مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

فضل قرآن

(6-1)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْعَبَّاسِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ الْحَرِيرِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ الْخَفَّافِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَا سَعْدُ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّ الْقُرْآنَ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا الْخَلْقُ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ عِشْرُونَ وَمِائَةُ أَلْفِ صَفٍّ ثَمَانُونَ أَلْفَ صَفٍّ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ وَأَرْبَعُونَ أَلْفَ صَفٍّ مِنْ سَائِرِ الأمَمِ فَيَأْتِي عَلَى صَفِّ الْمُسْلِمِينَ فِي صُورَةِ رَجُلٍ فَيُسَلِّمُ فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ يَقُولُونَ لا إِلَهَ إِلا الله الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ نَعْرِفُهُ بِنَعْتِهِ وَصِفَتِهِ غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ أَشَدَّ اجْتِهَاداً مِنَّا فِي الْقُرْآنِ فَمِنْ هُنَاكَ أُعْطِيَ مِنَ الْبَهَاءِ وَالْجَمَالِ وَالنُّورِ مَا لَمْ نُعْطَهُ ثُمَّ يُجَاوِزُ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى صَفِّ الشُّهَدَاءِ فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ الشُّهَدَاءُ ثُمَّ يَقُولُونَ لا إِلَهَ إِلا الله الرَّبُّ الرَّحِيمُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ مِنَ الشُّهَدَاءِ نَعْرِفُهُ بِسَمْتِهِ وَصِفَتِهِ غَيْرَ أَنَّهُ مِنْ شُهَدَاءِ الْبَحْرِ فَمِنْ هُنَاكَ أُعْطِيَ مِنَ الْبَهَاءِ وَالْفَضْلِ مَا لَمْ نُعْطَهُ قَالَ فَيَتَجَاوَزُ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى صَفِّ شُهَدَاءِ الْبَحْرِ فِي صُورَةِ شَهِيدٍ فَيَنْظُرُ إِلَيْهِ شُهَدَاءُ الْبَحْرِ فَيَكْثُرُ تَعَجُّبُهُمْ وَيَقُولُونَ إِنَّ هَذَا مِنْ شُهَدَاءِ الْبَحْرِ نَعْرِفُهُ بِسَمْتِهِ وَصِفَتِهِ غَيْرَ أَنَّ الْجَزِيرَةَ الَّتِي أُصِيبَ فِيهَا كَانَتْ أَعْظَمَ هَوْلاً مِنَ الْجَزِيرَةِ الَّتِي أُصِبْنَا فِيهَا فَمِنْ هُنَاكَ أُعْطِيَ مِنَ الْبَهَاءِ وَالْجَمَالِ وَالنُّورِ مَا لَمْ نُعْطَهُ ثُمَّ يُجَاوِزُ حَتَّى يَأْتِيَ صَفَّ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ فِي صُورَةِ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ فَيَنْظُرُ النَّبِيُّونَ وَالْمُرْسَلُونَ إِلَيْهِ فَيَشْتَدُّ لِذَلِكَ تَعَجُّبُهُمْ وَيَقُولُونَ لا إِلَهَ إِلا الله الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ إِنَّ هَذَا النَّبِيَّ مُرْسَلٌ نَعْرِفُهُ بِسَمْتِهِ وَصِفَتِهِ غَيْرَ أَنَّهُ أُعْطِيَ فَضْلاً كَثِيراً قَالَ فَيَجْتَمِعُونَ فَيَأْتُونَ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَيَسْأَلُونَهُ وَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ مَنْ هَذَا فَيَقُولُ لَهُمْ أَ وَمَا تَعْرِفُونَهُ فَيَقُولُونَ مَا نَعْرِفُهُ هَذَا مِمَّنْ لَمْ يَغْضَبِ الله عَلَيْهِ فَيَقُولُ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) هَذَا حُجَّةُ الله عَلَى خَلْقِهِ فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يُجَاوِزُ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى صَفِّ الْمَلائِكَةِ فِي سُورَةِ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ فَتَنْظُرُ إِلَيْهِ الْمَلائِكَةُ فَيَشْتَدُّ تَعَجُّبُهُمْ وَيَكْبُرُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ لِمَا رَأَوْا مِنْ فَضْلِهِ وَيَقُولُونَ تَعَالَى رَبُّنَا وَتَقَدَّسَ إِنَّ هَذَا الْعَبْدَ مِنَ الْمَلائِكَةِ نَعْرِفُهُ بِسَمْتِهِ وَصِفَتِهِ غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ أَقْرَبَ الْمَلائِكَةِ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ مَقَاماً فَمِنْ هُنَاكَ أُلْبِسَ مِنَ النُّورِ وَالْجَمَالِ مَا لَمْ نُلْبَسْ ثُمَّ يُجَاوِزُ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى رَبِّ الْعِزَّةِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَخِرُّ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُنَادِيهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا حُجَّتِي فِي الأرْضِ وَكَلامِيَ الصَّادِقَ النَّاطِقَ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَيَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى كَيْفَ رَأَيْتَ عِبَادِي فَيَقُولُ يَا رَبِّ مِنْهُمْ مَنْ صَانَنِي وَحَافَظَ عَلَيَّ وَلَمْ يُضَيِّعْ شَيْئاً وَمِنْهُمْ مَنْ ضَيَّعَنِي وَاسْتَخَفَّ بِحَقِّي وَكَذَّبَ بِي وَأَنَا حُجَّتُكَ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِكَ فَيَقُولُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَعِزَّتِي وَجَلالِي وَارْتِفَاعِ مَكَانِي لأثِيبَنَّ عَلَيْكَ الْيَوْمَ أَحْسَنَ الثَّوَابِ وَلأعَاقِبَنَّ عَلَيْكَ الْيَوْمَ أَلِيمَ الْعِقَابِ قَالَ فَيَرْجِعُ الْقُرْآنُ رَأْسَهُ فِي صُورَةٍ أُخْرَى قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا جَعْفَرٍ فِي أَيِّ صُورَةٍ يَرْجِعُ قَالَ فِي صُورَةِ رَجُلٍ شَاحِبٍ مُتَغَيِّرٍ يُبْصِرُهُ أَهْلُ الْجَمْعِ فَيَأْتِي الرَّجُلَ مِنْ شِيعَتِنَا الَّذِي كَانَ يَعْرِفُهُ وَيُجَادِلُ بِهِ أَهْلَ الْخِلافِ فَيَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَقُولُ مَا تَعْرِفُنِي فَيَنْظُرُ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَيَقُولُ مَا أَعْرِفُكَ يَا عَبْدَ الله قَالَ فَيَرْجِعُ فِي صُورَتِهِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْخَلْقِ الأوَّلِ وَيَقُولُ مَا تَعْرِفُنِي فَيَقُولُ نَعَمْ فَيَقُولُ الْقُرْآنُ أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ وَأَنْصَبْتُ عَيْشَكَ سَمِعْتَ الأذَى وَرُجِمْتَ بِالْقَوْلِ فِيَّ أَلا وَإِنَّ كُلَّ تَاجِرٍ قَدِ اسْتَوْفَى تِجَارَتَهُ. وَأَنَا وَرَاءَكَ الْيَوْمَ قَالَ فَيَنْطَلِقُ بِهِ إِلَى رَبِّ الْعِزَّةِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَقُولُ يَا رَبِّ يَا رَبِّ عَبْدُكَ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ قَدْ كَانَ نَصِباً فِيَّ مُوَاظِباً عَلَيَّ يُعَادَى بِسَبَبِي وَيُحِبُّ فِيَّ وَيُبْغِضُ فَيَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ أَدْخِلُوا عَبْدِي جَنَّتِي وَاكْسُوهُ حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةَ وَتَوِّجُوهُ بِتَاجٍ فَإِذَا فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ عُرِضَ عَلَى الْقُرْآنِ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَضِيتَ بِمَا صُنِعَ بِوَلِيِّكَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ إِنِّي أَسْتَقِلُّ هَذَا لَهُ فَزِدْهُ مَزِيدَ الْخَيْرِ كُلِّهِ فَيَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلالِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَكَانِي لأنْحَلَنَّ لَهُ الْيَوْمَ خَمْسَةَ أَشْيَاءَ مَعَ الْمَزِيدِ لَهُ وَلِمَنْ كَانَ بِمَنْزِلَتِهِ أَلا إِنَّهُمْ شَبَابٌ لا يَهْرَمُونَ وَأَصِحَّاءُ لا يَسْقُمُونَ وَأَغْنِيَاءُ لا يَفْتَقِرُونَ وَفَرِحُونَ لا يَحْزَنُونَ وَأَحْيَاءٌ لا يَمُوتُونَ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلا الْمَوْتَةَ الأولى‏ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا أَبَا جَعْفَرٍ وَهَلْ يَتَكَلَّمُ الْقُرْآنُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ رَحِمَ الله الضُّعَفَاءَ مِنْ شِيعَتِنَا إِنَّهُمْ أَهْلُ تَسْلِيمٍ ثُمَّ قَالَ نَعَمْ يَا سَعْدُ وَالصَّلاةُ تَتَكَلَّمُ وَلَهَا صُورَةٌ وَخَلْقٌ تَأْمُرُ وَتَنْهَى قَالَ سَعْدٌ فَتَغَيَّرَ لِذَلِكَ لَوْنِي وَقُلْتُ هَذَا شَيْ‏ءٌ لا أَسْتَطِيعُ أَنَا أَتَكَلَّمُ بِهِ فِي النَّاسِ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ وَهَلِ النَّاسُ إِلا شِيعَتُنَا فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الصَّلاةَ فَقَدْ أَنْكَرَ حَقَّنَا ثُمَّ قَالَ يَا سَعْدُ أُسْمِعُكَ كَلامَ الْقُرْآنِ قَالَ سَعْدٌ فَقُلْتُ بَلَى صَلَّى الله عَلَيْكَ فَقَالَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ الله أَكْبَرُ فَالنَّهْيُ كَلامٌ وَالْفَحْشَاءُ وَالْمُنْكَرُ رِجَالٌ وَنَحْنُ ذِكْرُ الله وَنَحْنُ أَكْبَرُ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے سعد سے فرمایا قرآن کے معانی و مطالب حاصل کرو قیامت کے دن قرآن نہایت اچھی صورت میں آئے گا لوگ اسے دیکھیں گے لوگوں کی ایک لاکھ بیس ہزار صفیں ہوں گی جن میں اسی ہزار صفیں تو امت محمد کی ہوں گی اور چالیس ہزار تمام امتوں کی۔ قرآن مسلمانوں کی ایک صف کے سامنے ایک مرد کی صورت میں آئے گا اور سلام کرے گا لوگ اس کی طرف دیکھیں گے لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم ضرور یہ شخص مسلمانوں میں سے ہے ہم اس کی تعریف اور صف کو جانتے ہیں سوائے اس کے کہ اس نے ہم سے زیادہ علم قرآن حاصل کرنے میں جدوجہد کی۔ اسی لیے اسے حسن و جمال اور نور دیا گیا جو ہم کو نہیں دیا گیا۔ وہ پھر وہاں سے بڑھ کر صف شہدا کی طرف آئے گا شہدا اس کو دیکھ کر کہیں گے لا الہ الا اللہ الرب الرحیم یہ شخص شہداء میں سے ہے ہم شہید کی علامت اور صفت کو جانتے ہیں سوائے اس کے کہ یہ شہدائے بحر اسے دیکھ کر تعجب سے کہیں گے یہ ہے تو شہدائے بحر سے کیونکہ ہم اس کی علامت و خصوصیت جانتے ہیں مگر یہ جزیرہ میں شہید کیا گیا ہو گا جو اس جزیرہ سے بہت بڑا ہو گا جہاں ہم شہید ہوئے اسی وجہ سے اس کا حسن و جمال و نور ہم سے زیادہ ہے پھر وہ انبیاء و مرسلین کی صف کے ساتھ آئے گا وہ اسے دیکھ کر نہایت متعجب ہوں گے اور کہیں گے لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم یہ ضرور نبی مرسل ہے کیونکہ ہم اس کی علامت اور خصوصیت جانتے ہیں مگر یہ کہ اس کو بہت زیادہ فضیلت دی گئی ہے پھر امام نے فرمایا پس لوگ جمع ہو کر رسول اللہ کے پاس آ کر کہیں گے یا محمد یہ کون ہے حضرت فرمائیں گے کیا تم نہیں پہچانتے۔ وہ کہیں گے ہم اسے نہیں جانتے یہ ان سے معلوم ہوتا ہے جن پر اللہ کا غضب نہیں۔ رسول اللہ فرمائیں گے یہ مخلوق خدا کی حجت ہے پھر وہ سلام کر کے آگے بڑھ جائے گا اور ایک ملک مقرب کی صورت میں صف ملائکہ کے طرف آئے گا ملائکہ اسے دیکھ کر بڑا تعجب کریں گے اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس کی بڑائی کا اقرار کریں گے اور کہیں گے ہمارا رب بہت بلند اور پاک ہے یہ بندہ ضرور ملائکہ میں سے ہے اس کی علامتوں اور صفتوں سے پہچان گئے لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ کوئی خدا کا سب سے زیادہ مقرب فرشتہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے نور کا ایسا لباس پہن رکھا ہے جو ہمیں میسر نہیں۔ پھر آگے بڑھے گا اور بارگاہ رب العزت تک پہنچے گا پس عرش کے نیچے سجدہ میں گرے گا خدا فرمائے گا اے روئے زمین پر میری حجت اے میرے کلام صادق و ناطق اپنا سر اٹھا اور سوال کر تیرا سوال پورا ہو گا سفارش کر قبول ہو گی وہ اپنا سر اٹھائے گا خدا پوچھے گا تو نے میرے بندوں کو کیسا پایا وہ کہے گا پروردگار کچھ تو ان میں ایسے تھے جنھوں نے میری حفاظت کی اور مجھے حفظ یاد رکھا اور کوئی شے ضائع ہونے نہیں دی اور کچھ ایسے ہیں جنھوں نے مجھے ضائع کیا اور میرے حق کو ہلکا سمجھا اور مجھے جھٹلایا حالانکہ میں تمام مخلوق پر تیری حجت تھا خدائے تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اپنے عزت و جلال اور بلندی مکان کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں آج تیری حفاظت کرنے والوں کو بہت زیادہ دوں گا اور نہ ماننے والوں اور ناقدری کرنے والوں کو سخت سزا دوں گا۔ پھر فرمایا قرآن کے بعد ایک دوسری صورت اختیار کرے گا راوی نے پوچھا وہ کیا صورت ہو گی۔ فرمایا ایک مسافر کی صورت جس کا رنگ تکان سفر سے متغیر ہو گا۔ اہل محشر اسے دیکھیں گے اس وقت ایک شخص ہمارے شیعوں میں سے آئے گا جو اس کو پہچانتا ہو گا اورر وہ محافظ قرآن سے اس کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر کہے گا تو نے مجھے پہچانا نہیں۔ وہ شخص اس کی طرف دیکھ کر کہے گا اے بندہ خدا میں نے تجھے نہیں پہچانا۔ تب قرآن اپنی اصل صورت میں آ کر کہے گا تو نے اب بھی نہ پہچانا۔ وہ کہے گا ہاں پہچان لیا۔ قرآن کہے گا میں وہی ہوں جس کی وجہ سے تو راتوں جاگا تھا اور اپنے عیش کو ترک کیا تھا اور میرے بارے میں لوگوں کی طعن آمیز باتیں سنی تھیں۔ سب تاجروں نے اپنی تجارت کا نفع پا لیا آج میں تجھے نفع پہنچاؤں گا ۔ حضرت نے فرمایا پھر قرآن اسے لے کر خدا کے پاس آئے گا اور کہے گا اے پروردگار یہ تیرا بندہ ہے اور تو اس کا حال بہتر جاننے والا ہے اس نے میری وجہ سے ہمیشہ تکلیف اٹھائی اور میرے سبب سے لوگوں کو اپنا دشمن بنایا میرے لیے اس نے لوگوں سے دوستی یا دشمنی کی۔ خدا فرمائے گا میرے اس بندہ کو میری جنت میں داخل کرو اور جنت کا لباس اسے پہناؤ اور اس کے سر پر تاج رکھو۔ جب یہ ہو چکے گا تو قرآن پر پیش کر کے کہا جائے گا جو تیرے دوست کے ساتھ کیا گیا اس پر تو راضی ہے وہ کہے گا پروردگارا یہ تو کم ہے اور زیادہ کر، خدا فرمائے گا اپنے عزت و جلال اور بلندی اور ارتفاع مکانی کی میں اس کے علاوہ پانچ چیزیں اور اس کے لیے اور جو اس کے درجے اس کے لیے اضافہ کرتا ہوں وہ ہمیشہ جوان رہیں گے بوڑھے نہ ہوں گے تندرست رہیں گے بوڑھے نہ ہوں گے مالدار رہیں گے محتاج نہ ہوں گے خوش رہیں گے رنجیدہ نہ ہوں گے زندہ رہیں گے مریں گے نہیں پھر حضرت نے یہ آیت پڑھی جنت میں وہ موت کا مزہ چکھیں گے سوائے پہلی موت کے۔
میں نے کہا اے ابو جعفر کیا قرآن بھی بولتا ہے۔ فرمایا اللہ رحم کرے ہمارے شیعوں پر کہ وہ ہماری بات کو قبول کر لیتے ہیں (اور خود غور و فکر نہیں کرتے) پھر فرمایا اے سعد نماز بھی بولتی ہے اس کی صورت و خلقت ہے وہ روکتی ہے سعد نے کہا یہ سن کر میرا چہرہ متغیر ہو گیا میں نے کہا یہ ایسی بات ہے کہ میں لوگوں کے سامنے کہہ نہیں سکتا۔ حضرت نے فرمایا سمجھدار لوگ تو ہمارے شیعہ ہی ہیں جس نے نماز کو نہ پہچانا اس نے ہمارے حق کا انکار کیا۔ فرمایا سعد کیا میں تمہیں قرآن کی آیت سناؤں میں نے کہا ضرور، فرمایا نماز بدکاری اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے پس یہی کلام ہی تو ہے اور فحشا و منکر کے مصداق عام لوگ ہیں اور ذکر اللہ سے مراد ہم اور ہم اکبر ہیں۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ آبَائِهِ (عَلَيهِم السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ فِي دَارِ هُدْنَةٍ وَأَنْتُمْ عَلَى ظَهْرِ سَفَرٍ وَالسَّيْرُ بِكُمْ سَرِيعٌ وَقَدْ رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ يُبْلِيَانِ كُلَّ جَدِيدٍ وَيُقَرِّبَانِ كُلَّ بَعِيدٍ وَيَأْتِيَانِ بِكُلِّ مَوْعُودٍ فَأَعِدُّوا الْجَهَازَ لِبُعْدِ الْمَجَازِ قَالَ فَقَامَ الْمِقْدَادُ بْنُ الأسْوَدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله وَمَا دَارُ الْهُدْنَةِ قَالَ دَارُ بَلاغٍ وَانْقِطَاعٍ فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَيْكُمُ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّهُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلٌ مُصَدَّقٌ وَمَنْ جَعَلَهُ أَمَامَهُ قَادَهُ إِلَى الْجَنَّةِ وَمَنْ جَعَلَهُ خَلْفَهُ سَاقَهُ إِلَى النَّارِ وَهُوَ الدَّلِيلُ يَدُلُّ عَلَى خَيْرِ سَبِيلٍ وَهُوَ كِتَابٌ فِيهِ تَفْصِيلٌ وَبَيَانٌ وَتَحْصِيلٌ وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ وَلَهُ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ فَظَاهِرُهُ حُكْمٌ وَبَاطِنُهُ عِلْمٌ ظَاهِرُهُ أَنِيقٌ وَبَاطِنُهُ عَمِيقٌ لَهُ نُجُومٌ وَعَلَى نُجُومِهِ نُجُومٌ لا تُحْصَى عَجَائِبُهُ وَلا تُبْلَى غَرَائِبُهُ فِيهِ مَصَابِيحُ الْهُدَى وَمَنَارُ الْحِكْمَةِ وَدَلِيلٌ عَلَى الْمَعْرِفَةِ لِمَنْ عَرَفَ الصِّفَةَ فَلْيَجْلُ جَالٍ بَصَرَهُ وَلْيُبْلِغِ الصِّفَةَ نَظَرَهُ يَنْجُ مِنْ عَطَبٍ وَيَتَخَلَّصْ مِنْ نَشَبٍ فَإِنَّ التَّفَكُّرَ حَيَاةُ قَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ فَعَلَيْكُمْ بِحُسْنِ التَّخَلُّصِ وَقِلَّةِ التَّرَبُّصِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ تم ہدنہ کے گھر میں ہو تم سفر میں ہو اور نہایت تیزی سے سفر کر رہے ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ رات اور دن سورج اور چاند ہر نئی چیز کو کہنہ بنا رہے ہیں اور ہر بعید کو قریب کرتے جا رہے ہیں اور وعدہ کیے ہوئے کو لا رہے ہیں پس راستہ دور ہے اپنی کوششوں کو تیار رکھو۔ مقداد بن اسود نے پوچھا یا رسول اللہ ہدنہ کیا ہے۔ فرمایا وہ مبالغہ کا گھر ہے اور لذتوں کے قطع کرنے کی جگہ ہے پس جب فتنے تمہارے اوپر مشتبہ ہو جائیں اور تاریک رات کی طرح چھا جائیں تو تم قرآن کی طرف رجوع کرو اور شفاعت کرنے والا بھی ہے اور مقبول الشفاعہ بھی اور جو خدا کی طرف سے آیا ہے اس کی تصدیق کرنے والا۔ جس نے اس کو آگے رکھا وہ اسے جنت کی طرف لے گیا اور جس نے اسے پیچھے ڈالا تو وہ اسے دوزخ کی طرف کھینچ لے گیا۔ وہ ایسا رہنما ہے کہ رہنمائی کرتا ہے بہترین نیکی کے راستے کی طرف اور وہ ایسی کتاب ہے جس میں محکم و متشابہ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے جس میں احکام کی توضیح ہے اور علم کی تحصیل ہے وہ صاحب فضل ہے بکواس نہیں اس کے لیے بھی ظاہر ہے اور باطن بھی ظاہر میں حکم قطع و فصل ہے اور باطن میں علم ہے ظاہر اس کا نہایت خوشنما اور باطن بہت گہرا ہے قرآن کے لیے کچھ ستارے ہیں (معانی قرآن پر روشنی ڈالنے والے) اور ستاروں پر اور ستارے ہیں اس کے عجائب شمار میں نہیں آتے اور اسکے غرائب کہنہ نہیں ہوتے۔ وہ ہدایت کے چراغ ہیں اور حکمت کے منارے ہیں اورر جس نے اس کی صفات کو پہچان لیا وہ اس کے لیے دلیل مغفرت بن گیا پس لازم ہے کہ آنکھیں روشنی حاصل کریں جس کی نظر اس کی صفات تک پہنچ گئی اس نے ہلاکت سے نجات پائی اور دام فریب سے آزاد رہا احکام قرآنی میں غور و فکر کرنا قلب بصیر کی زندگی ہے اور وہ اس طرح ہدایت پاتا ہے جیسے تاریکی میں چراغ لے کر چلنے والا، پس تم کو چاہے کہ شبہات سے الگ رہو اور ان شبہات کے پیدا ہونے کا انتظار کم کرو۔

