مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

ذکر مولد امام علی نقی علیہ السلام

(3-123)

حدیث نمبر 0

وُلِدَ (عَلَيْهِ السَّلام) لِلنِّصْفِ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وَمِائَتَيْنِ. وَرُوِيَ أَنَّهُ وُلِدَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي رَجَبٍ سَنَةَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ وَمِائَتَيْنِ وَمَضَى لارْبَعٍ بَقِينَ مِنْ جُمَادَى الاخِرَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ. وَرُوِيَ أَنَّهُ قُبِضَ (عَلَيْهِ السَّلام) فِي رَجَبٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ وَلَهُ أَحَدٌ وَأَرْبَعُونَ سَنَةً وَسِتَّةُ أَشْهُرٍ. وَأَرْبَعُونَ سَنَةً عَلَى الْمَوْلِدِ الاخَرِ الَّذِي رُوِيَ وَكَانَ الْمُتَوَكِّلُ أَشْخَصَهُ مَعَ يَحْيَى بْنِ هَرْثَمَةَ بْنِ أَعْيَنَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى سُرَّ مَنْ رَأَى فَتُوُفِّيَ بِهَا (عَلَيْهِ السَّلام) وَدُفِنَ فِي دَارِهِ وَأُمُّهُ أُمُّ وَلَدٍ يُقَالُ لَهَا سَمَانَةُ۔

حضرت کی ولادت 15 ذی الحجہ 212 ھجری میں ہوئی اور ایک روایت ہے کہ ماہ رجب المرجب 214 ہجری کو پیدا ہوئے اور 4 جمادی الاخر 254 ہجری میں انتقال ہوا۔ ایک روایت ہے کہ آپ کا انتقال رجب 254 ہجری میں ہوا جبکہ آپ کی عمر 41 سال تھی اور ایک روایت کے مطابق 40 سال 6 ماہ، متوکل عباسی نے یحیٰی بن ہرثمہ بن اعین کے ساتھ آپ کو مدینہ سے سامرہ بلایا وہیں حضرت نے وفات پائی اور اپنے گھر ہی میں دفن ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کنیز تھیں جن کا نام سمانہ تھا۔

حدیث نمبر 1

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ خَيْرَانَ الاسْبَاطِيِّ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) الْمَدِينَةَ فَقَالَ لِي مَا خَبَرُ الْوَاثِقِ عِنْدَكَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ خَلَّفْتُهُ فِي عَافِيَةٍ أَنَا مِنْ أَقْرَبِ النَّاسِ عَهْداً بِهِ عَهْدِي بِهِ مُنْذُ عَشَرَةِ أَيَّامٍ قَالَ فَقَالَ لِي إِنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ يَقُولُونَ إِنَّهُ مَاتَ فَلَمَّا أَنْ قَالَ لِيَ النَّاسَ عَلِمْتُ أَنَّهُ هُوَ ثُمَّ قَالَ لِي مَا فَعَلَ جَعْفَرٌ قُلْتُ تَرَكْتُهُ أَسْوَأَ النَّاسِ حَالاً فِي السِّجْنِ قَالَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُ صَاحِبُ الامْرِ مَا فَعَلَ ابْنُ الزَّيَّاتِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ النَّاسُ مَعَهُ وَالامْرُ أَمْرُهُ قَالَ فَقَالَ أَمَا إِنَّهُ شُؤْمٌ عَلَيْهِ قَالَ ثُمَّ سَكَتَ وَقَالَ لِي لا بُدَّ أَنْ تَجْرِيَ مَقَادِيرُ الله تَعَالَى وَأَحْكَامُهُ يَا خَيْرَانُ مَاتَ الْوَاثِقُ وَقَدْ قَعَدَ الْمُتَوَكِّلُ جَعْفَرٌ وَقَدْ قُتِلَ ابْنُ الزَّيَّاتِ فَقُلْتُ مَتَى جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ بَعْدَ خُرُوجِكَ بِسِتَّةِ أَيَّامٍ۔

خیران کا بیان ہے کہ میں مدینہ میں امام نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے پوچھا واثق کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں میں نے اس کو مع الخیر چھوڑا ہے۔ میں ازروئے تعلق سب سے زیادہ قریب ہوں۔ دس روز ہوئے کہ میں اس سے جدا ہوا ہوں۔ فرمایا اہلِ مدینہ کہتے ہیں کہ وہ مر گیا ہے۔ جب امام علی علیہ السلام نے یہ فرمایا تو میں سمجھ گیا کہ یہ حضرت ہی نے فرمایا ہے۔ پھر فرمایا جعفر برادر واثق کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا وہ قید خانہ میں برے حال میں ہے۔ فرمایا وہ صاحبِ حکومت ہو گا۔ پھر فرمایا محمد بن عبدالملک زیات کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا وہ بدستور سپہ سالار ہے اور لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ اور اس کا حکم نافذ ہے۔ فرمایا نحوست اس پر چھا گئی ہے۔ یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا یہ جو مقدراتِ الہٰیہ ہیں ان کا جاری ہونا ناگزیر ہے۔ اے خیزان واثق مر گیا اور اس کی جگہ متوکل جعفر بادشاہ بن گیا اور ابن زیات قتل کر دیا گیا۔ میں نے عرض کیا کب؟ فرمایا تیرے وہاں سے نکلنے کے چھ دن بعد۔

