیری ذات کی طرف میں نے توجہ کی اور میری فریاد تجھی سے ہے اور میں نے اپنے معاملہ کو تیرے سپرد کر دیا یا اللہ میرے ایمان کی حفاظت کر میرے سامنے میرے پیچھے میرے داہنے میرے بائیں اور اپنی مدد اور قوت سے میرے دشمنوں کو مجھ سے دور رکھ اور تیرے سوا اور کسی سے مدد اور قوت نہیں مل سکتی۔

حدیث نمبر 11

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لِي رَجُلٌ أَيَّ شَيْ‏ءٍ قُلْتَ حِينَ دَخَلْتَ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ بِالرَّبَذَةِ قَالَ قُلْتُ اللهمَّ إِنَّكَ تَكْفِي مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَلا يَكْفِي مِنْكَ شَيْ‏ءٌ فَاكْفِنِي بِمَا شِئْتَ وَكَيْفَ شِئْتَ وَمِنْ حَيْثُ شِئْتَ وَأَنَّى شِئْتَ۔

پوچھا ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہ آپ نے کیا پڑھا تھا جب آپ ربذہ میں ابو جعفر (منصور خلیفہ عباسی) کے پاس گئے تھے۔ فرمایا دعا یہ تھی یا اللہ تو ہر شے کا پورا کرنے والا ہے اور تیری بجائے کوئی دوسرا ایسا نہیں کر سکتا پس میری حاجت پوری کر جیسا چاہے جتنا چاہے اور جہاں چاہے۔

حدیث نمبر 12

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُيَسِّرٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ أَقَامَ أَبُو جَعْفَرٍ مَوْلىً لَهُ عَلَى رَأْسِهِ وَقَالَ لَهُ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ فَلَمَّا دَخَلَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) نَظَرَ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ وَأَسَرَّ شَيْئاً فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ نَفْسِهِ لا يَدْرِي مَا هُوَ ثُمَّ أَظْهَرَ يَا مَنْ يَكْفِي خَلْقَهُ كُلَّهُمْ وَلا يَكْفِيهِ أَحَدٌ اكْفِنِي شَرَّ عَبْدِ الله بْنِ عَلِيٍّ قَالَ فَصَارَ أَبُو جَعْفَرٍ لا يُبْصِرُ مَوْلاهُ وَصَارَ مَوْلاهُ لا يُبْصِرُهُ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ يَا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ لَقَدْ عَيَّيْتُكَ فِي هَذَا الْحَرِّ فَانْصَرِفْ فَخَرَجَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مِنْ عِنْدِهِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ لِمَوْلاهُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا أَمَرْتُكَ بِهِ فَقَالَ لا وَالله مَا أَبْصَرْتُهُ وَلَقَدْ جَاءَ شَيْ‏ءٌ فَحَالَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ وَالله لَئِنْ حَدَّثْتَ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَحَداً لأقْتُلَنَّكَ۔

جب امام جعفر صادق علیہ السلام منصور عباسی کے پاس گئے تو اس نے پہلے سے اپنے ایک غلام کو پس پشت کھڑا کر دیا اور کہہ دیا کہ جب میرے پاس آئیں تو گردن مار دینا۔ جب حضرت آئے تو دل ہی دل میں کچھ پڑھا جس کی خبر منصور کو نہ ہوئی۔ بعد میں ظاہر فرمایا وہ دعا یہ تھی اے وہ ذات جو اپنے تمام بندوں کی حاجت روائی کرتا ہے اور کوئی دوسرا نہیں کر سکتا مجھے منصور کے شر سے بچا لے۔ حضرت نے فرمایا اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ نہ منصور غلام کو دیکھ پایا اور نہ غلام اس کو منصور نے امام علیہ السلام سے کہا میں نے اس گرمی میں فضول آپ کو تکلیف دی آپ وایس جائیے۔ حضرت کے چلے جانے کے بعد منصور نے غلام سے کہا تو میرا حکم کیوں نہ بجا لایا اس نے کہا واللہ میرے اور ان کے درمیان کوئی شے ایسی حائل ہوئی کہ وہ مجھے نظر ہی نہ آئے منصور نے کہا اگر تو نے یہ بات کسی اور سے کہی تو گردن مار دوں گا۔

