مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

مولد امام رضا علیہ السلام

(3-121)

حدیث نمبر 0

وُلِدَ أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) سَنَةَ ثَمَانٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَقُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي صَفَرٍ مِنْ سَنَةِ ثَلاثٍ وَمِائَتَيْنِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ سَنَةً وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي تَارِيخِهِ إِلا أَنَّ هَذَا التَّارِيخَ هُوَ أَقْصَدُ إِنْ شَاءَ الله وَتُوُفِّيَ (عَلَيْهِ السَّلام) بِطُوسَ فِي قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا سَنَابَادُ مِنْ نُوقَانَ عَلَى دَعْوَةٍ وَدُفِنَ بِهَا وَكَانَ الْمَأْمُونُ أَشْخَصَهُ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَرْوَ عَلَى طَرِيقِ الْبَصْرَةِ وَفَارِسَ فَلَمَّا خَرَجَ الْمَأْمُونُ وَشَخَصَ إِلَى بَغْدَادَ أَشْخَصَهُ مَعَهُ فَتُوُفِّيَ فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَأُمُّهُ أُمُّ وَلَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ الْبَنِينَ۔

امام رضا علیہ السلام 148 ہجری میں پیدا ہوئے اور 203 ہجری میں وفات پائی جب کہ آپ کی عمر 55 سال تھی۔ آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے مگر صحیح یہی ہے حضرت امام علیہ السلام کی وفات طوس کے قریہ سناباد میں ہوئی جو نوقان سے قریب ہے مامون نے آپ کو مدینہ سے مرو میں بلایا اور مرو، بصرہ اور ایران کے راستہ میں ہے۔ جب مامون مرو سے بغداد چلا تو حضرت کو اپنے ساتھ لیا جب آپ قریہ سناباد میں پہنچے تو رحلت فرمائی۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا۔

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ أَحْمَرَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ الاوَّلُ هَلْ عَلِمْتَ أَحَداً مِنْ أَهْلِ الْمَغْرِبِ قَدِمَ قُلْتُ لا قَالَ بَلَى قَدْ قَدِمَ رَجُلٌ فَانْطَلِقْ بِنَا فَرَكِبَ وَرَكِبْتُ مَعَهُ حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّجُلِ فَإِذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَعَهُ رَقِيقٌ فَقُلْتُ لَهُ اعْرِضْ عَلَيْنَا فَعَرَضَ عَلَيْنَا سَبْعَ جَوَارٍ كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) لا حَاجَةَ لِي فِيهَا ثُمَّ قَالَ اعْرِضْ عَلَيْنَا فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلا جَارِيَةٌ مَرِيضَةٌ فَقَالَ لَهُ مَا عَلَيْكَ أَنْ تَعْرِضَهَا فَأَبَى عَلَيْهِ فَانْصَرَفَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي مِنَ الْغَدِ فَقَالَ قُلْ لَهُ كَمْ كَانَ غَايَتُكَ فِيهَا فَإِذَا قَالَ كَذَا وَكَذَا فَقُلْ قَدْ أَخَذْتُهَا فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ مَا كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَنْقُصَهَا مِنْ كَذَا وَكَذَا فَقُلْتُ قَدْ أَخَذْتُهَا فَقَالَ هِيَ لَكَ وَلَكِنْ أَخْبِرْنِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ مَعَكَ بِالامْسِ فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَالَ مِنْ أَيِّ بَنِي هَاشِمٍ فَقُلْتُ مَا عِنْدِي أَكْثَرُ مِنْ هَذَا فَقَالَ أُخْبِرُكَ عَنْ هَذِهِ الْوَصِيفَةِ إِنِّي اشْتَرَيْتُهَا مِنْ أَقْصَى الْمَغْرِبِ فَلَقِيَتْنِي امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقَالَتْ مَا هَذِهِ الْوَصِيفَةُ مَعَكَ قُلْتُ اشْتَرَيْتُهَا لِنَفْسِي فَقَالَتْ مَا يَكُونُ يَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ هَذِهِ عِنْدَ مِثْلِكَ إِنَّ هَذِهِ الْجَارِيَةَ يَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ عِنْدَ خَيْرِ أَهْلِ الارْضِ فَلا تَلْبَثُ عِنْدَهُ إِلا قَلِيلاً حَتَّى تَلِدَ مِنْهُ غُلاماً مَا يُولَدُ بِشَرْقِ الارْضِ وَلا غَرْبِهَا مِثْلُهُ قَالَ فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَلَمْ تَلْبَثْ عِنْدَهُ إِلا قَلِيلاً حَتَّى وَلَدَتِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام )

راوی کہتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ مغرب کا کوئی بردہ فروش آیا ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا آیا ہے میرے ساتھ اس کے پاس چلو۔ پس حضرت اور میں سوار ہو کر چلے ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو اہل مدینہ میں سے تھا اور ایک اور شخص اس کے ساتھ تھا۔ میں نے کہا جو کنیزیں تمہارے پاس ہیں ہمیں دکھاؤ اس نے سات کنیزیں دکھائیں۔ حضرت نے فرمایا ان میں سے کسی کی ہمیں ضرورت نہیں، اور دکھاؤ۔ اس نے کہا ان کے علاوہ ایک بیمار کنیز ہے۔ اس نے کہا اسے کیوں نہیں دکھاتے۔ اس نے انکار کیا اور روگردانی کی۔ حضرت نے مجھے دوسرے روز پھر بھیجا اور فرمایا اس سے کہنا یہ تو بتا اس کی قیمت کیا ہے، وہ قیمت بتائے گا۔ تم کہنا ہم نے خرید لی۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس نے قیمت بتا کر کہا میں اس سے کم میں نہ دوں گا۔ میں نے اس سے کہا میں نے لے لی۔ اس نے کہا یہ تمہاری ہو گئی۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ جو شخص کل تمہارے ساتھ آئے تھے وہ کون تھے۔ میں نے کہا بنی ہاشم میں سے ہیں۔ اس نے کہا بنی ہاشم کی کس شاخ سے۔ میں نے کہا میں اس سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا میں اس کنیز کے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کو مغربِ اقصیٰ سے خریدا ہے۔ ایک عورت اہلِ کتاب سے مجھے ملی اس نے کہا تیرے ساتھ یہ کنیز کیسی ہے۔ میں نے کہا میں نے اس کو اپنے لیے خریدا۔ اس نے کہا تو اس کے رکھنے کا اہل نہیں۔ یہ دنیا کے بہترین انسان کے لیے ہے۔ اس سے ایسا لڑکا پیدا ہو گا جس کا مثل نہ مشرق میں ہو گا نہ مغرب میں۔ غرض میں لے آیا۔ تھوڑی مدت گزری تھی کہ ان کے بطن سے امام رضا علیہ السلام پیدا ہوئے۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى قَالَ لَمَّا مَضَى أَبُو إِبْرَاهِيمَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَتَكَلَّمَ أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) خِفْنَا عَلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ فَقِيلَ لَهُ إِنَّكَ قَدْ أَظْهَرْتَ أَمْراً عَظِيماً وَإِنَّا نَخَافُ عَلَيْكَ هَذِهِ الطَّاغِيَةَ قَالَ فَقَالَ لِيَجْهَدْ جَهْدَهُ فَلا سَبِيلَ لَهُ عَلَيَّ۔

