وُلِدَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) سَنَةَ سَبْعٍ وَخَمْسِينَ وَقُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) سَنَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ وَمِائَةٍ وَلَهُ سَبْعٌ وَخَمْسُونَ سَنَةً وَدُفِنَ بِالْبَقِيعِ بِالْمَدِينَةِ فِي الْقَبْرِ الَّذِي دُفِنَ فِيهِ أَبُوهُ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) وَكَانَتْ أُمُّهُ أُمَّ عَبْدِ الله بِنْتَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهم السَّلام وَعَلَى ذُرِّيَّتِهِمُ الْهَادِيَةِ۔
امام محمد باقر علیہ السلام 57 ہجری میں پید ہوئے اور وفات 114 ہجری میں 57 سال کی عمر میں اور مدینہ میں جنت البقیع کے اندر اس جگہ کے پاس جہاں آپ کے باپ علی بن الحسین تھے دفن ہوئے ان کی والدہ ام عبداللہ بنتِ امام حسن بن علی بن ابوطالب تھیں ۔ ان پر سلام اور ان کی ذرریت پر بھی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَحْمَدَ عَنْ صَالِحِ بْنِ مَزْيَدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كَانَتْ أُمِّي قَاعِدَةً عِنْدَ جِدَارٍ فَتَصَدَّعَ الْجِدَارُ وَسَمِعْنَا هَدَّةً شَدِيدَةً فَقَالَتْ بِيَدِهَا لا وَحَقِّ الْمُصْطَفَى مَا أَذِنَ الله لَكَ فِي السُّقُوطِ فَبَقِيَ مُعَلَّقاً فِي الْجَوِّ حَتَّى جَازَتْهُ فَتَصَدَّقَ أَبِي عَنْهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ قَالَ أَبُو الصَّبَّاحِ وَذَكَرَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) جَدَّتَهُ أُمَّ أَبِيهِ يَوْماً فَقَالَ كَانَتْ صِدِّيقَةً لَمْ تُدْرَكْ فِي آلِ الْحَسَنِ امْرَأَةٌ مِثْلُهَا. مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَحْمَدَ مِثْلَهُ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ میری والدہ دیوار کے نیچے بیٹھی تھیں کہ ناگاہ دیوار شق ہوئی اس کی آواز ہم نے سنی انھوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا قسم ہے حق محمد مصطفیٰ کی نہیں اجازت دی تجھے اللہ نے گرنے کی۔ پس وہ فضا میں معلق ہو کر رہ گئی یہاں تک کہ آپ وہاں سے ہٹ گئیں۔ میرے والد نے ایک سو دینار ان کے بچ جانے پر تصدق کیے اور ابو صباح سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ ان کی دادی صدیقہ تھیں اور اولاد امام حسن میں اور کوئی عورت ان کی مثل نہیں ہوئی۔ محمد بن الحسن نے عبداللہ بن احمد سے اسی روایت کی طرح روایت کی ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ الله الانْصَارِيَّ كَانَ آخِرَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ الله وَكَانَ رَجُلاً مُنْقَطِعاً إِلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَكَانَ يَقْعُدُ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَهُوَ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَةٍ سَوْدَاءَ وَكَانَ يُنَادِي يَا بَاقِرَ الْعِلْمِ يَا بَاقِرَ الْعِلْمِ فَكَانَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقُولُونَ جَابِرٌ يَهْجُرُ فَكَانَ يَقُولُ لا وَالله مَا أَهْجُرُ وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يَقُولُ إِنَّكَ سَتُدْرِكُ رَجُلاً مِنِّي اسْمُهُ اسْمِي وَشَمَائِلُهُ شَمَائِلِي يَبْقُرُ الْعِلْمَ بَقْراً فَذَاكَ الَّذِي دَعَانِي إِلَى مَا أَقُولُ قَالَ فَبَيْنَا جَابِرٌ يَتَرَدَّدُ ذَاتَ يَوْمٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ إِذْ مَرَّ بِطَرِيقٍ فِي ذَاكَ الطَّرِيقِ كُتَّابٌ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِ قَالَ يَا غُلامُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ شَمَائِلُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ يَا غُلامُ مَا اسْمُكَ قَالَ اسْمِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ يُقَبِّلُ رَأْسَهُ وَيَقُولُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبُوكَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يُقْرِئُكَ السَّلامَ وَيَقُولُ ذَلِكَ قَالَ فَرَجَعَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ ذَعِرٌ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ فَقَالَ لَهُ يَا بُنَيَّ وَقَدْ فَعَلَهَا جَابِرٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ الْزَمْ بَيْتَكَ يَا بُنَيَّ فَكَانَ جَابِرٌ يَأْتِيهِ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَكَانَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقُولُونَ وَا عَجَبَاهْ لِجَابِرٍ يَأْتِي هَذَا الْغُلامَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَهُوَ آخِرُ مَنْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَضَى عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ يَأْتِيهِ عَلَى وَجْهِ الْكَرَامَةِ لِصُحْبَتِهِ لِرَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ فَجَلَسَ (عَلَيْهِ السَّلام) يُحَدِّثُهُمْ عَنِ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَقَالَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مَا رَأَيْنَا أَحَداً أَجْرَأَ مِنْ هَذَا فَلَمَّا رَأَى مَا يَقُولُونَ حَدَّثَهُمْ عَنْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقَالَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مَا رَأَيْنَا أَحَداً قَطُّ أَكْذَبَ مِنْ هَذَا يُحَدِّثُنَا عَمَّنْ لَمْ يَرَهُ فَلَمَّا رَأَى مَا يَقُولُونَ حَدَّثَهُمْ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله قَالَ فَصَدَّقُوهُ وَكَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ الله يَأْتِيهِ فَيَتَعَلَّمُ مِنْهُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ جابر انصاری اصحاب رسول میں سب سے آخر تھے سوائے ہم اہلبیت کے سب سے قطع تعلق کیے ہوئے تھے۔ مسجد رسول میں بیٹھے رہتے۔ بے تحت الحنک کا سیاہ عمامہ باندھے ہوئے اور بار بار کہتے تھے یا باقر العلم یا باقر العلم (اے علم کے شگاف کرنے والے) اہل مدینہ یہ سن کر کہتے تھے جابر دیوانے ہو گئے ہیں، بکواس کیا کرتے ہیں۔ وہ کہتے تھے خدا کی قسم بکواس نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے رسول اللہ کو کہتے سنا ہے کہ اے جابر تم ایک شخص سے ملاقات کرو گے جس کا میرا نام ہو گا جس کے خصائل میرے خصائل ہوں گے۔ وہ علم کے سرچشموں کو شگافتہ کرے گا۔ یہ ہے وہ بات جس نے مجھے مجبور کیا ہے ان الفاظ کے کہنے پر۔ایک دن جابر مدینہ کی ایک راہ سے گزرے جہاں ایک مکتب تھی اور امام محمد باقر علیہ السلام اس میں بیٹھے تھے۔ جابر نے ان کو دیکھا تو کہنے لگے اے لڑکے ذرا آگے آنا۔ وہ آ گئے۔ پھر کہا ذرا پیچھے پھرنا ، وہ پلٹے۔ جابر نے کہا واللہ یہ تو رسول اللہ ہی کے سے شمائل ہیں۔ اے لڑکے تیرا نام کیا ہے۔ فرمایا میرا نام محمد بن علی بن الحسین ہے۔ یہ سن کر جابر نے سر امام پر بوسہ دیا اور کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ کے باپ رسول اللہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور ایسا ایسا کہا ہے۔ یہ سن کر امام محمد باقر علیہ السلام اپنے گھر آئے درآنحالیکہ اضطراب لاحق تھا اور یہ واقعہ اپنے والد ماجد کو سنایا۔ انھوں نے فرمایا بیٹا کیا جابر نے ایسا کہا ہے۔ فرمایا ہاں۔ اے فرزند اپنے گھر میں رہا کرو۔ جابر آپ کے پاس برابر صبح و شام آیا کرتے تھے۔ اہل مدینہ کہا کرتے تھے کس قدرر تعجب کی بات ہے کہ جابر اتنے بزرگ اور آخری صحابی رسول ہو کر اس لڑکے کے پاس آتے ہیں۔ کچھ دن بعد جب حضرت علی بن الحسین کا انتقال ہو گیا تو امام محمد باقر علیہ السلام اس عظمت کی بناء پر جو جابر کو بنا بر صحبتِ رسول حاصل تھی جابر کے پاس آنے لگے۔ ایک روز آپ جابر کے پاس بیٹھے خدا کے بارے میں کچھ بیان فرما رہے تھے کہ اہل مدینہ کہنے لگے کہ ہم نے اس شخص سے زیادہ جری نہیں دیکھا کہ بے واسطہ رسول بیان کر رہا ہے۔ جب حضرت نے یہ سنا تو یہ فرمایا رسول اللہ نے ایسا فرمایا ہے۔ انھوں نے کہا جھوٹا ہے یہ شخص کہ رسول کو دیکھا نہیں تھا اور بے واسطہ ان سے حدیث بیان کرتا ہے۔ جب یہ سنا تو آپ نے جابر کے حوالے سے بیان کیا۔ تب انھوں نے تصدیق کی جابر حضرت کے پاس آتے تھے اور تحصیلِ علم کرتے تھے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُثَنًّى الْحَنَّاطِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فَقُلْتُ لَهُ أَنْتُمْ وَرَثَةُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ نَعَمْ قُلْتُ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَارِثُ الانْبِيَاءِ عَلِمَ كُلَّ مَا عَلِمُوا قَالَ لِي نَعَمْ قُلْتُ فَأَنْتُمْ تَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ تُحْيُوا الْمَوْتَى وَتُبْرِءُوا الاكْمَهَ وَالابْرَصَ قَالَ نَعَمْ بِإِذْنِ الله ثُمَّ قَالَ لِيَ ادْنُ مِنِّي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَمَسَحَ عَلَى وَجْهِي وَعَلَى عَيْنَيَّ فَأَبْصَرْتُ الشَّمْسَ وَالسَّمَاءَ وَالارْضَ وَالْبُيُوتَ وَكُلَّ شَيْءٍ فِي الْبَلَدِ ثُمَّ قَالَ لِي أَ تُحِبُّ أَنْ تَكُونَ هَكَذَا وَلَكَ مَا لِلنَّاسِ وَعَلَيْكَ مَا عَلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْ تَعُودَ كَمَا كُنْتَ وَلَكَ الْجَنَّةُ خَالِصاً قُلْتُ أَعُودُ كَمَا كُنْتُ فَمَسَحَ عَلَى عَيْنَيَّ فَعُدْتُ كَمَا كُنْتُ قَالَ فَحَدَّثْتُ ابْنَ أَبِي عُمَيْرٍ بِهَذَا فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّ هَذَا حَقٌّ كَمَا أَنَّ النَّهَارَ حَقّ۔
ابوبصیر سے مروی ہے کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ وارث رسول اللہ ہیں۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا رسول اللہ وارثِ انبیاء تھے اور وہ سب جانتے تھے۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا کیا آپ اس پر قادر ہیں کہ مردوں کو زندہ کر دیں اور اندھوں اور مبرصوں کو اچھا کر دیں۔ فرمایا ہاں اللہ کے اذن سے۔ اے ابو محمد (کنیت ابو بصیر) تم میرے قریب آؤ۔ جب میں قریب ہوا تو حضرت نے میرے چہرہ اور میری آنکھوں پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ میں نے سورج آسمان و زمین مکانات اور شہر کی ہر چیز کو دیکھا۔ حضرت نے فرمایا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ایسے ہی رہو اور روز قیامت تمہارے لیے بھی وہی صورت ہو جو عام لوگوں کے لیے نفع و نقصان کی ہو گی یا یہ کہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاؤ اور جنت تمہارے لیے مخصوص ہو جائے۔ میں نے کہا میں اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے میری آنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور میں جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا۔ میں نے یہ واقعہ ابن ابی عمیر سے بیان کیا۔ انھوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ امر اسی طرح حق ہے جیسے دن کا وجود حق ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ كُنْتُ عِنْدَهُ يَوْماً إِذْ وَقَعَ زَوْجُ وَرَشَانَ عَلَى الْحَائِطِ وَهَدَلا هَدِيلَهُمَا فَرَدَّ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَيْهِمَا كَلامَهُمَا سَاعَةً ثُمَّ نَهَضَا فَلَمَّا طَارَا عَلَى الْحَائِطِ هَدَلَ الذَّكَرُ عَلَى الانْثَى سَاعَةً ثُمَّ نَهَضَا فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا هَذَا الطَّيْرُ قَالَ يَا ابْنَ مُسْلِمٍ كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ الله مِنْ طَيْرٍ أَوْ بَهِيمَةٍ أَوْ شَيْءٍ فِيهِ رُوحٌ فَهُوَ أَسْمَعُ لَنَا وَأَطْوَعُ مِنِ ابْنِ آدَمَ إِنَّ هَذَا الْوَرَشَانَ ظَنَّ بِامْرَأَتِهِ فَحَلَفَتْ لَهُ مَا فَعَلْتُ فَقَالَتْ تَرْضَى بِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ فَرَضِيَا بِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّهُ لَهَا ظَالِمٌ فَصَدَّقَهَا۔
راوی محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ قمریوں کا ایک جوڑا دیوار پر آ کر بیٹھا اور دونوں نے گفتگو کی۔ امام محمد باقر علیہ السلام کچھ ان کی باتوں کا جواب دیتے رہے اور اٹھے اور دیوار پر پھر بیٹھے اور نر نے مادہ سے کچھ کہا۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں ان طائروں کا کیا معاملہ ہے۔ فرمایا اے ابن مسلم ہر وہ چیز جو خدا نے پیدا کی ہے پرندے ہوں یا چوپائے یا ہر وہ چیز جس میں جان ہے وہ ہماری بات کے زیادہ سننے والے اور بنی آدم سے زیادہ اطاعت کرنے والے ہیں۔ اس نر نے بدگمانی کی اپنی مادہ کے متعلق اس نے حلف سے کہا کہ ایسا نہیں کیا اور وہ دونوں اس پر راضی ہوئے کہ محمد بن علی سے فیصلہ کرایا جائے۔ وہ میرے پاس آئے۔ میں نے ان دونوں کو بتایا کہ نر نے مادہ پر ظلم کیا ہےے پس نر نے اس کی تصدیق کی کہ مادہ کا بیان صحیحح ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ لَمَّا حُمِلَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) إِلَى الشَّامِ إِلَى هِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ وَصَارَ بِبَابِهِ قَالَ لاصْحَابِهِ وَمَنْ كَانَ بِحَضْرَتِهِ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ إِذَا رَأَيْتُمُونِي قَدْ وَبَّخْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ ثُمَّ رَأَيْتُمُونِي قَدْ سَكَتُّ فَلْيُقْبِلْ عَلَيْهِ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ فَلْيُوَبِّخْهُ ثُمَّ أَمَرَ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ بِيَدِهِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ فَعَمَّهُمْ جَمِيعاً بِالسَّلامِ ثُمَّ جَلَسَ فَازْدَادَ هِشَامٌ عَلَيْهِ حَنَقاً بِتَرْكِهِ السَّلامَ عَلَيْهِ بِالْخِلافَةِ وَجُلُوسِهِ بِغَيْرِ إِذْنٍ فَأَقْبَلَ يُوَبِّخُهُ وَيَقُولُ فِيمَا يَقُولُ لَهُ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ لا يَزَالُ الرَّجُلُ مِنْكُمْ قَدْ شَقَّ عَصَا الْمُسْلِمِينَ وَدَعَا إِلَى نَفْسِهِ وَزَعَمَ أَنَّهُ الامَامُ سَفَهاً وَقِلَّةَ عِلْمٍ وَوَبَّخَهُ بِمَا أَرَادَ أَنْ يُوَبِّخَهُ فَلَمَّا سَكَتَ أَقْبَلَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ رَجُلٌ بَعْدَ رَجُلٍ يُوَبِّخُهُ حَتَّى انْقَضَى آخِرُهُمْ فَلَمَّا سَكَتَ الْقَوْمُ نَهَضَ (عَلَيْهِ السَّلام) قَائِماً ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ وَأَيْنَ يُرَادُ بِكُمْ بِنَا هَدَى الله أَوَّلَكُمْ وَبِنَا يَخْتِمُ آخِرَكُمْ فَإِنْ يَكُنْ لَكُمْ مُلْكٌ مُعَجَّلٌ فَإِنَّ لَنَا مُلْكاً مُؤَجَّلاً وَلَيْسَ بَعْدَ مُلْكِنَا مُلْكٌ لانَّا أَهْلُ الْعَاقِبَةِ يَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ فَأَمَرَ بِهِ إِلَى الْحَبْسِ فَلَمَّا صَارَ إِلَى الْحَبْسِ تَكَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ فِي الْحَبْسِ رَجُلٌ إِلا تَرَشَّفَهُ وَحَنَّ إِلَيْهِ فَجَاءَ صَاحِبُ الْحَبْسِ إِلَى هِشَامٍ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي خَائِفٌ عَلَيْكَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ أَنْ يَحُولُوا بَيْنَكَ وَبَيْنَ مَجْلِسِكَ هَذَا ثُمَّ أَخْبَرَهُ بِخَبَرِهِ فَأَمَرَ بِهِ فَحُمِلَ عَلَى الْبَرِيدِ هُوَ وَأَصْحَابُهُ لِيُرَدُّوا إِلَى الْمَدِينَةِ وَأَمَرَ أَنْ لا يُخْرَجَ لَهُمُ الاسْوَاقُ وَحَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ فَسَارُوا ثَلاثاً لا يَجِدُونَ طَعَاماً وَلا شَرَاباً حَتَّى انْتَهَوْا إِلَى مَدْيَنَ فَأُغْلِقَ بَابُ الْمَدِينَةِ دُونَهُمْ فَشَكَا أَصْحَابُهُ الْجُوعَ وَالْعَطَشَ قَالَ فَصَعِدَ جَبَلاً لِيُشْرِفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا أَنَا بَقِيَّةُ الله يَقُولُ الله بَقِيَّتُ الله خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ وَما أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ قَالَ وَكَانَ فِيهِمْ شَيْخٌ كَبِيرٌ فَأَتَاهُمْ فَقَالَ لَهُمْ يَا قَوْمِ هَذِهِ وَالله دَعْوَةُ شُعَيْبٍ النَّبِيِّ وَالله لَئِنْ لَمْ تُخْرِجُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ بِالاسْوَاقِ لَتُؤْخَذُنَّ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ فَصَدِّقُونِي فِي هَذِهِ الْمَرَّةِ وَأَطِيعُونِي وَكَذِّبُونِي فِيمَا تَسْتَأْنِفُونَ فَإِنِّي لَكُمْ نَاصِحٌ قَالَ فَبَادَرُوا فَأَخْرَجُوا إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَصْحَابِهِ بِالاسْوَاقِ فَبَلَغَ هِشَامَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ خَبَرُ الشَّيْخِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ فَحَمَلَهُ فَلَمْ يُدْرَ مَا صَنَعَ بِهِ۔
ابوبکر خضرمی سے روایت ہے کہ جب امام محمد باقر علیہ السلام کو ہشام بن عبدالملک نے شام میں بلایا اور آپ اس کے محل کے دروازے پر پہنچے تو اس نے اپنے اصحاب اور حاضرین سے کہا جو بنی امیہ میں سے تھے جب میں محمد بن علی سے سرزنش کر چکوں تو تم میں سے ہر ایک آگے بڑھ کر سرزنش کرے پھر حکم دیا کہ ان کو اندر آنے کی اجازت دو۔ جب حضرت آئے تو اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا۔ اسلام علیکم، اس سلام میں سب کو شریک کیا اور آپ ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ہشام کو اس پر غصہ آیا کہ اس کو شایانِ سلطنت سلام کیوں نہ کیا۔ دوسرے بے اجازت بیٹھ کیوں گئے۔ اس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا اے محمد بن علی تم میں سے ایک شخص ہمیشہ ایسا رہتا ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالے۔ وہ اپنی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور ازروئے حماقت یہ گمان کرتا ہے کہ وہ امام ہے باوجود قلت علم کے پھر جتنی سرزنش کرنی چاہتا تھا کی۔ جب وہ چپ ہوا تو درباریوں میں سے ایک ایک آگے بڑھاتا آنکہ یہ دورِ آخر تک پہنچ گیا جب یہ لوگ خاموش ہوئے تو امام علیہ السلام نے کھڑے ہو کر فرمایا لوگو تم کہاں بہکے جا رہے ہو اور کیا ارادہ رکھتے ہو۔ تم میں سے پہلوں کی ہدایت بھی ہم سے متعلق تھی اور تمہارے آخر والوں کی ہدایت بھی ہم پر ہی ختم ہو گی اگر تمہاری حکومت اس دنیا میں ہے تو ہماری آخرت میں ہو گی جس کے بعد کوئی حکومت نہ ہو گی۔ ہم ہی تو ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے اچھا انجام متقیوں کے لیے ہے۔
اس نے حضرت کو قید کرنے کا حکم دیا جب آپ قیدخانہ میں پہنچے تو وہاں کے قیدیوں میں کوئی ایسا نہ رہا جس نے آپ سے علم حاصل نہ کیا ہو اور آپ کی طرف دل سے مائل نہ ہوا ہو۔ یہ حال دیکھ کر زندان بان ہشام کے پاس آیا اور کہا میں ڈرتا ہوں کہ اہل شام کے دل آپ کی طرف سے پھر نہ جائیں اور جس مسند حکومت پر بیٹھے ہو اس سے الگ نہ کر دیے جاؤ۔ پھر سارا حال بیان کیا ہشام نے حکم دیا کہ حضرت کہ حضرت کو مع ان کے ساتھیوں کے مدینہ ایسے راستوں سے لے جائیں جن کے قریب آبادی نہ ہوا اور حکم دیا کہ بازاروں کو ان پر بند رکھا جائے اور کھانے پینے سے ان کو باز رکھا جائے۔ راہ میں تین دن گزرے گئے۔ انھیں کھانا اور پانی میسر نہ ہوا۔ جب شہر مدین میں پہنچے تو اہل شہر نے دروازے بند کرلیے۔ آپ کے ساتھیوں نے بھوک اور پیاس کی شکایت کی۔ آپ ایک پہاڑ پر تشریف لے گئے تاکہ وہ لوگ آپ کو دیکھیں، نہایت بلند آواز سے۔ آپ نے فرمایا اے اس شہر کے رہنے والو جس کے باشندے ظالم ہیں میں بقیۃ اللہ ہوں۔ خدا فرماتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو بقیۃ اللہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ایک بوڑھے آدمی نے یہ کلمات سنے وہ لوگوں کے پاس آ کر کہنے لگا۔ اے قوم واللہ شعیب نبی نے بھی اسی طرح لوگوں کو بلایا تھا اگر تم نے اس شخص کے لیے بازار نہ کھولے تو خدائی عذاب تمہیں اوپر سے اور نیچے سے گھیر لے گا۔ اگر اس مرتبہ میری تصدیق کرو اور میری اطاعت کرو اور جو کچھ ہونے والا ہے (اگر بتا دوں) تو تم مجھے جھوٹا سمجھو گے میں تم کو نصیحت کر رہا ہوں یہ سن کر وہ بہت جلد شہر سے نکلے اور کھانے پینے کا سامان حضرت اور ان کے ساتھیوں کے پاس لائے جب ہشام کو یہ خبر ملی تو اس نے اس کو اپنے پاس بلایا پھر پتہ نہ چلا کہ اس نے اس کے ساتھ کیا کیا۔
سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله وَالْحِمْيَرِيُّ جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قُبِضَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ وَهُوَ ابْنُ سَبْعٍ وَخَمْسِينَ سَنَةً فِي عَامِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ وَمِائَةٍ عَاشَ بَعْدَ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) تِسْعَ عَشْرَةَ سَنَةً وَشَهْرَيْنِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے امام محمد باقر علیہ السلام کی وفات 57 سال کی عمر میں ہوئی اور حضرت علی بن الحسین کے بعد وہ 19 سال دو ماہ زندہ رہے۔