حدیث نمبر 3

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الْعَزِيزَ الْجَبَّارَ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ كِتَابَهُ وَهُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ فِيهِ خَبَرُكُمْ وَخَبَرُ مَنْ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَنْ بَعْدَكُمْ وَخَبَرُ السَّمَاءِ وَالأرْضِ وَلَوْ أَتَاكُمْ مَنْ يُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ لَتَعَجَّبْتُمْ۔

راوی کہتا ہے کہ حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ خدائے عزیز و جبار نے تم پر اپنی کتاب نازل کی اور وہ سچا اور خیر پسند ہے اور اس میں تمہارے متعلق بھی خبر دی گئی ہے اور تم سے پہلوں کے متعلق بھی اور تم سے بعد والوں کے متعلق بھی۔ اگر کوئی تمہارے پاس آ کر یہ خبریں بیان کرتا تو کیا تم تعجب نہ کرتے۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَى الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَكِتَابُهُ وَأَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ أُمَّتِي ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِكِتَابِ الله وَبِأَهْلِ بَيْتِي۔

ابو جارود سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا روز قیامت سب سے پہلے خدائے عزیز و جبار کے سامنے میں حاضر ہوں گا اور خدا کی کتاب آئے گی اور میرے اہلبیت پھر میری امت میں ان سے پوچھوں گا کہ کتاب خدا اور میرے اہلبیت کے ساتھ کیا کیا۔

حدیث نمبر 5

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ فِيهِ مَنَارُ الْهُدَى وَمَصَابِيحُ الدُّجَى فَلْيَجْلُ جَالٍ بَصَرَهُ وَيَفْتَحُ لِلضِّيَاءِ نَظَرَهُ فَإِنَّ التَّفَكُّرَ حَيَاةُ قَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس قرآن میں ہدایت کے منارے ہیں تاریکی کے چراغ ہیں چاہیے کہ اس سے آنکھوں میں روشنی حاصل کرے اور اس کی ضیا حاصل کرنے کے لیے اپنی نظر کو کھولے کیونکہ تفکر قلب بصیر کے لیے زندگی ہے اور اس کی روشنی میں اسی طرح چلتا ہے جیسے تاریکی میں روشنی لے کر چلنے والا۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كَانَ فِي وَصِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) أَصْحَابَهُ اعْلَمُوا أَنَّ الْقُرْآنَ هُدَى النَّهَارِ وَنُورُ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ جَهْدٍ وَفَاقَةٍ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ امیر المومنین کی ایک وصیت اپنے اصحاب کو یہ بھی تھی آگاہ رہو قرآن ہدایت ہے دن میں اور نور ہے تاریک راتوں میں اور بے پروا کرنے والا فقر و فاقہ سے۔

حدیث نمبر 7

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ آبَائِهِ (عَلَيهِم السَّلام) قَالَ شَكَا رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَجَعاً فِي صَدْرِهِ فَقَالَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) اسْتَشْفِ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ایک شخص نے حضرت رسول خدا سے سینہ کے درد کی شکایت کی فرمایا قرآن سے شفا حاصل کر، خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے قرآن شفا ہے اس مرض کے لیے جو سینوں کے اندر ہے۔

حدیث نمبر 8

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْخَشَّابِ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) لا وَالله لا يَرْجِعُ الأمْرُ وَالْخِلافَةُ إِلَى آلِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ أَبَداً وَلا إِلَى بَنِي أُمَيَّةَ أَبَداً وَلا فِي وُلْدِ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ أَبَداً وَذَلِكَ أَنَّهُمْ نَبَذُوا الْقُرْآنَ وَأَبْطَلُوا السُّنَنَ وَعَطَّلُوا الأحْكَامَ وَقَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) الْقُرْآنُ هُدًى مِنَ الضَّلالِ وَتِبْيَانٌ مِنَ الْعَمَى وَاسْتِقَالَةٌ مِنَ الْعَثْرَةِ وَنُورٌ مِنَ الظُّلْمَةِ وَضِيَاءٌ مِنَ الأحْدَاثِ وَعِصْمَةٌ مِنَ الْهَلَكَةِ وَرُشْدٌ مِنَ الْغَوَايَةِ وَبَيَانٌ مِنَ الْفِتَنِ وَبَلاغٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلَى الآخِرَةِ وَفِيهِ كَمَالُ دِينِكُمْ وَمَا عَدَلَ أَحَدٌ عَنِ الْقُرْآنِ إِلا إِلَى النَّارِ۔

فرمایا صادق آل محمد نے واللہ امر امامت و خلافت رجوع نہیں ہو گا اولاد ابو بکر و عمر کی طرف کسی بھی اور نہ بنی امیہ کی طرف کبھی اور نہ اولاد طلحہ و زبیر کی طرف کبھی اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب خدا کو پس پشت ڈال دیا اور سنتوں کو باطل قرار دیا اور احکام کو معطل بنا دیا۔ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ قرآن ضلالت سے بچانے والا ہے اندھا پن کو امور شرع میں بیان کرنے والا ہے غلط کاریوں سے نجات ہے ظلمت کفر میں نور ہے اور احداث و بدعات میں حق کی روشنی ہے اور ہلاکت سے بچانے والا ہے اور گمراہی میں رشد و ہدایت ہے فتنوں میں حق کا بیان ہے اور دنیا سے آخرت کی طرف پہچانے والا اس میں تمہارے دین کا کمال ہے جس نے حدود خدا سے تجاوز کیا وہ دوزخی ہے۔

حدیث نمبر 9

حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ وُهَيْبِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ الْقُرْآنَ زَاجِرٌ وَآمِرٌ يَأْمُرُ بِالْجَنَّةِ وَيَزْجُرُ عَنِ النَّارِ۔

میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ قرآن نہی کرتا ہے برے کاموں سے اور حکم دیتا ہے اچھے کاموں کا وہ حکم دیتا ہے جنت کا اور روکتا ہے دوزخ سے۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ سَعْدٍ الإسْكَافِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أُعْطِيتُ السُّوَرَ الطِّوَالَ مَكَانَ التَّوْرَاةِ وَأُعْطِيتُ الْمِئِينَ مَكَانَ الإنْجِيلِ وَأُعْطِيتُ الْمَثَانِيَ مَكَانَ الزَّبُورِ وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ ثَمَانٌ وَسِتُّونَ سُورَةً وَهُوَ مُهَيْمِنٌ عَلَى سَائِرِ الْكُتُبِ وَالتَّوْرَاةُ لِمُوسَى وَالإنْجِيلُ لِعِيسَى وَالزَّبُورُ لِدَاوُدَ۔