صفوان بن یحیٰ نے بیان کیا کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے انتقال کیا تو امام رضا علیہ السلام نے اپنی امامت کا تذکرہ کیا۔ حضرت سے کہا گیا کہ آپ نے ایک ایسے امرِ عظیم کو ظاہر کیا ہے جس کی بناء پر ہم اس سرکش (ہارون) سے ڈرتے ہیں۔ فرمایا وہ کتنی ہی کوشش کرے میرے اوپر قابو نہ پا سکے گا۔

حدیث نمبر 3

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ رَحِمَهُ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ أَخِيهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) فِي بَيْتٍ دَاخِلٍ فِي جَوْفِ بَيْتٍ لَيْلاً فَرَفَعَ يَدَهُ فَكَانَتْ كَأَنَّ فِي الْبَيْتِ عَشَرَةَ مَصَابِيحَ وَاسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَخَلَّى يَدَهُ ثُمَّ أَذِنَ لَهُ۔

راوی کہتا ہے کہ میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کے گھر کے اندر جو دوسرا گھر تھا اس میں تشریف فرما تھے۔ رات کی تاریکی تھی آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو ایسی روشنی ہو گئی گویا دس چراغ جل رہے ہیں۔ ایک شخص نے اذنِ بازیابی چاہا۔ تب آپ نے چراغ روشن کیا اور اس کو اجازت دی۔

حدیث نمبر4

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُمْهُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الله عَنِ الْغِفَارِيِّ قَالَ كَانَ لِرَجُلٍ مِنْ آلِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) يُقَالُ لَهُ طَيْسٌ عَلَيَّ حَقٌّ فَتَقَاضَانِي وَأَلَحَّ عَلَيَّ وَأَعَانَهُ النَّاسُ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ صَلَّيْتُ الصُّبْحَ فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثُمَّ تَوَجَّهْتُ نَحْوَ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) وَهُوَ يَوْمَئِذٍ بِالْعُرَيْضِ فَلَمَّا قَرُبْتُ مِنْ بَابِهِ إِذَا هُوَ قَدْ طَلَعَ عَلَى حِمَارٍ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ وَرِدَاءٌ فَلَمَّا نَظَرْتُ إِلَيْهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ فَلَمَّا لَحِقَنِي وَقَفَ وَنَظَرَ إِلَيَّ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَكَانَ شَهْرُ رَمَضَانَ فَقُلْتُ جَعَلَنِيَ الله فِدَاكَ إِنَّ لِمَوْلاكَ طَيْسٍ عَلَيَّ حَقّاً وَقَدْ وَالله شَهَرَنِي وَأَنَا أَظُنُّ فِي نَفْسِي أَنَّهُ يَأْمُرُهُ بِالْكَفِّ عَنِّي وَوَ الله مَا قُلْتُ لَهُ كَمْ لَهُ عَلَيَّ وَلا سَمَّيْتُ لَهُ شَيْئاً فَأَمَرَنِي بِالْجُلُوسِ إِلَى رُجُوعِهِ فَلَمْ أَزَلْ حَتَّى صَلَّيْتُ الْمَغْرِبَ وَأَنَا صَائِمٌ فَضَاقَ صَدْرِي وَأَرَدْتُ أَنْ أَنْصَرِفَ فَإِذَا هُوَ قَدْ طَلَعَ عَلَيَّ وَحَوْلَهُ النَّاسُ وَقَدْ قَعَدَ لَهُ السُّؤَّالُ وَهُوَ يَتَصَدَّقُ عَلَيْهِمْ فَمَضَى وَدَخَلَ بَيْتَهُ ثُمَّ خَرَجَ وَدَعَانِي فَقُمْتُ إِلَيْهِ وَدَخَلْتُ مَعَهُ فَجَلَسَ وَجَلَسْتُ فَجَعَلْتُ أُحَدِّثُهُ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ وَكَانَ أَمِيرَ الْمَدِينَةِ وَكَانَ كَثِيراً مَا أُحَدِّثُهُ عَنْهُ فَلَمَّا فَرَغْتُ قَالَ لا أَظُنُّكَ أَفْطَرْتَ بَعْدُ فَقُلْتُ لا فَدَعَا لِي بِطَعَامٍ فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيَّ وَأَمَرَ الْغُلامَ أَنْ يَأْكُلَ مَعِي فَأَصَبْتُ وَالْغُلامَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمَّا فَرَغْنَا قَالَ لِيَ ارْفَعِ الْوِسَادَةَ وَخُذْ مَا تَحْتَهَا فَرَفَعْتُهَا وَإِذَا دَنَانِيرُ فَأَخَذْتُهَا وَوَضَعْتُهَا فِي كُمِّي وَأَمَرَ أَرْبَعَةً مِنْ عَبِيدِهِ أَنْ يَكُونُوا مَعِي حَتَّى يُبْلِغُونِي مَنْزِلِي فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ طَائِفَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَدُورُ وَأَكْرَهُ أَنْ يَلْقَانِي وَمَعِي عَبِيدُكَ فَقَالَ لِي أَصَبْتَ أَصَابَ الله بِكَ الرَّشَادَ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَنْصَرِفُوا إِذَا رَدَدْتُهُمْ فَلَمَّا قَرُبْتُ مِنْ مَنْزِلِي وَآنَسْتُ رَدَدْتُهُمْ فَصِرْتُ إِلَى مَنْزِلِي وَدَعَوْتُ بِالسِّرَاجِ وَنَظَرْتُ إِلَى الدَّنَانِيرِ وَإِذَا هِيَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ دِينَاراً وَكَانَ حَقُّ الرَّجُلِ عَلَيَّ ثَمَانِيَةً وَعِشْرِينَ دِينَاراً وَكَانَ فِيهَا دِينَارٌ يَلُوحُ فَأَعْجَبَنِي حُسْنُهُ فَأَخَذْتُهُ وَقَرَّبْتُهُ مِنَ السِّرَاجِ فَإِذَا عَلَيْهِ نَقْشٌ وَاضِحٌ حَقُّ الرَّجُلِ ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ دِينَاراً وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ وَلا وَالله مَا عَرَفْتُ مَا لَهُ عَلَيَّ وَالْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِينَ الَّذِي أَعَزَّ وَلِيَّهُ۔

راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے غلام ابو رافع کی اولاد میں سے ایک شخص تھا طیس نامے اس کا میرے اوپر قرض تھا اس نے تقاضہ کیا اور مجھ پر سختی کی۔ بہت سے لوگ اس کے طرفدار ہو کر مجھے ملامت کرنے لگے۔ جب میں نے یہ صورت دیکھی تو نماز صبح مسجد رسول میں پڑھ کر امام رضا علیہ السلام سے ملنے چلا۔ حضرت اس روز عریض تشریف لے گئے تھے۔ جب میں دروازہ کے نزدیک پہنچا تو میں نے دیکھا حضرت ایک گدھے پر تشریف لا رہے ہیں۔ جسم پر ایک قمیض ہے اور ردا۔ جب میں نے حضرت کو دیکھا تو عرضِ حال کرتے شرم آئی۔ حضرت میرے قریب آ کر ٹھہر گئے۔ میں نے سلام کیا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے کہا آپ کے غلام طیس کا میرے اوپر قرضہ ہے اس نے مجھے رسوا کیا ہے۔ میں گمان کرتا ہوں کہ آپ اسے روکیں گے۔ میں نے انہیں نہ بتایا کہ قرضہ کتنا ہے اور کچھ نہ کہا۔ مجھے حکم دیا کہ ان کے آنے تک یہاں بیٹھا رہوں۔ میں انتظار میں مغرب تک بیٹھا رہا۔ حالانکہ میں روزے سے تھا۔ میرا سینہ تنگ ہو رہا تھا ارادہ تھا کہ اٹھ کر چلدوں۔ ناگاہ حضرت کو آتے دیکھا اور آپ کے گرد کچھ لوگ تھے۔
اور وہ لوگ حضرت سے سوال کر رہے تھے اور آپ صدقات دے رہے تھے۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت گھر میں گئے اور پھر برآمد ہوئے۔ مجھے بلایا میں آپ کے ساتھ اندر گیا۔ میں بھی بیٹھا اور حضرت بھی بیٹھے۔ میں حاکم مدینہ ابن مسیب کے متعلق بات چیت کرنےگا۔ میں اکثر اس کے متعلق گفتگو کیا کرتا تھا۔ جب گفتگو ختم ہوئی تو حضرت نے فرمایا میرا گمان ہے کہ تم نے افطار نہیں کیا۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے کھانا منگایا اور جب میرے سامنے رکھا تو ایک غلام کو حکم دیا میرے ساتھ کھانے کا۔ جب ہم دونون کھا چکے تو فرمایا اس تکیہ کو اٹھاؤ اور جو اس کے نیچے ہے اس لے لو۔ میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے دینار تھے۔ میں نے اسے اٹھا کر اپنی آستینون میں رکھ لیے۔ حضرت نے چار غلاموں کو حکم دیا کہ میرے گھر تک مجھے پہنچا دیں۔ میں نے کہا ابن مسیب کے غلام گھومتے پھرتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کے غلام میرے ساتھ دیکھ کر وہ پوچھ گچھ کریں۔ فرمایا تمہاری رائے صائب ہے اللہ تمہاری مدد کرے اور غلاموں سے کہا جہاں سے یہ تمہیں لوٹانا چاہیں پلٹ آنا۔ جب میں اپنے گھر کے قریب پہنچا اور اطمینان ہو گیا تو ان کو لوٹا دیا۔ میں نے گھر میں جا کر چراغ منگایا اور دینار گنے تو 48 تھے میرے اوپر قرضہ 28 دینا تھا۔ اس میں ایک دینار زیادہ چمکدار تھا مجھے اس کی خوشنمائی پر تعجب ہوا۔ چراغ کے قریب دیکھا تو اس پر واضح حروف میں لکھا تھا 28 دینار قرضہ کے لیے ہیں۔ باقی تمہارے لیے حالانکہ خدا کی قسم میں نے نہیں بتایا تھا کہ مجھ پر کتنا قرض ہے۔ رب العالمین خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے ولی کو یہ عزت بخشی۔

حدیث نمبر 5

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) أَنَّهُ خَرَجَ مِنَ الْمَدِينَةِ فِي السَّنَةِ الَّتِي حَجَّ فِيهَا هَارُونُ يُرِيدُ الْحَجَّ فَانْتَهَى إِلَى جَبَلٍ عَنْ يَسَارِ الطَّرِيقِ وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَى مَكَّةَ يُقَالُ لَهُ فَارِعٌ فَنَظَرَ إِلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ ثُمَّ قَالَ بَانِي فَارِعٍ وَهَادِمُهُ يُقَطَّعُ إِرْباً إِرْباً فَلَمْ نَدْرِ مَا مَعْنَى ذَلِكَ فَلَمَّا وَلَّى وَافَى هَارُونُ وَنَزَلَ بِذَلِكَ الْمَوْضِعِ صَعِدَ جَعْفَرُ بْنُ يَحْيَى ذَلِكَ الْجَبَلَ وَأَمَرَ أَنْ يُبْنَى لَهُ ثَمَّ مَجْلِسٌ فَلَمَّا رَجَعَ مِنْ مَكَّةَ صَعِدَ إِلَيْهِ فَأَمَرَ بِهَدْمِهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ إِلَى الْعِرَاقِ قُطِّعَ إِرْباً إِرْباً۔

