عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْعَلاءِ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُسْلِمِينَ يَتَقَلَّبُونَ فِي رِيَاضِ الْجَنَّةِ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفاً ثُمَّ قَالَ سَأَضْرِبُ لَكَ مَثَلَ ذَلِكَ إِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ مَثَلُ سَفِينَتَيْنِ مُرَّ بِهِمَا عَلَى عَاشِرٍ فَنَظَرَ فِي إِحْدَاهُمَا فَلَمْ يَرَ فِيهَا شَيْئاً فَقَالَ أَسْرِبُوهَا وَنَظَرَ فِي الأخْرَى فَإِذَا هِيَ مَوْقُورَةٌ فَقَالَ احْبِسُوهَا۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جنت کے باغوں میں فقراء مسلمین امرا سے چالیس سال پہلے جنت کے باغوں میں عیش کرتے ہوں گے میں اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں دو کشتیاں دسواں حصہ ٹیکس وصول کرنے والے کی طرف سے گزریں اس نے دیکھا ایک تو بالکل خالی ہے حکم دیا اس کو چھوڑ دو اور دوسری جو بھری ہوئی تھی اسے روک لیا۔ دینی اغنیاء کو چونکہ زیادہ حساب دینا ہو گا لہذا جنت میں ان کا داخلہ دیر سے ہو گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) الْمَصَائِبُ مِنَحٌ مِنَ الله وَالْفَقْرُ مَخْزُونٌ عِنْدَ الله۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مصائب عطیہ خدا ہیں اور فقیری عند اللہ خزانہ کی ہوتی ہے جس کا ایک دن اجر عظیم ملے گا۔
وَعَنْهُ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَا عَلِيُّ إِنَّ الله جَعَلَ الْفَقْرَ أَمَانَةً عِنْدَ خَلْقِهِ فَمَنْ سَتَرَهُ أَعْطَاهُ الله مِثْلَ أَجْرِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ وَمَنْ أَفْشَاهُ إِلَى مَنْ يَقْدِرُ عَلَى قَضَاءِ حَاجَتِهِ فَلَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ قَتَلَهُ أَمَا إِنَّهُ مَا قَتَلَهُ بِسَيْفٍ وَلا رُمْحٍ وَلَكِنَّهُ قَتَلَهُ بِمَا نَكَى مِنْ قَلْبِهِ۔
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اے علی خدا نے فقر کو اپنے بندوں کے پاس امانت رکھا ہے جو اسے چھپاتا رہا اللہ اس کو قائم اللیل و صائم کا اجر عطا فرمائے گا اور جس نے اس پر جو حاجت بر لانے والا ہے اپنی ضرورت ظاہر کر دی اور اس نے پوری نہ کی تو اس نے اس محتاج کو قتل کر دیا مگر تلوار یا نیزہ سے نہیں بلکہ اس چیز سے جس نے اس کے قلب کو توڑ دیا۔
عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ دَاوُدَ الْحَذَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَغِيرٍ عَنْ جَدِّهِ شُعَيْبٍ عَنْ مُفَضَّلٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كُلَّمَا ازْدَادَ الْعَبْدُ إِيمَاناً ازْدَادَ ضِيقاً فِي مَعِيشَتِهِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جس قدر کسی بندہ کا ایمان زیادہ ہوتا ہے اسی قدر اس کی روزی تنگ ہوتی ہے۔
وَبِإِسْنَادِهِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) لَوْ لا إِلْحَاحُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الله فِي طَلَبِ الرِّزْقِ لَنَقَلَهُمْ مِنَ الْحَالِ الَّتِي هُمْ فِيهَا إِلَى حَالٍ أَضْيَقَ مِنْهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اگر طلب رزق میں مومنین خدا سے آہ و زاری نہ کریں تو وہ ان کو اور زیادہ تنگدستی کی طرف لے جائے (تاکہ ان کے مراتبِ آخرت میں زیادتی ہو)۔
عَنْهُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا أُعْطِيَ عَبْدٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلا اعْتِبَاراً وَمَا زُوِيَ عَنْهُ إِلا اخْتِبَاراً۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے نہیں دیا گیا بندے کو مال دنیا مگر اسے عیب ناک کرنے کے لیے اور نہیں کم کیا گیا مگر اسے عیب سے بچانے کے لیے۔
