وُلْدِ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) سَنَةَ ثَلاثٍ وَثَمَانِينَ وَمَضَى فِي شَوَّالٍ مِنْ سَنَةِ ثَمَانٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَلَهُ خَمْسٌ وَسِتُّونَ سَنَةً وَدُفِنَ بِالْبَقِيعِ فِي الْقَبْرِ الَّذِي دُفِنَ فِيهِ أَبُوهُ وَجَدُّهُ وَالْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) وَأُمُّهُ أُمُّ فَرْوَةَ بِنْتُ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَأُمُّهَا أَسْمَاءُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام 83 ہجری میں پیدا ہوئے اور 65 سال میں انتقال فرمایا اور بقیع کے اندر اس زمین میں دفن ہوئے جہاں ان کے باپ دادا اور امام حسن کی قبریں ہیں۔ ان کی والدہ ام فروہ تھیں۔ ام فروہ کی والدہ اسما بنت عبدالرحمٰن بن ابوبکر تھیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَحْمَدَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ حَفْصٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ جَرِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَالْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَأَبُو خَالِدٍ الْكَابُلِيُّ مِنْ ثِقَاتِ عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ وَكَانَتْ أُمِّي مِمَّنْ آمَنَتْ وَاتَّقَتْ وَأَحْسَنَتْ وَالله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ قَالَ وَقَالَتْ أُمِّي قَالَ أَبِي يَا أُمَّ فَرْوَةَ إِنِّي لادْعُو الله لِمُذْنِبِي شِيعَتِنَا فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ أَلْفَ مَرَّةٍ لانَّا نَحْنُ فِيمَا يَنُوبُنَا مِنَ الرَّزَايَا نَصْبِرُ عَلَى مَا نَعْلَمُ مِنَ الثَّوَابِ وَهُمْ يَصْبِرُونَ عَلَى مَا لا يَعْلَمُون۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ حضرت علی بن الحسین کے نزدیک سعید بن مسیبب بن قاسم بن محمد بن ابوبکر اور ابوخالد کابلی معتمد لوگوں میں سے تھے۔ اور فرمایا میری والدہ ایمان لائیں ولایت اہلبیت پر اور عذابِ خدا سے ڈرتی تھیں اور ان کا ایمان مستحکم تھا اورر اللہ مستحکم ایمان والوں کو دوست رکھتا ہے اور فرمایا کہ میری والدہ نے بیان کیا کہ میرے والد نے ان سے کہا اے ام فروہ میں گنہگار شیعوں کے لیے اپنے اللہ سے ہر روز و شب میں ایک ہزار بار دعا کرتا ہوں۔ ہم آئمہ ہیں مخالفوں کے ہاتھوں میں جو مصیبتیں ہم پر آتی ہیں ہم برداشت کرتے ہیں کیوں کہ ہم اس کا ثواب جانتے ہیں اور وہ لوگ بھی صبر کرتے ہیں باوجویکہ وہ نہیں جانتے۔
بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنِ ابْنِ جُمْهُورٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْقَاسِمِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ وَجَّهَ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ إِلَى الْحَسَنِ بْنِ زَيْدٍ وَهُوَ وَالِيهِ عَلَى الْحَرَمَيْنِ أَنْ أَحْرِقْ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ دَارَهُ فَأَلْقَى النَّارَ فِي دَارِ أَبِي عَبْدِ الله فَأَخَذَتِ النَّارُ فِي الْبَابِ وَالدِّهْلِيزِ فَخَرَجَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَتَخَطَّى النَّارَ وَيَمْشِي فِيهَا وَيَقُولُ أَنَا ابْنُ أَعْرَاقِ الثَّرَى أَنَا ابْنُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الله (عَلَيْهِ السَّلام )