راوی کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اسی سال حج کو تشریف لے گئے جس سال ہارون حج کو گیا تھا جب کوہِ فارع کے پاس پہنچے جو مکہ جاتے ہوئے بائیں طرف پڑتا ہے تو آپ نے فرمایا اس پر عمارت بنانے والے اور اس کو منہدم کرنے والے کا ایک ایک عضو جدا کر دیا جائے گا۔ ہم نے اس کے معنے نہ سمجھے۔ حضرت کے وہاں سے جانے کے بعد ہارون آیا اور اسی جگہ اترا۔ اس کا وزیر جعفر بن یحیٰ برمکی اس پہاڑ پر چڑھا اور حکم دیا کہ یہاں اس کے لیے ایک مکان بنائیں تاکہ اس میں آ کر ٹھہرے۔ جب مکہ سے واپس ہوا تو پھر چڑھا اور اس کے گرانے کا حکم دیا۔ جب عراق واپس پہنچا تو (بحکم ہارون) اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔

حدیث نمبر 6

أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُوسَى قَالَ أَلْحَحْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) فِي شَيْ‏ءٍ أَطْلُبُهُ مِنْهُ فَكَانَ يَعِدُنِي فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ لِيَسْتَقْبِلَ وَالِيَ الْمَدِينَةِ وَكُنْتُ مَعَهُ فَجَاءَ إِلَى قُرْبِ قَصْرِ فُلانٍ فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَاتٍ وَنَزَلْتُ مَعَهُ أَنَا وَلَيْسَ مَعَنَا ثَالِثٌ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَذَا الْعِيدُ قَدْ أَظَلَّنَا وَلا وَالله مَا أَمْلِكُ دِرْهَماً فَمَا سِوَاهُ فَحَكَّ بِسَوْطِهِ الارْضَ حَكّاً شَدِيداً ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ فَتَنَاوَلَ مِنْهُ سَبِيكَةَ ذَهَبٍ ثُمَّ قَالَ انْتَفِعْ بِهَا وَاكْتُمْ مَا رَأَيْتَ۔

ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا میں امام رضا علیہ السلام پر کچھ مانگنے میں زور دے رہا تھا۔ وہ وعدہ فرما چکے تھے۔ ایک دن حضرت حاکم مدینہ کے استقبال کو نکلے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ آپ فلاں قصر کے سامنے پہنچے کہ چند درختوں کے سائے میں بیٹھ گئے۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ میرے اور حضرت کے سوا اور کوئی وہاں نہ تھا۔ میں نے کہا آج وہاں عید کا دن ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ حضرت نے اپنا کوڑا زور سے زمین پر رگڑا پھر اپنا ہاتھ مارا اور سونے کی ایک اینٹ اٹھا کر کہا لو اس سے کام چلاؤ۔ ہم سے جو دیکھا اس سے کسی دوسرے کو خبردار نہ کرنا۔