حدیث نمبر 2

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ صَالِحِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فِي كُلِّ الامُورِ أَرَادُوا إِطْفَاءَ نُورِكَ وَالتَّقْصِيرَ بِكَ حَتَّى أَنْزَلُوكَ هَذَا الْخَانَ الاشْنَعَ خَانَ الصَّعَالِيكِ فَقَالَ هَاهُنَا أَنْتَ يَا ابْنَ سَعِيدٍ ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ وَقَالَ انْظُرْ فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَوْضَاتٍ آنِقَاتٍ وَرَوْضَاتٍ بَاسِرَاتٍ فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ عَطِرَاتٌ وَوِلْدَانٌ كَأَنَّهُنَّ اللُّؤْلُؤُ الْمَكْنُونُ وَأَطْيَارٌ وَظِبَاءٌ وَأَنْهَارٌ تَفُورُ فَحَارَ بَصَرِي وَحَسَرَتْ عَيْنِي فَقَالَ حَيْثُ كُنَّا فَهَذَا لَنَا عَتِيدٌ لَسْنَا فِي خَانِ الصَّعَالِيكِ۔

صالح بن سعید سے مروی ہے کہ میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یہ دشمن (متوکل وغیرہ) آپ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور آپ کو بے عزت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ آپ کو اس بدترین گھر میں مہمان بلا کر مقیم کیا ہے جو خان الصعا لیک یعنی محتاج خانہ ہے۔ حضرت نے فرمایا اے ابن سعید یہاں آؤ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا یہ دیکھو میں نے دیکھا کہ خوشنما ہرے بھرے باغات ہیں ان میں حسین عورتیں خوشبو میں لپٹیں اڑ رہی ہیں خوب صورت لڑکے چمکدار موتیوں کی طرح موجود ہیں۔ طیور خوشنوا ہیں خوبصورت ہرن ہیں، نہریں جاری ہیں ۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ فرمایا ہمارے لیے یہ سامان ہر جگہ موجود ہے ہم محتاج خانہ نہیں۔

حدیث نمبر 3

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْحَاقَ الْجَلابِ قَالَ اشْتَرَيْتُ لابِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) غَنَماً كَثِيرَةً فَدَعَانِي فَأَدْخَلَنِي مِنْ إِصْطَبْلِ دَارِهِ إِلَى مَوْضِعٍ وَاسِعٍ لا أَعْرِفُهُ فَجَعَلْتُ أُفَرِّقُ تِلْكَ الْغَنَمَ فِيمَنْ أَمَرَنِي بِهِ فَبَعَثَ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ وَإِلَى وَالِدَتِهِ وَغَيْرِهِمَا مِمَّنْ أَمَرَنِي ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ فِي الانْصِرَافِ إِلَى بَغْدَادَ إِلَى وَالِدِي وَكَانَ ذَلِكَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ فَكَتَبَ إِلَيَّ تُقِيمُ غَداً عِنْدَنَا ثُمَّ تَنْصَرِفُ قَالَ فَأَقَمْتُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ أَقَمْتُ عِنْدَهُ وَبِتُّ لَيْلَةَ الاضْحَى فِي رِوَاقٍ لَهُ فَلَمَّا كَانَ فِي السَّحَرِ أَتَانِي فَقَالَ يَا إِسْحَاقُ قُمْ قَالَ فَقُمْتُ فَفَتَحْتُ عَيْنِي فَإِذَا أَنَا عَلَى بَابِي بِبَغْدَادَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَى وَالِدِي وَأَنَا فِي أَصْحَابِي فَقُلْتُ لَهُمْ عَرَّفْتُ بِالْعَسْكَرِ وَخَرَجْتُ بِبَغْدَادَ إِلَى الْعِيدِ۔

