عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ بَلاءً الأنْبِيَاءُ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الأمْثَلُ فَالأمْثَلُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے لوگوں میں سب سے زیادہ سخت امتحان انبیاء کا ہے اس کے بعد جو ان سے قریب ہوں یعنی اوصیائے انبیاء کا ہے اس کے بعد وہ مومنین جو افضل ہوں یعنی جس کا مرتبہ ایمان میں زیادہ ہو گا اسی قدر اس کی ابتلا سخت ہو گی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ ذُكِرَ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) الْبَلاءُ وَمَا يَخُصُّ الله عَزَّ وَجَلَّ بِهِ الْمُؤْمِنَ فَقَالَ سُئِلَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَنْ أَشَدُّ النَّاسِ بَلاءً فِي الدُّنْيَا فَقَالَ النَّبِيُّونَ ثُمَّ الأمْثَلُ فَالأمْثَلُ وَيُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ بَعْدُ عَلَى قَدْرِ إِيمَانِهِ وَحُسْنِ أَعْمَالِهِ فَمَنْ صَحَّ إِيمَانُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ اشْتَدَّ بَلاؤُهُ وَمَنْ سَخُفَ إِيمَانُهُ وَضَعُفَ عَمَلُهُ قَلَّ بَلاؤُهُ۔
راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے بلا کا اور جس چیز سے مومن کو مخصوص کیا گیا ہے اس کا ذکر کیا گیا۔ حضرت نے فرمایا رسول اللہ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ سخت امتحان کس کا ہوتا ہے حضرت نے فرمایا انبیاء کا پھر اوصیاء کا پھر مومنین اور اس کے بعد ایمان اور حسن عمل معرض امتحان میں آئیں گے جس کا امتحان اور عمل صحیح ہو گا اتنی ہی اس کی مصیبت سخت ہو گی اور جس کا ایمان ہلکا اور کمزور ہو گا اتنی ہی اس کی مصیبت کم ہو گی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ عَظِيمَ الأجْرِ لَمَعَ عَظِيمِ الْبَلاءِ وَمَا أَحَبَّ الله قَوْماً إِلا ابْتَلاهُمْ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جتنی مصیبت زیادہ ہو گی اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا خدا جن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ان کو مصیبت میں ضرور مبتلا کرتا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ بَلاءً الأنْبِيَاءُ ثُمَّ الأوْصِيَاءُ ثُمَّ الأمَاثِلُ فَالأمَاثِلُ۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبت انبیاء پر آتی ہے پھر اوصیاء پر پھر درجہ بدرجہ مومنین پر۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ ابْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ لله عَزَّ وَجَلَّ عِبَاداً فِي الأرْضِ مِنْ خَالِصِ عِبَادِهِ مَا يُنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ تُحْفَةً إِلَى الأرْضِ إِلا صَرَفَهَا عَنْهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ وَلا بَلِيَّةً إِلا صَرَفَهَا إِلَيْهِمْ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے خدا کے کچھ خالص بندے روئے زمین پر ہیں جب آسمان سے کوئی تحفہ زمین پر نازل ہوتا ہے تو اس کو مومنین سے ہٹا کر دوسروں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور جب بلا نازل ہوتی ہے تو اس کا رخ مومنین کی طرف کر دیا جاتا ہے (یہ اس لیے ہوتا ہے کہ مومنین کے مراتب میں اضافہ ہو اور ان کے مراتب بڑھانے کا سبب پیدا ہو)۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُلْوَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّهُ قَالَ وَعِنْدَهُ سَدِيرٌ إِنَّ الله إِذَا أَحَبَّ عَبْداً غَتَّهُ بِالْبَلاءِ غَتّاً وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ يَا سَدِيرُ لَنُصْبِحُ بِهِ وَنُمْسِي۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جبکہ اس کے پاس سدیر بیٹھے تھے جب اللہ کسی کو دوست رکھتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں غمناک بنا دیتا ہے اسے سدیر ہم اور تم اسی حالت میں صبح و شام کرتے ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَلاءٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا أَحَبَّ عَبْداً غَتَّهُ بِالْبَلاءِ غَتّاً وَثَجَّهُ بِالْبَلاءِ ثَجّاً فَإِذَا دَعَاهُ قَالَ لَبَّيْكَ عَبْدِي لَئِنْ عَجَّلْتُ لَكَ مَا سَأَلْتَ إِنِّي عَلَى ذَلِكَ لَقَادِرٌ وَلَئِنِ ادَّخَرْتُ لَكَ فَمَا ادَّخَرْتُ لَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اسے بلا میں مبتلا کر کے غمزدہ بنا دیتا ہے اور مصیبت کی وجہ سے اپنی طرف بلاتا ہے جب وہ مومن دعا کرتا ہے تو خدا فرماتا ہے میرے بندے میں موجود ہوں جو تو نے مانگا ہے میں جلد اس کے دینے پر قادر ہوں۔ لیکن میں نے تیرے لیے ذخیرہ کیا ہے اور جو ذخیرہ کیا وہ تیرے لیے بہتر ہے۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ زَيْدٍ الزَّرَّادِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّ عَظِيمَ الْبَلاءِ يُكَافَأُ بِهِ عَظِيمُ الْجَزَاءِ فَإِذَا أَحَبَّ الله عَبْداً ابْتَلاهُ بِعَظِيمِ الْبَلاءِ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ عِنْدَ الله الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ الْبَلاءَ فَلَهُ عِنْدَ الله السَّخَطُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے سب سے بڑی مصیبت کا بدلہ بھی بڑا ہی ہوتا ہے جب اللہ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو سخت بلا میں مبتلا کرتا ہے پس جو اس پر راضی ہو گیا تو خدا بھی اس سے راضی ہو تا ہے اور جو ناخوش ہوا خدا بھی اس سے ناراض رہتا ہے۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ الْحُرِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّمَا يُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ فِي الدُّنْيَا عَلَى قَدْرِ دِينِهِ أَوْ قَالَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے دنیا میں مومن بقدر اپنے دین کے مبتلا کیا جاتا ہے اور ایک روایت میں ہے حسب دین۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى الْحَضْرَمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بُهْلُولِ بْنِ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُ بِمَنْزِلَةِ كِفَّةِ الْمِيزَانِ كُلَّمَا زِيدَ فِي إِيمَانِهِ زِيدَ فِي بَلائِهِ۔
فرمایا حضرت امام ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن مثل ترازو کے پلہ کے ہے جتنا ایمان زیادہ ہوتا ہے اتنی ہی مصیبت زیادہ ہوتی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ الْمُؤْمِنُ لا يَمْضِي عَلَيْهِ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً إِلا عَرَضَ لَهُ أَمْرٌ يَحْزُنُهُ يُذَكَّرُ بِهِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ مومن پر چالیس دن نہیں گزرتے کہ اس کو کوئی ایسا امر عارض ہوتا ہے جو اس کو محزون بنا دیتا ہے اور اس کی یاد میں رہتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ نَاجِيَةَ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الْمُغِيرَةَ يَقُولُ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لا يُبْتَلَى بِالْجُذَامِ وَلا بِالْبَرَصِ وَلا بِكَذَا وَلا بِكَذَا فَقَالَ إِنْ كَانَ لَغَافِلاً عَنْ صَاحِبِ يَاسِينَ إِنَّهُ كَانَ مُكَنَّعاً ثُمَّ رَدَّ أَصَابِعَهُ فَقَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى تَكْنِيعِهِ أَتَاهُمْ فَأَنْذَرَهُمْ ثُمَّ عَادَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْغَدِ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُبْتَلَى بِكُلِّ بَلِيَّةٍ وَيَمُوتُ بِكُلِّ مِيتَةٍ إِلا أَنَّهُ لا يَقْتُلُ نَفْسَهُ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ مغیرہ کہتا ہے کہ مومن جذام اور برص وغیرہ میں مبتلا نہیں ہوتا۔ فرمایا وہ غافل ہے صاحب یاسین (حبیب النجار) کے حال سے جو مومن تھا(سورہ یاسین میں اس کا ذکر ہے)۔ پھر امام نے اپنی انگلیوں کو موڑ کر بتلایا کہ اس طرح اس کی آدھی انگلیاں رہ گئیں تھیں۔ پھر فرمایا گویا میں دیکھ رہا ہوں اس کی آدھی انگلیوں کو جو جذام سے گر گئی تھیں۔وہ اہل انطاکیہ کے پاس آئے ان کو عذاب الہٰی سے ڈرایا۔ دوسرے روز پھر صبح کو انہیں سمجھانے گئے تو انھوں نے قتل کر دیا۔ پھر فرمایا مومن ہر بلا میں مبتلا ہوتا ہے اورر ہر طرح کی موت مرتا ہے مگر یہ کہ ترک تقیہ سے وہ اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرتا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ أَبِيهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأشْعَرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ الْمُؤْمِنَ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَبِأَفْضَلِ مَكَانٍ ثَلاثاً إِنَّهُ لَيَبْتَلِيهِ بِالْبَلاءِ ثُمَّ يَنْزِعُ نَفْسَهُ عُضْواً عُضْواً مِنْ جَسَدِهِ وَهُوَ يَحْمَدُ الله عَلَى ذَلِكَ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن اللہ کی طرف سے مراتب میں فضیلت رکھتا ہے۔ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ خدا اس کو بلا میں مبتلا کرتا ہے اس کی جان جب ایک ایک عضو سے نکلتی ہے تو وہ اس پر اللہ کی حمد کرتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لا يَبْلُغُهَا عَبْدٌ إِلا بِالإبْتِلاءِ فِي جَسَدِهِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ جنت میں ایک منزلت ہے جسے انسان نہیں پاتا جب تک اس کا جسم مبتلائے مصیبت نہ ہو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأشْعَرِيِّ عَنْ أَبِي يَحْيَى الْحَنَّاطِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ شَكَوْتُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا أَلْقَى مِنَ الأوْجَاعِ وَكَانَ مِسْقَاماً فَقَالَ لِي يَا عَبْدَ الله لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا لَهُ مِنَ الأجْرِ فِي الْمَصَائِبِ لَتَمَنَّى أَنَّهُ قُرِّضَ بِالْمَقَارِيضِ۔
ابی یعفور نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنے اس درد و غم کی شکایت کی جو مستقل طور پر رہتے ہیں۔ فرمایا اے عبداللہ اگر مومن یہ جان لے کہ مصائب میں اس کے لیے کیا کیا اجر ہیں تو ضرور وہ اس کی تمنا کرے کہ قینچیوں سے اس کا بدن کاٹ ڈالا جائے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ رِبَاطٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ أَهْلَ الْحَقِّ لَمْ يَزَالُوا مُنْذُ كَانُوا فِي شِدَّةٍ أَمَا إِنَّ ذَلِكَ إِلَى مُدَّةٍ قَلِيلَةٍ وَعَافِيَةٍ طَوِيلَةٍ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ اہل حق ہمیشہ سختی میں رہتے ہیں یہ سختی کم مدت رہتی ہے لیکن عافیت ان کی طویل ہوتی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ حُمْرَانَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَيَتَعَاهَدُ الْمُؤْمِنَ بِالْبَلاءِ كَمَا يَتَعَاهَدُ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بِالْهَدِيَّةِ مِنَ الْغَيْبَةِ وَيَحْمِيهِ الدُّنْيَا كَمَا يَحْمِي