حدیث نمبر 7

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يَاسِرٍ الْخَادِمِ وَالرَّيَّانِ بْنِ الصَّلْتِ جَمِيعاً قَالَ لَمَّا انْقَضَى أَمْرُ الْمَخْلُوعِ وَاسْتَوَى الامْرُ لِلْمَأْمُونِ كَتَبَ إِلَى الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) يَسْتَقْدِمُهُ إِلَى خُرَاسَانَ فَاعْتَلَّ عَلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) بِعِلَلٍ فَلَمْ يَزَلِ الْمَأْمُونُ يُكَاتِبُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى عَلِمَ أَنَّهُ لا مَحِيصَ لَهُ وَأَنَّهُ لا يَكُفُّ عَنْهُ فَخَرَجَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَلابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) سَبْعُ سِنِينَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ لا تَأْخُذْ عَلَى طَرِيقِ الْجَبَلِ وَقُمْ وَخُذْ عَلَى طَرِيقِ الْبَصْرَةِ وَالاهْوَازِ وَفَارِسَ حَتَّى وَافَى مَرْوَ فَعَرَضَ عَلَيْهِ الْمَأْمُونُ أَنْ يَتَقَلَّدَ الامْرَ وَالْخِلافَةَ فَأَبَى أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ فَوِلايَةَ الْعَهْدِ فَقَالَ عَلَى شُرُوطٍ أَسْأَلُكَهَا قَالَ الْمَأْمُونُ لَهُ سَلْ مَا شِئْتَ فَكَتَبَ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) إِنِّي دَاخِلٌ فِي وِلايَةِ الْعَهْدِ عَلَى أَنْ لا آمُرَ وَلا أَنْهَى وَلا أُفْتِيَ وَلا أَقْضِيَ وَلا أُوَلِّيَ وَلا أَعْزِلَ وَلا أُغَيِّرَ شَيْئاً مِمَّا هُوَ قَائِمٌ وَتُعْفِيَنِي مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ فَأَجَابَهُ الْمَأْمُونُ إِلَى ذَلِكَ كُلِّهِ قَالَ فَحَدَّثَنِي يَاسِرٌ قَالَ فَلَمَّا حَضَرَ الْعِيدُ بَعَثَ الْمَأْمُونُ إِلَى الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) يَسْأَلُهُ أَنْ يَرْكَبَ وَيَحْضُرَ الْعِيدَ وَيُصَلِّيَ وَيَخْطُبَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) قَدْ عَلِمْتَ مَا كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ مِنَ الشُّرُوطِ فِي دُخُولِ هَذَا الامْرِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ إِنَّمَا أُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ تَطْمَئِنَّ قُلُوبُ النَّاسِ وَيَعْرِفُوا فَضْلَكَ فَلَمْ يَزَلْ (عَلَيْهِ السَّلام) يُرَادُّهُ الْكَلامَ فِي ذَلِكَ فَأَلَحَّ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ أَعْفَيْتَنِي مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ وَإِنْ لَمْ تُعْفِنِي خَرَجْتُ كَمَا خَرَجَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ الْمَأْمُونُ اخْرُجْ كَيْفَ شِئْتَ وَأَمَرَ الْمَأْمُونُ الْقُوَّادَ وَالنَّاسَ أَنْ يُبَكِّرُوا إِلَى بَابِ أَبِي الْحَسَنِ قَالَ فَحَدَّثَنِي يَاسِرٌ الْخَادِمُ أَنَّهُ قَعَدَ النَّاسُ لابِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي الطُّرُقَاتِ وَالسُّطُوحِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ وَاجْتَمَعَ الْقُوَّادُ وَالْجُنْدُ عَلَى بَابِ أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَلَمَّا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَاغْتَسَلَ وَتَعَمَّمَ بِعِمَامَةٍ بَيْضَاءَ مِنْ قُطْنٍ أَلْقَى طَرَفاً مِنْهَا عَلَى صَدْرِهِ وَطَرَفاً بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَتَشَمَّرَ ثُمَّ قَالَ لِجَمِيعِ مَوَالِيهِ افْعَلُوا مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ عُكَّازاً ثُمَّ خَرَجَ وَنَحْنُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ حَافٍ قَدْ شَمَّرَ سَرَاوِيلَهُ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ وَعَلَيْهِ ثِيَابٌ مُشَمَّرَةٌ فَلَمَّا مَشَى وَمَشَيْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ فَخُيِّلَ إِلَيْنَا أَنَّ السَّمَاءَ وَالْحِيطَانَ تُجَاوِبُهُ وَالْقُوَّادُ وَالنَّاسُ عَلَى الْبَابِ قَدْ تَهَيَّئُوا وَلَبِسُوا السِّلاحَ وَتَزَيَّنُوا بِأَحْسَنِ الزِّينَةِ فَلَمَّا طَلَعْنَا عَلَيْهِمْ بِهَذِهِ الصُّورَةِ وَطَلَعَ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) وَقَفَ عَلَى الْبَابِ وَقْفَةً ثُمَّ قَالَ الله أَكْبَرُ الله أَكْبَرُ الله أَكْبَرُ الله أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا الله أَكْبَرُ عَلَى مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيمَةِ الانْعَامِ وَالْحَمْدُ لله عَلَى مَا أَبْلانَا نَرْفَعُ بِهَا أَصْوَاتَنَا قَالَ يَاسِرٌ فَتَزَعْزَعَتْ مَرْوُ بِالْبُكَاءِ وَالضَّجِيجِ وَالصِّيَاحِ لَمَّا نَظَرُوا إِلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) وَسَقَطَ الْقُوَّادُ عَنْ دَوَابِّهِمْ وَرَمَوْا بِخِفَافِهِمْ لَمَّا رَأَوْا أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) حَافِياً وَكَانَ يَمْشِي وَيَقِفُ فِي كُلِّ عَشْرِ خُطُوَاتٍ وَيُكَبِّرُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ قَالَ يَاسِرٌ فَتُخُيِّلَ إِلَيْنَا أَنَّ السَّمَاءَ وَالارْضَ وَالْجِبَالَ تُجَاوِبُهُ وَصَارَتْ مَرْوُ ضَجَّةً وَاحِدَةً مِنَ الْبُكَاءِ وَبَلَغَ الْمَأْمُونَ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ ذُو الرِّئَاسَتَيْنِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ بَلَغَ الرِّضَا الْمُصَلَّى عَلَى هَذَا السَّبِيلِ افْتَتَنَ بِهِ النَّاسُ وَالرَّأْيُ أَنْ تَسْأَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ فَسَأَلَهُ الرُّجُوعَ فَدَعَا أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) بِخُفِّهِ فَلَبِسَهُ وَرَكِبَ وَرَجَعَ۔

