وُلِدَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مِنْ سَنَةِ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَةٍ وَقُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) سَنَةَ عِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ فِي آخِرِ ذِي الْقَعْدَةِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً وَشَهْرَيْنِ وَثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْماً وَدُفِنَ بِبَغْدَادَ فِي مَقَابِرِ قُرَيْشٍ عِنْدَ قَبْرِ جَدِّهِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) وَقَدْ كَانَ الْمُعْتَصِمُ أَشْخَصَهُ إِلَى بَغْدَادَ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السَّنَةِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا (عَلَيْهِ السَّلام) وَأُمُّهُ أُمُّ وَلَدٍ يُقَالُ لَهَا سَبِيكَةُ نُوبِيَّةٌ وَقِيلَ أَيْضاً إِنَّ اسْمَهَا كَانَ خَيْزُرَانَ وَرُوِيَ أَنَّهَا كَانَتْ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ مَارِيَةَ أُمِّ إِبْرَاهِيمَ بْنِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه )
امام محمد تقی علیہ السلام ماہ رمضان 195 ہجری میں پیدا ہوئے اور آخر ذی قعد 220 ہجری میں بہ عمر 25 سال اور دو ماہ 18 دن رحلت فرمائی اور بغداد کے مقابر قریش میں اپنے جد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس دفن ہوئے جس سال آپ کی وفات ہوئی اس کے اول میں معتصم نے آپ کو بغداد میں بلایا تھا آپ کی والدہ کنیز تھیں جن کا نام سبیکہ ثوبیہ تھا اور ان کو زرخیزران بھی کہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ماریہ قطبیہ مادر ابراہیم بن رسول اللہ کے خاندان سے تھیں۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ خَالِدٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَكَانَ زَيْدِيّاً قَالَ كُنْتُ بِالْعَسْكَرِ فَبَلَغَنِي أَنَّ هُنَاكَ رَجُلٌ مَحْبُوسٌ أُتِيَ بِهِ مِنْ نَاحِيَةِ الشَّامِ مَكْبُولاً وَقَالُوا إِنَّهُ تَنَبَّأَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ خَالِدٍ فَأَتَيْتُ الْبَابَ وَدَارَيْتُ الْبَوَّابِينَ وَالْحَجَبَةَ حَتَّى وَصَلْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا رَجُلٌ لَهُ فَهْمٌ فَقُلْتُ يَا هَذَا مَا قِصَّتُكَ وَمَا أَمْرُكَ قَالَ إِنِّي كُنْتُ رَجُلاً بِالشَّامِ أَعْبُدُ الله فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ مَوْضِعُ رَأْسِ الْحُسَيْنِ فَبَيْنَا أَنَا فِي عِبَادَتِي إِذْ أَتَانِي شَخْصٌ فَقَالَ لِي قُمْ بِنَا فَقُمْتُ مَعَهُ فَبَيْنَا أَنَا مَعَهُ إِذَا أَنَا فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَقَالَ لِي تَعْرِفُ هَذَا الْمَسْجِدَ فَقُلْتُ نَعَمْ هَذَا مَسْجِدُ الْكُوفَةِ قَالَ فَصَلَّى وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فَبَيْنَا أَنَا مَعَهُ إِذَا أَنَا فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) بِالْمَدِينَةِ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَسَلَّمْتُ وَصَلَّى وَصَلَّيْتُ مَعَهُ وَصَلَّى عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) فَبَيْنَا أَنَا مَعَهُ إِذَا أَنَا بِمَكَّةَ فَلَمْ أَزَلْ مَعَهُ حَتَّى قَضَى مَنَاسِكَهُ وَقَضَيْتُ مَنَاسِكِي مَعَهُ فَبَيْنَا أَنَا مَعَهُ إِذَا أَنَا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي كُنْتُ أَعْبُدُ الله فِيهِ بِالشَّامِ وَمَضَى الرَّجُلُ فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْقَابِلُ إِذَا أَنَا بِهِ فَعَلَ مِثْلَ فِعْلَتِهِ الاولَى فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنْ مَنَاسِكِنَا وَرَدَّنِي إِلَى الشَّامِ وَهَمَّ بِمُفَارَقَتِي قُلْتُ لَهُ سَأَلْتُكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَقْدَرَكَ عَلَى مَا رَأَيْتُ إِلا أَخْبَرْتَنِي مَنْ أَنْتَ فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى قَالَ فَتَرَاقَى الْخَبَرُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الزَّيَّاتِ فَبَعَثَ إِلَيَّ وَأَخَذَنِي وَكَبَّلَنِي