راوی کہتا ہے کہ منصور نے حسن بن زید بن حسن بن ابی طالب کو جو منصور کی طرف سے حاکم حرمین تھے یہ حکم بھیجا کہ وہ جعفر بن محمد علیہما السلام کے گھر کو جب وہ اس کے اندر ہوں جلا دیں۔ حسن نے آپ کے دروازہ اورر دہلیز میں آگ ڈال دی۔ حضرت اس میں سے نکلے چلے آئے اور فرمایا میں ابراہیم خلیل اللہ کا پوتا ہوں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ رُفَيْدٍ مَوْلَى يَزِيدَ بْنِ عَمْرِو بْنِ هُبَيْرَةَ قَالَ سَخِطَ عَلَيَّ ابْنُ هُبَيْرَةَ وَحَلَفَ عَلَيَّ لَيَقْتُلُنِي فَهَرَبْتُ مِنْهُ وَعُذْتُ بِأَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَعْلَمْتُهُ خَبَرِي فَقَالَ لِيَ انْصَرِفْ وَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلامَ وَقُلْ لَهُ إِنِّي قَدْ آجَرْتُ عَلَيْكَ مَوْلاكَ رُفَيْداً فَلا تَهِجْهُ بِسُوءٍ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ شَامِيٌّ خَبِيثُ الرَّأْيِ فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِ كَمَا أَقُولُ لَكَ فَأَقْبَلْتُ فَلَمَّا كُنْتُ فِي بَعْضِ الْبَوَادِي اسْتَقْبَلَنِي أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَيْنَ تَذْهَبُ إِنِّي أَرَى وَجْهَ مَقْتُولٍ ثُمَّ قَالَ لِي أَخْرِجْ يَدَكَ فَفَعَلْتُ فَقَالَ يَدُ مَقْتُولٍ ثُمَّ قَالَ لِي أَبْرِزْ رِجْلَكَ فَأَبْرَزْتُ رِجْلِي فَقَالَ رِجْلُ مَقْتُولٍ ثُمَّ قَالَ لِي أَبْرِزْ جَسَدَكَ فَفَعَلْتُ فَقَالَ جَسَدُ مَقْتُولٍ ثُمَّ قَالَ لِي أَخْرِجْ لِسَانَكَ فَفَعَلْتُ فَقَالَ لِيَ امْضِ فَلا بَأْسَ عَلَيْكَ فَإِنَّ فِي لِسَانِكَ رِسَالَةً لَوْ أَتَيْتَ بِهَا الْجِبَالَ الرَّوَاسِيَ لانْقَادَتْ لَكَ قَالَ فَجِئْتُ حَتَّى وَقَفْتُ عَلَى بَابِ ابْنِ هُبَيْرَةَ فَاسْتَأْذَنْتُ فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ قَالَ أَتَتْكَ بِحَائِنٍ رِجْلاهُ يَا غُلامُ النَّطْعَ وَالسَّيْفَ ثُمَّ أَمَرَ بِي فَكُتِّفْتُ وَشُدَّ رَأْسِي وَقَامَ عَلَيَّ السَّيَّافُ لِيَضْرِبَ عُنُقِي فَقُلْتُ أَيُّهَا الامِيرُ لَمْ تَظْفَرْ بِي عَنْوَةً وَإِنَّمَا جِئْتُكَ مِنْ ذَاتِ نَفْسِي وَهَاهُنَا أَمْرٌ أَذْكُرُهُ لَكَ ثُمَّ أَنْتَ وَشَأْنَكَ فَقَالَ قُلْ فَقُلْتُ أَخْلِنِي فَأَمَرَ مَنْ حَضَرَ فَخَرَجُوا فَقُلْتُ لَهُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ يُقْرِئُكَ السَّلامَ وَيَقُولُ لَكَ قَدْ آجَرْتُ عَلَيْكَ مَوْلاكَ رُفَيْداً فَلا تَهِجْهُ بِسُوءٍ فَقَالَ وَالله لَقَدْ قَالَ لَكَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ هَذِهِ الْمَقَالَةَ وَأَقْرَأَنِي السَّلامَ فَحَلَفْتُ لَهُ فَرَدَّهَا عَلَيَّ ثَلاثاً ثُمَّ حَلَّ أَكْتَافِي ثُمَّ قَالَ لا يُقْنِعُنِي مِنْكَ حَتَّى تَفْعَلَ بِي مَا فَعَلْتُ بِكَ قُلْتُ مَا تَنْطَلِقُ يَدِي بِذَاكَ وَلا تَطِيبُ بِهِ نَفْسِي فَقَالَ وَالله مَا يُقْنِعُنِي إِلا ذَاكَ فَفَعَلْتُ بِهِ كَمَا فَعَلَ بِي وَأَطْلَقْتُهُ فَنَاوَلَنِي خَاتَمَهُ وَقَالَ أُمُورِي فِي يَدِكَ فَدَبِّرْ فِيهَا مَا شِئْتَ۔