یاسر خادم اور ریان بن الصلت دونوں راوی ہیں کہ جب امین کی سلطنت کا دور ختم ہوا اور مامون بادشاہ بنا تو اس نے امام رضا علیہ السلام کو خراساں بلایا۔ حضرت نے حسنِ تدبیر سے ٹالنا چاہا۔ مگر مامون برابر لکھتا رہا جب حضرت نے جان لیا کہ اب بے قبول کیے چارہ کار نہیں اور وہ مانے گا نہیں تو آپ نے ارادہ سفر کیا۔ امام محمد تقی کی عمر اس وقت سات سال کی تھی۔ مامون نے لکھا کہ آپ براہ دیلم و قم نہ آئیں (یہاں شیعہ زیادہ تھے، اندیشہ تھا کہ روک نہ لیے جائیں) بلکہ براہ بصرہ و اہواز و فارس مرو پہنچیں۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اس نے امر خلافت کو (امتحاناً) آپ کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے انکار فرمایا۔ تب اس نے ولی عہدی کے بارے میں کہا۔
حضرت نے فرمایا اس کے متعلق کچھ شرائط ہیں جن کا جواب میں چاہتا ہوں۔ مامون نے کہا جو آپ چاہیں پوچھیں۔ فرمایا میں ولی عہدی اس صورت میں قبول کروں گا کہ نہ کوئی حکم دوں گا نہ نہی کروں گا نہ فتوے دوں گا نہ کوئی مقدمہ فیصل کروں گا نہ کسی کو حاکم مقرر کروں گا نہ کسی چیز میں تبدیلی کروں گا۔ آپ مجھے ان تمام معاملات میں معاف فرمائیں گے۔ مامون نے ان سب باتوں کا جواب دیا اور منظور کیا۔ یاسر غلام امام رضا علیہ السلام کا بیان ہے کہ جب عید آئی تو مامون نے امام علیہ السلام کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ سوار ہو کر تشریف لے جائیں اور نماز پڑھائیں اور خطبہ بیان کریں۔ حضرت نے جواب دیا کہ ولی عہدی قبول کرنے میں جو شرائط میں نے پیش کی ہیں ان کا آپ کو علم ہے۔ اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میرا مقصد اس سے صرف یہ ہے کہ آپ کی طرف سے لوگوں کے قلوب مطمئن ہو جائیں اور آپ کی فضیلت کو لوگ پہچان لیں۔ حضرت برابر تردید فرماتے رہے اور ماموں کا اصرار رہا۔ آپ نے فرمایا اگر مجھے معاف ہی کر دیا جائے تو یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہو گا اور اگر میرا عذر قبول نہیں تو پھر اسی طرح نماز کے لیے نکلوں گا جس طرح رسول اللہ اور امیر المومنین نکلے تھے۔ مامون نے کہا مجھے اس میں کوئی عذر نہیں۔ پھر مامون نے حکم دیا اپنے سردارون اور اہل کاروں کو کہ وہ سوار ہو کر امام علیہ السلام کے دروازہ پر جائیں۔ یاسر کہتا ہے کہ لوگ حضرت کی شان دیکھنے کے لیے راستوں اور مکانوں کی چھتوں پر آ بیٹھے۔ مرد، عورتیں اور بچے سب اور درباری سردار اور فوجی جوان حضرت کے دروازے پر آ موجود ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت نے غسل فرمایا اور سوتی عمامہ باندھا اور ایک چھور سینہ پر لٹکایا۔ دوسرا دونوں شانوں پر رکھا اور اپنے غلاموں سے فرمایا تم بھی ایسا ہی کرو۔ پھر اپنے ہاتھ میں عصا لیا۔ جب حضرت باہر تشریف لائے تو ہم سب حضرت امام علیہ السلام کے آگے آگے تھے آپ پا برہنہ تھے اور پاجامہ کے پائنچے نصف ساق تک اٹھے ہوئے تھے اور دامن گردانے ہوئے تھے۔
جب حضرت چلے اور ہم آپ کے ساتھ چلے تو آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور چار تکبیریں کہیں۔ ہم نے خیال کیا کہ آسمان اور شہر کے در و دیوار ان کا جواب دے رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سردارانِ سلطنت اور عام لوگ تیار ہیں ہتھیار لگائے ہوئے ہیں اور خوب آراستہ و پیراستہ ہیں۔ جب ہم اس صورت سے نکلے اور امام علیہ السلام بھی برآمد ہوئے تو آپ تھوڑی دیر دروازہ پر ٹھہرے اور چار مرتبہ اللہ اکبر فرمایا۔ پھر کہا شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں ہدایت کی۔ اللہ اکبر اس نے چوپاؤں کے گوشت کا ہم کو رزق دیا اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آزمائش میں ڈالا۔ حضرت کے ساتھ ہماری آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ یاسر غلام نے کہا ۤآوازِ گریہ سے شہر مرو گونج اٹھا۔ جب لوگوں نے امام کو برہنہ پا دیکھا اور یہ کہ وہ دس دس قدم پر چل کر رک جاتے ہیں اور تین تکبیریں کہتے ہیں تو ہم نے گمان کہا کہ آسمان و زمین اور پہاڑ تکبیروں کا جواب دے رہے ہیں اور تمام مرو میں جوشِ گریہ و بکا ہے۔ جب مامون کو یہ خبر ملی تو اس کے وزیر فیصل بن سہیل نے کہا کہ اگر امام اسی طرح عید گاہ تک پہنچے تو لوگ ان کے گرویدہ ہو جائیں گے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان سے لوٹ جانے کو کہیں۔ چنانچہ مامون نے ایسا ہی کیا۔ امام علیہ السلام نے اپنے جوتے منگائے، پہن کر سوار ہوئے اور لوٹ آئے۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يَاسِرٍ قَالَ لَمَّا خَرَجَ الْمَأْمُونُ مِنْ خُرَاسَانَ يُرِيدُ بَغْدَادَ وَخَرَجَ الْفَضْلُ ذُو الرِّئَاسَتَيْنِ وَخَرَجْنَا مَعَ أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) وَرَدَ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ سَهْلٍ ذِي الرِّئَاسَتَيْنِ كِتَابٌ مِنْ أَخِيهِ الْحَسَنِ بْنِ سَهْلٍ وَنَحْنُ فِي بَعْضِ الْمَنَازِلِ إِنِّي نَظَرْتُ فِي تَحْوِيلِ السَّنَةِ فِي حِسَابِ النُّجُومِ فَوَجَدْتُ فِيهِ أَنَّكَ تَذُوقُ فِي شَهْرِ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ الارْبِعَاءِ حَرَّ الْحَدِيدِ وَحَرَّ النَّارِ وَأَرَى أَنْ تَدْخُلَ أَنْتَ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَالرِّضَا الْحَمَّامَ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَتَحْتَجِمَ فِيهِ وَتَصُبَّ عَلَى يَدَيْكَ الدَّمَ لِيَزُولَ عَنْكَ نَحْسُهُ فَكَتَبَ ذُو الرِّئَاسَتَيْنِ إِلَى الْمَأْمُونِ بِذَلِكَ وَسَأَلَهُ أَنْ يَسْأَلَ أَبَا الْحَسَنِ ذَلِكَ فَكَتَبَ الْمَأْمُونُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ يَسْأَلُهُ ذَلِكَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ لَسْتُ بِدَاخِلٍ الْحَمَّامَ غَداً وَلا أَرَى لَكَ وَلا لِلْفَضْلِ أَنْ تَدْخُلا الْحَمَّامَ غَداً فَأَعَادَ عَلَيْهِ الرُّقْعَةَ مَرَّتَيْنِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَسْتُ بِدَاخِلٍ غَداً الْحَمَّامَ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ فِي النَّوْمِ فَقَالَ لِي يَا عَلِيُّ لا تَدْخُلِ الْحَمَّامَ غَداً وَلا أَرَى لَكَ وَلا لِلْفَضْلِ أَنْ تَدْخُلا الْحَمَّامَ غَداً فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ صَدَقْتَ يَا سَيِّدِي وَصَدَقَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) لَسْتُ بِدَاخِلٍ الْحَمَّامَ غَداً وَالْفَضْلُ أَعْلَمُ قَالَ فَقَالَ يَاسِرٌ فَلَمَّا أَمْسَيْنَا وَغَابَتِ الشَّمْسُ قَالَ لَنَا الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) قُولُوا نَعُوذُ بِالله مِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ فَلَمْ نَزَلْ نَقُولُ ذَلِكَ فَلَمَّا صَلَّى الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) الصُّبْحَ قَالَ لِيَ اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ فَاسْتَمِعْ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئاً فَلَمَّا صَعِدْتُ سَمِعْتُ الضَّجَّةَ وَالْتَحَمَتْ وَكَثُرَتْ فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَأْمُونِ قَدْ دَخَلَ مِنَ الْبَابِ الَّذِي كَانَ إِلَى دَارِهِ مِنْ دَارِ أَبِي الْحَسَنِ وَهُوَ يَقُولُ يَا سَيِّدِي يَا أَبَا الْحَسَنِ آجَرَكَ الله فِي الْفَضْلِ فَإِنَّهُ قَدْ أَبَى وَكَانَ دَخَلَ الْحَمَّامَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ قَوْمٌ بِالسُّيُوفِ فَقَتَلُوهُ وَأُخِذَ مِمَّنْ دَخَلَ عَلَيْهِ ثَلاثُ نَفَرٍ كَانَ أَحَدُهُمْ ابْنَ خَالِهِ الْفَضْلَ ابْنَ ذِي الْقَلَمَيْنِ قَالَ فَاجْتَمَعَ الْجُنْدُ وَالْقُوَّادُ وَمَنْ كَانَ مِنْ رِجَالِ الْفَضْلِ عَلَى بَابِ الْمَأْمُونِ فَقَالُوا هَذَا اغْتَالَهُ وَقَتَلَهُ يَعْنُونَ الْمَأْمُونَ وَلَنَطْلُبَنَّ بِدَمِهِ وَجَاءُوا بِالنِّيرَانِ لِيُحْرِقُوا الْبَابَ فَقَالَ الْمَأْمُونُ لابِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) يَا سَيِّدِي تَرَى أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ وَتُفَرِّقَهُمْ قَالَ فَقَالَ يَاسِرٌ فَرَكِبَ أَبُو الْحَسَنِ وَقَالَ لِيَ ارْكَبْ فَرَكِبْتُ فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ بَابِ الدَّارِ نَظَرَ إِلَى النَّاسِ وَقَدْ تَزَاحَمُوا فَقَالَ لَهُمْ بِيَدِهِ تَفَرَّقُوا تَفَرَّقُوا قَالَ يَاسِرٌ فَأَقْبَلَ النَّاسُ وَالله يَقَعُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَمَا أَشَارَ إِلَى أَحَدٍ إِلا رَكَضَ وَمَرَّ۔

