وُلِدَ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) بِالابْوَاءِ سَنَةَ ثَمَانٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ وَقَالَ بَعْضُهُمْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ وَقُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) لِسِتٍّ خَلَوْنَ مِنْ رَجَبٍ مِنْ سَنَةِ ثَلاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَةٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعٍ أَوْ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ سَنَةً وَقُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) بِبَغْدَادَ فِي حَبْسِ السِّنْدِيِّ بْنِ شَاهَكَ وَكَانَ هَارُونُ حَمَلَهُ مِنَ الْمَدِينَةِ لِعَشْرِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ شَوَّالٍ سَنَةَ تِسْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَةٍ وَقَدْ قَدِمَ هَارُونُ الْمَدِينَةَ مُنْصَرَفَهُ مِنْ عُمْرَةِ شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ شَخَصَ هَارُونُ إِلَى الْحَجِّ وَحَمَلَهُ مَعَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى طَرِيقِ الْبَصْرَةِ فَحَبَسَهُ عِنْدَ عِيسَى بْنِ جَعْفَرٍ ثُمَّ أَشْخَصَهُ إِلَى بَغْدَادَ فَحَبَسَهُ عِنْدَ السِّنْدِيِّ بْنِ شَاهَكَ فَتُوُفِّيَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي حَبْسِهِ وَدُفِنَ بِبَغْدَادَ فِي مَقْبَرَةِ قُرَيْشٍ وَأُمُّهُ أُمُّ وَلَدٍ يُقَالُ لَهَا حَمِيدَةُ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام 128 ہجری میں بمقام ابوا پیدا ہوئے اور 6 رجب 182 میں 54 یا 55 برس کی عمر میں شہادت پائی۔ سندی بن شاہک کی قید میں آپ کی وفات ہوئی خلیفہ ہارون جب اپنے عمرہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ آیا تو حضرت کو مدینہ سے اپنے ساتھ لے گیا اور پھر حج کیا پھر وہ بصرہ کی راہ سے واپس ہوا اور عیسیٰ بن جعفر کی حراست میں آپ کو چھوڑ گیا پھر اس نے حضرت کو بغداد بلا کر شاہک سندی کی نگرانی میں قید رکھا۔ اسی قید میں آپ نے انتقال فرمایا اور بغداد میں قبرستانِ قریش میں دفن کیے گئے۔ آپ کی والدہ ام ولد تھیں جن کو حمیدہ کہا جاتا تھا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ السِّنْدِيِّ الْقُمِّيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلَ ابْنُ عُكَّاشَةَ بْنِ مِحْصَنٍ الاسَدِيُّ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ وَكَانَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَائِماً عِنْدَهُ فَقَدَّمَ إِلَيْهِ عِنَباً فَقَالَ حَبَّةً حَبَّةً يَأْكُلُهُ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالصَّبِيُّ الصَّغِيرُ وَثَلاثَةً وَأَرْبَعَةً يَأْكُلُهُ مَنْ يَظُنُّ أَنَّهُ لا يَشْبَعُ وَكُلْهُ حَبَّتَيْنِ حَبَّتَيْنِ فَإِنَّهُ يُسْتَحَبُّ فَقَالَ لابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) لايِّ شَيْءٍ لا تُزَوِّجُ أَبَا عَبْدِ الله فَقَدْ أَدْرَكَ التَّزْوِيجَ قَالَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ صُرَّةٌ مَخْتُومَةٌ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُ سَيَجِيءُ نَخَّاسٌ مِنْ أَهْلِ بَرْبَرَ فَيَنْزِلُ دَارَ مَيْمُونٍ فَنَشْتَرِي لَهُ بِهَذِهِ الصُّرَّةِ جَارِيَةً قَالَ فَأَتَى لِذَلِكَ مَا أَتَى فَدَخَلْنَا يَوْماً عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ أَ لا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّخَّاسِ الَّذِي ذَكَرْتُهُ لَكُمْ قَدْ قَدِمَ فَاذْهَبُوا فَاشْتَرُوا بِهَذِهِ الصُّرَّةِ مِنْهُ جَارِيَةً قَالَ فَأَتَيْنَا النَّخَّاسَ فَقَالَ قَدْ بِعْتُ مَا كَانَ عِنْدِي إِلا جَارِيَتَيْنِ مَرِيضَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا أَمْثَلُ مِنَ الاخْرَى قُلْنَا فَأَخْرِجْهُمَا حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْهِمَا فَأَخْرَجَهُمَا فَقُلْنَا بِكَمْ تَبِيعُنَا هَذِهِ الْمُتَمَاثِلَةَ قَالَ بِسَبْعِينَ دِينَاراً قُلْنَا أَحْسِنْ قَالَ لا أَنْقُصُ مِنْ سَبْعِينَ دِينَاراً قُلْنَا لَهُ نَشْتَرِيهَا مِنْكَ بِهَذِهِ الصُّرَّةِ مَا بَلَغَتْ وَلا نَدْرِي مَا فِيهَا وَكَانَ عِنْدَهُ رَجُلٌ أَبْيَضُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ قَالَ فُكُّوا وَزِنُوا فَقَالَ النَّخَّاسُ لا تَفُكُّوا فَإِنَّهَا إِنْ نَقَصَتْ حَبَّةً مِنْ سَبْعِينَ دِينَاراً لَمْ أُبَايِعْكُمْ فَقَالَ الشَّيْخُ ادْنُوا فَدَنَوْنَا وَفَكَكْنَا الْخَاتَمَ وَوَزَنَّا الدَّنَانِيرَ فَإِذَا هِيَ سَبْعُونَ دِينَاراً لا تَزِيدُ وَلا تَنْقُصُ فَأَخَذْنَا الْجَارِيَةَ فَأَدْخَلْنَاهَا عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) وَجَعْفَرٌ قَائِمٌ عِنْدَهُ فَأَخْبَرْنَا أَبَا جَعْفَرٍ بِمَا كَانَ فَحَمِدَ الله وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لَهَا مَا اسْمُكِ قَالَتْ حَمِيدَةُ فَقَالَ حَمِيدَةٌ فِي الدُّنْيَا مَحْمُودَةٌ فِي الاخِرَةِ أَخْبِرِينِي عَنْكِ أَ بِكْرٌ أَنْتِ أَمْ ثَيِّبٌ قَالَتْ بِكْرٌ قَالَ وَكَيْفَ وَلا يَقَعُ فِي أَيْدِي النَّخَّاسِينَ شَيْءٌ إِلا أَفْسَدُوهُ فَقَالَتْ قَدْ كَانَ يَجِيئُنِي فَيَقْعُدُ مِنِّي مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنَ الْمَرْأَةِ فَيُسَلِّطُ الله عَلَيْهِ رَجُلاً أَبْيَضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَلا يَزَالُ يَلْطِمُهُ حَتَّى يَقُومَ عَنِّي فَفَعَلَ بِي مِرَاراً وَفَعَلَ الشَّيْخُ بِهِ مِرَاراً فَقَالَ يَا جَعْفَرُ خُذْهَا إِلَيْكَ فَوَلَدَتْ خَيْرَ أَهْلِ الارْضِ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ (عَلَيْهما السَّلام )
عکاثہ راوی امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام بھی اس کے پاس کھڑے تھے۔ آپ نے انگوروں کا ایک خوشہ اس کے سامنے رکھا اور ایک ایک دانہ کھانے لگا۔ فرمایا ایک ایک دانہ تو بڈھا یا بچہ کھاتا ہے اور جوان چار چار دانے کھاتا ہے وہ حریص جو ڈرتا ہے کہ میں سیر ہونے سے نہ رہ جاؤں تم دو دو دانے کھاؤ کہ یہ مستحب ہے۔ پھر اس نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا آپ ابو عبداللہ کی شادی کیوں نہیں کرتے۔ اب تو وہ شادی کے قابل ہیں اس وقت آپ کے سامنے تھیلی رکھی تھی۔ فرمایا ایک بربری بردہ فروش آنے والا ہے جو دار میمون میں قیام کرے گا اس سے ہم کنیز خریدیں گے۔ راوی کہتا ہے کچھ دن گزرنے کے بعد ہم امام محمد باقر کے پاس آئے۔ فرمایا میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ وہ بردہ فروش جس کا میں نے ذکر کیا تھا آ گیا۔ فرمایا تم جاؤ اس تھیلے کے بدلے اس کنیز کو خرید لو۔ راوی کہتا ہے ہم بردہ فروش کے پاس آئے۔ اس نے کہا جو میرے پاس تھا میں بیچ چکا۔ اب تو میرے پاس دو بیمار کنیزیں ہیں ایک ان میں دوسری سے اچھی ہے۔ ہم نے کہا انہیں دکھاؤ تو اس نے دکھائیں۔ ہم نے کہا یہ جو ان دونوں میں بہتر ہے اس کی کیا قیمت ہے۔ اس نے کہا ستر دینار۔ ہم نے کہا کچھ کم کر کے احسان کرو۔ اس نے کہا اس سے کم نہ زیادہ۔ ہم نے کہا ہم اس تھیلی کے بدلے خریدتے ہیں جتنے ہوں ہمیں اس کا علم نہیں۔ اس کے پاس ایک شخص جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے بیٹھا تھا۔ اس نے کہا تھیلی کو کھول کر رقم گن کو۔ بردہ فروش نے کہا تم مت کھولو اگر ستر سے کم نکلے تو نہیں بیچوں گا۔ بڈھے نے کہا میرے پاس آؤ اور تھیلی کی مہر توڑو جب ہم نے کھولا تو اس میں ستر ہی دینار تھے، نہ کم نہ زیادہ۔ ہم نے خرید لیا اور اسے لے کر امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان کے پاس بیٹھے تھے۔ ہم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کل حال بیان کیا۔ حضرت نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد کنیز سے پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے۔ انھوں نے کہا حمیدہ۔ فرمایا تم حمیدہ ہو دنیا میں اور محمودہ ہو آخرت میں۔ مجھے بتاؤ تم باکرہ ہو یا ام ثیبب۔ انھوں نے کہا باکرہ۔ فرمایا یہ کیسے نخاسوں کے ہاتھ جو عورت آ جاتی ہے وہ اسے باکرہ نہیں رہنے دیتے۔ انھوں نے کہا یہ شخص میرے پاس آیا اور اس طرح بیٹھا جیسے عورت سے جماع کرنے والا مرد بیٹھتا ہے۔ پس خدا نے اس پر ایک مردِ بزرگ کو مسلط کیا جس نے اس کو طمانچے مارے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا کئی بار اس نے یہ ناپاک ارادہ کیا۔ ہر بار وہ بزرگ مانع آئے۔ آپ نے فرمایا اے ابو جعفر اس کو لے لو اس کے بطن سے اہلِ زمین کا بہترین شخص موسیٰ نامی پیدا ہو گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَحْمَدَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنْ سَابِقِ بْنِ الْوَلِيدِ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ حَمِيدَةُ مُصَفَّاةٌ مِنَ الادْنَاسِ كَسَبِيكَةِ الذَّهَبِ مَا زَالَتِ الامْلاكُ تَحْرُسُهَا حَتَّى أُدِّيَتْ إِلَيَّ كَرَامَةً مِنَ الله لِي وَالْحُجَّةِ مِنْ بَعْدِي۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے حمیدہ پاک و صاف ہیں تمام اوناس سے جیسے تپایا ہوا سونا میل کچیل سے پاک ہوتا ہے۔ خدا نے ان کی مخالفت کی یہاں تک کہ خدا کی طرف سے وہ گرامی ذات مجھے ملی جو میرے بعد خدا کی حجت ہو گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْقُمِّيِّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الزُّبَالِيِّ قَالَ لَمَّا أُقْدِمَ بِأَبِي الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَى الْمَهْدِيِّ الْقُدْمَةَ الاولَى نَزَلَ زُبَالَةَ فَكُنْتُ أُحَدِّثُهُ فَرَآنِي مَغْمُوماً فَقَالَ لِي يَا أَبَا خَالِدٍ مَا لِي أَرَاكَ مَغْمُوماً فَقُلْتُ وَكَيْفَ لا أَغْتَمُّ وَأَنْتَ تُحْمَلُ إِلَى هَذِهِ الطَّاغِيَةِ وَلا أَدْرِي مَا يُحْدِثُ فِيكَ فَقَالَ لَيْسَ عَلَيَّ بَأْسٌ إِذَا كَانَ شَهْرُ كَذَا وَكَذَا وَيَوْمُ كَذَا فَوَافِنِي فِي أَوَّلِ الْمِيلِ فَمَا كَانَ لِي هَمٌّ إِلا إِحْصَاءَ الشُّهُورِ وَالايَّامِ حَتَّى كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ فَوَافَيْتُ الْمِيلَ فَمَا زِلْتُ عِنْدَهُ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ وَوَسْوَسَ الشَّيْطَانُ فِي صَدْرِي وَتَخَوَّفْتُ أَنْ أَشُكَّ فِيمَا قَالَ فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذَا نَظَرْتُ إِلَى سَوَادٍ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ نَاحِيَةِ الْعِرَاقِ فَاسْتَقْبَلْتُهُمْ فَإِذَا أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) أَمَامَ الْقِطَارِ عَلَى بَغْلَةٍ فَقَالَ إِيهٍ يَا أَبَا خَالِدٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ الله فَقَالَ لا تَشُكَّنَّ وَدَّ الشَّيْطَانُ أَنَّكَ شَكَكْتَ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لله الَّذِي خَلَّصَكَ مِنْهُمْ فَقَالَ إِنَّ لِي إِلَيْهِمْ عَوْدَةً لا أَتَخَلَّصُ مِنْهُم۔
ابو خالد زبالی سے مروی ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو پہلی بار مہدی کے پاس مدینہ لے جایا جا رہا تھا تو حضرت کا نزول منزل زبالہ پر ہوا میں غمناک حالت میں حضرت سے بات چیت کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اے ابو خالد مغموم کیوں ہو۔ میں نے کہا کیسے رنجیدہ نہ ہوں۔ آپ ایک سرکش انسان کے پاس جا رہے ہیں۔ خدا جانے کیا حادثہ وہاں پیش آئے۔ فرمایا اس بار میرے لیے کوئی خوف نہیں فلاں مہینے فلاں دن تم مجھے پہلے میں پر ملنا۔ میں برابر مہینے اور دن اس روز سے گنتا رہا۔ جب وہ دن آیا تو میں اس میل پر پہنچا۔ میں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔ جو کچھ حضرت نے فرمایا تھا اس کے متعلق دل میں شک پیدا ہوا۔ ناگاہ ایک سیاہی عراق کی طرف سے نمودار ہوئی میں آگے بڑھا تو میں امام علیہ السلام کو سب سے آگے خچر پر سوار دیکھا۔ حضرت نے فرمایا اے ابو خالد میں نے کہا لبیک یابن رسول اللہ ۔ فرمایا شک نہ کرو، شیطان تمہارے شک کو دوست رکھتا ہے۔ میں نے کہا خدا کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو ان ظالموں سے رہائی دلائی۔ فرمایا ابھی مجھے پھر ایک بار ان کے پھندے میں پھنسنا ہے اور پھر رہائی نصیب ہو گی۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ نَصْرَانِيٌّ وَنَحْنُ مَعَهُ بِالْعُرَيْضِ فَقَالَ لَهُ النَّصْرَانِيُّ أَتَيْتُكَ مِنْ بَلَدٍ بَعِيدٍ وَسَفَرٍ شَاقٍّ وَسَأَلْتُ رَبِّي مُنْذُ ثَلاثِينَ سَنَةً أَنْ يُرْشِدَنِي إِلَى خَيْرِ الادْيَانِ وَإِلَى خَيْرِ الْعِبَادِ وَأَعْلَمِهِمْ وَأَتَانِي آتٍ فِي النَّوْمِ فَوَصَفَ لِي رَجُلاً بِعُلْيَا دِمَشْقَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَكَلَّمْتُهُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ أَهْلِ دِينِي وَغَيْرِي أَعْلَمُ مِنِّي فَقُلْتُ أَرْشِدْنِي إِلَى مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ فَإِنِّي لا أَسْتَعْظِمُ السَّفَرَ وَلا تَبْعُدُ عَلَيَّ الشُّقَّةُ وَلَقَدْ قَرَأْتُ الانْجِيلَ كُلَّهَا وَمَزَامِيرَ دَاوُدَ وَقَرَأْتُ أَرْبَعَةَ أَسْفَارٍ مِنَ التَّوْرَاةِ وَقَرَأْتُ ظَاهِرَ الْقُرْآنِ حَتَّى اسْتَوْعَبْتُهُ كُلَّهُ فَقَالَ لِيَ الْعَالِمُ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ عِلْمَ النَّصْرَانِيَّةِ فَأَنَا أَعْلَمُ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ بِهَا وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ عِلْمَ الْيَهُودِ فَبَاطِي بْنُ شُرَحْبِيلَ السَّامِرِيُّ أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَا الْيَوْمَ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ عِلْمَ الاسْلامِ وَعِلْمَ التَّوْرَاةِ وَعِلْمَ الانْجِيلِ وَعِلْمَ الزَّبُورِ وَكِتَابَ هُودٍ وَكُلَّ مَا أُنْزِلَ عَلَى نَبِيٍّ مِنَ الانْبِيَاءِ فِي دَهْرِكَ وَدَهْرِ غَيْرِكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ خَبَرٍ فَعَلِمَهُ أَحَدٌ أَوْ لَمْ يَعْلَمْ بِهِ أَحَدٌ فِيهِ تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ وَشِفَاءٌ لِلْعَالَمِينَ وَرَوْحٌ لِمَنِ اسْتَرْوَحَ إِلَيْهِ وَبَصِيرَةٌ لِمَنْ أَرَادَ الله بِهِ خَيْراً وَأَنِسَ إِلَى الْحَقِّ فَأُرْشِدُكَ إِلَيْهِ فَأْتِهِ وَلَوْ مَشْياً عَلَى رِجْلَيْكَ فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ فَحَبْواً عَلَى رُكْبَتَيْكَ فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ فَزَحْفاً عَلَى اسْتِكَ فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ فَعَلَى وَجْهِكَ فَقُلْتُ لا بَلْ أَنَا أَقْدِرُ عَلَى الْمَسِيرِ فِي الْبَدَنِ وَالْمَالِ قَالَ فَانْطَلِقْ مِنْ فَوْرِكَ حَتَّى تَأْتِيَ يَثْرِبَ فَقُلْتُ لا أَعْرِفُ يَثْرِبَ قَالَ فَانْطَلِقْ حَتَّى تَأْتِيَ مَدِينَةَ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) الَّذِي بُعِثَ فِي الْعَرَبِ وَهُوَ النَّبِيُّ الْعَرَبِيُّ الْهَاشِمِيُّ فَإِذَا دَخَلْتَهَا فَسَلْ عَنْ بَنِي غَنْمِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ وَهُوَ عِنْدَ بَابِ مَسْجِدِهَا وَأَظْهِرْ بِزَّةَ النَّصْرَانِيَّةِ وَحِلْيَتَهَا فَإِنَّ وَالِيَهَا يَتَشَدَّدُ عَلَيْهِمْ وَالْخَلِيفَةُ أَشَدُّ ثُمَّ تَسْأَلُ عَنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ مَبْذُولٍ وَهُوَ بِبَقِيعِ الزُّبَيْرِ ثُمَّ تَسْأَلُ عَنْ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَأَيْنَ مَنْزِلُهُ وَأَيْنَ هُوَ مُسَافِرٌ أَمْ حَاضِرٌ فَإِنْ كَانَ مُسَافِراً فَالْحَقْهُ فَإِنَّ سَفَرَهُ أَقْرَبُ مِمَّا ضَرَبْتَ إِلَيْهِ. ” ثُمَّ أَعْلِمْهُ أَنَّ مَطْرَانَ عُلْيَا الْغُوطَةِ غُوطَةِ دِمَشْقَ هُوَ الَّذِي أَرْشَدَنِي إِلَيْكَ وَهُوَ يُقْرِئُكَ السَّلامَ كَثِيراً وَيَقُولُ لَكَ إِنِّي لاكْثِرُ مُنَاجَاةَ رَبِّي أَنْ يَجْعَلَ إِسْلامِي عَلَى يَدَيْكَ فَقَصَّ هَذِهِ الْقِصَّةَ وَهُوَ قَائِمٌ مُعْتَمِدٌ عَلَى عَصَاهُ ثُمَّ قَالَ إِنْ أَذِنْتَ لِي يَا سَيِّدِي كَفَّرْتُ لَكَ وَجَلَسْتُ فَقَالَ آذَنُ لَكَ أَنْ تَجْلِسَ وَلا آذَنُ لَكَ أَنْ تُكَفِّرَ فَجَلَسَ ثُمَّ أَلْقَى عَنْهُ بُرْنُسَهُ ثُمَّ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ تَأْذَنُ لِي فِي الْكَلامِ قَالَ نَعَمْ مَا جِئْتَ إِلا لَهُ فَقَالَ لَهُ النَّصْرَانِيُّ ارْدُدْ عَلَى صَاحِبِي السَّلامَ أَ وَمَا تَرُدُّ السَّلامَ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ عَلَى صَاحِبِكَ إِنْ هَدَاهُ الله فَأَمَّا التَّسْلِيمُ فَذَاكَ إِذَا