اسحاق جلاب سے مروی ہے کہ میں نے سامرہ میں امام علی نقی علیہ السلام کے لیے بہت سی بکریاں قربانی کے لیے خریدیں ۔ حضرت ایک وسیع اصطبل میں لے گئے جسے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ پھر حضرت کے حکم کے مطابق ہر شخص کے نام کی بکری جدا کرنے لگا پھر حضرت نے مجھے امام محمد تقی اور ان کی والدہ وغیرہ کے پاس بھیجا۔ اس کے بعد میں نے حضرت سے بغداد واپس جانے اور اپنے والد سے ملنے کے لیے اجازت چاہی۔ یہ یوم ترویہ تھا۔ حضرت نے فرمایا کل ہمارے پاس رہو پھر چلے جانا۔ میں ٹھہر گیا یوم عرفہ میں حضرت ہی کے پاس رہا۔ صبح کو عید الضحیٰ تھی جب صبح ہوئی تو حضرت میرے پاس آئے اور فرمایا اے اسحاق اٹھ، میں کھڑا ہو گیا۔ آنکھ کھولی تو میں بغداد میں اپنے مکان کے دروازہ پر تھا۔ اندر داخل ہو کر میں اپنے والد اور اعزہ سے ملا میں نے ان سے کہا عرفہ میں نے تو عسکر سامرہ میں کیا اور عید بغداد میں کی۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الطَّاهِرِيِّ قَالَ مَرِضَ الْمُتَوَكِّلُ مِنْ خُرَاجٍ خَرَجَ بِهِ وَأَشْرَفَ مِنْهُ عَلَى الْهَلاكِ فَلَمْ يَجْسُرْ أَحَدٌ أَنْ يَمَسَّهُ بِحَدِيدَةٍ فَنَذَرَتْ أُمُّهُ إِنْ عُوفِيَ أَنْ تَحْمِلَ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ مَالاً جَلِيلاً مِنْ مَالِهَا وَقَالَ لَهُ الْفَتْحُ بْنُ خَاقَانَ لَوْ بَعَثْتَ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَسَأَلْتَهُ فَإِنَّهُ لا يَخْلُو أَنْ يَكُونَ عِنْدَهُ صِفَةٌ يُفَرِّجُ بِهَا عَنْكَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ وَوَصَفَ لَهُ عِلَّتَهُ فَرَدَّ إِلَيْهِ الرَّسُولُ بِأَنْ يُؤْخَذَ كُسْبُ الشَّاةِ فَيُدَافَ بِمَاءِ وَرْدٍ فَيُوضَعَ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَجَعَ الرَّسُولُ وَأَخْبَرَهُمْ أَقْبَلُوا يَهْزَءُونَ مِنْ قَوْلِهِ فَقَالَ لَهُ الْفَتْحُ هُوَ وَالله أَعْلَمُ بِمَا قَالَ وَأَحْضَرَ الْكُسْبَ وَعَمِلَ كَمَا قَالَ وَوَضَعَ عَلَيْهِ فَغَلَبَهُ النَّوْمُ وَسَكَنَ ثُمَّ انْفَتَحَ وَخَرَجَ مِنْهُ مَا كَانَ فِيهِ وَبُشِّرَتْ أُمُّهُ بِعَافِيَتِهِ فَحَمَلَتْ إِلَيْهِ عَشَرَةَ آلافِ دِينَارٍ تَحْتَ خَاتَمِهَا ثُمَّ اسْتَقَلَّ مِنْ عِلَّتِهِ فَسَعَى إِلَيْهِ الْبَطْحَائِيُّ الْعَلَوِيُّ بِأَنَّ أَمْوَالاً تُحْمَلُ إِلَيْهِ وَسِلاحاً فَقَالَ لِسَعِيدٍ الْحَاجِبِ اهْجُمْ عَلَيْهِ بِاللَّيْلِ وَخُذْ مَا تَجِدُ عِنْدَهُ مِنَ الامْوَالِ وَالسِّلاحِ وَاحْمِلْهُ إِلَيَّ قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَقَالَ لِي سَعِيدٌ الْحَاجِبُ صِرْتُ إِلَى دَارِهِ بِاللَّيْلِ وَمَعِي سُلَّمٌ فَصَعِدْتُ السَّطْحَ فَلَمَّا نَزَلْتُ عَلَى بَعْضِ الدَّرَجِ فِي الظُّلْمَةِ لَمْ أَدْرِ كَيْفَ أَصِلُ إِلَى الدَّارِ فَنَادَانِي يَا سَعِيدُ مَكَانَكَ حَتَّى يَأْتُوكَ بِشَمْعَةٍ فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ أَتَوْنِي بِشَمْعَةٍ فَنَزَلْتُ فَوَجَدْتُهُ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ وَقَلَنْسُوَةٌ مِنْهَا وَسَجَّادَةٌ عَلَى حَصِيرٍ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمْ أَشُكَّ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فَقَالَ لِي دُونَكَ الْبُيُوتَ فَدَخَلْتُهَا وَفَتَّشْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ فِيهَا شَيْئاً وَوَجَدْتُ الْبَدْرَةَ فِي بَيْتِهِ مَخْتُومَةً بِخَاتَمِ أُمِّ الْمُتَوَكِّلِ وَكِيساً مَخْتُوماً وَقَالَ لِي دُونَكَ الْمُصَلَّى فَرَفَعْتُهُ فَوَجَدْتُ سَيْفاً فِي جَفْنٍ غَيْرِ مُلَبَّسٍ فَأَخَذْتُ ذَلِكَ وَصِرْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَى خَاتَمِ أُمِّهِ عَلَى الْبَدْرَةِ بَعَثَ إِلَيْهَا فَخَرَجَتْ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَنِي بَعْضُ خَدَمِ الْخَاصَّةِ أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ كُنْتُ قَدْ نَذَرْتُ فِي عِلَّتِكَ لَمَّا أَيِسْتُ مِنْكَ إِنْ عُوفِيتَ حَمَلْتُ إِلَيْهِ مِنْ مَالِي عَشَرَةَ آلافِ دِينَارٍ فَحَمَلْتُهَا إِلَيْهِ وَهَذَا خَاتَمِي عَلَى الْكِيسِ وَفَتَحَ الْكِيسَ الاخَرَ فَإِذَا فِيهِ أَرْبَعُمِائَةِ دِينَارٍ فَضَمَّ إِلَى الْبَدْرَةِ بَدْرَةً أُخْرَى وَأَمَرَنِي بِحَمْلِ ذَلِكَ إِلَيْهِ فَحَمَلْتُهُ وَرَدَدْتُ السَّيْفَ وَالْكِيسَيْنِ وَقُلْتُ لَهُ يَا سَيِّدِي عَزَّ عَلَيَّ فَقَالَ لِي سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ۔