یاسر سے مروی ہے کہ بغداد کے ارادہ سے مامون خراسان سے چلا۔ فضل اس کا وزیر اور امام رضا علیہ السلام بھی اس کے ساتھ تھے راہ میں فضل کو اس کے بھائی حسن بن سہل کا ایک خط ملا۔ میں نے علم نجوم سے معلوم کیا ہے کہ فلاں مہینے تم یوم چہار شنبہ گرمی آہن و آتش کا ذائقہ چکھو گے یعنی قتل کر دیے جاؤ گے اور مصلحت یہ ہے کہ تم تم اور امیر المومنین اور امام رضا علیہ السلام اس دن جب حمام میں داخل ہوں تو حجامت کرانا اور جو خون نکلے اسے اپنے ہاتھ پر ڈالنا۔ تاکہ نحوست تجھ سے دور رہے ۔ ذوالریاستین نے مامون کو اطلاع دی اور درخواست کی کہ ابوالحسن کو بھی اطلاع دے دو۔ مامون نے امام رضا علیہ السلام کو خط لکھا امام علیہ السلام نے جواب میں لکھا میں کل حمام میں نہ جاؤں گا نہ میری رائے میں آپ کو اور فضل کو جانا چاہیے۔ مامون نے دوبارہ اس بارے میں لکھا۔ آپ نے جواب دیا میں نہیں جاؤں گا۔ آج رات میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا۔ فرما رہے ہیں کہ علی کل حمام میں نہ جانا ۔ میری رائے میں کل حمام میں نہ آپ جائیں اور نہ فضل۔ مامون نے لکھا اے میرے سردار آپ بھی سچے ہیں اور رسول اللہ بھی۔ میں کل نہیں جاؤں گا اور فضل کو تو خود ہی علم ہے۔ یاسر نے بیان کیا جب شام ہوئی اور سورج ڈوب گیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا تم سب کہو کہ اس رات میں جو حادثہ ہونے والا ہے ہم اس کے لیے خدا سے پناہ مانگتے ہیں۔ یہی بار بار فرماتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو امام نے مجھے فرمایا چھت پر جاؤ اور سنو کیا آواز آتی ہے۔ میں اوپر گیا تو شور و غل سنا جو بڑھتا ہی چلا گیا۔ پس مامون کی طرف چلے تو وہ اس دروازے سے داخل ہوا جو اس کے گھر سے امام علیہ السلام کے گھر کی طرف تھا۔ وہ حضرت کی طرف تھا اور حضرت کو دیکھ کر کہنے لگا اے مرے آقا ابو الحسن خدا آپ کو فضل کا اجر دے۔ اس نے میری بات ماننے سے انکار کیا اور حمام میں چلا گیا۔ کچھ لوگ تلواریں لے کر آئے اورر اس کو قتل کر دیا ان میں سے تین آدمیوں کو گرفتار کر لیا گیا ایک ان میں سے اس کی خالہ کا بیٹا فضل بن قلمین (دو دفتروں کا منشی) تھا یاسر نے کہا پس جمع ہوئے لشکر اور سردار جن کا تعلق فضل سے تھا اور آئے مامون کے دروازے پر اور کہنے لگے اسی نے بہکایا اور قتل کرایا ہے یعنے مامون نے۔ ہم اس کے خون کا بدلہ ضرور لیں گے اور وہ آگ لے کر آئے تاکہ اس کا دروازہ جلا دیں۔ مامون نے کہا اے میرے آقا ابوالحسن آپ جا کر ان لوگوں کو پراگندہ کیجیے۔ یاسر کہتا ہے حضرت سوار ہوئے اور مجھ سے کہا تو بھی سوار ہو ہم گھر کے دروازے سے جب نکلے تو بہت سے لوگوں نے مزاحمت کی۔ حضرت نے اپنا ہاتھ اٹھا کر کہا متفرق ہو جاؤ یاسر کا بیان ہے کہ لوگ اس طرح بے تابی سے آگے آئے کہ ایک کے اوپر ایک تھا۔ پس حضرت نے جس کو اشارہ کیا وہ سوار ہو کر چل دیا۔

