وُلِدَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَةِ بَدْرٍ سَنَةِ اثْنَتَيْنِ بَعْدَ الْهِجْرَةِ وَرُوِيَ أَنَّهُ وُلِدَ فِي سَنَةِ ثَلاثٍ وَمَضَى (عَلَيْهِ السَّلام) فِي شَهْرِ صَفَرٍ فِي آخِرِهِ مِنْ سَنَةِ تِسْعٍ وَأَرْبَعِينَ وَمَضَى وَهُوَ ابْنُ سَبْعٍ وَأَرْبَعِينَ سَنَةً وَأَشْهُرٍ وَأُمُّهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )
امام حسن علیہ السلام ماہ رمضان 2 ہجری میں جو سال بدر ہے پیدا ہوئے اور ایک روایت کے مطابق 3 ہجری اور ماہ سفر کے آخر میں (28 صفر) 41 ہجری رحلت فرمائی جب آپ کا سن مبارک 47 سال چند ماہ تھا اور آپ کی والدہ گرامی جناب فاطمہ بنت رسول اللہ تھیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَمَّنْ سَمِعَ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ لَمَّا حَضَرَتِ الْحَسَنَ (عَلَيْهِ السَّلام) الْوَفَاةُ بَكَى فَقِيلَ لَهُ يَا ابْنَ رَسُولِ الله تَبْكِي وَمَكَانُكَ مِنْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) الَّذِي أَنْتَ بِهِ وَقَدْ قَالَ فِيكَ مَا قَالَ وَقَدْ حَجَجْتَ عِشْرِينَ حَجَّةً مَاشِياً وَقَدْ قَاسَمْتَ مَالَكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ حَتَّى النَّعْلَ بِالنَّعْلِ فَقَالَ إِنَّمَا أَبْكِي لِخَصْلَتَيْنِ لِهَوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِرَاقِ الاحِبَّةِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ جب حضرت امام حسن علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ روئے ۔ کسی نے کہا فرزند رسول آپ کیوں روتے ہیں آپ کی منزلت پیشِ رسول بہت بڑی ہے اور آپ کے متعلق رسول اللہ نے بہت کچھ کہا ہے آپ نے بیس حج پا پیادہ کیے ہیں اور تین بار راہِ خدا میں اپنا کل اثاثہ دے دیا ہے حتیٰ کہ جوتے تک۔ فرمایا کہ میں دو باتوں کی وجہ سے روتا ہوں اول اس واقعہ سے جو میری موت کا سبب ہوا ۔ دوسرے احباء کے فراق سے۔
سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله وَعَبْدُ الله بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُبِضَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) وَهُوَ ابْنُ سَبْعٍ وَأَرْبَعِينَ سَنَةً فِي عَامِ خَمْسِينَ عَاشَ بَعْدَ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) أَرْبَعِينَ سَنَةً۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ وفات پائی امام حسن علیہ السلام نے جبکہ وہ 47 سال کے تھے 50 ہجری میں رسول کے بعد 40 سال زندہ رہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ إِنَّ جَعْدَةَ بِنْتَ أَشْعَثَ بْنِ قَيْسٍ الْكِنْدِيِّ سَمَّتِ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَسَمَّتْ مَوْلاةً لَهُ فَأَمَّا مَوْلاتُهُ فَقَاءَتِ السَّمَّ وَأَمَّا الْحَسَنُ فَاسْتَمْسَكَ فِي بَطْنِهِ ثُمَّ انْتَفَطَ بِهِ فَمَاتَ۔