راوی کہتا ہے کہ متوکل کے دمل نکلا جس کی تکلیف سے وہ مرنے کے قریب ہو گیا ۔ کسی کو اتنی جسارت نہ ہوئی کہ نشتر سے شگاف دے دے۔ اس کے ماں نے نذر کی کہ اگر شفا ہو جائے گی تو اپنے مال سے بہت سا مال حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو دے گی۔ فتح ابن خاقان وزیرِ متوکل نے کہا کہ کسی امام کے پاس بھیجا جائے اور علاج کے لیے کہا جائے ممکن ہے ان کے پاس کوئی ایسا علاج ہو کہ جس سے آپ کو سکون حاصل ہو جائے۔ چنانچہ ایک آدمی امام علیہ السلام کے پاس بھیجا اور اس نے حال بیان کیا۔ وہ شخص لوٹ کر آیا اور کہا امام علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بکری کی مینگنی کو عرقِ گلاب میں ملایا جائے اور لگدی بنا کر دمل پر رکھی جائے۔ لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ فتح نے کہا ایسا نہ کرو اعلمِ زمانہ ہیں جو کچھ فرمایا ہے اس کا اثر جانتے ہیں۔ پس مینگنی منگوا کر حسبِ فرمودہ امام عمل کیا گیا۔ جب لگدی کو پھوڑے تو نیند غالب ہوئی اور سکون ملا اور پھوڑا پھوٹ گیا اور مواد باہر آ گیا۔
اس کی ماں کو صحت کی بشارت دی گئی تو اس نے حضرت کے پاس دس ہزار دینا بھیجے اور اپنی مہر لگا دی۔ جب متوکل اچھا ہو گیا تو بطحیٰ کے ایک علوی نے کہا کہ امام کے پاس لوگ ہتھیار اور مال لاتے ہیں اس نے اپنے دربان حاحب سے کہا کہ رات کو چھاپہ مارو اور جو کچھ گھر میں ہو اسے لے آؤ از قسم مال و ہتھیار۔ ابراہیم بن محمد راوی ہے کہ مجھ سے سعید حاحب نے کہا میں رات کو حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے گھر گیا میرے ساتھ سیڑھی تھی۔ میں چھت پر چڑھا جب میں اترا تو تاریکی کی وجہ سے مجھے زینہ نظر نہ آیا اور سمجھ میں نہ آیا کہ گھر میں کیسے پہنچوں۔ حضرت نے آواز دی اے سعید ٹھہر جا شمع آتی ہے۔ میں ٹھہر گیا۔ شمع آئی تو میں گھر کے اندر گیا دیکھا کہ حضرت اونی جبہ پہنے ہیں اور اسی کی ٹوپی ہے اور بوریے کا مصلیٰ ہے مجھے یقین ہوا کہ حضرت نماز پڑھ رہے تھے۔ مجھ سے فرمایا گھر کے سب حصے تیرے سامنے ہیں میں نے کونہ کونہ تلاش کیا۔ سوائے اس کے کچھ نہ آیا کہ متوکل کی ماں کی چند مہر کردہ ہمیانیاں اور ایک تھیلہ مہر کردہ تھا۔ فرمایا اس مصلے کو بھی اٹھا کر دیکھ لو میں نے دیکھا تو ایک تلوار کپڑے میں لپٹی ہوئی بے نیام تھی۔ یہ سب لے کر متوکل کے پاس گیا۔ جب اس نے ہمیانوں پر اپنی ماں کی مہر دیکھی تو اس کے پاس کسی کو بھیجا۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے ایک خاص خادم نے خبر دی کہ اس نے کہا میں جب تیری بیماری سے مایوس ہو گئی تھی یہ نذر مانی تھی کہ جب تجھ کو شفا ہو جائے گی تو میں امام علی نقی کو دس ہزار دینار دوں گی چنانچہ میں نے بھجوا دیئے یہ مہر میری ہی ہے اور جب تھیلہ کھولا تو اس میں چار ہزار دینار تھے۔ متوکل نے ایک ہمیانی کا اور اضافہ کر کے مجھ سے کہا اسے حضرت کے پاس لے جا۔ میں وہ تھیلے اور تلوار لے کر حضرت کے پاس آیا اور حضرت سے کہا میرے اوپر اپنا پہلا آنا شاق تھا۔ فرمایا ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ ان کا حشر کیا ہوا۔

حدیث نمبر 5

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ النَّوْفَلِيِّ قَالَ قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ إِنَّ أَبَا الْحَسَنِ كَتَبَ إِلَيْهِ يَا مُحَمَّدُ أَجْمِعْ أَمْرَكَ وَخُذْ حِذْرَكَ قَالَ فَأَنَا فِي جَمْعِ أَمْرِي وَلَيْسَ أَدْرِي مَا كَتَبَ إِلَيَّ حَتَّى وَرَدَ عَلَيَّ رَسُولٌ حَمَلَنِي مِنْ مِصْرَ مُقَيَّداً وَضَرَبَ عَلَى كُلِّ مَا أَمْلِكُ وَكُنْتُ فِي السِّجْنِ ثَمَانَ سِنِينَ ثُمَّ وَرَدَ عَلَيَّ مِنْهُ فِي السِّجْنِ كِتَابٌ فِيهِ يَا مُحَمَّدُ لا تَنْزِلْ فِي نَاحِيَةِ الْجَانِبِ الْغَرْبِيِّ فَقَرَأْتُ الْكِتَابَ فَقُلْتُ يَكْتُبُ إِلَيَّ بِهَذَا وَأَنَا فِي السِّجْنِ إِنَّ هَذَا لَعَجَبٌ فَمَا مَكَثْتُ أَنْ خُلِّيَ عَنِّي وَالْحَمْدُ لله قَالَ وَكَتَبَ إِلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ يَسْأَلُهُ عَنْ ضِيَاعِهِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ سَوْفَ تُرَدُّ عَلَيْكَ وَمَا يَضُرُّكَ أَنْ لا تُرَدَّ عَلَيْكَ فَلَمَّا شَخَصَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ إِلَى الْعَسْكَرِ كُتِبَ إِلَيْهِ بِرَدِّ ضِيَاعِهِ وَمَاتَ قَبْلَ ذَلِكَ قَالَ وَكَتَبَ أَحْمَدُ بْنُ الْخَضِيبِ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْفَرَجِ يَسْأَلُهُ الْخُرُوجَ إِلَى الْعَسْكَرِ فَكَتَبَ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) يُشَاوِرُهُ فَكَتَبَ إِلَيْهِ اخْرُجْ فَإِنَّ فِيهِ فَرَجَكَ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى فَخَرَجَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلا يَسِيراً حَتَّى مَات۔