صَارَ فِي دِينِنَا فَقَالَ النَّصْرَانِيُّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَصْلَحَكَ الله قَالَ سَلْ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ كِتَابِ الله تَعَالَى الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَنَطَقَ بِهِ ثُمَّ وَصَفَهُ بِمَا وَصَفَهُ بِهِ فَقَالَ حم. وَالْكِتابِ الْمُبِينِ. إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ. فِيها يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ مَا تَفْسِيرُهَا فِي الْبَاطِنِ فَقَالَ أَمَّا حم فَهُوَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَهُوَ فِي كِتَابِ هُودٍ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ وَهُوَ مَنْقُوصُ الْحُرُوفِ وَأَمَّا الْكِتابِ الْمُبِينِ فَهُوَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علي وَأَمَّا اللَّيْلَةُ فَفَاطِمَةُ (عليها السلام) وَأَمَّا قَوْلُهُ فِيها يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ يَقُولُ يَخْرُجُ مِنْهَا خَيْرٌ كَثِيرٌ فَرَجُلٌ حَكِيمٌ وَرَجُلٌ حَكِيمٌ وَرَجُلٌ حَكِيمٌ فَقَالَ الرَّجُلُ صِفْ لِيَ الاوَّلَ وَالاخِرَ مِنْ هَؤُلاءِ الرِّجَالِ فَقَالَ إِنَّ الصِّفَاتِ تَشْتَبِهُ وَلَكِنَّ الثَّالِثَ مِنَ الْقَوْمِ أَصِفُ لَكَ مَا يَخْرُجُ مِنْ نَسْلِهِ وَإِنَّهُ عِنْدَكُمْ لَفِي الْكُتُبِ الَّتِي نَزَلَتْ عَلَيْكُمْ إِنْ لَمْ تُغَيِّرُوا وَتُحَرِّفُوا وَتُكَفِّرُوا وَقَدِيماً مَا فَعَلْتُمْ قَالَ لَهُ النَّصْرَانِيُّ إِنِّي لا أَسْتُرُ عَنْكَ مَا عَلِمْتُ وَلا أُكَذِّبُكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ مَا أَقُولُ فِي صِدْقِ مَا أَقُولُ وَكَذِبِهِ وَالله لَقَدْ أَعْطَاكَ الله مِنْ فَضْلِهِ وَقَسَمَ عَلَيْكَ مِنْ نِعَمِهِ مَا لا يَخْطُرُهُ الْخَاطِرُونَ وَلا يَسْتُرُهُ السَّاتِرُونَ وَلا يُكَذِّبُ فِيهِ مَنْ كَذَّبَ فَقَوْلِي لَكَ فِي ذَلِكَ الْحَقُّ كَمَا ذَكَرْتُ فَهُوَ كَمَا ذَكَرْتُ فَقَالَ لَهُ أَبُو إِبْرَاهِيمَ أُعَجِّلُكَ أَيْضاً خَبَراً لا يَعْرِفُهُ إِلا قَلِيلٌ مِمَّنْ قَرَأَ الْكُتُبَ أَخْبِرْنِي مَا اسْمُ أُمِّ مَرْيَمَ وَأَيُّ يَوْمٍ نُفِخَتْ فِيهِ مَرْيَمُ وَلِكَمْ مِنْ سَاعَةٍ مِنَ النَّهَارِ وَأَيُّ يَوْمٍ وَضَعَتْ مَرْيَمُ فِيهِ عِيسَى وَلِكَمْ مِنْ سَاعَةٍ مِنَ النَّهَارِ فَقَالَ النَّصْرَانِيُّ لا أَدْرِي فَقَالَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ أَمَّا أُمُّ مَرْيَمَ فَاسْمُهَا مَرْثَا وَهِيَ وَهِيبَةُ بِالْعَرَبِيَّةِ وَأَمَّا. الْيَوْمُ الَّذِي حَمَلَتْ فِيهِ مَرْيَمُ فَهُوَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ لِلزَّوَالِ وَهُوَ الْيَوْمُ الَّذِي هَبَطَ فِيهِ الرُّوحُ الامِينُ وَلَيْسَ لِلْمُسْلِمِينَ عِيدٌ كَانَ أَوْلَى مِنْهُ عَظَّمَهُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَعَظَّمَهُ مُحَمَّدٌ ﷺ فَأَمَرَ أَنْ يَجْعَلَهُ عِيداً فَهُوَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَأَمَّا الْيَوْمُ الَّذِي وَلَدَتْ فِيهِ مَرْيَمُ فَهُوَ يَوْمُ الثَّلاثَاءِ لارْبَعِ سَاعَاتٍ وَنِصْفٍ مِنَ النَّهَارِ وَالنَّهَرُ الَّذِي وَلَدَتْ عَلَيْهِ مَرْيَمُ عِيسَى هَلْ تَعْرِفُهُ قَالَ لا قَالَ هُوَ الْفُرَاتُ وَعَلَيْهِ شَجَرُ النَّخْلِ وَالْكَرْمِ وَلَيْسَ يُسَاوَى بِالْفُرَاتِ شَيْءٌ لِلْكُرُومِ وَالنَّخِيلِ فَأَمَّا الْيَوْمُ الَّذِي حَجَبَتْ فِيهِ لِسَانَهَا وَنَادَى قَيْدُوسُ وُلْدَهُ وَأَشْيَاعَهُ فَأَعَانُوهُ وَأَخْرَجُوا آلَ عِمْرَانَ لِيَنْظُرُوا إِلَى مَرْيَمَ فَقَالُوا لَهَا مَا قَصَّ الله عَلَيْكَ فِي كِتَابِهِ وَعَلَيْنَا فِي كِتَابِهِ فَهَلْ فَهِمْتَهُ قَالَ نَعَمْ وَقَرَأْتُهُ الْيَوْمَ الاحْدَثَ قَالَ إِذَنْ لا تَقُومَ مِنْ مَجْلِسِكَ حَتَّى يَهْدِيَكَ الله قَالَ النَّصْرَانِيُّ مَا كَانَ اسْمُ أُمِّي بِالسُّرْيَانِيَّةِ وَبِالْعَرَبِيَّةِ فَقَالَ كَانَ اسْمُ أُمِّكَ بِالسُّرْيَانِيَّةِ عَنْقَالِيَةَ وَعُنْقُورَةَ كَانَ اسْمُ جَدَّتِكَ لابِيكَ وَأَمَّا اسْمُ أُمِّكَ بِالْعَرَبِيَّةِ فَهُوَ مَيَّةُ وَأَمَّا اسْمُ أَبِيكَ فَعَبْدُ الْمَسِيحِ وَهُوَ عَبْدُ الله بِالْعَرَبِيَّةِ وَلَيْسَ لِلْمَسِيحِ عَبْدٌ قَالَ صَدَقْتَ وَبَرِرْتَ فَمَا كَانَ اسْمُ جَدِّي قَالَ كَانَ اسْمُ جَدِّكَ جَبْرَئِيلَ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَمَّيْتُهُ فِي مَجْلِسِي هَذَا قَالَ أَمَا إِنَّهُ كَانَ مُسْلِماً قَالَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ نَعَمْ وَقُتِلَ شَهِيداً دَخَلَتْ عَلَيْهِ أَجْنَادٌ فَقَتَلُوهُ فِي مَنْزِلِهِ غِيلَةً وَالاجْنَادُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ قَالَ فَمَا كَانَ اسْمِي قَبْلَ كُنْيَتِي قَالَ كَانَ اسْمُكَ عَبْدَ الصَّلِيبِ قَالَ فَمَا تُسَمِّينِي قَالَ أُسَمِّيكَ عَبْدَ الله قَالَ فَإِنِّي آمَنْتُ بِالله الْعَظِيمِ وَشَهِدْتُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ فَرْداً صَمَداً لَيْسَ كَمَا تَصِفُهُ النَّصَارَى وَلَيْسَ كَمَا تَصِفُهُ الْيَهُودُ وَلا جِنْسٌ مِنْ أَجْنَاسِ الشِّرْكِ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ فَأَبَانَ بِهِ لاهْلِهِ وَعَمِيَ الْمُبْطِلُونَ وَأَنَّهُ كَانَ رَسُولَ الله إِلَى النَّاسِ كَافَّةً إِلَى الاحْمَرِ وَالاسْوَدِ كُلٌّ فِيهِ مُشْتَرِكٌ فَأَبْصَرَ مَنْ أَبْصَرَ وَاهْتَدَى مَنِ اهْتَدَى وَعَمِيَ الْمُبْطِلُونَ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ وَأَشْهَدُ أَنَّ وَلِيَّهُ نَطَقَ بِحِكْمَتِهِ وَأَنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ مِنَ الانْبِيَاءِ نَطَقُوا بِالْحِكْمَةِ الْبَالِغَةِ وَتَوَازَرُوا عَلَى الطَّاعَةِ لله وَفَارَقُوا الْبَاطِلَ وَأَهْلَهُ وَالرِّجْسَ وَأَهْلَهُ وَهَجَرُوا سَبِيلَ الضَّلالَةِ وَنَصَرَهُمُ الله بِالطَّاعَةِ لَهُ وَعَصَمَهُمْ مِنَ الْمَعْصِيَةِ فَهُمْ لله أَوْلِيَاءُ وَلِلدِّينِ أَنْصَارٌ يَحُثُّونَ عَلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِهِ آمَنْتُ بِالصَّغِيرِ مِنْهُمْ وَالْكَبِيرِ وَمَنْ ذَكَرْتُ مِنْهُمْ وَمَنْ لَمْ أَذْكُرْ وَآمَنْتُ بِالله تَبَارَكَ وَتَعَالَى رَبِّ الْعَالَمِينَ ثُمَّ قَطَعَ زُنَّارَهُ وَقَطَعَ صَلِيباً كَانَ فِي عُنُقِهِ مِنْ ذَهَبٍ ثُمَّ قَالَ مُرْنِي حَتَّى أَضَعَ صَدَقَتِي حَيْثُ تَأْمُرُنِي فَقَالَ هَاهُنَا أَخٌ لَكَ كَانَ عَلَى مِثْلِ دِينِكَ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِكَ مِنْ قَيْسِ بْنِ ثَعْلَبَةَ وَهُوَ فِي نِعْمَةٍ كَنِعْمَتِكَ فَتَوَاسَيَا وَتَجَاوَرَا وَلَسْتُ أَدَعُ أَنْ أُورِدَ عَلَيْكُمَا حَقَّكُمَا فِي الاسْلامِ فَقَالَ وَالله أَصْلَحَكَ الله إِنِّي لَغَنِيٌّ وَلَقَدْ تَرَكْتُ ثَلاثَمِائَةِ طَرُوقٍ بَيْنَ فَرَسٍ وَفَرَسَةٍ وَتَرَكْتُ أَلْفَ بَعِيرٍ فَحَقُّكَ فِيهَا أَوْفَرُ مِنْ حَقِّي فَقَالَ لَهُ أَنْتَ مَوْلَى الله وَرَسُولِهِ وَأَنْتَ فِي حَدِّ نَسَبِكَ عَلَى حَالِكَ فَحَسُنَ إِسْلامُهُ وَتَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي فِهْرٍ وَأَصْدَقَهَا أَبُو إِبْرَاهِيمَ خَمْسِينَ دِينَاراً مِنْ صَدَقَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَخْدَمَهُ وَبَوَّأَهُ وَأَقَامَ حَتَّى أُخْرِجَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ فَمَاتَ بَعْدَ مَخْرَجِهِ بِثَمَانٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً۔