ابوبکر حضرمی نے بیان کیا کہ جعدہ بنت اشعث نے امام حسن کو اور آپ کی ایک کنیز کو زہر دیا۔ کنیز نے تو قے کر دی لیکن امام علیہ السلام کے بطن میں وہ سرایت کر گیا جس سے جگر کے ٹکڑے ہو گئے اور آپ کا انتقال ہو گیا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ الْقَاسِمِ النَّهْدِيِّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ الْكُنَاسِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ خَرَجَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فِي بَعْضِ عُمَرِهِ وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ الزُّبَيْرِ كَانَ يَقُولُ بِإِمَامَتِهِ فَنَزَلُوا فِي مَنْهَلٍ مِنْ تِلْكَ الْمَنَاهِلِ تَحْتَ نَخْلٍ يَابِسٍ قَدْ يَبِسَ مِنَ الْعَطَشِ فَفُرِشَ لِلْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) تَحْتَ نَخْلَةٍ وَفُرِشَ لِلزُّبَيْرِيِّ بِحِذَاهُ تَحْتَ نَخْلَةٍ أُخْرَى قَالَ فَقَالَ الزُّبَيْرِيُّ وَرَفَعَ رَأْسَهُ لَوْ كَانَ فِي هَذَا النَّخْلِ رُطَبٌ لاكَلْنَا مِنْهُ فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ وَإِنَّكَ لَتَشْتَهِي الرُّطَبَ فَقَالَ الزُّبَيْرِيُّ نَعَمْ قَالَ فَرَفَعَ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَدَعَا بِكَلامٍ لَمْ أَفْهَمْهُ فَاخْضَرَّتِ النَّخْلَةُ ثُمَّ صَارَتْ إِلَى حَالِهَا فَأَوْرَقَتْ وَحَمَلَتْ رُطَباً فَقَالَ الْجَمَّالُ الَّذِي اكْتَرَوْا مِنْهُ سِحْرٌ وَالله قَالَ فَقَالَ الْحَسَنُ (عَلَيْهِ السَّلام) وَيْلَكَ لَيْسَ بِسِحْرٍ وَلَكِنْ دَعْوَةُ ابْنِ نَبِيٍّ مُسْتَجَابَةٌ قَالَ فَصَعِدُوا إِلَى النَّخْلَةِ فَصَرَمُوا مَا كَانَ فِيهِ فَكَفَاهُم۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ امام حسن علیہ السلام اپنی عمر کے کسی حصے میں گھر سے نکلے اور آپ کے ساتھ زبیر کا لڑکا تھا جو آپ کی امامت کا قائل و معتقد تھا۔ دونوں ایک منزل پر اترے جو کہ مکہ و مدینہ کی منزلوں میں سے تھی ایک سوکھے درخت کے نیچے زبیری بیٹھے۔ زبیری نے سر اٹھا کر درخت کو دیکھا اور کہنے لگا کہ اگر اس درخت میں پھل ہوتے تو ہم کھاتے۔ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کیا تمہیں تازہ خرمے کھانے کی خواہش ہے۔ اس نے کہا ضرور۔ آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کچھ ایسے کلمات کہے جن کو میں نہ سمجھا۔ پس درخت ہرا بھرا اپنی اصلی حالت پر ہو گیا ہرے ہرے پتے نکل آئے اور اس میں رطب آ گئے۔ یہ دیکھ کر اس اونٹ والے نے جس کا اونٹ کرائے پر لیا تھا کہا کہ یہ جادو ہے۔ امام حسن نے فرمایا یہ جادو نہیں ہے بلکہ یہ دعا ہے فرزند نبی کی جو قبول ہوئی ہے۔ پس لوگ درخت پر چڑھے اور خوشے کاٹ لیے اور سب نے ان کو شکم سیر ہو کر کھایا۔
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ رِجَالِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْحَسَنَ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ لله مَدِينَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا بِالْمَشْرِقِ وَالاخْرَى بِالْمَغْرِبِ عَلَيْهِمَا سُورٌ مِنْ حَدِيدٍ وَعَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَلْفُ أَلْفِ مِصْرَاعٍ وَفِيهَا سَبْعُونَ أَلْفَ أَلْفِ لُغَةٍ يَتَكَلَّمُ كُلُّ لُغَةٍ بِخِلافِ لُغَةِ صَاحِبِهَا وَأَنَا أَعْرِفُ جَمِيعَ اللُّغَاتِ وَمَا فِيهِمَا وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا عَلَيْهِمَا حُجَّةٌ غَيْرِي وَغَيْرُ الْحُسَيْنِ أَخِي۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسن نے فرمایا خدا کے دو شہر ہیں ایک مشرق میں ہے دوسرا مغرب میں، ان دونوں کے گرد شہر پناہ ہے لوہے کی یعنے بہت مضبوط اور ان دونوں میں ہزار ہزار در ہیں اور ان میں ستر ہزار زبانیں بولنے والے ہیں۔ ہر زبان دوسرے کے خلاف ہے اور میں جانتا ہوں ان زبانوں اور جو کچھ اس کے اندر ہے ان پر حجت خدا سوائے میرے اور میرے بھائی حسین کے اور کوئی نہیں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ صَنْدَلٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ خَرَجَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) إِلَى مَكَّةَ سَنَةً مَاشِياً فَوَرِمَتْ قَدَمَاهُ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَوَالِيهِ لَوْ رَكِبْتَ لَسَكَنَ عَنْكَ هَذَا الْوَرَمُ فَقَالَ كَلا إِذَا أَتَيْنَا هَذَا الْمَنْزِلَ فَإِنَّهُ يَسْتَقْبِلُكَ أَسْوَدُ وَمَعَهُ دُهْنٌ فَاشْتَرِ مِنْهُ وَلا تُمَاكِسْهُ فَقَالَ لَهُ مَوْلاهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا قَدِمْنَا مَنْزِلاً فِيهِ أَحَدٌ يَبِيعُ هَذَا الدَّوَاءَ فَقَالَ لَهُ بَلَى إِنَّهُ أَمَامَكَ دُونَ الْمَنْزِلِ فَسَارَا مِيلاً فَإِذَا هُوَ بِالاسْوَدِ فَقَالَ الْحَسَنُ (عَلَيْهِ السَّلام) لِمَوْلاهُ دُونَكَ الرَّجُلَ فَخُذْ مِنْهُ الدُّهْنَ وَأَعْطِهِ الثَّمَنَ فَقَالَ الاسْوَدُ يَا غُلامُ لِمَنْ أَرَدْتَ هَذَا الدُّهْنَ فَقَالَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ فَقَالَ انْطَلِقْ بِي إِلَيْهِ فَانْطَلَقَ فَأَدْخَلَهُ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَمْ أَعْلَمْ أَنَّكَ تَحْتَاجُ إِلَى هَذَا أَ وَتَرَى ذَلِكَ وَلَسْتُ آخُذُ لَهُ ثَمَناً إِنَّمَا أَنَا مَوْلاكَ وَلَكِنِ ادْعُ الله أَنْ يَرْزُقَنِي ذَكَراً سَوِيّاً يُحِبُّكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنِّي خَلَّفْتُ أَهْلِي تَمْخَضُ فَقَالَ انْطَلِقْ إِلَى مَنْزِلِكَ فَقَدْ وَهَبَ الله لَكَ ذَكَراً سَوِيّاً وَهُوَ مِنْ شِيعَتِنَا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک سال امام حسن نے پا پیادہ حج کیا۔ آپ کے پاؤں متورم ہو گئے۔ ایک غلام نے کہا اگر آپ سوار ہو جاتے تو اس ورم کو سکون مل جاتا۔ فرمایا نہیں جب اگلی منزل آئے گی تو ایک حبشی تجھے ملے گا جس کے پاس تیل ہو گا وہ اس سے خرید لینا اور قیمت دینے میں تاخیر نہ کرنا۔ اس نے کہاں وہاں تو ایسا دوا فروش نہیں دیکھا۔ فرمایا ہاں اس منزل کے قریب وہ تیرے سامنے ہو گا پس ایک میل آگے بڑھے تھے کہ حبشی کو موجود پایا۔ امام حسن نے غلام سے کہا اس کے پاس جا اور تیل خرید لے اور قیمت دے دے۔ حبشی نے کہا اے غلام اس تیل کی کس کو ضرورت ہے۔ اس نے کہا حسن بن علی کو۔ اس نے کہا مجھے ان کے پاس لے چل۔ وہ لے آیا۔ اس نے کہا مجھے اس کا علم نہ تھا کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے اور آپ نے اس کو اس کی دوا جانا، میں قیمت نہ لوں گا میں تو آپ کا غلام ہوں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لیے دعا کریں کہ خدا مجھے ایک لائق بیٹا دے جو آپ اہل بیت کا دوست ہو۔ میں نے اپنی اہلیہ کو درد زہ کی حالت میں چھوڑا ہے۔ فرمایا تو اپنے گھر جا۔ اللہ نے تجھے لائق بیٹا دیا ہے۔ جو ہمارے شیعوں میں سے ہو گا۔