رفید غلام یزید بن عمر بن ہبیرہ نے بیان کیا کہ ابن ہبیرہ کو مجھ پر غصہ آیا اور اس نے مجھے قتل کرنے کی قسم کھائی۔ میں بھاگ کر امام جعفر صادق کی پناہ میں آیا اور حال بیان کیا۔ فرمایا واپس جا اور میرا سلام کہہ کر اس سے کہنا کہ میں نے تیرے غلام رفید کو پناہ دی ہے لہذا اب اس کے ساتھ برا سلوک نہ کرنا۔ میں نے کہا کہ وہ مردِ شامی بد رائے ہے۔ فرمایا تو جا اور جو کچھ میں نے کہا ہے اسے بیان کر۔ میں چلا ایک بادیہ سے گزر رہا تھا کہ ایک صحرائی عرب مجھے ملا اور کہا کہاں جاتا ہے۔ میں تیرا چہرہ مقتولوں کا سا پا رہا ہوں۔ پھر کہا اپنا ہاتھ دکھا۔ میں نے دکھایا تو اس نے کہا یہ تو مقتولوں کا سا ہاتھ ہے۔ پھر کہا پیر دکھا۔ میں نے دکھایا۔ اس نے کہا یہ مقتولوں کا سا پیر ہے۔ پھر جسم کے لیے بھی یہی کہا۔ پھر کہا زبان دکھا۔ میں نے دکھائی۔ اس نے کہا جا اب تیرے لیے خوف نہیں ہے۔ اس پر ایسا پیغام ہے کہ اگر توں مضبوط پہاڑوں کو پہنچا دے تو وہ بھی تیرے مطیع ہو جائیں۔ اس نے کہا جب میں ہبیرہ کے دروازے پر پہنچا تو اجازت چاہی۔ جب اندر گیا اس نے کہا چور خود اپنے پیروں سے آ گیا ہے۔ اے غلام چمڑا بچھا اور تلوار لا۔ پھر اس نے میرے ہاتھ پسِ گردن سے باندھنے کا حکم دیا اور لوگوں کو میرے پاس سے ہٹ جانے کو کہا۔ جلاد قتل کرنےکو کھڑا ہوا۔ میں نے کہا اے امیر جلدی نہ کر اب میں تیرے قبضے میں ہوں ۔ میں ایک خاص بات تجھ سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا بیان کر۔ میں نے کہا خلوت میں کہوں گا۔ اس نے سب کو ہٹا دیا۔ میں نے کہا حضرت امام جعفر صادقؑ نے بعد سلام فرمایا ہے کہ میں نے تیرے غلام رفید کو پناہ دی ہے اب اس کو سزا نہ دینا۔ اس نے کہا اللہ اکبر کیا امام نے ایسا فرمایا ہے۔ مجھے سلام کہلا کر بھیجا ہے۔ میں نے قسم کھائی۔ اس نے تین بار ایسا ہی کہلوایا۔ پھر اس نے میرے ہاتھ کھول دیے اور کہا مجھے چین نہ آئے گا جب تم تو بھی اسی طرح میرے ہاتھ نہ باندھے۔ میں نے کہا نہ میرے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے نہ میرا نفس اس پر راضی ہے۔ اس نے کہا یہ کرنا ہو گا۔ چنانچہ میں نے کیا۔ پھر اسے کھول دیا۔ اس نے اپنی انگوٹھی دے کر کہا اب میرے تمام معاملات تیرے ہاتھ میں ہیں جو چاہے کر۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنِ الْخَيْبَرِيِّ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ وَمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَلَمَةَ السَّرَّاجِ وَالْحُسَيْنِ بْنِ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ قَالُوا كُنَّا عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ عِنْدَنَا خَزَائِنُ الارْضِ وَمَفَاتِيحُهَا وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ بِإِحْدَى رِجْلَيَّ أَخْرِجِي مَا فِيكِ مِنَ الذَّهَبِ لاخْرَجَتْ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِإِحْدَى رِجْلَيْهِ فَخَطَّهَا فِي الارْضِ خَطّاً فَانْفَرَجَتِ الارْضُ ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ فَأَخْرَجَ سَبِيكَةَ ذَهَبٍ قَدْرَ شِبْرٍ ثُمَّ قَالَ انْظُرُوا حَسَناً فَنَظَرْنَا فَإِذَا سَبَائِكُ كَثِيرَةٌ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ يَتَلالا فَقَالَ لَهُ بَعْضُنَا جُعِلْتُ فِدَاكَ أُعْطِيتُمْ مَا أُعْطِيتُمْ وَشِيعَتُكُمْ مُحْتَاجُونَ قَالَ فَقَالَ إِنَّ الله سَيَجْمَعُ لَنَا وَلِشِيعَتِنَا الدُّنْيَا وَالاخِرَةَ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ وَيُدْخِلُ عَدُوَّنَا الْجَحِيمَ۔