حدیث نمبر 9

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُسَافِرٍ وَعَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُسَافِرٍ قَالَ لَمَّا أَرَادَ هَارُونُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنْ يُوَاقِعَ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ قَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) اذْهَبْ إِلَيْهِ وَقُلْ لَهُ لا تَخْرُجْ غَداً فَإِنَّكَ إِنْ خَرَجْتَ غَداً هُزِمْتَ وَقُتِلَ أَصْحَابُكَ فَإِنْ سَأَلَكَ مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ هَذَا فَقُلْ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ قَالَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لا تَخْرُجْ غَداً فَإِنَّكَ إِنْ خَرَجْتَ هُزِمْتَ وَقُتِلَ أَصْحَابُكَ فَقَالَ لِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ هَذَا فَقُلْتُ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ فَقَالَ نَامَ الْعَبْدُ وَلَمْ يَغْسِلِ اسْتَهُ ثُمَّ خَرَجَ فَانْهَزَمَ وَقُتِلَ أَصْحَابُهُ قَالَ وَحَدَّثَنِي مُسَافِرٌ قَالَ كُنْتُ مَعَ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) بِمِنًى فَمَرَّ يَحْيَى بْنُ خَالِدٍ فَغَطَّى رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ فَقَالَ مَسَاكِينُ لا يَدْرُونَ مَا يَحُلُّ بِهِمْ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ثُمَّ قَالَ وَأَعْجَبُ مِنْ هَذَا هَارُونُ وَأَنَا كَهَاتَيْنِ وَضَمَّ إِصْبَعَيْهِ قَالَ مُسَافِرٌ فَوَ الله مَا عَرَفْتُ مَعْنَى حَدِيثِهِ حَتَّى دَفَنَّاهُ مَعَهُ۔

مسافر غلام امام رضا علیہ السلام کا بیان ہے کہ ہارون بن مسیب حاکمِ مدینہ نے چاہا کہ جنگ کر کے محمد بن صادق سے جنھوں نے مکہ میں خروج کیا تھا اور زیدیہ فرقہ کے امام تھے اور خراسان میں وفات پائی امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ تم حاکم مدینہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ کل خروج نہ کرنا ورنہ شکست کھائے گا اور تیرے اصحاب قتل کر دیے جائیں گے۔ اگر پوچھے تو نے کیسے جانا تو کہہ دینا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا کل آپ خروج نہ کریں ورنہ شکست ہو گی اور آپ کے اصحاب قتل ہو جائیں گے۔ اس نے کہا مجھے کیسے معلوم ہوا میں نے کہا خواب میں دیکھا ہے۔ اس نے ازراہِ تمسخر کہا غلام بغیر آب دست لیے سو گیا یعنی اس نے خواب کو ساقط الاعتبار سمجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے خروج کیا اور ہار گیا۔ مسافر نے کہا کہ میں امام رضا علیہ السلام کے پاس تھا۔ یحییٰ بن خالد برمکی ادھر سے گزرا اس کے گھوڑے کی گرد سے حضرت کا چہرہ گرد آلود ہو گیا۔ آپ نے فرمایا یہ بیچارے کیا جانیں کہ اس سال کیا حادثہ پیش آگے (فضل بن یحییٰ کا قتل) پھر مسافر نے کہا حضرت نے فرمایا اس سے زیادہ عجیب واقعہ ہارون کا ہے۔ میں اس کا مطلب نہ سمجھا یہاں تک کہ ہارون کی قبر حضرت کے پائیں پا رہی۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا أَنَّهُ حَمَلَ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) مَالاً لَهُ خَطَرٌ فَلَمْ أَرَهُ سُرَّ بِهِ قَالَ فَاغْتَمَمْتُ لِذَلِكَ وَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ حَمَلْتُ هَذَا الْمَالَ وَلَمْ يُسَرَّ بِهِ فَقَالَ يَا غُلامُ الطَّسْتَ وَالْمَاءَ قَالَ فَقَعَدَ عَلَى كُرْسِيٍّ وَقَالَ بِيَدِهِ وَقَالَ لِلْغُلامِ صُبَّ عَلَيَّ الْمَاءَ قَالَ فَجَعَلَ يَسِيلُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فِي الطَّسْتِ ذَهَبٌ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ لِي مَنْ كَانَ هَكَذَا لا يُبَالِي بِالَّذِي حَمَلْتَهُ إِلَيْهِ۔

راوی کہتا ہے کہ میرے ایک دوست نے مجھے خبر دی کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے پاس کوئی بہت سا مال لے کر آیا۔ آپ نے اظہار مسرت نہ کیا۔ لانے والا رنجیدہ ہوا اور اپنے دل میں کہنے لگا میں اتنا مال لایا حضرت اس پر خوش نہ ہوئے۔ آپ نے غلام سے فرمایا طشت اور پانی لا۔ اس کے بعد آپ کرسی پر بیٹھے اور غلام سے فرمایا پانی ڈال۔ آپ کی انگلیوں سے طشت میں سونا گرنے لگا۔ پھر آپ نے اس شخص سے کہا جس پر خدا کا یہ فضل ہو اس کو کیا پرواہ ہے اس مال کی جو اس کے پاس لایا گیا ہے۔

حدیث نمبر 11

سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله وَعَبْدُ الله بْنُ جَعْفَرٍ جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ قُبِضَ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) وَهُوَ ابْنُ تِسْعٍ وَأَرْبَعِينَ سَنَةً وَأَشْهُرٍ فِي عَامِ اثْنَيْنِ وَمِائَتَيْنِ عَاشَ بَعْدَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عِشْرِينَ سَنَةً إِلا شَهْرَيْنِ أَوْ ثَلاثَةً۔

امام رضا علیہ السلام نے 49 سال کی عمر میں 202 ہجری میں انتقال فرمایا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام دو یا تین ماہ کم بیس سال زندہ رہے۔