فرمایا رسول اللہ نے مجھے توریت کے بجائے لمبے لمبے سورے دیئے گئے اور انجیل کی جگہ دو سو آیتوں والے اور دو بار نازل ہونے والے زبور کی جگہ اور مجھے فضیلت دی گئی ہے مفصل سورے دے کر اور وہ تمام آسمانی کتابوں پر حاوی ہیں یعنی موسیٰ کی توریت، عیسیٰ کی انجیل اور داؤد کی زبور۔

حدیث نمبر 11

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَجِي‏ءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي أَحْسَنِ مَنْظُورٍ إِلَيْهِ صُورَةً فَيَمُرُّ بِالْمُسْلِمِينَ فَيَقُولُونَ هَذَا الرَّجُلُ مِنَّا فَيُجَاوِزُهُمْ إِلَى النَّبِيِّينَ فَيَقُولُونَ هُوَ مِنَّا فَيُجَاوِزُهُمْ إِلَى الْمَلائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فَيَقُولُونَ هُوَ مِنَّا حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى رَبِّ الْعِزَّةِ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقُولُ يَا رَبِّ فُلانُ بْنُ فُلانٍ أَظْمَأْتُ هَوَاجِرَهُ وَأَسْهَرْتُ لَيْلَهُ فِي دَارِ الدُّنْيَا وَفُلانُ بْنُ فُلانٍ لَمْ أُظْمِئْ هَوَاجِرَهُ وَلَمْ أُسْهِرْ لَيْلَهُ فَيَقُولُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَدْخِلْهُمُ الْجَنَّةَ عَلَى مَنَازِلِهِمْ فَيَقُومُ فَيَتَّبِعُونَهُ فَيَقُولُ لِلْمُؤْمِنِ اقْرَأْ وَارْقَهْ قَالَ فَيَقْرَأُ وَيَرْقَى حَتَّى يَبْلُغَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَنْزِلَتَهُ الَّتِي هِيَ لَهُ فَيَنْزِلُهَا۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ قرآن روز قیامت بہت اچھی صورت میں آئے گا جب مسلمانوں کی طرف سے گزرے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ ہم میں سے ہے پھر وہ وہاں سے انبیاء کی طرف آئے گا وہ کہیں گے یہ ہم میں سے ہے پھر ملائکہ مقربین کی طرف آئے گا وہ کہیں گے یہ ہم میں سے ہے پھر وہ خدا کے سامنے آئے گا اور کہے گا اے میرے رب فلاں بن فلاں کو میں نے دنیا میں دوپہر کی گرمی میں پیاسا رکھا اور رات کو جگایا اور فلاں بن فلاں نہ تو گرمی میں میرے احکام بجا لانے کے لیے نہ تو پیاسا رہا اور نہ جاگا۔ خدا فرمائے گا میں ان کو موافق ان کے درجات کے جنت میں داخل کروں گا وہ کھڑے ہوں گے اور ان کے پیچھے چلیں گے وہ مومن خدا سے کہے گا قرآن کی آیت پڑھ اور اوپر چل امام نے فرمایا وہ پڑھے گا اور بلند ہو گا یہاں تک کہ ہر شخص اپنی منزلت کو پہنچ جائے گا اور وہاں قیام پذیر ہو گا۔

