مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

ذکر مولد علی بن الحسین علیہ السلام

(3-117)

حدیث نمبر 0

وُلِدَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فِي سَنَةِ ثَمَانٍ وَثَلاثِينَ وَقُبِضَ فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ وَلَهُ سَبْعٌ وَخَمْسُونَ سَنَةً وَأُمُّهُ سَلامَةُ بِنْتُ يَزْدَجَرْدَ بْنِ شَهْرِيَارَ بْنِ شِيرَوَيْهِ بْنِ كِسْرَى أَبَرْوِيزَ وَكَانَ يَزْدَجَرْدُ آخِرَ مُلُوكِ الْفُرْسِ۔

حضرت علی بن الحسین علیہ السلام 38 ہجری میں پیدا ہوئے اور آپ کی وفات 95 ہجری میں بعمر 57 سال ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام سلامہ بنت یزد جرد بن شہرریار بن شیرویہ بن کسریٰ تھا اور یزد جرد ایران کا آخری بادشاہ تھا۔

حدیث نمبر 1

الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَسَنِيُّ رَحِمَهُ الله وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ الاحْمَرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الله الْخُزَاعِيِّ عَنْ نَصْرِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا أُقْدِمَتْ بِنْتُ يَزْدَجَرْدَ عَلَى عُمَرَ أَشْرَفَ لَهَا عَذَارَى الْمَدِينَةِ وَأَشْرَقَ الْمَسْجِدُ بِضَوْئِهَا لَمَّا دَخَلَتْهُ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا عُمَرُ غَطَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ أُفٍّ بِيرُوجْ بَادَا هُرْمُزْ فَقَالَ عُمَرُ أَ تَشْتِمُنِي هَذِهِ وَهَمَّ بِهَا فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) لَيْسَ ذَلِكَ لَكَ خَيِّرْهَا رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَاحْسُبْهَا بِفَيْئِهِ فَخَيَّرَهَا فَجَاءَتْ حَتَّى وَضَعَتْ يَدَهَا عَلَى رَأْسِ الْحُسَيْنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لَهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مَا اسْمُكِ فَقَالَتْ جَهَانْ شَاهُ فَقَالَ لَهَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) بَلْ شَهْرَبَانُوَيْهِ ثُمَّ قَالَ لِلْحُسَيْنِ يَا أَبَا عَبْدِ الله لَتَلِدَنَّ لَكَ مِنْهَا خَيْرُ أَهْلِ الارْضِ فَوَلَدَتْ عَلِيَّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) وَكَانَ يُقَالُ لِعَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) ابْنُ الْخِيَرَتَيْنِ فَخِيَرَةُ الله مِنَ الْعَرَبِ هَاشِمٌ وَمِنَ الْعَجَمِ فَارِسُ. وَرُوِيَ أَنَّ أَبَا الاسْوَدِ الدُّؤَلِيَّ قَالَ فِيهِ: وَإِنَّ غُلاماً بَيْنَ كِسْرَى وَهَاشِمٍ***لاكْرَمُ مَنْ نِيطَتْ عَلَيْهِ التَّمَائِمُ‏۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ بنتِ یزد جرد حضرت عمر کے پاس آئیں تو مدینہ کی باکرہ لڑکیاں ان کا حسن و جمال دیکھنے بالائے بام آئیں۔ جب مسجد میں داخل ہوئیں تو چہرے کی تابندگی سے مسجد روشن ہو گئی۔ عمر نے جب ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، برا ہو ہرمز کا کہ اس کی سوئے تدبیر سے یہ روز بدنصیبب ہوا۔ حضرت عمر نے کہا کیا تو مجھے گالی دیتی ہے۔ اور ان کی اذیت کا ارادہ کیا۔ امیر المومنین نے کہا ایسا نہیں ہے۔ اس کو اختیار دو کہ وہ مسلمانوں میں سے کسی کو اپنے لیے اختیار کرے۔ اس کے حصہ غنیمت میں اس کو سمجھ لیا جائے جب اختیار دیا گیا تو وہ لوگوں کو دیکھتی ہوئی چلیں اور امام حسین کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ امیر المومنین نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے۔ کہا جاں شاہ۔ حضرت نے فرمایا نہیں بلکہ شہر بانو۔ پھر امام حسین سے فرمایا۔ اے ابو عبداللہ تمہارا ایک بیٹا اس کے بطن سے ہو گا جو اہلِ زمیں میں سب سے بہتر ہو گا۔ چنانچہ علی ابن الحسین پیدا ہوئے۔ پس وہ بہترین عرب ہاشمی ہونے کی وجہ سے اور بہترین عجم تھے ایرانی ہونے کی وجہ سے۔ وہ ایسے لڑکے ہیں جن کا تعلق کسریٰ اور ہاشم دونوں سے ہے جن بچوں کے گلے میں تعویذ ڈالے جاتے ہیں ان میں وہ سب سے بہتر ہیں۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ كَانَ لِعَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) نَاقَةٌ حَجَّ عَلَيْهَا اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ حَجَّةً مَا قَرَعَهَا قَرْعَةً قَطُّ قَالَ فَجَاءَتْ بَعْدَ مَوْتِهِ وَمَا شَعَرْنَا بِهَا إِلا وَقَدْ جَاءَنِي بَعْضُ خَدَمِنَا أَوْ بَعْضُ الْمَوَالِي فَقَالَ إِنَّ النَّاقَةَ قَدْ خَرَجَتْ فَأَتَتْ قَبْرَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَانْبَرَكَتْ عَلَيْهِ فَدَلَكَتْ بِجِرَانِهَا الْقَبْرَ وَهِيَ تَرْغُو فَقُلْتُ أَدْرِكُوهَا أَدْرِكُوهَا وَجِيئُونِي بِهَا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِهَا أَوْ يَرَوْهَا قَالَ وَمَا كَانَتْ رَأَتِ الْقَبْرَ قَطُّ۔