علی بن محمد نوفلی سے مروی ہے کہ مجھ سے محمد بن الفرج نے کہا کہ ابوالحسن علیہ السلام نے اسے لکھا، اے محمد جو تیرا اثاثہ ہے اسے جمع کر اور احتیاط سے رہ۔ وہ کہتا ہے میں اپنا سامان جمع کرنے لگا لیکن میری سمجھ میں نہ آیا کہ حضرت نے ایسا کیوں لکھا۔ میرے پاس کچھ دن بعد بادشاہ کا پیغام آیا اور مجھے قید کر کے مصر لے چلا اور میری املاک پر قبضہ کر لیا اور میں قید خانہ میں آٹھ سال رہا۔ قیدخانہ میں حضرت کا خط پھر ملا اس میں لکھا تھا اے محمد مغرب کی سمت منزل نہ کرنا۔ میں نے خط پڑھا۔ دل میں کہا جب میں قید خانہ میں ہوں تو حضرت نے یہ خط کیوں لکھا بڑے تعجب کا مقام ہے۔ چند روز بعد میں رہا ہو گیا الحمد للہ۔ محمد بن الفرج نے اپنی زمینوں کے متعلق حضرت سے سوال کیا۔ آپ نے اسے لکھا کہ عنقریب اسے واپس مل جائیں گے اور اگر نہ بھی ملیں گی تو تجھے نقصان ہو گا اور وہ اس سے پہلےے ہی مر گیا۔ احمد بن خضیب نے محمد بن الفرج سے درخواست کی کہ وہ مقام عسکر سے باہر نکل جائے۔ اس نے امام علی نقی سے مشورہ کیا ۔ آپ نے لکھا تم باہر چلے جاؤ انشاء اللہ اس میں تمہارے لیے بہتری ہو گی چنانچہ وہ وہاں سے نکل آئے اور کچھ عرصہ بعد انتقال کیا۔

حدیث نمبر 6

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو يَعْقُوبَ قَالَ رَأَيْتُهُ يَعْنِي مُحَمَّداً قَبْلَ مَوْتِهِ بِالْعَسْكَرِ فِي عَشِيَّةٍ وَقَدِ اسْتَقْبَلَ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَنَظَرَ إِلَيْهِ وَاعْتَلَّ مِنْ غَدٍ فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ عَائِداً بَعْدَ أَيَّامٍ مِنْ عِلَّتِهِ وَقَدْ ثَقُلَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ بِثَوْبٍ فَأَخَذَهُ وَأَدْرَجَهُ وَوَضَعَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ قَالَ فَكُفِّنَ فِيهِ قَالَ أَحْمَدُ قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ رَأَيْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) مَعَ ابْنِ الْخَضِيبِ فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْخَضِيبِ سِرْ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ لَهُ أَنْتَ الْمُقَدَّمُ فَمَا لَبِثَ إِلا أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ حَتَّى وُضِعَ الدَّهَقُ عَلَى سَاقِ ابْنِ الْخَضِيبِ ثُمَّ نُعِيَ قَالَ رُوِيَ عَنْهُ حِينَ أَلَحَّ عَلَيْهِ ابْنُ الْخَضِيبِ فِي الدَّارِ الَّتِي يَطْلُبُهَا مِنْهُ بَعَثَ إِلَيْهِ لاقْعُدَنَّ بِكَ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ مَقْعَداً لا يَبْقَى لَكَ بَاقِيَةٌ فَأَخَذَهُ الله عَزَّ وَجَلَّ فِي تِلْكَ الايَّامِ۔