حدیث نمبر 12

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَسَهْلِ بْنِ زِيَادٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الدَّوَاوِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلاثَةٌ دِيوَانٌ فِيهِ النِّعَمُ وَدِيوَانٌ فِيهِ الْحَسَنَاتُ وَدِيوَانٌ فِيهِ السَّيِّئَاتُ فَيُقَابَلُ بَيْنَ دِيوَانِ النِّعَمِ وَدِيوَانِ الْحَسَنَاتِ فَتَسْتَغْرِقُ النِّعَمُ عَامَّةَ الْحَسَنَاتِ وَيَبْقَى دِيوَانُ السَّيِّئَاتِ فَيُدْعَى بِابْنِ آدَمَ الْمُؤْمِنِ لِلْحِسَابِ فَيَتَقَدَّمُ الْقُرْآنُ أَمَامَهُ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَيَقُولُ يَا رَبِّ أَنَا الْقُرْآنُ وَهَذَا عَبْدُكَ الْمُؤْمِنُ قَدْ كَانَ يُتْعِبُ نَفْسَهُ بِتِلاوَتِي وَيُطِيلُ لَيْلَهُ بِتَرْتِيلِي وَتَفِيضُ عَيْنَاهُ إِذَا تَهَجَّدَ فَأَرْضِهِ كَمَا أَرْضَانِي قَالَ فَيَقُولُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ عَبْدِيَ ابْسُطْ يَمِينَكَ فَيَمْلَؤُهَا مِنْ رِضْوَانِ الله الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ وَيَمْلأ شِمَالَهُ مِنْ رَحْمَةِ الله ثُمَّ يُقَالُ هَذِهِ الْجَنَّةُ مُبَاحَةٌ لَكَ فَاقْرَأْ وَاصْعَدْ فَإِذَا قَرَأَ آيَةً صَعِدَ دَرَجَةً۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ روز قیامت تین دفتر ہوں گے ایک نعمتوں کا دیوان ہو گا دوسرا حسنات کا اور تیسرا گناہوں کا نعمتوں اور حسنات کے دفتر میں مقابلہ ہو گا نعمتوں کی تعداد حسنات سے بڑھ جائے گی اور گناہوں کا دفتر بے مقابلہ رہے گا بس پکارا جائے گا اے ابن آدم مومن حساب کے لیے آ۔ قرآن اس کے پاس بہترین صورت میں آئے گا اور کہے گا اے پروردگار میں قرآن ہوں اور یہ تیرا بندہ مومن ہے جس نے اپنے نفس کو تکلیف میں ڈالا میری تلاوت کر کے اور طولانی رات گزاری میری ترتیل میں تہجد کے وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بہا کرتے تھے تو اسے سے راضی ہو جیسے میں اس سے راضی ہوا خدا فرمائے گا میرے بندے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا پس اس کو رضوان خدا سے عزیز و جبار سے بھر دے گا۔ پھر کہے گا بایاں ہاتھ پھیلا اس کو اپنی رحمت سے بھر دے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا یہ جنت تیرے لیے مباح پس اسے پڑھتا ہوا بلند درجہ پر پہنچ پس جب وہ آیت پڑھے گا تو وہ درجہ بلند حاصل ہو گا۔

حدیث نمبر 13

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَكَانَ (عَلَيهِ السَّلام) إِذَا قَرَأَ مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوتَ۔

فرمایا علی بن الحسین علیہ السلام نے اگر مشرق و مغرب کے درمیان تمام لوگ مر جائیں تو میں تنہائی سے ذرا متوحش نہ ہوں گا اگر قرآن میرے ساتھ ہے چنانچہ جب حضرت مالک یوم الدین پڑھتے تھے تو اس کا تکرار کرتے تھے اور مرنے کے قریب نظر آتے تھے۔

حدیث نمبر 14

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ غَالِبٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِذَا جَمَعَ الله عَزَّ وَجَلَّ الأوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِذَا هُمْ بِشَخْصٍ قَدْ أَقْبَلَ لَمْ يُرَ قَطُّ أَحْسَنُ صُورَةً مِنْهُ فَإِذَا نَظَرَ إِلَيْهِ الْمُؤْمِنُونَ وَهُوَ الْقُرْآنُ قَالُوا هَذَا مِنَّا هَذَا أَحْسَنُ شَيْ‏ءٍ رَأَيْنَا فَإِذَا انْتَهَى إِلَيْهِمْ جَازَهُمْ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَيْهِ الشُّهَدَاءُ حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى آخِرِهِمْ جَازَهُمْ فَيَقُولُونَ هَذَا الْقُرْآنُ فَيَجُوزُهُمْ كُلَّهُمْ حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى الْمُرْسَلِينَ فَيَقُولُونَ هَذَا الْقُرْآنُ فَيَجُوزُهُمْ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى الْمَلائِكَةِ فَيَقُولُونَ هَذَا الْقُرْآنُ فَيَجُوزُهُمْ ثُمَّ يَنْتَهِي حَتَّى يَقِفَ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ فَيَقُولُ الْجَبَّارُ وَعِزَّتِي وَجَلالِي وَارْتِفَاعِ مَكَانِي لأكْرِمَنَّ الْيَوْمَ مَنْ أَكْرَمَكَ وَلأهِينَنَّ مَنْ أَهَانَكَ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ روز قیامت جب اولین و آخرین جمع ہوں گے تو ایک نہایت خوبصورت شخص نظر آئے گا ایسا حسین کہ اس سے بہتر دیکھا ہی نہیں گیا۔ جب مومن اس شخص کو جو در حققت قرآن ہو گا دیکھیں گے تو کہیں گے یہ ہم میں سے ہے جب انس ے آگے بڑھے گا تو شہدا اس کو دیکھیں گے جب وہ ان کے آخر میں پہنچے گا تو وہ کہیں گے یہ قرآن ہے وہ ان سب سے گزرتا ہوا مرسلین تک پہنچے گا وہ کہیں گے یہ قرآن ہے پھر وہ ان سے گزرتا ہوا ملائکہ کی طرف آئے گا وہ کہیں گے یہ قرآن ہے یہاں سے چل کر وہ عرش کے داہنی طرف کھڑا ہو گا خدا فرمائے گا قسم ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی اور ارتفاع مکان کی میں آج اس کی عزت کروں گا جس نے تیری عزت کی اور اس کی توہین کروں گا جس نے تیری توہین کی۔