الطَّبِيبُ الْمَرِيضَ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ اللہ تعالیٰ مومن سے بلا کا معاملہ اسی طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے اہل سے بحالت غیبت ہدیہ بھیجنے کا معاہدہ کرتا ہے اور اللہ مومن کو دنیا سے اسی طرح بچانا چاہتا ہے جیسے طبیب اپنے مریض کو پرہیز کی ہدایت کرتا ہے۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْخَثْعَمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بُهْلُولٍ الْعَبْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ لَمْ يُؤْمِنِ الله الْمُؤْمِنَ مِنْ هَزَاهِزِ الدُّنْيَا وَلَكِنَّهُ آمَنَهُ مِنَ الْعَمَى فِيهَا وَالشَّقَاءِ فِي الآخِرَةِ۔
میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ اللہ تعالیٰ بندہ مومن کو دنیوی تکلیف سے امان نہیں دیتا بلکہ اس کو بچاتا ہے دنیا میں کور باطنی اور آخرت کی بدبختی سے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ نُعَيْمٍ الصَّحَّافِ عَنْ ذَرِيحٍ الْمُحَارِبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) يَقُولُ إِنِّي لأكْرَهُ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعَافَى فِي الدُّنْيَا فَلا يُصِيبَهُ شَيْءٌ مِنَ الْمَصَائِبِ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ علی بن الحسین علیہ السلام فرماتے تھے کہ میں کسی کے لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ دنیا میں عافیت سے رہے اور مصائب سے کوئی شے اس تک نہ پہنچے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ نُوحِ بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِي دَاوُدَ الْمُسْتَرِقِّ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) دُعِيَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِلَى طَعَامٍ فَلَمَّا دَخَلَ مَنْزِلَ الرَّجُلِ نَظَرَ إِلَى دَجَاجَةٍ فَوْقَ حَائِطٍ قَدْ بَاضَتْ فَتَقَعُ الْبَيْضَةُ عَلَى وَتِدٍ فِي حَائِطٍ فَثَبَتَتْ عَلَيْهِ وَلَمْ تَسْقُطْ وَلَمْ تَنْكَسِرْ فَتَعَجَّبَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مِنْهَا فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ أَ عَجِبْتَ مِنْ هَذِهِ الْبَيْضَةِ فَوَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا رُزِئْتُ شَيْئاً قَطُّ قَالَ فَنَهَضَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ طَعَامِهِ شَيْئاً وَقَالَ مَنْ لَمْ يُرْزَأْ فَمَا لله فِيهِ مِنْ حَاجَةٍ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے حضرت رسولِ خدا کی ایک شخص نے دعوت کی۔ جب حضرت اس کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ ایک مرغی نے دیوار پر انڈا دیا ہے وہ انڈا دیوار کی ایک میخ پر تھا نہ تو وہاں سے گرا نہ ٹوٹا۔ حضرت کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا اس نے کہا کیا آپ کو اس انڈے پر تعجب ہوا ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی برحق بنایا ہے مجھے آج تک کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہ سن کر آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے کھانے میں سے کچھ نہ کھایا اور فرمایا جس پر کوئی مصیبت نہیں آئی اللہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں یعنی وہ کوئی مومن نہیں۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله وَأَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لا حَاجَةَ لله فِيمَنْ لَيْسَ لَهُ فِي مَالِهِ وَبَدَنِهِ نَصِيبٌ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے مال اور بدن میں کوئی نقصان