حدیث نمبر 13

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي دَاوُدَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ لِي أَ لا أُعَلِّمُكَ دُعَاءً تَدْعُو بِهِ إِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ إِذَا كَرَبَنَا أَمْرٌ وَتَخَوَّفْنَا مِنَ السُّلْطَانِ أَمْراً لا قِبَلَ لَنَا بِهِ نَدْعُو بِهِ قُلْتُ بَلَى بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا ابْنَ رَسُولِ الله قَالَ قُلْ يَا كَائِناً قَبْلَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَيَا مُكَوِّنَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَيَا بَاقِي بَعْدَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَافْعَلْ بِي كَذَا وَكَذَا۔

راوی نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے کہا میں تجھے ایسی دعا سکھا دوں جس سے تو خدا سے مانگا کرے ہم اہلبیت کو جب کوئی تکلیف دہ امر درپیش ہوتا ہے اور بادشاہ جابر سے خوف ہوتا ہے تو ہم انہی کلمات سے دعا کرتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور تعلیم فرمائیے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ فرمایا یوں کہا کرو اے وہ ذات جو ہر شے سے پہلے ہے اے وہ ذات جو ہر شے کو پیدا کرنے والی ہے اور اے وہ ذات جو ہر شے کے بعد باقی رہنے والی ہے درود بھیج محمد و آل محمد پر اور میری فلاں فلاں حاجت بر لا۔

حدیث نمبر 14

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ قَالَ كَتَبَ مُحَمَّدُ بْنُ حَمْزَةَ الْغَنَوِيُّ إِلَيَّ يَسْأَلُنِي أَنْ أَكْتُبَ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فِي دُعَاءٍ يُعَلِّمُهُ يَرْجُو بِهِ الْفَرَجَ فَكَتَبَ إِلَيَّ أَمَّا مَا سَأَلَ مُحَمَّدُ بْنُ حَمْزَةَ مِنْ تَعْلِيمِهِ دُعَاءً يَرْجُو بِهِ الْفَرَجَ فَقُلْ لَهُ يَلْزَمُ يَا مَنْ يَكْفِي مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَلا يَكْفِي مِنْهُ شَيْ‏ءٌ اكْفِنِي مَا أَهَمَّنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُكْفَى مَا هُوَ فِيهِ مِنَ الْغَمِّ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى فَأَعْلَمْتُهُ ذَلِكَ فَمَا أَتَى عَلَيْهِ إِلا قَلِيلٌ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْحَبْسِ۔

علی بن مہزیار سے روایت ہے کہ محمد بن حمزہ نے مجھے لکھا کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایسی دعا معلوم کروں جو باعث کشودگی کار ہو امام علیہ السلام نے مجھے وہی دعا لکھ کر بھیجی جس کے لیے محمد بن حمزہ نے مجھے لکھا تھا۔ تحریر فرمایا اس سے کہو یہ دعا پڑھا کرے اے وہ ذات جو کفایت کرتی ہے ہر شے کے بدلے اور اس کے بدلے کوئی چیز کفایت نہیں کرتی جو مشکل اس وقت مجھے درپیش ہے اسے دور کر میں امید کرتا ہوں کہ اس غم کو تو ہی دور کرے گا انشاء اللہ تعالیٰ میں نے یہ دعا اس کو بتا دی چند ہی روز بعد وہ قید سے رہا ہو گیا۔

حدیث نمبر 15

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ ابْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) يَقُولُ لإبْنِهِ يَا بُنَيَّ مَنْ أَصَابَهُ مِنْكُمْ مُصِيبَةٌ أَوْ نَزَلَتْ بِهِ نَازِلَةٌ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلْيُسْبِغِ الْوُضُوءَ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ أَوْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يَقُولُ فِي آخِرِهِنَّ يَا مَوْضِعَ كُلِّ شَكْوَى وَيَا سَامِعَ كُلِّ نَجْوَى وَشَاهِدَ كُلِّ مَلأ وَعَالِمَ كُلِّ خَفِيَّةٍ وَيَا دَافِعَ مَا يَشَاءُ مِنْ بَلِيَّةٍ وَيَا خَلِيلَ إِبْرَاهِيمَ وَيَا نَجِيَّ مُوسَى وَيَا مُصْطَفِيَ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَدْعُوكَ دُعَاءَ مَنِ اشْتَدَّتْ فَاقَتُهُ وَقَلَّتْ حِيلَتُهُ وَضَعُفَتْ قُوَّتُهُ دُعَاءَ الْغَرِيقِ الْغَرِيبِ الْمُضْطَرِّ الَّذِي لا يَجِدُ لِكَشْفِ مَا هُوَ فِيهِ إِلا أَنْتَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ فَإِنَّهُ لا يَدْعُو بِهِ أَحَدٌ إِلا كَشَفَ الله عَنْهُ إِنْ شَاءَ الله۔