راویوں نے کہا کہ ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ نے فرمایا میرے پاس خزائن زمین ہیں اور ان کی کنجیاں ہیں۔ اگر زمین پر اپنا پیر مار کر کہوں کہ جو سونا تیرے اندر ہے اسے نکال تو وہ نکال دے گی۔ پھر آپ نے پیر سے زمین پر خط دیا۔ زمین وہاں سے شق ہو گئی ۔ پھر اپنے ہاتھ سے سونے کی اینٹ جو بقدر ایک بالشت تھی نکالی اور فرمایا تم لوگ اچھی طرح دیکھو ہم نے دیکھا تو بہت ساری اینٹیں ایک دوسرے پر رکھی چمک رہی تھیں۔ ہم میں سے ایک نے کہا آپ کو جو کچھ دیا گیا ہے اس میں سے اپنے محتاج شیعوں کو بھی دیجیے۔ فرمایا ہمارے شیعوں کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں حصہ ہے۔ خدا ہمارے شیعوں کو جنت میں داخل کرے گا اور دشمنوں کو جہنم میں۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ كَانَ لِي جَارٌ يَتَّبِعُ السُّلْطَانَ فَأَصَابَ مَالاً فَأَعَدَّ قِيَاناً وَكَانَ يَجْمَعُ الْجَمِيعَ إِلَيْهِ وَيَشْرَبُ الْمُسْكِرَ وَيُؤْذِينِي فَشَكَوْتُهُ إِلَى نَفْسِهِ غَيْرَ مَرَّةٍ فَلَمْ يَنْتَهِ فَلَمَّا أَنْ أَلْحَحْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لِي يَا هَذَا أَنَا رَجُلٌ مُبْتَلىً وَأَنْتَ رَجُلٌ مُعَافًى فَلَوْ عَرَضْتَنِي لِصَاحِبِكَ رَجَوْتُ أَنْ يُنْقِذَنِيَ الله بِكَ فَوَقَعَ ذَلِكَ لَهُ فِي قَلْبِي فَلَمَّا صِرْتُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) ذَكَرْتُ لَهُ حَالَهُ فَقَالَ لِي إِذَا رَجَعْتَ إِلَى الْكُوفَةِ سَيَأْتِيكَ فَقُلْ لَهُ يَقُولُ لَكَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ دَعْ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ وَأَضْمَنَ لَكَ عَلَى الله الْجَنَّةَ فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى الْكُوفَةِ أَتَانِي فِيمَنْ أَتَى فَاحْتَبَسْتُهُ عِنْدِي حَتَّى خَلا مَنْزِلِي ثُمَّ قُلْتُ لَهُ يَا هَذَا إِنِّي ذَكَرْتُكَ لابِي عَبْدِ الله جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لِي إِذَا رَجَعْتَ إِلَى الْكُوفَةِ سَيَأْتِيكَ فَقُلْ لَهُ يَقُولُ لَكَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ دَعْ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ وَأَضْمَنَ لَكَ عَلَى الله الْجَنَّةَ قَالَ فَبَكَى ثُمَّ قَالَ لِيَ الله لَقَدْ قَالَ لَكَ أَبُو عَبْدِ الله هَذَا قَالَ فَحَلَفْتُ لَهُ أَنَّهُ قَدْ قَالَ لِي مَا قُلْتُ فَقَالَ لِي حَسْبُكَ وَمَضَى فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ أَيَّامٍ بَعَثَ إِلَيَّ فَدَعَانِي وَإِذَا هُوَ خَلْفَ دَارِهِ عُرْيَانٌ فَقَالَ لِي يَا أَبَا بَصِيرٍ لا وَالله مَا بَقِيَ فِي مَنْزِلِي شَيْءٌ إِلا وَقَدْ أَخْرَجْتُهُ وَأَنَا كَمَا تَرَى قَالَ فَمَضَيْتُ إِلَى إِخْوَانِنَا فَجَمَعْتُ لَهُ مَا كَسَوْتُهُ بِهِ ثُمَّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ أَيَّامٌ يَسِيرَةٌ حَتَّى بَعَثَ إِلَيَّ أَنِّي عَلِيلٌ فَأْتِنِي فَجَعَلْتُ أَخْتَلِفُ إِلَيْهِ وَأُعَالِجُهُ حَتَّى نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ فَكُنْتُ عِنْدَهُ جَالِساً وَهُوَ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَغُشِيَ عَلَيْهِ غَشْيَةً ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ لِي يَا أَبَا بَصِيرٍ قَدْ وَفَى صَاحِبُكَ لَنَا ثُمَّ قُبِضَ رَحْمَةُ الله عَلَيْهِ فَلَمَّا حَجَجْتُ أَتَيْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَلَمَّا دَخَلْتُ قَالَ لِيَ ابْتِدَاءً مِنْ دَاخِلِ الْبَيْتِ وَإِحْدَى رِجْلَيَّ فِي الصَّحْنِ وَالاخْرَى فِي دِهْلِيزِ دَارِهِ يَا أَبَا بَصِيرٍ قَدْ وَفَيْنَا لِصَاحِبِكَ۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ ہمارا ہمسایہ سرکاری ملازم تھا اس نے بہت سے دولت حاصل کی اور گانے والیاں فراہم کیں۔ ان سب کو جمع کر کے گانا کراتا تھا اور شراب پیتا۔ مجھے سخت اذیت پہنچتی تھی۔ میں نے کئی بار شکایت کی مگر وہ باز نہ رہا۔ جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے کہا میں فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور آپ اس سے بری ہیں۔ اگر آپ میرا معاملہ خدمتِ امام میں پیش کر دیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے اس بلا سے نجات دے گا۔ میرے دل میں یہی آیا۔ جب میں خدمتِ امام میں آیا تو اس کا حال بیان کیا۔ فرمایا جب تم کوفہ جاؤ اور وہ تمہارے پاس آئے تو کہنا جعفر بن محمد نے کہا ہے کہ یہ سب چھوڑ دو میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ جب میں کوفہ پہنچا تو آنے والوں کے ساتھ وہ بھی آیا۔ میں نے اسے روکے رکھا۔ جب خلوت ہوئی تو میں نے کہا اے شخص تیرا ذکر امام جعفر صادق علیہ السلام سے کر دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا جب کوفہ جاؤ اور وہ آئے تو کہنا کہ جعفر بن محمد نے کہا ہے کہ یہ سب چھوڑ دے۔ میں تیرے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ یہ سن کر وہ رو دیا۔ پھر مجھ سے کہا اللہ اللہ حضرت نے تم سے ایسا کہا ہے۔ میں نے قسم کھا کر کہا بے شک یہی فرمایا ہے۔ اس نے کہا تمہارا یہ کہنا کافی ہے اس کے بعد وہ چلا گیا۔ چند روز کے بعد اس نے مجھے بلایا۔ میں گیا تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں برہنہ ہے۔ مجھ سے کہا اے ابوبصیر واللہ میرے گھر میں جو چیز تھی میں نے سب نکال دی ہے۔ اب میرا جو حال ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔ میں اپنے رشتہ داروں کے پاس گیا اور اس کو پہنانے کے لیے کچھ کپڑے لیے پھر کئی دن میں اس کے پاس نہ گیا۔ اس نے مجھے بلا بھیجا کہ میں علیل ہوں۔ میں گیا اور برابر جاتا رہا اور اس کا علاج کراتا رہا یہاں تک کہ موت کا وقت قریب آ گیا۔ میں اس کے پاس بیٹھا تھا اور اس پر نزاعی کیفیت طاری تھی۔ افاقہ ہوا تو اس نے کہا اے ابوبصیر آپ کے امام نے جو ہم سے وعدہ کیا تھا پورا کر دیا اس کے بعد وہ مر گیا۔ اللہ کی اس پر رحمت ہو۔ جب میں حج کو گیا تو امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اذنِ دخول چاہا، جب میں داخل ہونے لگا تو ابھی ایک پیر دروازے میں تھا اور دوسرا دہلیز میں کہ حضرت نے خود ہی فرمایا اے ابوبصیر ہم نے تمہارے دوست کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا۔
أَبُو عَلِيٍّ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الاشْعَثِ قَالَ قَالَ لِي أَ تَدْرِي مَا كَانَ سَبَبُ دُخُولِنَا فِي هَذَا الامْرِ وَمَعْرِفَتِنَا بِهِ وَمَا كَانَ عِنْدَنَا مِنْهُ ذِكْرٌ وَلا مَعْرِفَةُ شَيْءٍ مِمَّا عِنْدَ النَّاسِ قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا ذَاكَ قَالَ إِنَّ أَبَا جَعْفَرٍ يَعْنِي أَبَا الدَّوَانِيقِ قَالَ لابِي مُحَمَّدِ بْنِ الاشْعَثِ يَا مُحَمَّدُ ابْغِ لِي رَجُلاً لَهُ عَقْلٌ يُؤَدِّي عَنِّي فَقَالَ لَهُ أَبِي قَدْ أَصَبْتُهُ لَكَ هَذَا فُلانُ بْنُ مُهَاجِرٍ خَالِي قَالَ فَأْتِنِي بِهِ قَالَ فَأَتَيْتُهُ بِخَالِي فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ يَا ابْنَ مُهَاجِرٍ خُذْ هَذَا الْمَالَ وَأْتِ الْمَدِينَةَ وَأْتِ عَبْدَ الله بْنَ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ وَعِدَّةً مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ فِيهِمْ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَقُلْ لَهُمْ إِنِّي رَجُلٌ غَرِيبٌ مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ وَبِهَا شِيعَةٌ مِنْ شِيعَتِكُمْ وَجَّهُوا إِلَيْكُمْ بِهَذَا الْمَالِ وَادْفَعْ إِلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى شَرْطِ كَذَا وَكَذَا فَإِذَا قَبَضُوا الْمَالَ فَقُلْ إِنِّي رَسُولٌ وَأُحِبُّ أَنْ يَكُونَ مَعِي خُطُوطُكُمْ بِقَبْضِكُمْ مَا قَبَضْتُمْ فَأَخَذَ الْمَالَ وَأَتَى الْمَدِينَةَ فَرَجَعَ إِلَى أَبِي الدَّوَانِيقِ وَمُحَمَّدُ بْنُ الاشْعَثِ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّوَانِيقِ مَا وَرَاءَكَ قَالَ أَتَيْتُ الْقَوْمَ وَهَذِهِ خُطُوطُهُمْ بِقَبْضِهِمُ الْمَالَ خَلا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَإِنِّي أَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَجَلَسْتُ خَلْفَهُ وَقُلْتُ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَأَذْكُرَ لَهُ مَا ذَكَرْتُ لاصْحَابِهِ فَعَجَّلَ وَانْصَرَفَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ يَا هَذَا اتَّقِ الله وَلا تَغُرَّ أَهْلَ بَيْتِ مُحَمَّدٍ فَإِنَّهُمْ قَرِيبُو الْعَهْدِ بِدَوْلَةِ بَنِي مَرْوَانَ وَكُلُّهُمْ مُحْتَاجٌ فَقُلْتُ وَمَا ذَاكَ أَصْلَحَكَ الله قَالَ فَأَدْنَى رَأْسَهُ مِنِّي وَأَخْبَرَنِي بِجَمِيعِ مَا جَرَى بَيْنِي وَبَيْنَكَ حَتَّى كَأَنَّهُ كَانَ ثَالِثَنَا قَالَ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ يَا ابْنَ مُهَاجِرٍ اعْلَمْ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ نُبُوَّةٍ إِلا وَفِيهِ مُحَدَّثٌ وَإِنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ مُحَدَّثُنَا الْيَوْمَ وَكَانَتْ هَذِهِ الدَّلالَةُ سَبَبَ قَوْلِنَا بِهَذِهِ الْمَقَالَةِ۔