فِي الْحَدِيدِ وَحَمَلَنِي إِلَى الْعِرَاقِ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ فَارْفَعِ الْقِصَّةَ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَفَعَلَ وَذَكَرَ فِي قِصَّتِهِ مَا كَانَ فَوَقَّعَ فِي قِصَّتِهِ قُلْ لِلَّذِي أَخْرَجَكَ مِنَ الشَّامِ فِي لَيْلَةٍ إِلَى الْكُوفَةِ وَمِنَ الْكُوفَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ وَمِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ وَرَدَّكَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الشَّامِ أَنْ يُخْرِجَكَ مِنْ حَبْسِكَ هَذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ خَالِدٍ فَغَمَّنِي ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِ وَرَقَقْتُ لَهُ وَأَمَرْتُهُ بِالْعَزَاءِ وَالصَّبْرِ قَالَ ثُمَّ بَكَّرْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا الْجُنْدُ وَصَاحِبُ الْحَرَسِ وَصَاحِبُ السِّجْنِ وَخَلْقُ الله فَقُلْتُ مَا هَذَا فَقَالُوا الْمَحْمُولُ مِنَ الشَّامِ الَّذِي تَنَبَّأَ افْتُقِدَ الْبَارِحَةَ فَلا يُدْرَى أَ خَسَفَتْ بِهِ الارْضُ أَوِ اخْتَطَفَهُ الطَّيْرُ۔
علی بن خالد سے مروی ہے کہ محمد نے جو عقیدۃً زیدی تھے بیان کیا کہ میں سپاہی تھا۔ مجھے خبر ملی کہ ناحیہ شام سے ایک شخص قید کر کے لایا جا رہا ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ علی بن خالد نے کہا میں شہر کے دروازہ پر آیا اور دربانوں پہرہ داروں کو ہٹاتا ہوا اس شخص تک پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ وہ صاحبِ عقل و فہم انسان ہے۔ میٰں نے اس سے کہا اے شخص تیری سرگزشت اور معاملہ کیا ہے۔ اس نے کہا میں ملکِ شام کا رہنے والا ہوں اس جگہ مشغولِ عبادت تھا جس کو مقام راس الحسین کہتے ہیں اس حالت میں کہ میں مشغولِ عبادت تھا ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کھڑا ہو اور میرے ساتھ چل۔ میں نے کہا اچھا۔ ناگاہ میں نے اپنے کو مسجدِ کوفہ میں پایا۔ اس نے کہا جانتا ہے یہ کون سی جگہ ہے میں نے کہا ہاں یہ مسجدِ کوفہ ہے۔ اس نے وہاں نماز پڑھی۔ میں نے بھی اسی کے ساتھ وہاں نماز پڑھی۔ میں اس کے ساتھ رہا، ناگاہ ہم مدینہ میں مسجد رسول میں پہنچ گئے۔ اس نے رسول اللہ کو سلام کیا۔ میں نے بھی کیا۔ اس نے نماز پڑھی میں نے بھی پڑھی۔ اس نے رسول پر درود بھیجا۔ ناگاہ میں نے اپنے آپ کو مکہ میں پایا۔ میں اس کے ساتھ رہا اس نے مناسک ادا کیے۔ میں نے بھی کیے ناگاہ میں نے اپنے آپ کو پھر اسی جگہ پایا جہاں میں شام میں عبادت کر رہا تھا۔ اس کے بعد وہ شخص چلا گیا۔ دوسرے سال وہ پھر آیا اور وہی عمل کیا جو گزشتہ سال کیا تھا۔ جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوئے اور اس نے مجھے شام واپس کیا اور مجھ سے جدا ہونا چاہا تو میں نے کہا میں قسم کھاتا ہوں اس ذات کی جس نے آپ کو یہ قدرت دی ہے جس کو میں نے دیکھا کہ مجھے یہ بتائیے کہ آپ کون ہیں۔ فرمایا میں محمد بن علی بن موسیٰ ہوں۔ اس نے کہا یہ خبر پھیلنی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ محمد بن عبدالملک زیات تک پہنچی۔ اس نے مجھے بلایا اور گرفتار کر کے ہتھکڑی اور بیڑی میں جکڑ دیا اور عراق کی طرف مجھے بھیجا۔ راوی کہتا ہے میں نے اس سے کہا۔ یہ قصہ تم محمد بن عبدالملک سے بیان کرو ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ زیات نے (جو واثق باللہ بادشاہ عباسی کا سپہ سالار تھا) جواب میں لکھا اسی سے کہو جو تجھے شام سے ایک رات میں کوفہ لے گیا اور کوفہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ اور مکہ سے پھر شام میں لوٹایا کہ اس قید سے رہا کر دے۔ علی بن خالد نے کہا کہ اس واقعہ نے مجھے بہت صدمہ پہنچایا اور میرا دل کڑھا اور میں نے اسے صبر و ضبط کی تلقین کی۔ دوسرے روز میں صبح کو پھر اس سے ملنے گیا۔ ناگاہ میں نے دیکھا کہ لشکر والے چوکیدار، پہرے دار اور بہت سی مخلوق جمع ہے۔ میں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ مدعئی نبوت شام سے لایا گیا تھا وہ رات سے غائب ہے خدا جانے زمین نگل گئی یا کوئی پرندہ اسے اٹھا لے گیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الاشْعَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ أَصْحَابِنَا يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الله بْنُ رَزِينٍ قَالَ كُنْتُ مُجَاوِراً بِالْمَدِينَةِ مَدِينَةِ الرَّسُولِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) و َكَانَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) يَجِيءُ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَعَ الزَّوَالِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَنْزِلُ فِي الصَّحْنِ وَيَصِيرُ إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَيَرْجِعُ إِلَى بَيْتِ فَاطِمَةَ (عليها السلام) فَيَخْلَعُ نَعْلَيْهِ وَيَقُومُ فَيُصَلِّي فَوَسْوَسَ إِلَيَّ الشَّيْطَانُ فَقَالَ إِذَا نَزَلَ فَاذْهَبْ حَتَّى تَأْخُذَ مِنَ التُّرَابِ الَّذِي يَطَأُ عَلَيْهِ فَجَلَسْتُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ أَنْتَظِرُهُ لافْعَلَ هَذَا فَلَمَّا أَنْ كَانَ وَقْتُ الزَّوَالِ أَقْبَلَ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَى حِمَارٍ لَهُ فَلَمْ يَنْزِلْ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ يَنْزِلُ فِيهِ وَجَاءَ حَتَّى نَزَلَ عَلَى الصَّخْرَةِ الَّتِي عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ فَفَعَلَ هَذَا أَيَّاماً فَقُلْتُ إِذَا خَلَعَ نَعْلَيْهِ جِئْتُ فَأَخَذْتُ الْحَصَى الَّذِي يَطَأُ عَلَيْهِ بِقَدَمَيْهِ فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ جَاءَ عِنْدَ الزَّوَالِ فَنَزَلَ عَلَى الصَّخْرَةِ ثُمَّ دَخَلَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) ثُمَّ جَاءَ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ فَصَلَّى فِي نَعْلَيْهِ وَلَمْ يَخْلَعْهُمَا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ أَيَّاماً فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَمْ يَتَهَيَّأْ لِي هَاهُنَا وَلَكِنْ أَذْهَبُ إِلَى بَابِ الْحَمَّامِ فَإِذَا دَخَلَ إِلَى الْحَمَّامِ أَخَذْتُ مِنَ التُّرَابِ الَّذِي يَطَأُ عَلَيْهِ فَسَأَلْتُ عَنِ الْحَمَّامِ الَّذِي يَدْخُلُهُ فَقِيلَ لِي إِنَّهُ يَدْخُلُ حَمَّاماً بِالْبَقِيعِ لِرَجُلٍ مِنْ وُلْدِ طَلْحَةَ فَتَعَرَّفْتُ الْيَوْمَ الَّذِي يَدْخُلُ فِيهِ الْحَمَّامَ وَصِرْتُ إِلَى بَابِ الْحَمَّامِ وَجَلَسْتُ إِلَى الطَّلْحِيِّ أُحَدِّثُهُ وَأَنَا أَنْتَظِرُ مَجِيئَهُ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ الطَّلْحِيُّ إِنْ أَرَدْتَ دُخُولَ الْحَمَّامِ فَقُمْ فَادْخُلْ فَإِنَّهُ لا يَتَهَيَّأُ لَكَ ذَلِكَ بَعْدَ سَاعَةٍ قُلْتُ وَلِمَ قَالَ لانَّ ابْنَ الرِّضَا يُرِيدُ دُخُولَ الْحَمَّامِ قَالَ قُلْتُ وَمَنِ ابْنُ الرِّضَا قَالَ رَجُلٌ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ لَهُ صَلاحٌ وَوَرَعٌ قُلْتُ لَهُ وَلا يَجُوزُ أَنْ يَدْخُلَ مَعَهُ الْحَمَّامَ غَيْرُهُ قَالَ نُخْلِي لَهُ الْحَمَّامَ إِذَا جَاءَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذْ أَقْبَلَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَمَعَهُ غِلْمَانٌ لَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ غُلامٌ مَعَهُ حَصِيرٌ حَتَّى أَدْخَلَهُ الْمَسْلَخَ فَبَسَطَهُ وَوَافَى فَسَلَّمَ وَدَخَلَ الْحُجْرَةَ عَلَى حِمَارِهِ وَدَخَلَ الْمَسْلَخَ وَنَزَلَ عَلَى الْحَصِيرِ فَقُلْتُ لِلطَّلْحِيِّ هَذَا الَّذِي وَصَفْتَهُ بِمَا وَصَفْتَ مِنَ الصَّلاحِ وَالْوَرَعِ فَقَالَ يَا هَذَا لا وَالله مَا فَعَلَ هَذَا قَطُّ إِلا فِي هَذَا الْيَوْمِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي هَذَا مِنْ عَمَلِي أَنَا جَنَيْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى يَخْرُجَ فَلَعَلِّي أَنَالُ مَا أَرَدْتُ إِذَا خَرَجَ فَلَمَّا خَرَجَ وَتَلَبَّسَ دَعَا بِالْحِمَارِ فَأُدْخِلَ الْمَسْلَخَ وَرَكِبَ مِنْ فَوْقِ الْحَصِيرِ وَخَرَجَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ وَالله آذَيْتُهُ وَلا أَعُودُ وَلا أَرُومُ مَا رُمْتُ مِنْهُ أَبَداً وَصَحَّ عَزْمِي عَلَى ذَلِكَ فَلَمَّا كَانَ وَقْتُ الزَّوَالِ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ أَقْبَلَ عَلَى حِمَارِهِ حَتَّى نَزَلَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ يَنْزِلُ فِيهِ فِي الصَّحْنِ فَدَخَلَ وَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَجَاءَ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ فِي بَيْتِ فَاطِمَةَ (عليها السلام) وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ وَقَامَ يُصَلِّي۔
راوی کہتا ہے کہ میں مدینہ رسول میں مقیم تھا۔ میں دیکھا کرتا تھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام ہر روز وقتِ زوال مسجد رسول میں آتے صحن میں اترتے اور قبر رسول کے پاس جا کر سلام کرتے اور بیت فاطمہ کی طرف لوٹ جاتے اپنے جوتے اتارتے اور نماز پڑھتے ایک روز شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا کہ جب حضرت اپنی سواری سے اتریں تو بڑھ کر مٹی اٹھا لوں جس پر حضرت کا قدم رکھا جائے۔ میں اس روز حضرت کے انتظار میں ہو بیٹھا تاکہ یہ کام کروں جب زوال کا وقت آیا تو حضرت اپنے گدھے پر تشریف لائے لیکن وہاں نہ اترے جہاں ہر روز نماز پڑھا کرتے تھے اور اس پتھر پر اترے جو مسجد کے دروازہ پر تھا۔
پھر روضہ رسول پر تشریف لائے پھر اس جگہ واپس آئے جہاں نماز پڑھتے تھے کئی روز ایسا ہی ہوا۔ میں نے کہا جوتا اتاریں گے تو میں کنکریاں لے لوں گا جن پر حضرت کے قدم رکھے گئے ہوں۔ دوسرے روز وقتِ زوال تشریف لائے اور پتھر پر اترے پھر اندر آئے۔ رسول اللہ کو سلام کر کے اس جگہ پر پہنچے جہاں نماز پڑھتے تھے۔ پس حضرت نے بغیر جوتا اتارے نماز پڑھی۔ کئی روز حضرت نے ایسا ہی کیا میں نے دل میں کہا یوں کام نہ چلے گا۔ مجھے حمام جانا چاہیے۔ جب آپ حمام میں داخل ہوں گے تو جو مٹی آپ کے قدم کے نیچے ہو گی لے لوں گا۔ میں نے پتہ چلایا کہ امام علیہ السلام کس حمام میں غسل فرماتے ہیں۔ معلوم ہوا بقیع والے حمام میں جو اولادِ طلحہ میں سے ایک شخص کا ہے۔ پس دن کا پتہ لگا کر میں حمام کے درواہ پر پہنچا اور مردِ طلحی سے بات کرنے لگا۔ میں حضرت کی آمد کا منتظر تھا۔ طلحی نے کہا اگر حمام کرنے کا ارادہ ہے تو اٹھو اور اندرر داخل ہو ورنہ بہت دیر پھر موقع نہ ملے گا۔ میں نے کہا کیوں۔ فرمایا امام رضا علیہ السلام حمام میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا یہ کون ہیں میں نے کہا آل محمد سے ہیں صاحبِ زہد و تقویٰ ہیں۔ میں نے کہا کیا ان کے ساتھ حمام میں کوئی اور نہیں جا سکتا۔ اس نے کہا ہم ان کے لیے حمام خالی کرا دیتے ہیں۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت تشریف لے آئے۔ آپ کے ساتھ نوکر تھے ایک نوکر کے پاس بوریہ تھا۔ حضرت جب لباس اتارنے کی جگہ داخل ہوئے تو اس نے بوریہ بچھا دیا۔ آپ حمار پر سوار حمام میں داخل ہوئے اور جب کپڑے اتارنے کی جگہ پہنچے تو بوریے پر اترے۔ میں نے مرد طلحی سے کہا کیا یہی ہیں جن کے زہد و تقویٰ اور صلاحیتِ نفس کی تو نے تعریف کی۔ اس نے کہا واللہ یہی ہیں۔ ایسا عمل انھوں نے کبھی نہیں کیا جیسا آج کیا ہے۔
میں نے اپنے دل میں کہا یہ اثر میرے عمل کا ہے جسے میں کھینچے چلا آ رہا ہوں۔ میں حضرت کے نکلنے کا انتظار کرتا ہوں شاید جو میرا مقصد ہے وہ پورا ہو جائے۔ جب آپ برآمد ہوں۔ آپ حمام سے نکلے تو کپڑے پہنے اور گدھے کو منگایا۔ غلام نے مسلخ میں داخل کیا۔ آپ بوریے پر سے سوار ہوئے اور چلے گئے۔ میں نے دل میں کہا میں نے حضرت کو اذیت دی اب اس خیال کی طرف نہ لوٹوں گا اور کبھی ایسا ارادہ نہ کروں گا۔ اسی روز وقتِ زوال جب سوار ہو کر آئے تو صحن میں اسی جگہ اترے جہاں اترا کرتے تھے۔ رسول اللہ کو سلام کیا اور اس جگہ آئے جہاں بیتِ فاطمہ میں نماز پڑھا کرتے تھے جوتے اتار ڈالے اور نماز پڑھنے لگے (اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام وقت لوگوں کے ارادہ سے واقف ہوتا ہے)۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ قَالَ خَرَجَ (عَلَيْهِ السَّلام) عَلَيَّ فَنَظَرْتُ إِلَى رَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ لاصِفَ قَامَتَهُ لاصْحَابِنَا بِمِصْرَ فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ حَتَّى قَعَدَ وَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ الله احْتَجَّ فِي الامَامَةِ بِمِثْلِ مَا احْتَجَّ فِي النُّبُوَّةِ فَقَالَ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا قَالَ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يُؤْتَى الْحُكْمَ صَبِيّاً وَيَجُوزُ أَنْ يُعْطَاهَا وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ سَنَةً۔