ابو حمزہ نے بیان کیا میں نے حضرت علی بن الحسین کو کہتے سنا اپنے فرزند سے بیٹا جب کسی مصیبت کا سامنا ہو اور کوئی بلا نازل ہو تو پورا وضو کرو اور دو رکعت یا چار رکعت نماز پڑھنے کے بعد کہو اے وہ ذات جس سے ہر شکایت کی جاتی ہے اے وہ ذات جو ہر کسی کی بات سنتا ہے اے وہ ذات جو ہر گروہ کے پاس موجود ہے اور ہر حقیقت کا جاننے والا ہے اور ہر بلا کا دفع کرنے والا ہے اے ابراہیم کے خلیل اے موسیٰ کو نجات دینے والے اے محمد کو برگزیدہ کرنے والے میں تجھ سے اس شخص کی طرح دعا کرتا ہوں جو فاقہ کی سختی میں مبتلا ہو اور جس کی تدبیر گئی گزری ہو اور جس کی قوت کمزور پڑ گئی ہو دعا کرتا ہوں اس پردیسی کی طرح جو مصیبتوں میں غرق ہو اور مضطر ہو اور جس بلا میں ہو اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اے ارحم الرحمین وہ اللہ کے سوا کسی کو غم دور کرنے والا نہیں پاتا۔

حدیث نمبر 16

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أَخِي سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَدْخُلُنِيَ الْغَمُّ فَقَالَ أَكْثِرْ مِنْ أَنْ تَقُولَ الله الله رَبِّي لا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً فَإِذَا خِفْتَ وَسْوَسَةً أَوْ حَدِيثَ نَفْسٍ فَقُلِ اللهمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ عَدْلٌ فِيَّ حُكْمُكَ مَاضٍ فِيَّ قَضَاؤُكَ اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ نُورَ بَصَرِي وَرَبِيعَ قَلْبِي وَجِلاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي الله الہ رَبِّي لا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہا میں غمگین رہتا ہوں۔ فرمایا زیادہ تر یہ دعا پڑھا کرو، اللہ اللہ میرا رب ہے اس کا شریک کسی کو قرار نہیں دیتا جب کوئی وسوسہ دل میں آئے یا خود فکر باطل میں پڑ جاؤ تو یہ کہو۔ یا اللہ میں تیرا بندہ تیرے بندے اور تیری کنیز کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے تیرا حکم میرے لیے مبنی بر عدل ہے تیرا حکم میرے بارے میں جاری ہونے والا ہے یا اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام سے جس کا ذکر تو نے اپنی کتاب میں کیا ہے یا کسی کو اپنی مخلوق میں تعلیم دی ہے یا تو نے مختص کیا ہے اس کو اپنے علم غیب سے یہ کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج اور یہ کہ قرآن کو میری آنکھوں کا نور قرار دے اور میرے رنج کا دور کرنے والا اور میرے غم کا دفع کرنے والا ہے اے اللہ اے اللہ تو میرا رب ہے میں تیرا شریک کسی کو قرار نہیں دیتا۔

حدیث نمبر 17

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ دُعَاءُ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لَيْلَةَ الأحْزَابِ يَا صَرِيخَ الْمَكْرُوبِينَ وَيَا مُجِيبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّينَ وَيَا كَاشِفَ غَمِّيَ اكْشِفْ عَنِّي غَمِّي وَهَمِّي وَكَرْبِي فَإِنَّكَ تَعْلَمُ حَالِي وَحَالَ أَصْحَابِي وَاكْفِنِي هَوْلَ عَدُوِّي۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے خندق کی جنگ میں حضرت کی یہ دعا تھی اے بیچینوں کے فریاد سننے والے اے رنج و غم کرب و اضطراب کو دور کرنے والے تو میرا اور میرے اصحاب کا حال خوب جانتا ہے دشمن کی طاقت کو توڑ کر میری مدد کر۔