احمد بن محمد نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا ابو یعقوب نے کہ میں نے ملاقات کی محمد سے عسکر میں اس کے مرنے سے پہلے وہ امام علی نقی علیہ السلام کے استقبال کو آیا تھا ۔ جب حضرت سامرہ وارد ہوئے تھے حضرت نے اس کی طرف دیکھا۔ دوسرے روز وہ بیمار ہوا میں اس کی عیادت کے لیے گیا چند روز بعد اس نے بیان کیا کہ حضرت نے اس کے پاس ایک کپڑا بھیجا۔ اس نے لے لیا اور لپیٹ کر اس کو سر کے نیچے رکھ لیا۔ اسی میں اس کو کفن پہنایا گیا۔ احمد نے روایت کی ہے کہ ابو یعقوب نے بیان کیا کہ میں نے ابوالحسن کو ابن خضیب کے ساتھ دیکھا۔ اس نے کہا آپ جائیے۔ فرمایا تو مجھ سے پہلے جائے گا۔ چار روز نہ گزرے کہ ابن خضیب (سردار سلطنت عباسیہ) کا پیر شکنجہ میں دے دیا گیا پھر اس کے مرنے کی خبر آ گئی۔ احمد نے ابو یعقوب سے روایت کی ہے کہ جب ابن خضیب نے امام علیہ السلام سے بجز مکان مسکونہ خالی کرنے کو کہا تو آپ نے اس سے کہلا بھیجا کہ خدا تیرے لیے کوئی جگہ باقی نہ چھوڑے گا۔ پس چند ہی روز بعد حکومت کے عتاب میں آ گیا اور وہ شکنجہ میں کیا گیا۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّد بْنُ يَحْيَى عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا قَالَ أَخَذْتُ نُسْخَةَ كِتَابِ الْمُتَوَكِّلِ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الثَّالِثِ (عَلَيْهِ السَّلام) مِنْ يَحْيَى بْنِ هَرْثَمَةَ فِي سَنَةِ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَتَيْنِ وَهَذِهِ نُسْخَتُهُ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَارِفٌ بِقَدْرِكَ رَاعٍ لِقَرَابَتِكَ مُوجِبٌ لِحَقِّكَ يُقَدِّرُ مِنَ الامُورِ فِيكَ وَفِي أَهْلِ بَيْتِكَ مَا أَصْلَحَ الله بِهِ حَالَكَ وَحَالَهُمْ وَثَبَّتَ بِهِ عِزَّكَ وَعِزَّهُمْ وَأَدْخَلَ الْيُمْنَ وَالامْنَ عَلَيْكَ وَعَلَيْهِمْ يَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَاءَ رَبِّهِ وَأَدَاءَ مَا افْتُرِضَ عَلَيْهِ فِيكَ وَفِيهِمْ وَقَدْ رَأَى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ صَرْفَ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ عَمَّا كَانَ يَتَوَلاهُ مِنَ الْحَرْبِ وَالصَّلاةِ بِمَدِينَةِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) إِذْ كَانَ عَلَى مَا ذَكَرْتَ مِنْ جَهَالَتِهِ بِحَقِّكَ وَاسْتِخْفَافِهِ بِقَدْرِكَ وَعِنْدَ مَا قَرَفَكَ بِهِ وَنَسَبَكَ إِلَيْهِ مِنَ الامْرِ الَّذِي قَدْ عَلِمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ بَرَاءَتَكَ مِنْهُ وَصِدْقَ نِيَّتِكَ فِي تَرْكِ مُحَاوَلَتِهِ وَأَنَّكَ لَمْ تُؤَهِّلْ نَفْسَكَ لَهُ وَقَدْ وَلَّى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مَا كَانَ يَلِي مِنْ ذَلِكَ مُحَمَّدَ بْنَ الْفَضْلِ وَأَمَرَهُ بِإِكْرَامِكَ وَتَبْجِيلِكَ وَالانْتِهَاءِ إِلَى أَمْرِكَ وَرَأْيِكَ وَالتَّقَرُّبِ إِلَى الله وَإِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ بِذَلِكَ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مُشْتَاقٌ إِلَيْكَ يُحِبُّ إِحْدَاثَ الْعَهْدِ بِكَ وَالنَّظَرَ إِلَيْكَ فَإِنْ نَشِطْتَ لِزِيَارَتِهِ وَالْمُقَامِ قِبَلَهُ مَا رَأَيْتَ شَخَصْتَ وَمَنْ أَحْبَبْتَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ وَمَوَالِيكَ وَحَشَمِكَ عَلَى مُهْلَةٍ وَطُمَأْنِينَةٍ تَرْحَلُ إِذَا شِئْتَ وَتَنْزِلُ إِذَا شِئْتَ وَتَسِيرُ كَيْفَ شِئْتَ وَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ يَكُونَ يَحْيَى بْنُ هَرْثَمَةَ مَوْلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْجُنْدِ مُشَيِّعِينَ لَكَ يَرْحَلُونَ بِرَحِيلِكَ وَيَسِيرُونَ بِسَيْرِكَ وَالامْرُ فِي ذَلِكَ إِلَيْكَ حَتَّى تُوَافِيَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا أَحَدٌ مِنْ إِخْوَتِهِ وَوُلْدِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ وَخَاصَّتِهِ أَلْطَفَ مِنْهُ مَنْزِلَةً وَلا أَحْمَدَ لَهُ أُثْرَةً وَلا هُوَ لَهُمْ أَنْظَرَ وَعَلَيْهِمْ أَشْفَقَ وَبِهِمْ أَبَرَّ وَإِلَيْهِمْ أَسْكَنَ مِنْهُ إِلَيْكَ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى وَالسَّلامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ وَكَتَبَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَصَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَسَلَّم۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے 243 ہجری میں یحییٰ بن ہرثمہ سے وہ خط لیا جو متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کے نام لکھا تھا جس کا مضمون نہ تھا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اما بعد امیر المومنین آپ کے حق کا عارف ہے اور آپ کی قرابت کا رعایت کرنے والا ہےاور قبول کرنے والا ہے آپ کے حق کا جو آپ کے اور آپ کے اہل بیت کے لیے ہے تاکہ آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے لیے باعث اصلاح ہو اور آپ کی اور ان کی عزت باقی رہے اور آپ اور وہ برکت اور سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ میرا مقصد اس سے اپنے رب کی رضا حاصل کرنا ہے اور آپ کے بعد آپ کے اہل بیت کے متعلق جو میرا فرض خدا نے قرار دیا ہے اسے پورا کروں۔ امیر المومنین نے مناسب سمجھا برطرف کر دینا عبداللہ بن محمد کا جو مدینہ رسول میں جنگ اور نماز پڑھانے کا ذمے دار تھا کیونکہ جیسا آپ نے ذکر کیا ہے اس نے اپنی جہالت سے آپ کے حق کا انکار کیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کو گھٹایا ہے اور ایسی باتیں آپ سے منسوب کی ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ آپ کی ذات ان سے بری ہے اور ایسے اداروں کے ترک میں آپ کو نیت سچی ہے اور آپ نے اس کے لیے اپنے نفس کو آمادہ نہیں کیا اور امیر المومنین نے ان امور پر غور کر کے محمد بن فضل کو عبداللہ بن محمد کی جگہ والیِ مدینہ بنایا اور حکم دیا کہ وہ آپ کی تعظیم و تکریم پوری طرح بنا لائے اور آپ کے حکم و رائے پر عمل کرے اور ایسا کر کے خدا اور امیر المومنین سے تقرب حاصل کرے۔ امیر المومنین کو آپ سے ملنے کا بڑا اشتیاق ہے وہ عہدِ محبت کو تارہ کرنا چاہتا ہے اور اس کی نظر آپ کی طرف ہے اگر آپ اس کی ملاقات سے خوش ہوں اور اس کے پاس قیام پسند کریں تو آپ اپنی رائے کے مطابق معہ ان کے جن کو آپ اپنے خاندان میں دوست رکھتے ہوں یا جو آپ کے نوکر چاکر ہوں پورری فرصت اور اطمینان کے ساتھ چلے آئیں آپ کو پورا اختیار ہو گا جب چاہیں روانہ ہوں جہاں چاہیں اثنائے سفر میں منزل کریں جب چاہیں وہاں سے کوچ کریں۔ اگر آپ پسند کریں تو یحیٰ بن ہرثمہ غلام امیر المومنین اور اس کے ساتھ والے فوجی آپ کے پیچھے پیچھے چلتے اور منزلوں پر قیام کرتے رہیں یہ سب آپ کی رائے پر موقوف ہے یہاں تک کہ میرے پاس پہنچ جائیں جب آپ یہاں پہنچیں گے تو میرے بھائی میرے لڑکے میرے خاندان والے اور نوکر چاکر ازروئے منزلت آپ پر سب سے زیادہ مہربان اور آپ کے افعال کے مداح سب سے زیادہ آپ پر نظر رکھنے والے سب سے زیادہ آپ پر شفیق و مہربان ہوں گے اور آپ کے خاندان والوں کے لیے انشاء اللہ سب سے زیادہ باعثِ سکون و اطمینان ثابت ہوں گے یہ خط لکھا ہے ابراہیم العباس نے اور درود و سلام ہو محمد و آل محمد پر (ایسے ایسے جیلوں میں ہمارے آئمہ کو بلایا جاتا تھا اور جب وہ آ جاتے تھے تو ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور قبد و بند میں رکھ کر اخرکار زہر سے شہید کیے جاتے تھے)۔