علی بن اسباط سے مروی ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام میری طرف آئے تو میں نے آپ کے سراپا کو غور سے دیکھا تاکہ میں آپ کے قد و قامت کا تذکرہ اپنے اصحاب سے مصر میں کروں۔ میں غور ہی کر رہا تھا کہ آپ بیٹھے اور فرمایا اے علی خدا نے امامت میں بھی وہی معیار حجت رکھا ہے جو نبوت میں ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے کہ ہم نےے اس کو اپنا حکم (نبوت) بچپن میں دیا اور دوسری جگہ فرماتا ہے جب وہ پوری قوت والا ہو گیا اور چالیس سال کی عمر کا ہوا پس یہ بھی جائز ہے کہ اپنا حکم بچپن میں دے دے اور یہ بھی جائز ہے کہ چالیس سال کے بعد دے (آپ کا یہ مقصد تھا کہ تم میرے بچپن کے قد و قامت پر نہ جاؤ خدائی عہدہ کا تعلق کسی سن سے مخصوص نہیں)۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الرَّيَّانِ قَالَ احْتَالَ الْمَأْمُونُ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) بِكُلِّ حِيلَةٍ فَلَمْ يُمْكِنْهُ فِيهِ شَيْءٌ فَلَمَّا اعْتَلَّ وَأَرَادَ أَنْ يَبْنِيَ عَلَيْهِ ابْنَتَهُ دَفَعَ إِلَى مِائَتَيْ وَصِيفَةٍ مِنْ أَجْمَلِ مَا يَكُونُ إِلَى كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ جَاماً فِيهِ جَوْهَرٌ يَسْتَقْبِلْنَ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) إِذَا قَعَدَ فِي مَوْضِعِ الاخْيَارِ فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِنَّ وَكَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مُخَارِقٌ صَاحِبُ صَوْتٍ وَعُودٍ وَضَرْبٍ طَوِيلُ اللِّحْيَةِ فَدَعَاهُ الْمَأْمُونُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا فَأَنَا أَكْفِيكَ أَمْرَهُ فَقَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فَشَهِقَ مُخَارِقٌ شَهْقَةً اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَهْلُ الدَّارِ وَجَعَلَ يَضْرِبُ بِعُودِهِ وَيُغَنِّي فَلَمَّا فَعَلَ سَاعَةً وَإِذَا أَبُو جَعْفَرٍ لا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ لا يَمِيناً وَلا شِمَالاً ثُمَّ رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ وَقَالَ اتَّقِ الله يَا ذَا الْعُثْنُونِ قَالَ فَسَقَطَ الْمِضْرَابُ مِنْ يَدِهِ وَالْعُودُ فَلَمْ يَنْتَفِعْ بِيَدَيْهِ إِلَى أَنْ مَاتَ قَالَ فَسَأَلَهُ الْمَأْمُونُ عَنْ حَالِهِ قَالَ لَمَّا صَاحَ بِي أَبُو جَعْفَرٍ فَزِعْتُ فَزْعَةً لا أُفِيقُ مِنْهَا أَبَداً۔
راوی کہتا ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے کردار کو آزمانے کے لیے مامون نے بہت سی تدبیریں کیں تاکہ آپ کا فسق ظاہر ہو لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی چونکہ اس کی خواہش تھی اپنی بیٹی سے رشتہ کرنے کی لہذا ایک تدبیر اس نے یہ بھی کی کہ دو سو نہایت حسین کنیزیں حضرت کے پاس بھیج دیں جن میں سے ہر ایک کے پاس نہایت خوشنما جام تھا اس میں موتی یا جوہرات پڑے ہوئے تھے اور حکم دیا کہ جب وہ اپنے بزرگوں کی طرح شانِ امامت دکھا رہے ہوں ان کے سامنے جائیں اور عشوہ گری دکھائیں۔ جب وہ آئیں تو حضرت نے کوئی توجہ ان کی طرف نہ فرمائی۔ جب مامون اس تدبیر میں ناکام ہوا تو مخارق گوئیے کو جو دراز ریش تھا بلایا۔ اس سے کہا کہ اگر ان کے دل میں دنیوی خواہش ذرا سی بھی ہو گی تو میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔ پس مامون کے محل میں وہ امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے بیٹھا اور ایسی بلند آواز سے گانے لگا کہ اس گھر کے تمام لوگ جمع ہو گئے وہ اپنی سارنگی بجا رہا تھا اور گا رہا تھا۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا مگر حضرت نے اس کی طرف توجہ نہ کی نہ داہنی طرف دیکھا نہ بائیں طرف۔ پھر اپنا سر اٹھا کر اس سے فرمایا او مرد دراز ریش خدا سے ڈر۔ حضرت کے یہ فرماتے ہیں مضراب اور باجہ اس کے ہاتھ سے گر گیا اور مرتے دم تک اس کے دونوں ہاتھ بیکار ہو گئے۔ مامون نے اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ جب امام علیہ السلام نے مجھے ڈانٹا تو میرے بدن میں ایسا لرزہ پیدا ہوا جس کا اثر آج تک ہے۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) وَمَعِي ثَلاثُ رِقَاعٍ غَيْرُ مُعَنْوَنَةٍ وَاشْتَبَهَتْ عَلَيَّ فَاغْتَمَمْتُ فَتَنَاوَلَ إِحْدَاهُمَا وَقَالَ هَذِهِ رُقْعَةُ زِيَادِ بْنِ شَبِيبٍ ثُمَّ تَنَاوَلَ الثَّانِيَةَ فَقَالَ هَذِهِ رُقْعَةُ فُلانٍ فَبُهِتُّ أَنَا فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ قَالَ وَأَعْطَانِي ثَلاثَمِائَةِ دِينَارٍ وَأَمَرَنِي أَنْ أَحْمِلَهَا إِلَى بَعْضِ بَنِي عَمِّهِ وَقَالَ أَمَا إِنَّهُ سَيَقُولُ لَكَ دُلَّنِي عَلَى حَرِيفٍ يَشْتَرِي لِي بِهَا مَتَاعاً فَدُلَّهُ عَلَيْهِ قَالَ فَأَتَيْتُهُ بِالدَّنَانِيرِ فَقَالَ لِي يَا أَبَا هَاشِمٍ دُلَّنِي عَلَى حَرِيفٍ يَشْتَرِي لِي بِهَا مَتَاعاً فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ وَكَلَّمَنِي جَمَّالٌ أَنْ أُكَلِّمَهُ لَهُ يُدْخِلُهُ فِي بَعْضِ أُمُورِهِ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ لاكَلِّمَهُ لَهُ فَوَجَدْتُهُ يَأْكُلُ وَمَعَهُ جَمَاعَةٌ وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلامَهُ فَقَالَ يَا أَبَا هَاشِمٍ كُلْ وَوَضَعَ بَيْنَ يَدَيَّ ثُمَّ قَالَ ابْتِدَاءً مِنْهُ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ يَا غُلامُ انْظُرْ إِلَى الْجَمَّالِ الَّذِي أَتَانَا بِهِ أَبُو هَاشِمٍ فَضُمَّهُ إِلَيْكَ قَالَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ ذَاتَ يَوْمٍ بُسْتَاناً فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي لَمُولَعٌ بِأَكْلِ الطِّينِ فَادْعُ الله لِي فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ابْتِدَاءً مِنْهُ يَا أَبَا هَاشِمٍ قَدْ أَذْهَبَ الله عَنْكَ أَكْلَ الطِّينِ قَالَ أَبُو هَاشِمٍ فَمَا شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ الْيَوْمَ۔
داؤد نے کہا میں امام محمد تقی علیہ السلام کے پاس آیا تو میرے پاس تین خط تھے جن کے آغاز میں مکتوب الیہ کا نام نہ تھا۔ میں شبہ میں پڑ گیا اور غمگین ہوا۔ حضرت نے ان میں سے ایک کو لے کر فرمایا یہ خط زیاد بن شیب کے نام ہے۔ پھر دوسرا اٹھا کر فرمایا یہ فلاں کے نام ہے۔ میں حیران ہو گیا۔ حضرت نے مجھے دیکھ کر تبسم کیا پھر مجھے تین سو دینار دے کر فرمایا انکو میرے فلاں چچا زاد بھائی کے پاس لے جاؤ وہ تجھ سے کہے گا کہ ایسے تجربہ کار کو بتاؤ جو میرے لیے سامان خرید دے۔ راوی کہتا ہے ایک ساربان نے مجھ سے کہا میں حضرت سے اس کے نوکر رکھنے کے بارے میں بات چیت کروں۔ میں حضرت کے پاس اس بارے میں بات چیت کرنے کے لیے گیا لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت تناول فرما رہے ہیں اور آپ کے پاس کچھ لوگ ہیں میں ان کے سامنے کچھ نہ کہہ سکا۔ پھر مجھ سے فرمایا۔ اے ابو ہاشم کھاؤ اور میرے سامنے کھانا رکھا۔ حضرت نے بغیر میرے کچھ کہے خود ہی فرمایا اے غلام اس ساربان کو بلا جسے ابو ہاشم لائے ہیں اور اپنے پاس رکھ اور یہ بھی روایت کی کہ ایک دن میں حضرت کے ساتھ باغ میں داخل ہوا۔ میں نے کہا میں مٹی کھانے کی طرف راغب ہوں پس آپ دعا فرمائیں۔ یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ تین دن بعد خود ہی فرمایا اے ابو ہاشم تمہارا مٹی کھانا ختم ہوا۔ ابوہاشم کا بیان ہے کہ اس روز سے کوئی چیز میرے نزدیک مٹی سے زیادہ قابلِ نفرت نہ تھی۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) صَبِيحَةَ عُرْسِهِ حَيْثُ بَنَى بِابْنَةِ الْمَأْمُونِ وَكُنْتُ تَنَاوَلْتُ مِنَ اللَّيْلِ دَوَاءً فَأَوَّلُ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ فِي صَبِيحَتِهِ أَنَا وَقَدْ أَصَابَنِي الْعَطَشُ وَكَرِهْتُ أَنْ أَدْعُوَ بِالْمَاءِ فَنَظَرَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي وَجْهِي وَقَالَ أَظُنُّكَ عَطْشَانَ فَقُلْتُ أَجَلْ فَقَالَ يَا غُلامُ أَوْ جَارِيَةُ اسْقِنَا مَاءً فَقُلْتُ فِي نَفْسِي السَّاعَةَ يَأْتُونَهُ بِمَاءٍ يَسُمُّونَهُ بِهِ فَاغْتَمَمْتُ لِذَلِكَ فَأَقْبَلَ الْغُلامُ وَمَعَهُ الْمَاءُ فَتَبَسَّمَ فِي وَجْهِي ثُمَّ قَالَ يَا غُلامُ نَاوِلْنِي الْمَاءَ فَتَنَاوَلَ الْمَاءَ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَشَرِبْتُ ثُمَّ عَطِشْتُ أَيْضاً وَكَرِهْتُ أَنْ أَدْعُوَ بِالْمَاءِ فَفَعَلَ مَا فَعَلَ فِي الاولَى فَلَمَّا جَاءَ الْغُلامُ وَمَعَهُ الْقَدَحُ قُلْتُ فِي نَفْسِي مِثْلَ مَا قُلْتُ فِي الاولَى فَتَنَاوَلَ الْقَدَحَ ثُمَّ شَرِبَ فَنَاوَلَنِي وَتَبَسَّمَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَمْزَةَ فَقَالَ لِي هَذَا الْهَاشِمِيُّ وَأَنَا أَظُنُّهُ كَمَا يَقُولُون۔
محمد بن علی ہاشمی کہتا ہے کہ میں آیا امام محمد تقی علیہ السلام کے پاس اس صبح کو جس کی شب میں آپ کی شادی بنت مامون سے ہوئی تھی۔ میں نے رات کو دوا کھائی تھی۔ سب سے پہلے اس صبح کو آنے والا میں تھا۔ مجھے پیاس لگی میں نے پانی مانگنا مناسب نہ جانا۔ حضرت نے میری طرف دیکھ کر فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے تم پیاسے ہو میں نے کہا ہاں۔ حضرت نے غلام یا کنیز سے کہا ہمیں سیراب کر (یہ نہ فرمایا کہ اسے سیراب کر) میرے دل میں یہ بات آئی کہ اگر میرے لیے مانگتے تو شاید یہ لوگ زہر ملا لاتے اس خیال سے رنجیدہ تھا۔ غلام پانی لے کر آیا تو حضرت مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ غلام نے کہا مجھے پانی دے حضرت نے پانی لے کر پیا پھر مجھے دیا تو میں نے پی لیا۔ مجھے پھر پیاس محسوس ہوئی۔ پھر میں نے پانی مانگنا مناسب نہ جانا۔ حضرت نے پھر وہی کیا جو پہلے کیا تھا۔ حضرت نے پہلے خود پیا بعد میں مجھے پلایا اور تبسم فرمایا۔ محمد بن حمزہ سے کہا مجھ سے حضرت نے فرمایا یہ ہاشمی ایسا ہی ہے جیسا لوگ کہتے ہیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ اسْتَأْذَنَ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ النَّوَاحِي مِنَ الشِّيعَةِ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَسَأَلُوهُ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ عَنْ ثَلاثِينَ أَلْفَ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَلَهُ عَشْرُ سِنِينَ۔
ابراہیم نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے اطراف کے شیعوں کے ایک گروہ نے اذن چاہا۔ حضرت نے اجازت دے دی۔ وہ لوگ آئے اور ایک ہی مجلس میں حضرت سے 30 ہزار سوال کیے۔ حضرت نے ان سب کے جوابات دیے جب کہ آپ کی عمر صرف دس سال تھی۔
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ دِعْبِلِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَمَرَ لَهُ بِشَيْءٍ فَأَخَذَهُ وَلَمْ يَحْمَدِ الله قَالَ فَقَالَ لَهُ لِمَ لَمْ تَحْمَدِ الله قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ بَعْدُ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَمَرَ لِي بِشَيْءٍ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لله فَقَالَ لِي تَأَدَّبْتَ۔
راوی کہتا ہے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے ایک چیز کا حکم دیا میں نے الحمد للہ نہ کہا۔ حضرت نے فرمایا تم نے الحمد للہ کیوں نہ کہا۔ اس کے بعد جب میں امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں آیا تو آپ نے مجھے ایک چیز کا حکم دیا میں نے الحمد للہ کہا۔ فرمایا اب تم نے ادب حاصل کیا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ حَدَثَ بِآلِ فَرَجٍ حَدَثٌ فَقُلْتُ مَاتَ عُمَرُ فَقَالَ الْحَمْدُ لله حَتَّى أَحْصَيْتُ لَهُ أَرْبَعاً وَعِشْرِينَ مَرَّةً فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ هَذَا يَسُرُّكَ لَجِئْتُ حَافِياً أَعْدُو إِلَيْكَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَ وَلا تَدْرِي مَا قَالَ لَعَنَهُ الله لِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَبِي قَالَ قُلْتُ لا قَالَ خَاطَبَهُ فِي شَيْءٍ فَقَالَ أَظُنُّكَ سَكْرَانَ فَقَالَ أَبِي اللهمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي أَمْسَيْتُ لَكَ صَائِماً فَأَذِقْهُ طَعْمَ الْحَرْبِ وَذُلَّ الاسْرِ فَوَ الله إِنْ ذَهَبَتِ الايَّامُ حَتَّى حُرِبَ مَالُهُ وَمَا كَانَ لَهُ ثُمَّ أُخِذَ أَسِيراً وَهُوَ ذَا قَدْ مَاتَ لا رَحِمَهُ الله وَقَدْ أَدَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ وَمَا زَالَ يُدِيلُ أَوْلِيَاءَهُ مِنْ أَعْدَائِهِ۔