حدیث نمبر 19

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) دُعَاءً وَأَنَا خَلْفَهُ فَقَالَ اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِوَجْهِكَ الْكَرِيمِ وَاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَبِعِزَّتِكَ الَّتِي لا تُرَامُ وَبِقُدْرَتِكَ الَّتِي لا يَمْتَنِعُ مِنْهَا شَيْ‏ءٌ أَنْ تَفْعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا قَالَ وَكَتَبَ إِلَيَّ رُقْعَةً بِخَطِّهِ قُلْ يَا مَنْ عَلا فَقَهَرَ وَبَطَنَ فَخَبَرَ يَا مَنْ مَلَكَ فَقَدَرَ وَيَا مَنْ يُحْيِي الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَافْعَلْ بِي كَذَا وَكَذَا ثُمَّ قُلْ يَا لا إِلَهَ إِلا الله ارْحَمْنِي بِحَقِّ لا إِلَهَ إِلا الله ارْحَمْنِي وَكَتَبَ إِلَيَّ فِي رُقْعَةٍ أُخْرَى يَأْمُرُنِي أَنْ أَقُولَ اللهمَّ ادْفَعْ عَنِّي بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي يَوْمِي هَذَا وَشَهْرِي هَذَا وَعَامِي هَذَا بَرَكَاتِكَ فِيهَا وَمَا يَنْزِلُ فِيهَا مِنْ عُقُوبَةٍ أَوْ مَكْرُوهٍ أَوْ بَلاءٍ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَعَنْ وُلْدِي بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ اللهمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحْوِيلِ عَافِيَتِكَ وَمِنْ فَجْأَةِ نَقِمَتِكَ وَمِنْ شَرِّ كِتَابٍ قَدْ سَبَقَ اللهمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي وَمِنْ شَرِّ كُلِّ دَابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ وَإِنَّ الله قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ عِلْماً وَأَحْصَى كُلَّ شَيْ‏ءٍ عَدَداً۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے جبکہ میں حضرت کے پیچھے چل رہا تھا دعا تعلیم کرنے کی خواہش کی کہو یا اللہ میں سوال کرتا ہوں تیری ذات کریم اور تیرے اسم اعظم سے اور تیرے نبی کی عزت سے اور تیری اس قدرت سے جسے کوئی شے روک نہیں سکتی کہ میری فلاں فلاں حاجت بر لا اور پھر حضرت نے اپنے دست مبارک سے ایک رقعہ میں یہ بھی لکھا اے وہ بلند و برتر ذات جو سب پر غالب ہے اور باطن سے خبردار اے وہ ذات جو مالک و قادر ہے جو مردے کو زندہ کرتا ہے اور ہر شے پر قادر ہے درود بھیج محمد و آل محمد پر اور میرے ساتھ ایسا ایسا کر پھر کہو اے وہ معبود نہیں بحق لا الہ الا اللہ مجھ پر رحم کر اور ایک دوسرے رقعہ میں لکھا کہ میں کہوں یا اللہ اپنی مدد اور قوت سے تکلیف کو مجھ سے دور کر میں آج کے دن اس مہینے میں اس سال میں تیری برکات چاہتا ہوں اور جو مصیبتیں نازل ہونے والی ہیں ان کو ہٹا دے مجھ سے اور میرے والدین سے اپنی مدد اور قوت سے تو ہر شے پر قادر ہے یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں زوال نعمت اور عافیت کے بدل جانے سے اور یکایک مصیبت کے نزول سے اور اس تحریر کی پریشانی سے جو سابق میں لکھی جا چکی ہے۔ یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں ہر اس زمین پر چلنے والی مخلوق سے جس کی پیشانی کو تو (روز قیامت) پکڑنے والا ہے اور تو ہر شے پر قادر ہے اور اللہ کا علم ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہر شے کا شمار جانتا ہے۔

حدیث نمبر 20

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ يَا لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ فَاكْفِنِي مَا أَهَمَّنِي وَلا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي تَقُولُهُ مِائَةَ مَرَّةٍ وَأَنْتَ سَاجِدٌ۔

ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں اے حی و قیوم کوئی معبود تیرے سوا نہیں میں تیری رحمت سے فریاد کرتا ہوں پس جو میرا ارادہ ہے اسے پورا کر اور میرے نفس پر اسے نہ چھوڑ، سجدہ میں سو بار کہے۔

حدیث نمبر 21

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَنَانٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَوْرَةَ عَنْ سَمَاعَةَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) إِذَا كَانَ لَكَ يَا سَمَاعَةُ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ حَاجَةٌ فَقُلِ اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِيٍّ فَإِنَّ لَهُمَا عِنْدَكَ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ وَقَدْراً مِنَ الْقَدْرِ فَبِحَقِّ ذَلِكَ الشَّأْنِ وَبِحَقِّ ذَلِكَ الْقَدْرِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَفْعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا فَإِنَّهُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ لَمْ يَبْقَ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَلا مُؤْمِنٌ مُمْتَحَنٌ إِلا وَهُوَ يَحْتَاجُ إِلَيْهِمَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ۔

سماعہ سے مروی ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا اے سماعہ جب خدا سے کوئی حاجت براری چاہے تو یوں کہو یا اللہ میں محمد و علی کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں ان دونوں کو تیرے نزدیک بڑی شان اور قدر ہے اور اسی شان اور قدر کے واسطہ سے کہتا ہوں کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج اور ایسا ایسا کر بے شک روز قیامت کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول اور کوئی ایسا مومن جس کا امتحان قدرت لے چکی ہو ایسا نہ ہو گا جو ان کی طرف محتاج نہ ہو۔

حدیث نمبر 22

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ الأحْمَرِ عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ الْكُوفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ وَالْعَلاءِ بْنِ سَيَابَةَ وَظَرِيفِ بْنِ نَاصِحٍ قَالَ لَمَّا بَعَثَ أَبُو الدَّوَانِيقِ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) رَفَعَ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ اللهمَّ إِنَّكَ حَفِظْتَ الْغُلامَيْنِ بِصَلاحِ أَبَوَيْهِمَا فَاحْفَظْنِي بِصَلاحِ آبَائِي مُحَمَّدٍ وَعَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ اللهمَّ إِنِّي أَدْرَأُ بِكَ فِي نَحْرِهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ ثُمَّ قَالَ لِلْجَمَّالِ سِرْ فَلَمَّا اسْتَقْبَلَهُ الرَّبِيعُ بِبَابِ أَبِي الدَّوَانِيقِ قَالَ لَهُ يَا أَبَا عَبْدِ الله مَا أَشَدَّ بَاطِنَهُ عَلَيْكَ لَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَالله لا تَرَكْتُ لَهُمْ نَخْلاً إِلا عَقَرْتُهُ وَلا مَالاً إِلا نَهَبْتُهُ وَلا ذُرِّيَّةً إِلا سَبَيْتُهَا قَالَ فَهَمَسَ بِشَيْ‏ءٍ خَفِيٍّ وَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ فَلَمَّا دَخَلَ سَلَّمَ وَقَعَدَ فَرَدَّ (عَلَيهِ السَّلام) ثُمَّ قَالَ أَمَا وَالله لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لا أَتْرُكَ لَكَ نَخْلاً إِلا عَقَرْتُهُ وَلا مَالاً إِلا أَخَذْتُهُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الله ابْتَلَى أَيُّوبَ فَصَبَرَ وَأَعْطَى دَاوُدَ فَشَكَرَ وَقَدَّرَ يُوسُفَ فَغَفَرَ وَأَنْتَ مِنْ ذَلِكَ النَّسْلِ وَلا يَأْتِي ذَلِكَ النَّسْلُ إِلا بِمَا يُشْبِهُهُ فَقَالَ صَدَقْتَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْكُمْ فَقَالَ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ لَمْ يَنَلْ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ أَحَدٌ دَماً إِلا سَلَبَهُ الله مُلْكَهُ فَغَضِبَ لِذَلِكَ وَاسْتَشَاطَ فَقَالَ عَلَى رِسْلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ هَذَا الْمُلْكَ كَانَ فِي آلِ أَبِي سُفْيَانَ فَلَمَّا قَتَلَ يَزِيدُ حُسَيْناً سَلَبَهُ الله مُلْكَهُ فَوَرَّثَهُ آلَ مَرْوَانَ فَلَمَّا قَتَلَ هِشَامٌ زَيْداً سَلَبَهُ الله مُلْكَهُ فَوَرَّثَهُ مَرْوَانَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَلَمَّا قَتَلَ مَرْوَانُ إِبْرَاهِيمَ سَلَبَهُ الله مُلْكَهُ فَأَعْطَاكُمُوهُ فَقَالَ صَدَقْتَ هَاتِ أَرْفَعْ حَوَائِجَكَ فَقَالَ الإذْنُ فَقَالَ هُوَ فِي يَدِكَ مَتَى شِئْتَ فَخَرَجَ فَقَالَ لَهُ الرَّبِيعُ قَدْ أَمَرَ لَكَ بِعَشَرَةِ آلافِ دِرْهَمٍ قَالَ لا حَاجَةَ لِيَ فِيهَا قَالَ إِذَنْ تُغْضِبَهُ فَخُذْهَا ثُمَّ تَصَدَّقْ بِهَا۔