راوی کہتا ہے کہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ نصرانی آیا اور ہم حضرت کے ساتھ مقام عریض میں تھے۔ نصرانی نے کہا میں ایک دور درراز شہر سے بڑی مشقت اٹھانے کے بعد آیا ہوں۔ میں اپنے رب سے تیس سال سے دعا کر رہا ہوں کہ مجھے بہترین دین اور بہترین بندہ کی طرف ہدایت کرے اور جو ان میں سب سے زیادہ عالم ہو۔ پس ایک شخص نے خواب میں مجھے ایک شخص کا بتایا جو دمشق کے بالائی حصے میں رہتا ہے۔ میں اس کے پاس پہنچا اور اس سے گفتگو کی۔ اس نے کہا اگرچہ میں اپنے دین (عیسائی) کا بہت بڑا عالم ہوں لیکن ایک اور شخص جو مجھ سے زیادہ عالم ہے۔ میں طلب علم میں سفر کو دشوار نہیں جانتا اور نہ مشقت کو دھیان میں لاتا ہوں ۔ میں نے پوری انجیل پڑھی ہے۔ داؤد کی زبور پڑھی ہے اور توریت کی چاروں کتابوں کو پڑھا ہے۔ میں نے ظواہر قرآن کو پورا پڑھا ہے۔ پھر اس عالم نے مجھ سے کہا اگر تم علم نصرانیت جاننا چاہتے ہو تو میں عرب و عجم میں اس کا سب سے بڑا عالم ہوں اور اگر قباطی بن رجیل سامری والا علم یہود چاہتے ہو تو میں اس کا زیادہ عالم ہوں اور اگر تم علم الاسلام، علم تورات و علم زبور اور کتاب ہود اور ہر اس چیز کا علم جو انبیاء میں سے کسی نبی پر اب یا اس سے قبل نازل ہوا یا جو خبر آسمان سے آئی اوراس کو کسی نے نہ جانا ہو یا جانا ہو اور وہ ایسی کتاب میں ہے جس میں ہر شے کا بیان ہے اور مومنین کے لیے شفا ہے اور روحانی مسرت اور بصیرت کا باعث ہے اس شخص کے لیے جو نیکی کا ارادہ رکھتا ہو اور جسے حق سے انس ہو تو میں تیری رہنمائی ایک ایسے شخص کی طرف کرتا ہوں تو اس کے پاس جا اگر اپنے پیروں سے چل سکتا ہو اگر پیروں سے نہ چل سکتا ہو تو گھٹنوں کے بل جانا اور اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو بیٹھ کر گھسٹا ہوا اور اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو چہرے کے بل جانا۔ میں نے کہا مجھے جانے کی قدرت بلحاظ بدن و مال حاصل ہے۔ اس نے کہا فوراً جا اور یثرب پہنچ۔ میں نے کہا میں تو یثرب کو قطعاً نہیں جانتا۔ اس نے کہا تو مدینہ جا جہاں عرب میں ایک بنی ہاشم مبعوث ہوئے تھے جب وہاں پہنچے تو اولاد بنی غنم بن مالک بن بخار کا پتہ لگا جو باب مسجد کے پاس رہتے ہیں اور نصرانیوں کا سا لباس پہنتے ہیں کیوں کہ وہاں کا حاکم ان پر سختی کرتا ہے اور خلیفہ اور زیادہ سخت ہے۔
پھر بنی عمر و بن منذول سے جو بقیع زبیر میں رہتے ہیں امام موسیٰ بن جعفر کے متعلق پوچھنا کہ ان کا گھر کہاں ہے آیا وہ شہر میں موجود ہیں یا سفر میں ہیں اگر سفر میں ہوں تو وہاں جا کر ملنا کیونکہ ان کا سفر اس سے زیادہ دور نہ ہو گا جتنا تم نے کیا ہو گا۔ پھر ان کو بتانا کہ مطران علیا نے جو غوطہ دمشق میں رہتا ہے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور بہت بہت سلام کہا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ میری اکثر خدا سے یہ دعا رہتی ہے کہ میرے اسلام کا اظہار آپ کے ہاتھوں پر ہو۔ پھر حضرت سے یہ سب واقعہ بیان کرنا وہ تجھ کو عصا پر تکیہ کیے ہوئے ملیں گے پھر کہنا اے میرے سردار آپ کی اجازت ہے کہ میں برائے تعظیم سینہ پر ہاتھ رکھوں اور بیٹھ جاؤں حضرت نے فرمایا بیٹھنے کی اجازت ہے۔ تکفیر یعنی سینہ پر ہاتھ رکھنے کی نہیں۔ وہ بیٹھا اور اپنی ٹوپی اتار کر کہا میں آپ پر فدا ہوں کلام کرنے کی اجازت ہے۔ فرمایا ضرور تم تو آئے ہی اس لیے ہو۔ نصرانی نے کہا جس شخص نے میری رہنمائی آپ کی بارگاہ تک کی ہے آپ اس کو جواباً سلام کرتے ہیں یا وہ سلام کرتے ہیں۔ فرمایا میں دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کی ہدایت کرے۔ اب رہا سلام یہ اسی وقت ہو گا جب وہ ہمارے دین میں داخل ہو جائے گا۔ نصرانی نے کہا خدا آپ کی حفاظت کرے میں آپ سے کتاب خدا کے متعلق سوال کرتا ہوں جو محمد پر نازل ہوئی اور انھوں نے اس کو بیان کیا اور اس کی تعریف کی۔
فرمایا حٰم اور اس واضح اور روشن کتاب کو ہم نے مبارک رات میں نازل کیا تاکہ ہم اپنے احکام سے خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرائیں۔ اس نے کہا اس کی باطنی تفسیر کیا ہے۔ فرمایا حم سے مراد ہے محمد جیسا کہ کتاب ہود میں ہے جو ان پر نازل ہوئی تھی اس نے دو حرف م اور ح کی شروع والے کم کر دیے گئے ہیں۔ اور کتاب مبین سے مراد ہیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور رات سے مراد ہیں فاطمہ اور یہ جو خدا نے فرمایا ہے اس سے جدا کیا جائے گا ہر امرِ حکیم تو مراد ہے کہ بطن فاطمہ سے خیرِ کثیر کا ظہور یعنی مرد حکیم (امام حسن) مرد حکیم (امام حسین) مرد حکیم یعنی ہر زمانہ میں ایک امام تا ظہور قائم آل محمد پیدا ہوتا رہے گا۔ اس نے کہا ان لوگوں میں سے اول و آخر کا وصف بیان کیجیے۔ فرمایا بلحاظ صفات سب ایک دوسرے کی مثل ہیں تیسرے کا (امام حسین) اس گروہ کے وصف بیان کرتا ہوں جس کی نسل میں امامت تا قیامت باقی رہے گی۔ اگر تم نے تغیر و تحریف نہ کی اور انکار نہ کیا ہو جیسا کہ تم کرتے آئے ہو تو اس کا ذکر تم اپنی اس کتاب میں پاؤ گے جو تم پر نازل ہوئی۔ نصرانی نے کہا میں کچھ جانتا ہوں آپ سے نہیں چھپاؤں گا اور نہ آپ کی تکذیب کروں گا اور جو کچھ میں کہوں گا اس کے صدق و کذب کو آپ ہی جان جائیں گے کیونکہ اللہ نے اپنے فضل سے بڑا علم دیا اور آپ کو وہ نعمتیں دی ہیں جو لوگوں کے خیال میں نہیں آ سکتیں اور نہ چھپانے والے اس کو چھپا سکتے ہیں اور نہ جھٹلا سکتے ہیں۔ پس میرا قول اس بارے میں حق ہو گا جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا اور جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا میں جلد تم کو وہ چیز بتاؤں گا جس کو کتب آسمانی کے پڑھنے والے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اچھا بتاؤ مریم کی ماں کا نام کیا تھا؟ کس روز بطن مریم میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی اور دن کی کس ساعت میں ایسا ہوا اور مریم نے کس روز حضرت عیسیٰ کو جنا اور دن کی کونسی ساعت تھی۔
نصرانی نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ حضرت نے فرمایا مریم کی ماں کا نام مرثا تھا جس کے معنی عربی میں بخشی ہوئی کے ہیں اور جس دن عیسیٰ کا حمل قرار پایا روز جمعہ وقت زوال تھا۔ یہی وہ دن تھا کہ جبرئیل مریم کے پاس آئے تھے مسلمانوں کے لیے اس سے بڑی عید نہیں۔ اللہ نے بھی اس کو صاحب عظمت قرار دیا اور حضرت رسولِ خدا نے بھی، پس حکم دیا کہ روز جمعہ کو عید قرار دیں اور مریم کی پیدائش شنبہ کو ہوئی چار گھڑی دن چڑھنے نیم روز میں اور کیا تم اس نہر کو جانتے ہو جس کے قریب مریم نے عیسیٰ کو جنا ۔ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا وہ نہر فرات تھی جس کے قریب خرمہ اور انگور کے درخت تھے اور وہ دن کہ مریم کی زبان بات کرنے سے بند ہوئی وہی تھا کہ قیدوس (ظالم قوم یھود) نے اپنی اولاد اور اپنے پیروؤں کو پکارا اور انھوں نے اس کی مدد کی اور اولاد عمران کو ان کے گھروں سے نکالا تاکہ وہ مریم کے معاملہ میں غور کریں۔ انھوں نے مریم کے بارے میں وہی کہا جس کی حکایت اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں کی ہے (یہ تم نے کیا کیا نہ تمہارا باپ بد آدمی تھا نہ تمہاری ماں بدکار تھی)۔ پس تم نے اس دن کے واقعات کو سمجھ لیا۔ اس نے کہا ہاں میں نے انجیل میں پڑھا ہے اس دن کو نیا دن لکھا گیا ہے۔ حضرت نے فرمایا جب میرے بیان سے تصدیق ہو گئی تو اب بغیر ہدایت پائے یہاں سے نہ اٹھنا۔
نصرانی نے کہا یہ بھی بتائیے کہ میری ماں کا نام سریانی اور عربی زبان میں کیا تھا۔ فرمایا سریانی میں عنقالیہ تھا اور تیری دادی کا نام عنقورا تھا اور تیری ماں کا نام عربی میں میت ہے اور تیرے باپ کا نام عبدالمسیح ہے عربی میں عبداللہ ہے کیونکہ مسیح کا کوئی بندہ نہ تھا۔ نصرانی نے کہا آپ نے سچ فرمایا اور میرے ساتھ نیکی کی۔ اب یہ بتائیے کہ میرے دادا کا کیا نام تھا۔ فرمایا جبرئیل تھا لیکن وہ عبدالرحمٰن تھا یہ نام میں نے بھی تجویز کیا ہے اس نے کہا کیا وہ مسلمان تھا۔ حضرت نے فرمایا ہاں وہ شہید قتل کیا گیا اس پر ایک لشکر نے حملہ کر کے شہید کر دیا اور یہ لشکر اہلِ شام کا تھا اس نے کہا یہ بتائیے کہ کنیت سے پہلے میں نام کیا تھا۔ فرمایا عبدالصلیب تھا۔ اس نے کہا اب آپ نے میرا نام رکھا۔ فرمایا عبداللہ ۔ اس نے کہا خدائے عظیم پر ایمان لایا اور گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو اکیلا اور بے نیاز ہے۔ وہ ایسا نہیں جیسے نصاریٰ بیان کرتے ہیں (تین میں کا تیسرا)۔ اور نہ ایسا ہے جیسا یہودی کہتے ہیں (عزیر بن اللہ) اور نہ وہ اجناس شرک میں سے کوئی جنس ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے عبد و رسول ہیں جن کو خدا نے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ پس جو اہل تھے حق ان پر ظاہر ہو گیا اور نااہل باطل پرست بنے رہے۔ حضرت رسولِ خدا سرخ و سیاہ سب کی طرف بھیجے گئے ان کی رسالت تمام بنی نوع کے درمیان مشترک ہے۔ بس جسے صاحب بصیرت بننا تھا بن گیا اور جسے ہدایت پانی تھی پا لی۔ باطل پرست اندھے بنے رہے اور گمراہ ہو گئے ان کی وجہ سے جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کا ولی ناطق بحکمت ہے اور ان سے پہلے جو انبیاء گزر چکے انھوں نے بھی حکمت بالغہ سے کلام کیا اور اطاعتِ خدا کے بارے میں انھوں نے لوگوں کی مدد کی اور باطل اور اس کے ماننے والوں اور پلیدگی (گناہ) اور اس میں ملوث لوگوں کو انھوں نے چھوڑ دیا اور انھوں نے گمراہی کے راستہ کو ترک کیا خدا نے ان کے اطاعت گزار ہونے کی وجہ سے ان کی مدد کی اور ان کو معصیت سے بچائے رکھا۔ پس وہ اولیائے خدا ہیں اور ناصرِ دین ہیں۔ لوگوں کو خیر و برکت کی طرف رغبت دلاتے اور نیکی کا حکم دیتے تھے۔ میں نے کہا میں ان کے ہر چھوٹے بڑے پر ایمان لایا جن کا میں نے ذکر کیا ان پر بھی اور میں برکت بخشنے والے اور بلند مرتبہ والے رب العالمین پر ایمان لایا۔ پھر اس نے زنار توڑ ڈالا اور سونے کی صلیب کو نکال پھینکا۔ پھر حضرت سے کہا اب آپ مجھے حکم دیں تاکہ میں اس کے مطابق نیکی کروں۔ فرمایا تمہارا ایک بھائی ہے جو دین میں تم ہی جیسا ہے اور وہ تمہاری قوم کا آدمی ہے قبیلہ قیس بن ثعلبہ سے اور اس کو بھی اللہ نے تمہاری طرح نعمتِ اسلام دی ہے پس اس سے اظہارِ ہمدردی کرو اس کی ہمسائیگی اختیار کرو اور تم دونوں کے نفقہ کے لیے جو اسلام میں تمہارا حق ہے میں اسے پورا کروں اس نے کہا خدا آپ کی حفاظت کرے۔ میں مالدار ہوں محتاج اعانت نہیں۔ میں تین سو نجیب گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ اپنے وطن میں چھوڑ آیا ہوں آپ کا حق ان پر مجھ سے زیادہ ہے۔ آپ نے فرمایا تم اللہ اور اس کے رسول کی پناہ میں ہو اور تم اس وقت بحیثیت ابن السبیل ہمارے مہمان ہو الغرض وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان بنا۔ بنی فہر کی ایک عورت سے اس نے شادی کی اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اوقاف امیر المومنین علیہ السلام سے پچاس ہزار دینار اس کا مہر ادا کیا اور خدمت کے لیے کنیزیں دیں رہنے کو گھر دیا اور جب تک امام کو مدینہ نہ لے جایا گیا آپ کے ساتھ رہا۔ حضرت کے جانے کے بعد وہ صرف 28 روز زندہ رہا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَأَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ جَمِيعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ الْيَمَنِ مِنَ الرُّهْبَانِ وَمَعَهُ رَاهِبَةٌ فَاسْتَأْذَنَ لَهُمَا الْفَضْلُ بْنُ سَوَّارٍ فَقَالَ لَهُ إِذَا كَانَ غَداً فَأْتِ بِهِمَا عِنْدَ بِئْرِ أُمِّ خَيْرٍ قَالَ فَوَافَيْنَا مِنَ الْغَدِ فَوَجَدْنَا الْقَوْمَ قَدْ وَافَوْا فَأَمَرَ بِخَصَفَةِ بَوَارِيَّ ثُمَّ جَلَسَ وَجَلَسُوا فَبَدَأَتِ الرَّاهِبَةُ بِالْمَسَائِلِ فَسَأَلَتْ عَنْ مَسَائِلَ كَثِيرَةٍ كُلُّ ذَلِكَ يُجِيبُهَا وَسَأَلَهَا أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ أَشْيَاءَ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهَا فِيهِ شَيْءٌ ثُمَّ أَسْلَمَتْ ثُمَّ أَقْبَلَ الرَّاهِبُ يَسْأَلُهُ فَكَانَ يُجِيبُهُ فِي كُلِّ مَا يَسْأَلُهُ فَقَالَ الرَّاهِبُ قَدْ كُنْتُ قَوِيّاً عَلَى دِينِي وَمَا خَلَّفْتُ أَحَداً مِنَ النَّصَارَى فِي الارْضِ يَبْلُغُ مَبْلَغِي فِي الْعِلْمِ وَلَقَدْ سَمِعْتُ بِرَجُلٍ فِي الْهِنْدِ إِذَا شَاءَ حَجَّ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى مَنْزِلِهِ بِأَرْضِ الْهِنْدِ فَسَأَلْتُ عَنْهُ بِأَيِّ أَرْضٍ هُوَ فَقِيلَ لِي إِنَّهُ بِسُبْذَانَ وَسَأَلْتُ الَّذِي أَخْبَرَنِي فَقَالَ هُوَ عَلِمَ الاسْمَ الَّذِي ظَفِرَ بِهِ آصَفُ صَاحِبُ سُلَيْمَانَ لَمَّا أَتَى بِعَرْشِ سَبَإٍ وَهُوَ الَّذِي ذَكَرَهُ الله لَكُمْ فِي كِتَابِكُمْ وَلَنَا مَعْشَرَ الادْيَانِ فِي كُتُبِنَا فَقَالَ لَهُ أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَكَمْ لله مِنِ اسْمٍ لا يُرَدُّ فَقَالَ الرَّاهِبُ الاسْمَاءُ كَثِيرَةٌ فَأَمَّا الْمَحْتُومُ مِنْهَا الَّذِي لا يُرَدُّ سَائِلُهُ فَسَبْعَةٌ فَقَالَ لَهُ أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَخْبِرْنِي عَمَّا تَحْفَظُ مِنْهَا قَالَ الرَّاهِبُ لا وَالله الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى وَجَعَلَ عِيسَى عِبْرَةً لِلْعَالَمِينَ وَفِتْنَةً لِشُكْرِ أُولِي الالْبَابِ وَجَعَلَ مُحَمَّداً بَرَكَةً وَرَحْمَةً وَجَعَلَ عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلام) عِبْرَةً وَبَصِيرَةً وَجَعَلَ الاوْصِيَاءَ مِنْ نَسْلِهِ وَنَسْلِ مُحَمَّدٍ مَا أَدْرِي وَلَوْ دَرَيْتُ مَا احْتَجْتُ فِيهِ إِلَى كَلامِكَ وَلا جِئْتُكَ وَلا سَأَلْتُكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) عُدْ إِلَى حَدِيثِ الْهِنْدِيِّ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ سَمِعْتُ بِهَذِهِ الاسْمَاءِ وَلا أَدْرِي مَا بِطَانَتُهَا وَلا شَرَائِحُهَا وَلا أَدْرِي مَا هِيَ وَلا كَيْفَ هِيَ وَلا بِدُعَائِهَا فَانْطَلَقْتُ حَتَّى قَدِمْتُ سُبْذَانَ الْهِنْدِ فَسَأَلْتُ عَنِ الرَّجُلِ فَقِيلَ لِي إِنَّهُ بَنَى دَيْراً فِي جَبَلٍ فَصَارَ لا يَخْرُجُ وَلا يُرَى إِلا فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّتَيْنِ وَزَعَمَتِ الْهِنْدُ أَنَّ الله فَجَّرَ لَهُ عَيْناً فِي دَيْرِهِ وَزَعَمَتِ الْهِنْدُ أَنَّهُ يُزْرَعُ لَهُ مِنْ غَيْرِ زَرْعٍ يُلْقِيهِ وَيُحْرَثُ لَهُ مِنْ غَيْرِ حَرْثٍ يَعْمَلُهُ فَانْتَهَيْتُ إِلَى بَابِهِ فَأَقَمْتُ ثَلاثاً لا أَدُقُّ الْبَابَ وَلا أُعَالِجُ الْبَابَ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الرَّابِعُ فَتَحَ الله الْبَابَ وَجَاءَتْ بَقَرَةٌ عَلَيْهَا حَطَبٌ تَجُرُّ ضَرْعَهَا يَكَادُ يَخْرُجُ مَا فِي ضَرْعِهَا مِنَ اللَّبَنِ فَدَفَعَتِ الْبَابَ فَانْفَتَحَ فَتَبِعْتُهَا وَدَخَلْتُ فَوَجَدْتُ الرَّجُلَ قَائِماً يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَبْكِي وَيَنْظُرُ إِلَى الارْضِ فَيَبْكِي وَيَنْظُرُ إِلَى الْجِبَالِ فَيَبْكِي فَقُلْتُ سُبْحَانَ الله مَا أَقَلَّ ضَرْبَكَ فِي دَهْرِنَا هَذَا فَقَالَ لِي وَالله مَا أَنَا إِلا حَسَنَةٌ مِنْ حَسَنَاتِ رَجُلٍ خَلَّفْتَهُ وَرَاءَ ظَهْرِكَ فَقُلْتُ لَهُ أُخْبِرْتُ أَنَّ عِنْدَكَ اسْماً مِنْ أَسْمَاءِ الله تَبْلُغُ بِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بَيْتَ الْمَقْدِسِ وَتَرْجِعُ إِلَى بَيْتِكَ فَقَالَ لِي وَهَلْ تَعْرِفُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قُلْتُ لا أَعْرِفُ إِلا بَيْتَ الْمَقْدِسِ الَّذِي بِالشَّامِ قَالَ لَيْسَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ وَلَكِنَّهُ الْبَيْتُ الْمُقَدَّسُ وَهُوَ بَيْتُ آلِ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَقُلْتُ لَهُ أَمَّا مَا سَمِعْتُ بِهِ إِلَى يَوْمِي هَذَا فَهُوَ بَيْتُ الْمَقْدِسِ فَقَالَ لِي تِلْكَ مَحَارِيبُ الانْبِيَاءِ وَإِنَّمَا كَانَ يُقَالُ لَهَا حَظِيرَةُ الْمَحَارِيبِ حَتَّى جَاءَتِ الْفَتْرَةُ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَعِيسَى (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَقَرُبَ الْبَلاءُ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ وَحَلَّتِ النَّقِمَاتُ فِي دُورِ الشَّيَاطِينِ فَحَوَّلُوا وَبَدَّلُوا وَنَقَلُوا تِلْكَ الاسْمَاءَ وَهُوَ قَوْلُ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْبَطْنُ لآِلِ مُحَمَّدٍ وَالظَّهْرُ مَثَلٌ إِنْ هِيَ إِلا أَسْماءٌ سَمَّيْتُمُوها أَنْتُمْ وَآباؤُكُمْ ما أَنْزَلَ الله بِها مِنْ سُلْطانٍ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي قَدْ ضَرَبْتُ إِلَيْكَ مِنْ بَلَدٍ بَعِيدٍ تَعَرَّضْتُ إِلَيْكَ بِحَاراً وَغُمُوماً وَهُمُوماً وَخَوْفاً وَأَصْبَحْتُ وَأَمْسَيْتُ مُؤْيَساً أَلا أَكُونَ ظَفِرْتُ بِحَاجَتِي فَقَالَ لِي مَا أَرَى أُمَّكَ حَمَلَتْ بِكَ إِلا وَقَدْ حَضَرَهَا مَلَكٌ كَرِيمٌ وَلا أَعْلَمُ أَنَّ أَبَاكَ حِينَ أَرَادَ الْوُقُوعَ بِأُمِّكَ إِلا وَقَدِ اغْتَسَلَ وَجَاءَهَا عَلَى طُهْرٍ وَلا أَزْعُمُ إِلا أَنَّهُ قَدْ كَانَ دَرَسَ السِّفْرَ الرَّابِعَ مِنْ سَهَرِهِ ذَلِكَ فَخُتِمَ لَهُ بِخَيْرٍ ارْجِعْ مِنْ حَيْثُ جِئْتَ فَانْطَلِقْ حَتَّى تَنْزِلَ. مَدِينَةَ مُحَمَّدٍ ﷺ الَّتِي يُقَالُ لَهَا طَيْبَةُ وَقَدْ كَانَ اسْمُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَثْرِبَ ثُمَّ اعْمِدْ إِلَى مَوْضِعٍ مِنْهَا يُقَالُ لَهُ الْبَقِيعُ ثُمَّ سَلْ عَنْ دَارٍ يُقَالُ لَهَا دَارُ مَرْوَانَ فَانْزِلْهَا وَأَقِمْ ثَلاثاً ثُمَّ سَلْ عَنِ الشَّيْخِ الاسْوَدِ الَّذِي يَكُونُ عَلَى بَابِهَا يَعْمَلُ الْبَوَارِيَّ وَهِيَ فِي بِلادِهِمُ اسْمُهَا الْخَصَفُ فَالْطُفْ بِالشَّيْخِ وَقُلْ لَهُ بَعَثَنِي إِلَيْكَ نَزِيلُكَ الَّذِي كَانَ يَنْزِلُ فِي الزَّاوِيَةِ فِي الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ الْخُشَيْبَاتُ الارْبَعُ ثُمَّ سَلْهُ عَنْ فُلانِ بْنِ فُلانٍ الْفُلانِيِّ وَسَلْهُ أَيْنَ نَادِيهِ وَسَلْهُ أَيُّ سَاعَةٍ يَمُرُّ فِيهَا فَلَيُرِيكَاهُ أَوْ يَصِفُهُ لَكَ فَتَعْرِفُهُ بِالصِّفَةِ وَسَأَصِفُهُ لَكَ قُلْتُ فَإِذَا لَقِيتُهُ فَأَصْنَعُ مَا ذَا قَالَ سَلْهُ عَمَّا كَانَ وَعَمَّا هُوَ كَائِنٌ وَسَلْهُ عَنْ مَعَالِمِ دِينِ مَنْ مَضَى وَمَنْ بَقِيَ فَقَالَ لَهُ أَبُو إِبْرَاهِيمَ قَدْ نَصَحَكَ صَاحِبُكَ الَّذِي لَقِيتَ فَقَالَ الرَّاهِبُ مَا اسْمُهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ هُوَ مُتَمِّمُ بْنُ فَيْرُوزٍ وَهُوَ مِنْ أَبْنَاءِ الْفُرْسِ وَهُوَ مِمَّنْ آمَنَ بِالله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَعَبَدَهُ بِالاخْلاصِ وَالايقَانِ وَفَرَّ مِنْ قَوْمِهِ لَمَّا خَافَهُمْ فَوَهَبَ لَهُ رَبُّهُ حُكْماً وَهَدَاهُ لِسَبِيلِ الرَّشَادِ وَجَعَلَهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ وَعَرَّفَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ عِبَادِهِ الْمُخْلَصِينَ وَمَا مِنْ سَنَةٍ إِلا وَهُوَ يَزُورُ فِيهَا مَكَّةَ حَاجّاً وَيَعْتَمِرُ فِي رَأْسِ كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً وَيَجِيءُ مِنْ مَوْضِعِهِ مِنَ الْهِنْدِ إِلَى مَكَّةَ فَضْلاً مِنَ الله وَعَوْناً وَكَذَلِكَ يَجْزِي الله الشَّاكِرِينَ ثُمَّ سَأَلَهُ الرَّاهِبُ عَنْ مَسَائِلَ كَثِيرَةٍ كُلُّ ذَلِكَ يُجِيبُهُ فِيهَا وَسَأَلَ الرَّاهِبَ عَنْ أَشْيَاءَ لَمْ يَكُنْ عِنْدَ الرَّاهِبِ فِيهَا شَيْءٌ فَأَخْبَرَهُ بِهَا ثُمَّ إِنَّ الرَّاهِبَ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ ثَمَانِيَةِ أَحْرُفٍ نَزَلَتْ فَتَبَيَّنَ فِي الارْضِ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ وَبَقِيَ فِي الْهَوَاءِ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ عَلَى مَنْ نَزَلَتْ تِلْكَ الارْبَعَةُ الَّتِي فِي الْهَوَاءِ وَمَنْ يُفَسِّرُهَا قَالَ ذَاكَ قَائِمُنَا يُنْزِلُهُ الله عَلَيْهِ فَيُفَسِّرُهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ عَلَى الصِّدِّيقِينَ وَالرُّسُلِ وَالْمُهْتَدِينَ ثُمَّ قَالَ الرَّاهِبُ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الاثْنَيْنِ مِنْ تِلْكَ الارْبَعَةِ الاحْرُفِ الَّتِي فِي الارْضِ مَا هِيَ قَالَ أُخْبِرُكَ بِالارْبَعَةِ كُلِّهَا أَمَّا أَوَّلُهُنَّ فَلا إِلَهَ إِلا الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ بَاقِياً وَالثَّانِيَةُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله ﷺ مُخْلَصاً وَالثَّالِثَةُ نَحْنُ أَهْلُ الْبَيْتِ وَالرَّابِعَةُ شِيعَتُنَا مِنَّا وَنَحْنُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ وَرَسُولُ الله مِنَ الله بِسَبَبٍ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله وَأَنَّ مَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ الله حَقٌّ وَأَنَّكُمْ صَفْوَةُ الله مِنْ خَلْقِهِ وَأَنَّ شِيعَتَكُمُ الْمُطَهَّرُونَ الْمُسْتَبْدَلُونَ وَلَهُمْ عَاقِبَةُ الله وَالْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِينَ فَدَعَا أَبُو إِبْرَاهِيمَ بِجُبَّةِ خَزٍّ وَقَمِيصٍ قُوهِيٍّ وَطَيْلَسَانٍ وَخُفٍّ وَقَلَنْسُوَةٍ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا وَصَلَّى الظُّهْرَ وَقَالَ لَهُ اخْتَتِنْ فَقَالَ قَدِ اخْتَتَنْتُ فِي سَابِعِي۔
راوی کہتا ہے میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک راہب جو نجرانِ یمن کا رہنے والا تھا اور اس کے ساتھ راہبہ بھی تھی مدینہ میں آیا۔ فضیل بن یسار نے ان دونوں کے لیے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے اجازت چاہی۔ حضرت نے فرمایا کل انکو ام خیر کے کنویں کے پاس لے آنا۔ راوی کہتا ہے ہم وہاں پہنچے وہ لوگ بھی آ گئے۔ حضرت نے کہا ایک موٹا لباس اس عورت کو پہنایا جائے تاکہ یہ برہنہ بدن میرے سامنے نہ رہے۔ پس ہم سب بیٹھے راہبہ نے حضرت سے مختلف سوالات دریافت کیے۔ آپ نے ان کے جوابات دیئے اس کے بعد چند سوال حضرت نے اس سے کیے جن کے جواب وہ نہ دے سکی۔ اس کے بعد وہ مسلمان ہو گئی اس کے بعد راہب نے سوال کیے حضرت نے ہر سوال کا جواب دیا۔ راہب نے کہا میں اپنے دین پر بڑا راسخ تھا اور نصاریٰ میں کوئی میرے مبلغ علم کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں نے سنا ہندوستان میں ایک شخص ہے جب وہ بیت المقدس کے حج کا ارادہ کرتا ہے تو ایک دی یا رات میں وہاں جا کر اپنے گھر ہندوستان میں واپس آ جاتا ہے۔
میں نے (راوی) پوچھا وہ ہندوستان میں کہاں رہتا ہے اس نے کہا سندھ میں، میں نے کہا اس کے متعلق تو نے بیان کیا ہے اس کے پاس سرعتِ رفتار کے متعلق کیا چیز ہے۔ اس نے کہا وہی علم ہے جس سے آصف برخیا وزیر سلیمان شہر صبا سے بلقیس کا تخت اٹھا لائے تھے اس کا ذکر آپ کی کتاب ( قرآن )میں بھی ہے اور ہم ادیان والوں کی کتابوں میں بھی ہے۔ امام موسیٰ کاظمؑ نے پوچھا اللہ کے کتنے نام ایسے ہیں جن کے واسطے سے دعا رد نہیں ہوتی۔ راہب نے کہا وہ بہت سے ہیں لیکن وہ خاص جن سے سائل کا سوال رد نہیں ہوتا وہ سات ہیں۔ حضرت نے کہا بتاؤ کیا ہیں تمہیں ان میں سے کچھ یاد ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ قسم اس اللہ کی جس نے توریت کو موسیٰ پر نازل کیا اور عیسیٰ کو تمام عالموں کے لیے عبرت بنایا اور ارباب عقل کے شکر کے لیے ایک آزمائش قرار دیا اور محمدﷺ کو رحمت و برکت اور علیؑ کو مقامِ عبرت و بصیرت اور ان کی نسل میں اوصیاء کو قرار دیا اور میں کچھ نہیں جانتا۔ اگر جانتا ہوتا تو مجھے نہ آپ سے کلام کی ضرورت ہوتی اور نہ آپ کے پاس آتا اور نہ سوال کرتا۔ امام نے فرمایا اچھا تم اس ہندی کی بات بتاؤ۔ راہب نے کہا میں سات اسماء کے متعلق سنا تھا لیکن یہ نہیں کہ ان میں باطنی خوبی کیا ہے اور ان کی شرح کیا ہے اور نہ یہ کہ ان کی حقیقت اور کیفیت کیا ہے۔ پس میں اپنے مقام سے چلا اور سندھ پہنچا اور اس شخص کا پتہ چلایا۔ معلوم ہوا کہ پہاڑ میں اس نے ایک عبادت خانہ بنا لیا ہے اور وہ وہاں سے سال میں صرف دو بار نکلتا ہے اور ہندیوں کا گما ن یہ ہے کہ بغیر تخم ریزی اور ہل چلائے اس کے یہاں غلہ اگتا ہے۔ میں اس کے دروازے پر پہنچا اور تین روز انتظار کرتا رہا۔ نہ دق الباب کیا اور نہ کوئی جستجو کی۔ جب چوتھا دن ہوا۔ بقدرتِ خدا دروازہ کھلا کہ ایک گائے آئی اس کے لمبے لمبے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھل گیا۔ میں اس کے پیچھے چل کر داخل ہوا۔
میں نے وہاں ایک شخص کو دیکھا جو آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور روتا ہے زمین کی طرف دیکھتا ہے اور روتا ہے اور پہاڑ کی طرف دیکھتا ہے اور روتا ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ دنیا میں آپ جیسے لوگ کتنے کم ملتے ہیں۔ اس نے کہا یہ ایک نیکی ہے اس شخص کی نیکیوں میں سے جس کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ میں نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کے پاس اسماء الہیہ میں سے ایک ایسا نام ہے جس کی برکت سے آپ ایک دن میں بیت المقدس جاتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ اس نے کہا تم بیت المقدس کو جانتے ہو۔ میں نے کہا میں تو اسی بیت کو جانتا ہوں جو شام میں ہے۔ انھوں نے کہا کوئی بیت المقدس نہیں سوائے بیت آل محمد کے۔ میں نے کہا میں نے آج تک نہیں سنا کیا وہ ہے بیت المقدس۔ انھوں نے کہا بیت المقدس کہتے ہیں انبیاء کا قبلہ یا ان کی عبادت گاہیں ہیں ان کو زمانہ سابق میں خطیرۃ المحاریب کہا جاتا تھا نہ کہ بیت المقدس۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰؑ اور محمدﷺ کے درمیان فترت کا زمانہ آ گیا۔