جعفر بن محمد بن اشعث کا بیان ہے کہ آیا تم جانتے ہو کہ کیا سبب ہے اس کا کہ ہم نے امر امامت اہل بیت کو تسلیم کیا اور ہم نے امامت جعفر صادق کی معرفت حاصل کی۔ حالانکہ ہم نہ کبھی اس کا ذکر کرتے تھے اور نہ اس معرفت سے ہمارا کوئی تعلق تھا (کیونکہ اس کا باپ محمد اشعث قاتلانِ حسین سے تھا) صفوان راوی کہتا ہے میں نے کہا یہ کیا واقعہ ہے۔ اس نے کہا منصور دوانقی نے میرے باپ محمد اشعث سے کہا اے محمد مجھے ایک شخص درکار ہے جو صاحبِ عقل ہو اور ایک کام میری طرف سے کر سکے۔ میرے باپ نے کہا فلاں بن مہاجر اپنے ماموں کو اس کام کا اہل پاتا ہوں اس نے کہا تو اسے لے آؤ میں اپنے ماموں کو لے آیا۔ منصور نے کہا اے ابن مہاجر یہ مال لے کر مدینہ جا اور عبداللہ بن حسن (مثنیٰ) بن حسن علیہ السلام اور ان کے خاندان والوں سے جن میں جعفر بن محمد بھی شامل ہوں مل اور ان سے کہو میں مردِ مسافر ہوں۔ خراسان کا رہنے والا ہوں۔ وہاں کے شیعوں نے یہ مال آپ لوگوں کے پاس بھیجا ہے۔ یہ کہہ کر یہ مال ان شرائط کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کو دے دینا۔ جب مال لے لیں تو کہنا کہ میں ایک قاصد ہوں جو کچھ آپ نے لیا ہے اس کی رسید بھی دے دیں۔ یہ باتیں سن کر اس نے مال لیا اور مدینہ پہنچا۔ واپس آیا تو محمد اشعت بھی اس کے پاس تھا۔ منصور نے کہا کیا ہوا۔ اس نے کہا میں ان لوگوں سے ملا۔ یہ ان کی رسیدیں ہیں سوائے جعفر ابن محمد کے۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا تاکہ نماز کے بعد ان سے وہی کہوں جو ان کے خاندان والوں نے کہا۔ حضرت نے نمازتھوڑی دیر بعد ختم کی اور میری طرف مڑ کر فرمایا اے شخص اللہ سے ڈر اور ہم اہلبیت کو دھوکا نہ دے۔ بنی مروان کا دوررِ حکومت بھی ختم ہوا ہے اب وہ محتاجِ مال ہیں۔ پھر وہ میرے قریب ہوئے اور وہ سب باتیں بیان کر دیں جو میرے اور تیرے درمیان ہوئیں تھیں۔ گویا وہ ہم میں تیسرے تھے۔ منصور نے کہا اہلبیت میں ایک محدث (فرشتہ کی آواز سننے والا) ہوتا آیا ہے۔ بے شک جعفر بن محمد محدث ہیں یہ سبب ہے میری اس گفتگو کا۔
سَعْد بْنُ عَبْدِ الله وَعَبْدُ الله بْنُ جَعْفَرٍ جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُبِضَ أَبُو عَبْدِ الله جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهما السَّلام) وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ سَنَةً فِي عَامِ ثَمَانٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَعَاشَ بَعْدَ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) أَرْبَعاً وَثَلاثِينَ سَنَة۔
ابو بصیر راوی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر بوقت شہادت 65 سال تھی۔
سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الاوَّلِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ أَنَا كَفَّنْتُ أَبِي فِي ثَوْبَيْنِ شَطَوِيَّيْنِ كَانَ يُحْرِمُ فِيهِمَا وَفِي قَمِيصٍ مِنْ قُمُصِهِ وَفِي عِمَامَةٍ كَانَتْ لِعَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) وَفِي بُرْدٍ اشْتَرَاهُ بِأَرْبَعِينَ دِينَاراً۔
فرمایا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے میں نے کفن دیا اپنے باپ دو شطوی (ایک قریہ کا نام) میں جن کا آپ احرام باندھتے تھے اور آپ کی ایک قمیض میں اور حضرت علی ابن الحسین کے عمامہ میں اور ایک چادر میں جسے آپ نے چالیس دینار میں خریدا تھا۔