حدیث نمبر 8

الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَسَنِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الطَّيِّبِ الْمُثَنَّى يَعْقُوبُ بْنُ يَاسِرٍ قَالَ كَانَ الْمُتَوَكِّلُ يَقُولُ وَيْحَكُمْ قَدْ أَعْيَانِي أَمْرُ ابْنِ الرِّضَا أَبَى أَنْ يَشْرَبَ مَعِي أَوْ يُنَادِمَنِي أَوْ أَجِدَ مِنْهُ فُرْصَةً فِي هَذَا فَقَالُوا لَهُ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ مِنْهُ فَهَذَا أَخُوهُ مُوسَى قَصَّافٌ عَزَّافٌ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ وَيَتَعَشَّقُ قَالَ ابْعَثُوا إِلَيْهِ فَجِيئُوا بِهِ حَتَّى نُمَوِّهَ بِهِ عَلَى النَّاسِ وَنَقُولَ ابْنُ الرِّضَا فَكَتَبَ إِلَيْهِ وَأُشْخِصَ مُكَرَّماً وَتَلَقَّاهُ جَمِيعُ بَنِي هَاشِمٍ وَالْقُوَّادُ وَالنَّاسُ عَلَى أَنَّهُ إِذَا وَافَى أَقْطَعَهُ قَطِيعَةً وَبَنَى لَهُ فِيهَا وَحَوَّلَ الْخَمَّارِينَ وَالْقِيَانَ إِلَيْهِ وَوَصَلَهُ وَبَرَّهُ وَجَعَلَ لَهُ مَنْزِلاً سَرِيّاً حَتَّى يَزُورَهُ هُوَ فِيهِ فَلَمَّا وَافَى مُوسَى تَلَقَّاهُ أَبُو الْحَسَنِ فِي قَنْطَرَةِ وَصِيفٍ وَهُوَ مَوْضِعٌ تُتَلَقَّى فِيهِ الْقَادِمُونَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَوَفَّاهُ حَقَّهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَحْضَرَكَ لِيَهْتِكَكَ وَيَضَعَ مِنْكَ فَلا تُقِرَّ لَهُ أَنَّكَ شَرِبْتَ نَبِيذاً قَطُّ فَقَالَ لَهُ مُوسَى فَإِذَا كَانَ دَعَانِي لِهَذَا فَمَا حِيلَتِي قَالَ فَلا تَضَعْ مِنْ قَدْرِكَ وَلا تَفْعَلْ فَإِنَّمَا أَرَادَ هَتْكَكَ فَأَبَى عَلَيْهِ فَكَرَّرَ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُ لا يُجِيبُ قَالَ أَمَا إِنَّ هَذَا مَجْلِسٌ لا تُجْمَعُ أَنْتَ وَهُوَ عَلَيْهِ أَبَداً فَأَقَامَ ثَلاثَ سِنِينَ يُبَكِّرُ كُلَّ يَوْمٍ فَيُقَالُ لَهُ قَدْ تَشَاغَلَ الْيَوْمَ فَرُحْ فَيَرُوحُ فَيُقَالُ قَدْ سَكِرَ فَبَكِّرْ فَيُبَكِّرُ فَيُقَالُ شَرِبَ دَوَاءً فَمَا زَالَ عَلَى هَذَا ثَلاثَ سِنِينَ حَتَّى قُتِلَ الْمُتَوَكِّلُ وَلَمْ يَجْتَمِعْ مَعَهُ عَلَيْهِ۔