اور اہلِ شرک کی بلا نازل ہوئی اور شیاطین کے گھروں میں جو چھپی باتیں تھیں وہ ظاہر ہو گئیں۔ انھوں نے ادل بدل شروع کر دی اور نئے نئے نام ایجاد کر لیے جیسا کہ خدا فرماتا ہے باطنی تفسیر آلِ محمد ہیں اور ظاہری الفاظ یہ ہیں یہ (لات و عزیٰ و ہبل وغیرہ) ایسے نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں۔ خدا کی طرف سے تو ان کو کوئی قوت نہیں دی گئی۔ میں نے کہا میں تو آپ کے پاس بڑی منزلیں طے کر کے دور دراز شہر سے یہاں آیا ہوں۔ بہت سی تکلیفیں اور پریشانیاں اس امید پر برداشت کی ہیں کہ میری حابت بر آئے گی۔ انھوں نے کہا میں نہیں جانتا کہ تمہاری ماں جب حاملہ ہوئی تھی تو فرشتہ آیا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ تمہارے باپ نے تمہاری ماں سے ہم بستری کے وقت غسل کیا تھا اور بحالتِ طُہر اس کے پاس گیا۔ لیکن میرا گمان ہے کہ تیرے پاپ نے اپنی بیداری والی رات کو توریت یا انجیل کی چوتھی کتاب ضرور پڑھی ہو گی اور اس کے احکام پر عمل کیا ہو گا اس لیے تیرا انجام بخیر ہو گا۔ اب تو جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا اور محمدﷺ کے مدینہ میں پہنچ جسے طیبہ کہتے ہیں اور جاہلیت میں جس کا نام یثرب تھا۔ تو وہاں اس مقام پر جانا جس کو بقیع کہتے ہیں وہاں سرائے مرداں کا پتہ لگانا اور تین دن اس میں ٹھہرنا پھر دریافت کرنا اس سیاہ فام بڈھے کو جو سرائے کے دروازے پر بوریے بنتا ہے اس کا یہ بوریہ وہاں کے شہروں میں خصف کہلاتا ہے اس بڈھے سے مہربانی کا برتاؤ کرنا اور کہنا مجھے تمہارے مہمان نے بھیجا ہے جو اس گھر کے اس گوشہ میں رہتا تھا جس میں چار لکڑیاں تھیں پھر اس نے فلاں بن فلاں (مراد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) کا پتہ پوچھنا اور دریافت کرنا ان کی نشست گاہ کہاں ہے جہاں وہ مسائل کا جواب دیتے ہیں اور پوچھنا وہ کس وقت آتے ہیں یا وہ خود دکھائے گا یا وصف بیان کر کے تعارف کرائے گا۔ اس نے کہا جب میں ان سے ملوں تو کیا کروں۔ پھر پوچھ لینا جو کچھ ہو چکا یا جو کچھ ہونے والا ہے۔ اور سوال کرنا دین کے ان نشانات سے جو ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں۔ حضرت نے فرمایا جس سے تم ملے تھے اس نے تم کو اچھی نصیحت کی۔ راہب نے کہا اس کا نام کیا ہے۔ فرمایا متمم ابن فیروزہ، وہ نسلاً فارسی ہے ان لوگوں میں ہے جو خدائے واحدہ لا شریک پر ایمان لائے اور خلوص و یقین کے ساتھ اس کی عبادت کی اور اپنی قوم کے خوف سے بھاگے۔ خداوند عالم نے انہیں روحانی حکومت عطا فرمائی اور صراط مستقیم کی ہدایت کی اور متقیوں میں قرار دیا اور اس کے اور اپنے مخلص بندوں کے درمیان تعارف کرایا وہ ہر سال مکہ میں حج کرنے آتا ہے اور ہر مہینے کے شروع میں عمرہ بجا لاتا ہے۔ اور اپنی ہندوستانی رہائش گاہ سے مکہ آتا ہے یہ خدا کی طرف سے فضل و مدد ہے اور اللہ شکر کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتا ہے پھر راہب نے بہت سے سوال کیے جن کے حضرت نے جوابات دیئے ۔ پھر راہب نے کہا مجھے وہ آٹھ حروف بتائیے جو نازل ہوئے ان میں سے چار تو زمین پر رہے اور باقی ہوا میں اور زمین والوں اور ہوا والوں کا مصداق وہی ہو گا جو ان کی تفسیر بیان کرے۔ فرمایا وہ ہمارا قائم ہو گا خدا اس پر وہ کلام نازل کرے گا جس کی وہ تفسیر بیان کرے گا جو چیز اس پر بطور کلام نازل ہو گی وہ نہ صدیقوں پر نازل ہوئی ہو گی نہ رسولوں پر اور نہ ہدایت یافتہ لوگوں پر۔
راہب نے کہا ان چار باتوں میں سے دو مجھے بتا دیجیے جو زمین پر ہیں وہ کیا ہیں۔ فرمایا میں تجھے چاروں بتائے دیتا ہوں، اول کلمہ لا الہ الا اللہ لا شریک لہ ہے اور اس کی ذات باقی رہنے والی ہے۔ دوسرا کلمہ رسول اللہ کہنا ہے خلوص قلب سے اور تیسرے ہم اہلبیت ہیں اور چوتھے ہمارے شیعہ ہیں اور ہم رسول اللہ سے ہیں اور رسول اللہ ایک سبب کے ساتھ اللہ سے ہیں۔راہب نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ کے ہیں اور جو کچھ خدا کی طرف سے لائے حق ہے اور آپ لوگ مخلوقِ الہٰی کے خلاصہ ہیں اور آپ کے شیعہ پاک ہیں ذاتِ باری میں شک کرنے سے اور نااہل لوگوں نے انکو ذلیل سمجھ رکھا ہے اور ان کے لیے انجام بخیر ہے اور رب العالمین کے لیے حمد ہے امام علیہ السلام نے اس کے لیے ایک ریشمی جبہ منگایا اور قوہی قمیض اور موزے اور ٹوپی اس کو عطا فرمایا اور اس نے ظہر کی نماز پڑھی حضرت نے اس سے فرمایا تم ختنہ بھی کرا لو۔ اس نے کہا وہ تو میری پیدائش کے ساتویں دن ہی ہو گئی تھی۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ مَرَّ الْعَبْدُ الصَّالِحُ بِامْرَأَةٍ بِمِنًى وَهِيَ تَبْكِي وَصِبْيَانُهَا حَوْلَهَا يَبْكُونَ وَقَدْ مَاتَتْ لَهَا بَقَرَةٌ فَدَنَا مِنْهَا ثُمَّ قَالَ لَهَا مَا يُبْكِيكِ يَا أَمَةَ الله قَالَتْ يَا عَبْدَ الله إِنَّ لَنَا صِبْيَاناً يَتَامَى وَكَانَتْ لِي بَقَرَةٌ مَعِيشَتِي وَمَعِيشَةُ صِبْيَانِي كَانَ مِنْهَا وَقَدْ مَاتَتْ وَبَقِيتُ مُنْقَطَعاً بِي وَبِوُلْدِي لا حِيلَةَ لَنَا فَقَالَ يَا أَمَةَ الله هَلْ لَكِ أَنْ أُحْيِيَهَا لَكِ فَأُلْهِمَتْ أَنْ قَالَتْ نَعَمْ يَا عَبْدَ الله فَتَنَحَّى وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ هُنَيْئَةً وَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ ثُمَّ قَامَ فَصَوَّتَ بِالْبَقَرَةِ فَنَخَسَهَا نَخْسَةً أَوْ ضَرَبَهَا بِرِجْلِهِ فَاسْتَوَتْ عَلَى الارْضِ قَائِمَةً فَلَمَّا نَظَرْتِ الْمَرْأَةُ إِلَى الْبَقَرَةِ صَاحَتْ وَقَالَتْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَخَالَطَ النَّاسَ وَصَارَ بَيْنَهُمْ وَمَضَى (عَلَيْهِ السَّلام )
عبداللہ بن مغیرہ سے روایت ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام منیٰ میں ایک عورت کی طرف سے ہو کر گزرے جو رو رہی تھی اور اس کے گرد بچے رو رہے تھے۔ اس کی گائے مر گئی تھی۔ حضرت اس کے پاس آئے اور فرمایا تو کیوں روتی ہے۔ اس نے کہا اے بندہ خدا میرے یتیم بچے ہیں اور صرف یہی گائے میری اور ان کی معاش کا ذریعہ تھی وہ مر گئی اور اب کوئی ذریعہ میری معاش کا باقی نہ رہا۔ حضرت نے کہا تو چاہتی ہے کہ میں اسے زندہ کر دوں۔ اس نے بالہام ربانی کہا بے شک میں چاہتی ہوں۔ حضرت ایک گوشہ میں گئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور گائے کو آواز دی اور ایک ٹھوکر ماری اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جب عورت نے اپنی گائے کو دیکھا تو چیخ پڑی رب کعبہ کی قسم یہ عیسیٰ بن مریم ہیں لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ حضرت ان کے درمیان تھے پھر آپ چلے آئے۔
أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ رَحِمَهُ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ يَنْعَى إِلَى رَجُلٍ نَفْسَهُ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي وَإِنَّهُ لَيَعْلَمُ مَتَى يَمُوتُ الرَّجُلُ مِنْ شِيعَتِهِ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ فَقَالَ يَا إِسْحَاقُ قَدْ كَانَ رُشَيْدٌ الْهَجَرِيُّ يَعْلَمُ عِلْمَ الْمَنَايَا وَالْبَلايَا وَالامَامُ أَوْلَى بِعِلْمِ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ يَا إِسْحَاقُ اصْنَعْ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فَإِنَّ عُمُرَكَ قَدْ فَنِيَ وَإِنَّكَ تَمُوتُ إِلَى سَنَتَيْنِ وَإِخْوَتَكَ وَأَهْلَ بَيْتِكَ لا يَلْبَثُونَ بَعْدَكَ إِلا يَسِيراً حَتَّى تَتَفَرَّقَ كَلِمَتُهُمْ وَيَخُونُ بَعْضُهُمْ بَعْضاً حَتَّى يَشْمَتَ بِهِمْ عَدُوُّهُمْ فَكَانَ هَذَا فِي نَفْسِكَ فَقُلْتُ فَإِنِّي أَسْتَغْفِرُ الله بِمَا عَرَضَ فِي صَدْرِي فَلَمْ يَلْبَثْ إِسْحَاقُ بَعْدَ هَذَا الْمَجْلِسِ إِلا يَسِيراً حَتَّى مَاتَ فَمَا أَتَى عَلَيْهِمْ إِلا قَلِيلٌ حَتَّى قَامَ بَنُو عَمَّارٍ بِأَمْوَالِ النَّاسِ فَأَفْلَسُوا۔