راوی کہتا ہے کہ علی بن الحسین کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے بیان کیا کہ ان کا ایک ناقہ تھا جس پر آپ نے بائیس حج کیے تھے اور کبھی اس کو بھول کر کوڑا نہ مارا تھا۔ حضرت کی موت کے بعد ہمیں اس کا پتہ نہ چلا کہ کہاں چلا گیا۔ ایک نوکر نے خبر دیی کہ ناقہ گھر سے نکل کر علی بن الحسین کی قبر پر پہنچا اور دونوں گھٹنے قبر پر رکھ کر اپنی گردن قبر پر ملنے لگا اور وہ دردناک آوازیں نکال رہا تھا۔ میں نے نوکروں سے کہا جاؤ اس کو میرے پاس لے آؤ قبل اس کے کہ مخالفوں کو اس کی اطلاع ہو یا وہ اس کو دیکھیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اس نے قبر کو اس سے پہلے نہیں دیکھا۔

حدیث نمبر 3

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبِي عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) جَاءَتْ نَاقَةٌ لَهُ مِنَ الرَّعْيِ حَتَّى ضَرَبَتْ بِجِرَانِهَا عَلَى الْقَبْرِ وَتَمَرَّغَتْ عَلَيْهِ فَأَمَرْتُ بِهَا فَرُدَّتْ إِلَى مَرْعَاهَا وَإِنَّ أَبِي (عَلَيْهِ السَّلام) كَانَ يَحُجُّ عَلَيْهَا وَيَعْتَمِرُ وَلَمْ يَقْرَعْهَا قَرْعَةً قَطُّ. ابْنُ بَابَوَيْه۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جب میرے والد علی بن الحسین نے انتقال فرمایا تو ان کا ناقہ چراگاہ سے آیا اور اپنی گردن قبرپر رکھی اور دیر تک اسے قبر سے رگڑتا رہا۔ میں نے حکم دیا کہ اسے چراگاہ واپس لے جاؤ اور میرے والد اسی پر سوار ہو کر حج و عمرہ بجا لاتے تھے اور اس کو آپ نے کبھی کوڑا نہیں مارا۔ یہ حدیث الصدوق ابن بابویہ نے بھی نقل کی ہے۔

حدیث نمبر 4

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عُمَارَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا كَانَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي وُعِدَ فِيهَا عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ لِمُحَمَّدٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَا بُنَيَّ ابْغِنِي وَضُوءاً قَالَ فَقُمْتُ فَجِئْتُهُ بِوَضُوءٍ قَالَ لا أَبْغِي هَذَا فَإِنَّ فِيهِ شَيْئاً مَيِّتاً قَالَ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ بِالْمِصْبَاحِ فَإِذَا فِيهِ فَأْرَةٌ مَيْتَةٌ فَجِئْتُهُ بِوَضُوءٍ غَيْرِهِ فَقَالَ يَا بُنَيَّ هَذِهِ اللَّيْلَةُ الَّتِي وُعِدْتُهَا فَأَوْصَى بِنَاقَتِهِ أَنْ يُحْظَرَ لَهَا حِظَارٌ وَأَنْ يُقَامَ لَهَا عَلَفٌ فَجُعِلَتْ فِيهِ قَالَ فَلَمْ تَلْبَثْ أَنْ خَرَجَتْ حَتَّى أَتَتِ الْقَبْرَ فَضَرَبَتْ بِجِرَانِهَا وَرَغَتْ وَهَمَلَتْ عَيْنَاهَا فَأُتِيَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ النَّاقَةَ قَدْ خَرَجَتْ فَأَتَاهَا فَقَالَ صَهْ الانَ قُومِي بَارَكَ الله فِيكِ فَلَمْ تَفْعَلْ فَقَالَ وَإِنْ كَانَ لَيَخْرُجُ عَلَيْهَا إِلَى مَكَّةَ فَيُعَلِّقُ السَّوْطَ عَلَى الرَّحْلِ فَمَا يَقْرَعُهَا حَتَّى يَدْخُلَ الْمَدِينَةَ قَالَ وَكَانَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يَخْرُجُ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ فَيَحْمِلُ الْجِرَابَ فِيهِ الصُّرَرُ مِنَ الدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ حَتَّى يَأْتِيَ بَاباً بَاباً فَيَقْرَعُهُ ثُمَّ يُنِيلُ مَنْ يَخْرُجُ إِلَيْهِ فَلَمَّا مَاتَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فَقَدُوا ذَاكَ فَعَلِمُوا أَنَّ عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلام) كَانَ يَفْعَلُهُ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جب وہ رات آئی جس میں امام زین العابدین علیہ السلام کا انتقال ہونے والا تھا تو آپ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے فرمایا، بیٹا وضو کرنا چاہتا ہوں۔ امام نے فرمایا کہ میں وضو کے لیے پانی لایا۔ فرمایا یہ درکار نہیں اس میں کوئی شے مردہ ہے۔ میں چراغ لایا تو دیکھا کہ ظرف میں ایک مردہ چوہا ہے۔ میں نے اور پانی لا کر دیا۔ حضرت نے فرمایا بیٹا یہ میرے انتقال کی رات ہے اس کے بعد اپنے ناقہ کے متعلق وصیت کی کہ اسے اچھی طرح رکھنا اور اسکے کھلانے کا لحاظ رہے۔ میں نے ناقہ کو ایک احاطہ کے اندر کر دیا۔ جب حضرت کا انتقال ہو گیا تو بہت جلد احاطہ سے نکل گیا اور قبر پر پہنچ کر اپنی گردن اس پر رکھ دی اور گڑگڑایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ امام محمد باقر کو خبر دی گئی کہ ناقہ کہیں چلا گیا۔ آپ اس کے پاس آئے اور فرمایا صبر کر اللہ تجھے جزا دے۔ پھر اس نے ایسا نہ کیا۔ فرمایا جب حضرت مکہ کو جاتے تھے تو کوڑا سواری پر رکھ لیتے تھے لیکن مدینہ کی واپس تک ناقہ کو کوڑے سے مارتے نہ تھے اور امام نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت علی بن الحسین اندھیری راتوں میں ایک تھیلا لے کر نکلتے جس میں درہم و دینار ہوتے۔ ایک ایک دروازہ پر جاتے اسے کھٹ کھٹاتے ، جو آتا اسے عطا فرماتے۔ جب حضرت کا انتقال ہوا تب لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ راتوں کو آنے والے علی بن الحسین تھے۔

حدیث نمبر 5

مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الله بْنِ الصَّلْتِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ بِنْتِ إِلْيَاسَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ عَلِيَّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ أُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ فَتَحَ عَيْنَيْهِ وَقَرَأَ إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ وَإِنَّا فَتَحْنَا لَكَ وَقَالَ الْحَمْدُ لله الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الارْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ثُمَّ قُبِضَ مِنْ سَاعَتِهِ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئا۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ جب حضرت علی بن الحسین کے مرنے کا وقت آیا تو آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی پھر جب غش سے افاقہ ہوا تو آپ نے سورہ واقعہ اور سورہ ان فتحنا کی تلاوت کی اور فرمایا حمد ہے اس خدا کی جس نے اپنے وعدے کو ہمارے ساتھ پورا کیا اور ہم کو روئے زمین کا وارث بنایا اور جہاں ہم نے چاہا جنت میں جگہ دی اس کے بعد ہی حضرت کی روح قبض ہو گئی اور پھر کچھ نہ کہہ سکے۔

حدیث نمبر 6

سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله وَعَبْدُ الله بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُبِضَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) وَهُوَ ابْنُ سَبْعٍ وَخَمْسِينَ سَنَةً فِي عَامِ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ عَاشَ بَعْدَ الْحُسَيْنِ خَمْساً وَثَلاثِينَ سَنَةً۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا انتقال 57 سال کی عمر میں ہوا 95 ہجری میں امام حسین علیہ السلام کے بعد 35 سال زندہ رہے۔