راوی نے کہا جب منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو بغداد بلایا تو آپ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا خدایا تونے دونوں یتیم لڑکوں کے خزانوں کی حفاظت کی پس میری بھی حفاظت کر میرے آباء و اجداد محمد و علی و حسن و حسین علی بن الحسین اور محمد بن علی کی نیکی کی وجہ سے یا اللہ میں اس کے شر کو دفع کروں اس کے سینے پر ضرب لگا کر اور اے اللہ مجھے اس کے شر سے بچا لے پھر اونٹ کے ساربان سے کہا چل جب بغداد پہنچے تو ربیع نے منصور کے دروازہ پر آپ کا استقبال کرتے ہوئے کہا اس کے دل میں آپ کی طرف سے کینہ ہے میں نے اسے کہتے ہوئے سنا واللہ میں ان کے کسی جوان کو بے قتل کیے نہ چھوڑوں گا اور نہ ان کے مال کو بے لوٹے اور نہ ان کی ذریت کو بے قید کیے۔ حضرت نے آہستہ آہستہ کچھ پڑھا۔ اپنے ہونٹوں کو حرکت دی اس کے بعد اس کے پاس گئے اور سلام کیا اس نے جواب سلام دے کر کہا خدا کی قسم میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ کسی کو بے قتل کیے مال کو لوٹے بغیر اور ذریت کو بے قید کیے نہ چھوڑوں گا۔ حضرت نے فرمایا خدا نے ایوب کو مبتلا کیا تو انھوں نے صبر کیا داؤد کو نعمت دی تو انھوں نے شکر ادا کیا یوسف کے بھائیوں سے بدلہ پر قدرت دی تو انھوں نے معاف کر دیا تم انہی کی نسل سے ہو اور اسی نسل کو وہی کرنا چاہیے جو اس کے عمل سے مشابہ ہو۔ اس نے کہا آپ نے سچ کہا۔ میں نے معاف کر دیا۔ آپ نے فرمایا یہ بھی یاد رکھو جس نے اہل بیت میں سے کسی کا خون بہایا اس سے ملک چھین لیا گیا یہ سن کر منصور کو غصہ آیا۔ آپ نے فرمایا اے شخص اپنے غصہ کو دھیما کر کے سن یہ ملک اولاد ابو سفیان کے پاس تھا جب یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا تو ان سے ملک کو اللہ نے چھین لیا اورر اس پر مروان بن محمد قابض ہو گیا ۔ جب مروان نے ابراہیم کو قتل کیا تو اللہ نے اس سے ملک نکال کر تمہیں دے دیا۔ اس نے کہا آپ نے سچ کہا بیان کیجیے آپ کی کیا حاجت ہے۔ فرمایا جانے کے لیے اذن چاہتا ہوں اس نے کہا آپ کی مرضی حضرت اس کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے ربیع نے کہا بادشاہ نے آپ کو دس ہزار درہم دینے کا حکم دیا ہے فرمایا مجھے ان کی ضرورت نہیں اس نے کہا لیجیے ورنہ وہ برا مانے گا انہیں لے کر تصدیق کر دیجیے۔