نہیں پہنچا اللہ کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عُثْمَانَ النَّوَّاءِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَبْتَلِي الْمُؤْمِنَ بِكُلِّ بَلِيَّةٍ وَيُمِيتُهُ بِكُلِّ مِيتَةٍ وَلا يَبْتَلِيهِ بِذَهَابِ عَقْلِهِ أَ مَا تَرَى أَيُّوبَ كَيْفَ سُلِّطَ إِبْلِيسُ عَلَى مَالِهِ وَعَلَى وُلْدِهِ وَعَلَى أَهْلِهِ وَعَلَى كُلِّ شَيْءٍ مِنْهُ وَلَمْ يُسَلَّطْ عَلَى عَقْلِهِ تُرِكَ لَهُ لِيُوَحِّدَ الله بِهِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ اللہ تعالیٰ مبتلا کرتا ہے ہر مومن کو ہر بلا میں مبتلا کرتا ہے ہر طرح کی مصیبت میں لیکن سلبِ عقل میں مبتلا نہیں کرتا کیا تم نہیں جانتے کہ ایوب کے مال اور اولاد میں ہر شے پر ابلیس کو مسلط کیا لیکن عقل پر مسلط نہ کیا اور یہ اس لیے کہ توحید الہٰی پر قائم رہیں اور لوگوں کو اس کا درس دیتے رہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّهُ لَيَكُونُ لِلْعَبْدِ مَنْزِلَةٌ عِنْدَ الله فَمَا يَنَالُهَا إِلا بِإِحْدَى خَصْلَتَيْنِ إِمَّا بِذَهَابِ مَالِهِ أَوْ بِبَلِيَّةٍ فِي جَسَدِهِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے عنداللہ بندہ کی ایک منزلت ہے جس کو وہ نہیں پاتا مگر دو خصلتوں میں سے ایک سے یا تو مالی نقصان سے یا جسمانی تکلیف سے۔
عَنْهُ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ مُثَنًّى الْحَنَّاطِ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَوْ لا أَنْ يَجِدَ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنُ فِي قَلْبِهِ لَعَصَّبْتُ رَأْسَ الْكَافِرِ بِعِصَابَةِ حَدِيدٍ لا يُصَدَّعُ رَأْسُهُ أَبَداً۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا نے حدیث قدسی میں فرمایا اگر میرے بندہ مومن کا دل اس سے اندوہگیں نہ ہوتا تو میں کافر کے سر پر لوہے کا ایسا عصابہ باندھتا جس سے اس کے سر میں کبھی درد نہ ہوتا(یعنی کافر کی یہ راحت آخرت میں اس کے لیے عذاب کا باعث ہوتی مگر چونکہ بندہ مومن اس کے اس حال کو دیکھ کر مغموم ہوتا لہذا میں ایسا نہیں کرتا)۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ خَامَةِ الزَّرْعِ تُكْفِئُهَا الرِّيَاحُ كَذَا وَكَذَا وَكَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ تُكْفِئُهُ الأوْجَاعُ وَالأمْرَاضُ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الإرْزَبَّةِ الْمُسْتَقِيمَةِ الَّتِي لا يُصِيبُهَا شَيْءٌ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمَوْتُ فَيَقْصِفَهُ قَصْفاً۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی مثال نئے پودے کی ہے جسے ہوائیں کبھی ادھر اور کبھی ادھر جھکاتی ہیں اور اسی طرح مومن کو مضطرب بناتے ہیں درد اور امراض اور منافق کی مثال لوہے کی چھڑی کی سی ہے کہ کوئی شے اسے حرکت نہیں دیتی یعنی ہدایت اس کو منافقت سے باز نہیں رکھتی تااینکہ موت اس کو پوری طرح توڑ کر رکھ دے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَوْماً لأصْحَابِهِ مَلْعُونٌ كُلُّ مَالٍ لا يُزَكَّى مَلْعُونٌ كُلُّ جَسَدٍ لا يُزَكَّى وَلَوْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ يَوْماً مَرَّةً فَقِيلَ يَا رَسُولَ الله أَمَّا زَكَاةُ الْمَالِ فَقَدْ عَرَفْنَاهَا فَمَا زَكَاةُ الأجْسَادِ فَقَالَ لَهُمْ أَنْ تُصَابَ بِآفَةٍ قَالَ فَتَغَيَّرَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْهُ فَلَمَّا رَآهُمْ قَدْ تَغَيَّرَتْ أَلْوَانُهُمْ قَالَ لَهُمْ أَ تَدْرُونَ مَا عَنَيْتُ بِقَوْلِي قَالُوا لا يَا رَسُولَ الله قَالَ بَلَى الرَّجُلُ يُخْدَشُ الْخَدْشَةَ وَيُنْكَبُ النَّكْبَةَ وَيَعْثُرُ الْعَثْرَةَ وَيُمْرَضُ الْمَرْضَةَ وَيُشَاكُ الشَّوْكَةَ وَمَا أَشْبَهَ هَذَا حَتَّى ذَكَرَ فِي حَدِيثِهِ اخْتِلاجَ الْعَيْنِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز اپنے اصحاب سے فرمایا ہر وہ مال ملعون ہے جس کی زکوٰۃ نہ دی جائے۔ اگرچہ ہر چالیس دن بعد ایک ہی بار ہو۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ زکوٰۃ مال کو تو ہم سمجھ گئے لیکن زکوٰۃ جسم کیا چیز ہے۔ فرمایا کسی آفت میں مبتلا ہونا۔ یہ سن کر لوگوں کے چہرے متغیر ہو گئے۔ جب آنحضرت نے ان کے رنگ اڑے ہوئے دیکھے تو فرمایا تم سمجھے کہ اس کے کہنے سے میری کیا مراد ہے۔ انھوں نے کہا نہیں۔ فرمایا اس سے مراد وہ مصیبت ہے جو اسے اچھی طرح جھنجھوڑ دے یا ایسی بلا جو اسے اوندھا کر دے یا کوئی لغزش پریشان کر دے یا کوئی بیماری لاحق ہو جائے یا حوادث روزگار کا کوئی جھٹکا پہنچے یا ایسی کوئی اور تکلیف ہو یہاں تک کہ آپ نے آنکھ پھڑکنے تک کا ذکر کیا۔
توضیح: مقصد یہ ہے کہ ابتلا سے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے صبر کی آزمائش ہوتی ہے اس کے قلب میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے اس کے مراتب میں اضافہ ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اس کا امتحان لیتا رہتا ہے یعنی کم سے کم چالیس دن میں ایک بار۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَ يُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ بِالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَأَشْبَاهِ هَذَا قَالَ فَقَالَ وَهَلْ كُتِبَ الْبَلاءُ إِلا عَلَى الْمُؤْمِنِ
حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا مومن جذام و برص میں مبتلا ہوتا ہے۔ فرمایا ابتلا تو ہے ہی مومن کے لیے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَمَّنْ رَوَاهُ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَكْرُمُ عَلَى الله حَتَّى لَوْ سَأَلَهُ الْجَنَّةَ بِمَا فِيهَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ مُلْكِهِ شَيْئاً وَإِنَّ الْكَافِرَ لَيَهُونُ عَلَى الله حَتَّى لَوْ سَأَلَهُ الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ مُلْكِهِ شَيْئاً وَإِنَّ الله لَيَتَعَاهَدُ عَبْدَهُ الْمُؤْمِنَ بِالْبَلاءِ كَمَا يَتَعَاهَدُ الْغَائِبُ أَهْلَهُ بِالطُّرَفِ وَإِنَّهُ لَيَحْمِيهِ الدُّنْيَا كَمَا يَحْمِي الطَّبِيبُ الْمَرِيضَ.
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ مومن صاحب عزت ہے عنداللہ یہاں تک کہ اگر مومن اس سے جنت و ما فیہا کا سوال کرے تو وہ اس کو دے دے گا بغیر اس کے کہ کوئی چیز اس کے ملک سے کم ہو اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ مومن سے ابتلا کا عہد اسی طرح لیا ہے جیسےباہر جانے والا اپنے اہل سے مال کے متعلق وعدہ لیتا ہے اور خدا مومن کو دنیا کے جھگڑوں سے اسی طرح بچاتا ہے جیسے طبیب مریض کو بد پرہیزی سے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ بَلاءً النَّبِيُّونَ ثُمَّ الْوَصِيُّونَ ثُمَّ الأمْثَلُ فَالأمْثَلُ وَإِنَّمَا يُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِ الْحَسَنَةِ فَمَنْ صَحَّ دِينُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ اشْتَدَّ بَلاؤُهُ وَذَلِكَ أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَجْعَلِ الدُّنْيَا ثَوَاباً لِمُؤْمِنٍ وَلا عُقُوبَةً لِكَافِرٍ وَمَنْ سَخُفَ دِينُهُ وَضَعُفَ عَمَلُهُ قَلَّ بَلاؤُهُ وَأَنَّ الْبَلاءَ أَسْرَعُ إِلَى الْمُؤْمِنِ التَّقِيِّ مِنَ الْمَطَرِ إِلَى قَرَارِ الأرْضِ.