راوی کہتا ہے کہ میں امام نقی علیہ السلام کی خدمت میں آیا۔ حضرت نے فرمایا اے محمد آل فرج (غلام علی بن یقطین) کے لیے کوئی حادثہ پیش آیا۔ میں نے کہا عمر مر گیا۔ حضرت نے 24 بار الحمد للہ کہا۔ میں نے کہا اگر میں جانتا کہ یہ خبر آپ کو اتنا خوش کرے گو تو پا برہنہ دوڑتا ہوا آتا۔ فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اس ملعون نے میرے والد سے کیا کہا تھا۔ میں نے کہا مجھے علم نہیں۔ فرمایا انھوں نے کسی معاملہ میں اس سے مخاطبہ کیا تو اس نے کہا آپ نشہ میں ہیں۔ حضرت نے فرمایا خدا تو جانتا ہے کہ میں روزے سے ہوں پس اس کو حرب کا مزہ چکھا اور قید کی ذلت دے۔ پس بخدا چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا مال اور جو کچھ تھا وہ لٹ گیا اور وہ قید کر لیا گیا اور اب وہ مر گیا۔ خدا اس پر رحم نہ کرے۔ خدا نے اس سے انتقام لیا اور ہمیشہ اس کے اولیاء اس کے دشمنوں سے بدلہ لیتے رہیں گے۔
أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فِي مَسْجِدِ الْمُسَيَّبِ وَصَلَّى بِنَا فِي مَوْضِعِ الْقِبْلَةِ سَوَاءً وَذُكِرَ أَنَّ السِّدْرَةَ الَّتِي فِي الْمَسْجِدِ كَانَتْ يَابِسَةً لَيْسَ عَلَيْهَا وَرَقٌ فَدَعَا بِمَاءٍ وَتَهَيَّأَ تَحْتَ السِّدْرَةِ فَعَاشَتِ السِّدْرَةُ وَأَوْرَقَتْ وَحَمَلَتْ مِنْ عَامِهَا۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے مسجد مسیب میں امام محمد تقی کے ساتھ محرابِ مسجد میں نماز پڑھی وہاں بیری کا ایک سوکھا درخت تھا۔ حضرت نے پانی منگا کر اس درخت کے نیچے وضو کیا وہ ہرا بھرا ہو گیا اور ہر سال پھل دینے لگا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَجَّالِ وَعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ عَنِ الْمُطَرِّفِيِّ قَالَ مَضَى أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا (عَلَيْهِ السَّلام) وَلِيَ عَلَيْهِ أَرْبَعَةُ آلافِ دِرْهَمٍ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي ذَهَبَ مَالِي فَأَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) إِذَا كَانَ غَداً فَأْتِنِي وَلْيَكُنْ مَعَكَ مِيزَانٌ وَأَوْزَانٌ فَدَخَلْتُ عَلَى ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ لِي مَضَى أَبُو الْحَسَنِ وَلَكَ عَلَيْهِ أَرْبَعَةُ آلافِ دِرْهَمٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَرَفَعَ الْمُصَلَّى الَّذِي كَانَ تَحْتَهُ فَإِذَا تَحْتَهُ دَنَانِيرُ فَدَفَعَهَا إِلَيَّ۔
مطرفی کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کا انتقال ہو گیا اور میرے ان پر چار ہزار درہم قرض تھے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ مال گیا۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ امام رضا کا انتقال ہو گیا اور تمہارے ان پر چار ہزار درہم ہیں وہ لے جاؤ۔ میں گیا تو حضرت نے اس مصلے کو اٹھایا جس پر بیٹھے تھے اس کے نیچے اتنے ہی درہم تھے۔ حضرت نے وہ میرے حوالے کیے۔
سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الله وَالْحِمْيَرِيُّ جَمِيعاً عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ أَخِيهِ عَلِيٍّ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ قُبِضَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً وَثَلاثَةِ أَشْهُرٍ وَاثْنَيْ عَشَرَ يَوْماً تُوُفِّيَ يَوْمَ الثَّلاثَاءِ لِسِتٍّ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ عِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ عَاشَ بَعْدَ أَبِيهِ تِسْعَةَ عَشَرَ سَنَةً إِلا خَمْساً وَعِشْرِينَ يَوْماً۔
محمد بن سنان سے مروی ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا انتقال 25 سال 3 ماہ اور 12 دن کی عمر میں ہوا اور روزہ سہ شنبہ 6 ذی الحجہ کو 220 ہجری میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اپنے والد ماجد کے بعد 25 روز کم 19 سال زندہ رہے۔