راوی کہتا ہے کہ متوکل نے اپنے درباریوں سے کہا وائے ہو تم پر تم کوئی تدبیر میری پریشانی دور کرنے کی نہیں کرتے۔ امام علی نقی نے مجھے عاجز کر رکھا ہے۔ نہ تو وہ میرے ساتھ شراب پیتے ہیں نہ میری صحبت میں بیٹھتے ہیں نہ اس معاملے میں وہ کوئی فرصت کا وقت نکالتے ہیں۔ انھوں نے کہا یہ نہ سہی ان کے بھائی موسیٰ سہی جو نہایت لاابالی اور عیاش آدمی ہیں۔ شراب پیتے ہیں عشق بازی بھی کرتے ہیں۔متوکل نے کہا اسے بلاؤ تاکہ اس کی وجہ سے ہم دھوکہ دے سکیں۔ لوگوں میں یہ پروپیگنڈہ کریں کہ یہ بھی ابن الرضا ہیں پس ان کو خط لکھا گیا اور بڑی عزت سے بلایا گیا۔ تمام بنی ہاشم سرداران لشکر اور عام لوگوں کو انھوں نے بتایا کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو زمین کو کوئی حصہ ان کے نام الاٹ کیا جائے گا اور اس پر عمارت بنوائی جائے گی شراب خوروں اور گانے بجانے والی عورتوں کو ان کے پاس رکھا جائے گا اور بہت سی مراعات حاصل ہونگی اور ایسا شاندار مکان ملے گا جس میں متوکل اس کے پاس آئے جائے موسیٰ پہنچے تو امام علی نقی علیہ السلام ان سے وصیت کے مقام پر ملے جہاں آنے جانے والوں کا خیر مقدم کیا جاتا تھا۔ آپ نے سلام کر کے پورا حق تعظیم ادا کیا اور فرمایا اس شخص (متوکل) نے تم کو ذلیل کرنے کے لیے بلایا ہے تاکہ تمہارے مرتبے کو بھی پست کرے۔ تم ہرگز اس کا اقرار نہ کرنا کہ میں نے کبھی شراب پی ہے۔ موسیٰ نے کہا اگر اس نے بلایا ہی اس لیے ہے تو۔ فرمایا دیکھو اپنی آبرو ریزی نہ کرنا اس نے تمہاری ہتک کا ارادہ کیا ہے۔ موسیٰ نے حضرت کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حضرت نے مکرر سمجھایا جب کوئی جواب نہ دیا تو فرمایا دیکھو تمہیں اور اسے ایک جگہ بیٹھنے کا موقع ہی نہ ملے گا۔ موسیٰ تین سال رہے ہر روز صبح کو جاتے تھے اور دربان یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ آج بادشاہ زیادہ مشغول ہے شام کو جاتے تو وہ کہتا شراب میں مست ہیں صبح کو جاتے تو معلوم ہوتا دوا کھائے پڑے ہیں غرض اسی طرح تین سال گزر گئے اور اس سے ملنے کا موقع نہ ملا۔

حدیث نمبر 9

بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ مَرِضْتُ فَدَخَلَ الطَّبِيبُ عَلَيَّ لَيْلاً فَوَصَفَ لِي دَوَاءً بِلَيْلٍ آخُذُهُ كَذَا وَكَذَا يَوْماً فَلَمْ يُمَكِّنِّي فَلَمْ يَخْرُجِ الطَّبِيبُ مِنَ الْبَابِ حَتَّى وَرَدَ عَلَيَّ نَصْرٌ بِقَارُورَةٍ فِيهَا ذَلِكَ الدَّوَاءُ بِعَيْنِهِ فَقَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ يُقْرِئُكَ السَّلامَ وَيَقُولُ لَكَ خُذْ هَذَا الدَّوَاءَ كَذَا وَكَذَا يَوْماً فَأَخَذْتُهُ فَشَرِبْتُهُ فَبَرَأْتُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ يَأْبَى الطَّاعِنُ أَيْنَ الْغُلاةُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ۔

راوی محمد بن علی نے بیان کیا کہ خبر دی مجھے زید بن علی بن الحسین بن زید نے کہ میں بیمار تھا طبیب آیا رات کے وقت اور اور ایک دوا کے متعلق کہ اسے دن میں ایسے ایسے استعمال کرنا۔ میرے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ طبیب دروازہ سےنکلا ہی تھا کہ نصر ایک شیشی لے کر آیا جس میں وہی دوا تھی۔ اس نے کہا امام علی نقی علیہ السلام نے سلام کہا ہے اور پیغام دیا ہے کہ اسے دن میں اسی طرح استعمال کرنا۔ میں نے لے لیا اور پیا۔ مجھے شفا ہو گئی۔ محمد بن علی نے کہا کہ مجھ سے زید بن علی نے کہا کہ طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ شیعہ غالیوں کی حدیث ہے کہ وہ آئمہ کو عالم الغیب جانتے ہیں انھیں آگاہ ہونا چاہیے کہ یہ مکاشفہ نہیں بلکہ قرآن سے استنباط ہے۔