اسحاق بن عمار نے کہا کہ میں نے سنا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ایک شخص کو اس کے مرنے کی خبر دی۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کو یہ بھی علم ہے کہ ان کا شیعہ کب مرے گا۔ حضرت غصے کی صورت میں میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے اسحاق رشید ہجری موتوں اور بلاؤں کا علم رکھتے تھے اور امام تو ان سے بہتر ہے اے اسحاق جو تمہیں کرنا ہے کر لو تم دو برس کے اندر مر جاؤ گے اور تمہارے بھائی اور خاندان والے تمہارے مرنے سے چند روز بعد ہی علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے اور بعض بعض کو خائن قرار دے گا یہاں تک کہ دشمن ان کی شماتت کریں گے۔ یہ بات تمہارے دل میں رہے۔ میں نے کہا میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اس بات سے جو میرے دل میں آئی، کچھ مدت ہی گزری تھی کہ اسحاق مر گیا اور بنو عمار اس کی دولت کے دعوے دار بن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اہلکاروں کو رشوت دی کہ مفلس ہو گئے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُوسَى بْنِ الْقَاسِمِ الْبَجَلِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ جَاءَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَقَدِ اعْتَمَرْنَا عُمْرَةَ رَجَبٍ وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ فَقَالَ يَا عَمِّ إِنِّي أُرِيدُ بَغْدَادَ وَقَدْ أَحْبَبْتُ أَنْ أُوَدِّعَ عَمِّي أَبَا الْحَسَنِ يَعْنِي مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ (عَلَيْهما السَّلام) وَأَحْبَبْتُ أَنْ تَذْهَبَ مَعِي إِلَيْهِ فَخَرَجْتُ مَعَهُ نَحْوَ أَخِي وَهُوَ فِي دَارِهِ الَّتِي بِالْحَوْبَةِ وَذَلِكَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ بِقَلِيلٍ فَضَرَبْتُ الْبَابَ فَأَجَابَنِي أَخِي فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقُلْتُ عَلِيٌّ فَقَالَ هُوَ ذَا أَخْرُجُ وَكَانَ بَطِيءَ الْوُضُوءِ فَقُلْتُ الْعَجَلَ قَالَ وَأَعْجَلُ فَخَرَجَ وَعَلَيْهِ إِزَارٌ مُمَشَّقٌ قَدْ عَقَدَهُ فِي عُنُقِهِ حَتَّى قَعَدَ تَحْتَ عَتَبَةِ الْبَابِ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ فَانْكَبَبْتُ عَلَيْهِ فَقَبَّلْتُ رَأْسَهُ وَقُلْتُ قَدْ جِئْتُكَ فِي أَمْرٍ إِنْ تَرَهُ صَوَاباً فَالله وَفَّقَ لَهُ وَإِنْ يَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ فَمَا أَكْثَرَ مَا نُخْطِىُ قَالَ وَمَا هُوَ قُلْتُ هَذَا ابْنُ أَخِيكَ يُرِيدُ أَنْ يُوَدِّعَكَ وَيَخْرُجَ إِلَى بَغْدَادَ فَقَالَ لِيَ ادْعُهُ فَدَعَوْتُهُ وَكَانَ مُتَنَحِّياً فَدَنَا مِنْهُ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ وَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَوْصِنِي فَقَالَ أُوصِيكَ أَنْ تَتَّقِيَ الله فِي دَمِي فَقَالَ مُجِيباً لَهُ مَنْ أَرَادَكَ بِسُوءٍ فَعَلَ الله بِهِ وَجَعَلَ يَدْعُو عَلَى مَنْ يُرِيدُهُ بِسُوءٍ ثُمَّ عَادَ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ فَقَالَ يَا عَمِّ أَوْصِنِي فَقَالَ أُوصِيكَ أَنْ تَتَّقِيَ الله فِي دَمِي فَقَالَ مَنْ أَرَادَكَ بِسُوءٍ فَعَلَ الله بِهِ وَفَعَلَ ثُمَّ عَادَ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ يَا عَمِّ أَوْصِنِي فَقَالَ أُوصِيكَ أَنْ تَتَّقِيَ الله فِي دَمِي فَدَعَا عَلَى مَنْ أَرَادَهُ بِسُوءٍ ثُمَّ تَنَحَّى عَنْهُ وَمَضَيْتُ مَعَهُ فَقَالَ لِي أَخِي يَا عَلِيُّ مَكَانَكَ فَقُمْتُ مَكَانِي فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ ثُمَّ دَعَانِي فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ فَتَنَاوَلَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ فَأَعْطَانِيهَا وَقَالَ قُلْ لابْنِ أَخِيكَ يَسْتَعِينُ بِهَا عَلَى سَفَرِهِ قَالَ عَلِيٌّ فَأَخَذْتُهَا فَأَدْرَجْتُهَا فِي حَاشِيَةِ رِدَائِي ثُمَّ نَاوَلَنِي مِائَةً أُخْرَى وَقَالَ أَعْطِهِ أَيْضاً ثُمَّ نَاوَلَنِي صُرَّةً أُخْرَى وَقَالَ أَعْطِهِ أَيْضاً فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِذَا كُنْتَ تَخَافُ مِنْهُ مِثْلَ الَّذِي ذَكَرْتَ فَلِمَ تُعِينُهُ عَلَى نَفْسِكَ فَقَالَ إِذَا وَصَلْتُهُ وَقَطَعَنِي قَطَعَ الله أَجَلَهُ ثُمَّ تَنَاوَلَ مِخَدَّةَ أَدَمٍ فِيهَا ثَلاثَةُ آلافِ دِرْهَمٍ وَضَحٍ وَقَالَ أَعْطِهِ هَذِهِ أَيْضاً قَالَ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَأَعْطَيْتُهُ الْمِائَةَ الاولَى فَفَرِحَ بِهَا فَرَحاً شَدِيداً وَدَعَا لِعَمِّهِ ثُمَّ أَعْطَيْتُهُ الثَّانِيَةَ وَالثَّالِثَةَ فَفَرِحَ بِهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيَرْجِعُ وَلا يَخْرُجُ ثُمَّ أَعْطَيْتُهُ الثَّلاثَةَ آلافِ دِرْهَمٍ فَمَضَى عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى دَخَلَ عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ بِالْخِلافَةِ وَقَالَ مَا ظَنَنْتُ أَنَّ فِي الارْضِ خَلِيفَتَيْنِ حَتَّى رَأَيْتُ عَمِّي مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ يُسَلَّمُ عَلَيْهِ بِالْخِلافَةِ فَأَرْسَلَ هَارُونُ إِلَيْهِ بِمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَرَمَاهُ الله بِالذُّبَحَةِ فَمَا نَظَرَ مِنْهَا إِلَى دِرْهَمٍ وَلا مَسَّهُ۔
علی بن جعفر کہتے ہیں کہ محمد بن اسمٰعیل میرے پاس آئے ہم نے عمرہ رجب ادا کیا اور ہم ابھی مکہ ہی میں تھے کہ محمد نے کہا چچا میں بغداد جانا چاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ اپنے چچا ابو الحسن یعنی موسیٰ بن جعفر سے رخصت ہو لوں میری درخواست ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں میں ان کے ساتھ اپنے بھائی کے مکان میں پہنچا جو حوبہ میں تھا یہ مغرب سے کچھ پہلے تھا۔ میں نے دق الباب کیا۔ میرے بھائی نے پوچھا کون ہے۔ میں نے کہا علی ہوں۔ فرمایا میں ابھی آتا ہوں۔ چونکہ وضو دیر میں کرتے تھے اس لیے میں نے کہا ذرا جلدی کیجئیے آپ اس طرح تشریف لائے کہ گلِ ارمنی سے رنگی ہوئی ازار بند گلے میں پڑا ہوا تھا آپ دروازہ کی دہلیز پر بیٹھ گئے۔ علی ابن جعففر نے جھک کر بوسہ دیا اور کہا میں ایک ایسے امر کے لیے آیا ہوں کہ آپ اس کو درست کریں تو اکثر ہم سے خطا ہوتی ہی ہے حضرت نے فرمایا وہ کیا ہے۔ میں نے کہا یہ آپ کے بھتیجے آپ سے رخصت ہونے آئے ہیں بغداد جا رہے ہیں۔ فرمایا ان کو بلاؤ ، میں نے بلا لیا وہ ایک گوشہ میں تھے۔ جب وہ آئے تو حضرت کے سر پر بوسہ دیا اور کہا میں آپ پر فدا ہوں مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ فرمایا میری نصیحت یہی ہے کہ مجھے قتل کرانے کے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔ اس نے کہا جو آپ کے ساتھ بدی کا ارادہ کرے خدا اس پر عذاب نازل کرے اورر اس کے لیے بدعا کی۔ پھر حضرت کے سر پر بوسہ دے کر کہا اے چچا مجھے نصیحت کیجئیے۔ فرمایا میرے خون کے بارے میں خدا سے ڈرنا۔ اس نے کہا جو آپ سے بدی کرے خدا کا اس پر عذاب ہو پھر حضرت کے سر کو بوسہ دے کر کہا اے چچا مجھے نصیحت کیجئیے آپ نے پھر وہی فرمایا جب الگ ہوئے میں ان کے ساتھ چلا۔ حضرت نے فرمایا علی بھائی آپ رک جائیے۔ میں رک گیا حضرت گھر کے اندر گئے اور مجھے بلا کر سو دینار کی ایک تھیلی دے کر فرمایا۔ اپنے بھتیجے سے کہئیے کہ اس رقم سے اپنے سفر میں مدد حاصل کرے۔
علی نے کہا میں نے یہ رقم چادر کے ایک گوشہ میں باندھ لی۔ پھر آپ نے سو دینار اور دیئے اور فرمایا یہ بھی اسے دے دو۔ میں نے کہا جب آپ کو اس سے خوف ہے جیسا کہ آپ نے بیان کیا تو پھر آپ اس کی مدد کیوں کر رہے ہیں۔ فرمایا جب میں صلہ رحم کروں گا تو وہ قطع رحم کرے گا تو خدا اس کی عمر کو کم کر دے گا پھر آپ نے چمڑے کا ایک تکیہ اٹھایا جس میں کھرے تین ہزار درہم تھے۔ فرمایا یہ بھی اسے دے دو۔ میں یہ سب رقم لے کر باہر نکلا اور ان میں سے پہلی رقم اس کو دی وہ بہت خوش ہوا اور حضرت کو دعائیں دینے لگا۔ پھر میں نے باقی رقمیں دیں جن سے وہ اتنا خوش ہوا کہ میں سمجھا کہ اب وہ بغداد نہ جائے گا لیکن وہ چلا گیا۔ اور جب ہارون کے سامنےگیا تو اس کو خلیفہ رسول اللہ کہہ کر سلام کیا اور کہا کہ میرے خیال میں روئے زمین پر دو خلیفہ تو نہیں ہونے چاہیں۔ میں نے اپنے چچا موسیٰ بن جعفر کو دیکھا کہ لوگ خلیفہ رسول کہہ کر سلام کرتے ہیں۔ ہارون نے ایک لاکھ درہم اس کے پاس بھیجے لیکن وہ مرض خناق میں ایسا مبتلا ہوا کہ نہ دیکھ سکا نہ چھو سکا۔
سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله وَعَبْدُ الله بْنُ جَعْفَرٍ جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُبِضَ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعٍ وَخَمْسِينَ سَنَةً فِي عَامِ ثَلاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَةٍ وَعَاشَ بَعْدَ جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) خَمْساً وَثَلاثِينَ سَنَةً۔
ابی بصیر راوی ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی عمر بوقت شہادت 54 سال تھی اور اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد 35 سال زندہ رہے۔