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کتاب امیر المومنین میں لکھا ہے سب سے زیادہ بلائیں انبیاء پر نازل ہوتی ہیں پھر اوصیاء پر اور پھر مومنین افضل پر ان کے بعد ان سے کم درجہ والوں پر مومن کا ابتلا بلحاظ اس کے اعمال حسنہ کے ہوتا ہے پس جس کا دین صحیح ہے اور عمل اچھا ہے تو اس کی ابتلا سخت ہوتی ہے اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مومن کے لیے ثواب نہیں رکھا اور نہ کافروں کے لیے یہاں عذاب ہے جس کا دین صحیح نہیں اور عمل کمزور ہے اس کی ابتلا بھی کم ہے اور ابتلا تو مومن ہی کی طرف اس طرح لپکتی ہے جیسے بارش کا پانی تیزی سے زمین کی طرف بہتا ہوا جاتا ہے (چونکہ یہ ابتلا مقام محبت میں ہوتا ہے لہذا مومن اس سے خوش ہوتا ہے)۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ هَذَا الَّذِي ظَهَرَ بِوَجْهِي يَزْعُمُ النَّاسُ أَنَّ الله لَمْ يَبْتَلِ بِهِ عَبْداً لَهُ فِيهِ حَاجَةٌ قَالَ فَقَالَ لِي لَقَدْ كَانَ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ مُكَنَّعَ الأصَابِعِ فَكَانَ يَقُولُ هَكَذَا وَيَمُدُّ يَدَيْهِ وَيَقُولُ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ثُمَّ قَالَ لِي إِذَا كَانَ الثُّلُثُ الأخِيرُ مِنَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِهِ فَتَوَضَّ وَقُمْ إِلَى صَلاتِكَ الَّتِي تُصَلِّيهَا فَإِذَا كُنْتَ فِي السَّجْدَةِ الأخِيرَةِ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ الأولَيَيْنِ فَقُلْ وَأَنْتَ سَاجِدٌ يَا عَلِيُّ يَا عَظِيمُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا سَامِعَ الدَّعَوَاتِ يَا مُعْطِيَ الْخَيْرَاتِ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَعْطِنِي مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ مَا أَنْتَ أَهْلُهُ وَاصْرِفْ عَنِّي مِنْ شَرِّ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ مَا أَنْتَ أَهْلُهُ وَاذْهَبْ عَنِّي بِهَذَا الْوَجَعِ وَتُسَمِّيهِ فَإِنَّهُ قَدْ غَاظَنِي وَأَحْزَنَنِي وَأَلِحَّ فِي الدُّعَاءِ قَالَ فَمَا وَصَلْتُ إِلَى الْكُوفَةِ حَتَّى أَذْهَبَ الله بِهِ عَنِّي كُلَّهُ.
یونس بن عمار راوی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا میرے چہرے پر جو برص کے داغ ہیں لوگ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس عبد مومن کو جس سے دینی غرض وابستہ ہو ایسے مرض میں مبتلا نہیں کرتا۔ فرمایا مومنِ آل فرعون کی انگلیاں جذام میں گر گئیں تھیں وہ ایسی ہی باتیں کرتا تھا کہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتا تھا لوگو بھیجے ہوئے رسولوں کی پیروی کرو پھر فرمایا جب دو تہائی رات گزر جائے تو اس کے ابتدائی حصہ میں وضو کرو اور اس نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ جو پڑھا کرتے ہو جب پہلی دو رکعتوں کے سجدہ آخر میں جاؤ تو سجدہ میں کہو اے علی و عظیم اور رحمٰن و رحیم ذات اے دعاؤں کے سننے والے اور اے نیکیوں کے عطا کرنے والے رحمت نازل کر محمد و آل محمد پر اور مجھے دنیا و آخرت کی بہتری عطا کر تو ہی اس کا اہل ہے اور میری اس تکلیف کو دور کر اور اس تکلیف کا نام لو اور کہا اس نے مجھے پریشان اور رنجیدہ کر دیا ہے اور وقت دعا آہ و زاری کر ۔ راوی کہتا ہے میں نے یہ عمل کیا جب کوفہ پہنچا تو میری تکلیف دور ہو چکی تھی۔