عَنْهُ عَنْ نُوحِ بْنِ شُعَيْبٍ وَأَبِي إِسْحَاقَ الْخَفَّافِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لَيْسَ لِمُصَاصِ شِيعَتِنَا فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ إِلا الْقُوتُ شَرِّقُوا إِنْ شِئْتُمْ أَوْ غَرِّبُوا لَنْ تُرْزَقُوا إِلا الْقُوتَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے دولت و حکومت باطل میں ہمارے خالص شیعوں کے لیے صرف قوت لا یموت ہے چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں ان کا رزق وہی قوت لا یموت ہو گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الأشْعَرِيِّ عَنْ بَعْضِ مَشَايِخِهِ عَنْ إِدْرِيسَ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَا عَلِيُّ الْحَاجَةُ أَمَانَةُ الله عِنْدَ خَلْقِهِ فَمَنْ كَتَمَهَا عَلَى نَفْسِهِ أَعْطَاهُ الله ثَوَابَ مَنْ صَلَّى وَمَنْ كَشَفَهَا إِلَى مَنْ يَقْدِرُ أَنْ يُفَرِّجَ عَنْهُ وَلَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ قَتَلَهُ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَقْتُلْهُ بِسَيْفٍ وَلا سِنَانٍ وَلا سَهْمٍ وَلَكِنْ قَتَلَهُ بِمَا نَكَى مِنْ قَلْبِهِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا اے علی حاجت خدا کی امانت ہے اس کی مخلوق کے پاس جس نے اسے چھپایا خدا اسے نماز گزاروں کا ثواب عطا کرے گا اور جس نے ایسے شخص پر اپنی حاجت کو ظاہر کر دیا جس سے برآنے کی امید ہو اور اس کی حاجت پوری نہ کی ہو تو اس نے گویا اس کو قتل کیا تلوار و سنان و تیر سے نہیں بلکہ اس حربہ سے جس نے اس کا دل ٹکڑے کر دیا۔
وَعَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَعْدَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَلْتَفِتُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى فُقَرَاءِ الْمُؤْمِنِينَ شَبِيهاً بِالْمُعْتَذِرِ إِلَيْهِمْ فَيَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا أَفْقَرْتُكُمْ فِي الدُّنْيَا مِنْ هَوَانٍ بِكُمْ عَلَيَّ وَلَتَرَوُنَّ مَا أَصْنَعُ بِكُمُ الْيَوْمَ فَمَنْ زَوَّدَ أَحَداً مِنْكُمْ فِي دَارِ الدُّنْيَا مَعْرُوفاً فَخُذُوا بِيَدِهِ فَأَدْخِلُوهُ الْجَنَّةَ قَالَ فَيَقُولُ رَجُلٌ مِنْهُمْ يَا رَبِّ إِنَّ أَهْلَ الدُّنْيَا تَنَافَسُوا فِي دُنْيَاهُمْ فَنَكَحُوا النِّسَاءَ وَلَبِسُوا الثِّيَابَ اللَّيِّنَةَ وَأَكَلُوا الطَّعَامَ وَسَكَنُوا الدُّورَ وَرَكِبُوا الْمَشْهُورَ مِنَ الدَّوَابِّ فَأَعْطِنِي مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَهُمْ فَيَقُولُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَكَ وَلِكُلِّ عَبْدٍ مِنْكُمْ مِثْلُ مَا أَعْطَيْتُ أَهْلَ الدُّنْيَا مُنْذُ كَانَتِ الدُّنْيَا إِلَى أَنِ انْقَضَتِ الدُّنْيَا سَبْعُونَ ضِعْفاً۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدائے تعالیٰ فقراء مومنین سے روز قیامت بطور عذر خواہی کے فرمائے گا قسم ہے اپنے عزت و جلال کی میں نے تمہیں دنیا میں اس لیے محتاج نہیں کیا تھا کہ تم میرے نزدیک ذلیل تھے اب تم دیکھو گے کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں جس نے تمہیں دار دنیا میٰں کھانا دیا اس کا ہاتھ پکڑو اور جنت میں داخل کرو ایک شخص ان میں سے کہے گا پالنے والے دنیا والوں نے رغبت کی دنیا کی طرف۔ لہذا انھوں نے نکاح کیا عورتوں سے اور نرم لباس پہنا اچھے کھانے کھائے اچھے گھروں میں رہے پس جو تو نے انہیں دیا تھا ہمیں بھی دے۔ خدا فرمائے گا تم میں سے ہر ایک کو میں وہ دیتا ہوں جو اہل دنیا کو دیا تھا جب سے دنیا قائم ہوئی اور ختم ہوئی ستر گناہ زیادہ۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَهْلٍ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبَّادٍ جَمِيعاً يَرْفَعَانِهِ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَا كَانَ مِنْ وُلْدِ آدَمَ مُؤْمِنٌ إِلا فَقِيراً وَلا كَافِرٌ إِلا غَنِيّاً حَتَّى جَاءَ إِبْرَاهِيمُ (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ رَبَّنا لا تَجْعَلْنا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا فَصَيَّرَ الله فِي هَؤُلاءِ أَمْوَالاً وَحَاجَةً وَفِي هَؤُلاءِ أَمْوَالاً وَحَاجَةً۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اولادِ آدم میں مومن فقیر اور کافر غنی یہاں تک کہ ابراہیم کا زمانہ آ گیا۔ انھوں نے کہا پروردگارا ہم کو کافروں کے مقابل آزمائش میں نہ ڈال۔ پس اللہ نے ان کو بھی مالدار بنایا اور حاجت مند اور ان کو بھی مالدار اور حاجت مند۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مُوسِرٌ إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) نَقِيُّ الثَّوْبِ فَجَلَسَ إِلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَجَاءَ رَجُلٌ مُعْسِرٌ دَرِنُ الثَّوْبِ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ الْمُوسِرِ فَقَبَضَ الْمُوسِرُ ثِيَابَهُ مِنْ تَحْتِ فَخِذَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَ خِفْتَ أَنْ يَمَسَّكَ مِنْ فَقْرِهِ شَيْءٌ قَالَ لا قَالَ فَخِفْتَ أَنْ يُصِيبَهُ مِنْ غِنَاكَ شَيْءٌ قَالَ لا قَالَ فَخِفْتَ أَنْ يُوَسِّخَ ثِيَابَكَ قَالَ لا قَالَ فَمَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ فَقَالَ يَا رَسُولَ الله إِنَّ لِي قَرِيناً يُزَيِّنُ لِي كُلَّ قَبِيحٍ وَيُقَبِّحُ لِي كُلَّ حَسَنٍ وَقَدْ جَعَلْتُ لَهُ نِصْفَ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لِلْمُعْسِرِ أَ تَقْبَلُ قَالَ لا فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ وَلِمَ قَالَ أَخَافُ أَنْ يَدْخُلَنِي مَا دَخَلَكَ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک مالدار تز و احتشام کا لباس پہنے ہوئے رسول اللہ کے پاس آیا اور آپ کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ پھر ایک غریب میلے کچیلے کپڑے پہنے آیا اور امیر کے برابر بیٹھ گیا۔ امیر نے اپنے دامن کو سمیٹ لیا۔ رسول اللہ نے فرمایا کیا تجھے یہ ڈر ہوا کہ اس کی فقیری تجھے آ لپٹے گی۔ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا کیا تجھے یہ ڈر ہوا کہ تیری امیری اسے مل جائے گی۔ کہا نہیں۔ فرمایا پھر کیا اندیشہ ہوا کہ تیرے کپڑے میلے ہو جائیں گے۔ اس نے کہا نہیں۔ پھر فرمایا تو نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے کہا شیطان میرا ساتھی ہے جو مجھ پر اچھی چیز کو برا ظاہر کرتا ہے اور بری کو اچھا۔ اب میں نے اپنی نصف دولت اس کو دی۔ حضرت نے اس فقیر سے فرمایا تجھے قبول ہے اس نے کہا نہیں۔ اس امیر نے پوچھا کیوں۔ اس نے کہا تاکہ یہ مال مجھے بھی ایسا ہی مغرور نہ بنا دے جیسا تجھے بنا دیا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ فِي مُنَاجَاةِ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) يَا مُوسَى إِذَا رَأَيْتَ الْفَقْرَ مُقْبِلاً فَقُلْ مَرْحَباً بِشِعَارِ الصَّالِحِينَ وَإِذَا رَأَيْتَ الْغِنَى مُقْبِلاً فَقُلْ ذَنْبٌ عُجِّلَتْ عُقُوبَتُهُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا نے موسیٰ سے وقت مناجات کہا اے موسیٰ فقیری تمہاری طرف آئے تو کہو مرحبا یہی طریقہ صالحین کا ہے اور جب مالداری آئے تو کہو یہ گناہ ہے جو جلد عذاب لانے والا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) طُوبَى لِلْمَسَاكِينِ بِالصَّبْرِ وَهُمُ الَّذِينَ يَرَوْنَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بشارت ہو ان مساکین کے لیے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ملکوت سماوات و ارض کو دیکھتے ہیں۔
وَبِإِسْنَادِهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَا مَعْشَرَ الْمَسَاكِينِ طِيبُوا نَفْساً وَأَعْطُوا الله الرِّضَا مِنْ قُلُوبِكُمْ يُثِبْكُمُ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَى فَقْرِكِمْ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَلا ثَوَابَ لَكُمْ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے گروہ مساکین اپنے نفسوں کو پاک بناؤ اور دل سے مرضی الہٰی کے خواستگار بنو اللہ تمہارے فقر پر اس کا ثواب عطا فرمائے گا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو ثواب نہ ملے گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ عِيسَى الْفَرَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَمَرَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى مُنَادِياً يُنَادِي بَيْنَ يَدَيْهِ أَيْنَ الْفُقَرَاءُ فَيَقُومُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ كَثِيرٌ فَيَقُولُ عِبَادِي فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا فَيَقُولُ إِنِّي لَمْ أُفْقِرْكُمْ لِهَوَانٍ بِكُمْ عَلَيَّ وَلَكِنِّي إِنَّمَا اخْتَرْتُكُمْ لِمِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ تَصَفَّحُوا وُجُوهَ النَّاسِ فَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفاً لَمْ يَصْنَعْهُ إِلا فِيَّ فَكَافُوهُ عَنِّي بِالْجَنَّةِ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جب قیامت کا دن ہو گا اور خدا ایک منادی کو حکم دے گا کہ وہ آواز دے کہاں ہیں فقراء یہ سن کر بہت سے لوگوں کی گردنیں اٹھیں گی۔ خدا کہے گا اے میری بندو وہ جواب دیں گے اے ہمارے پروردگار ہم حاضر ہیں۔ خدا فرمائے گا میں نے تم کو فقیر نہیں بنایا تھا کہ میں تمہیں ذلیل سمجھتا تھا بلکہ میں نے تمہارا انتخاب آج کے دن کے لیے کیا تھا۔ اب پہچانو لوگوں کے چہروں کو پس جس نے تم سے نیکی کی اس نے مجھ سے کی اب اس کا بدلہ دو اس طرح کہ انہیں جنت میں لے جاؤ۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْحَذَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَغِيرٍ عَنْ جَدِّهِ شُعَيْبٍ عَنْ مُفَضَّلٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) لَوْ لا إِلْحَاحُ هَذِهِ الشِّيعَةِ عَلَى الله فِي طَلَبِ الرِّزْقِ لَنَقَلَهُمْ مِنَ الْحَالِ الَّتِي هُمْ فِيهَا إِلَى مَا هُوَ أَضْيَقُ مِنْهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اگر یہ شیعہ خدا سے رزق طلب کرنے کے بارے میں آہ و زاری نہ کرتے تو البتہ ہم انکو موجودہ حالت سے ایسی حالت کی طرف بدل دیتے جو اس سے زیادہ تنگ ہوتی۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ كَثِيرٍ الْخَزَّازِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ لِي أَ مَا تَدْخُلُ السُّوقَ أَ مَا تَرَى الْفَاكِهَةَ تُبَاعُ وَالشَّيْءَ مِمَّا تَشْتَهِيهِ فَقُلْتُ بَلَى فَقَالَ أَمَا إِنَّ لَكَ بِكُلِّ مَا تَرَاهُ فَلا تَقْدِرُ عَلَى شِرَائِهِ حَسَنَةً۔
راوی کہتا ہے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کیا تم بازار نہیں جاتے کیا تم وہاں نہ دیکھو گے کہ طرح طرح کے پھل اور تمہاری خواہش کے مطابق چیزیں بک رہی ہیں۔ میں نے کہا ایسا ہی ہے۔ فرمایا جو چیزیں تم دیکھو اور خرید نہ سکو تو اس سے محرومی ایک نیکی ہو گی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله جَلَّ ثَنَاؤُهُ لَيَعْتَذِرُ إِلَى عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ الْمُحْوِجِ فِي الدُّنْيَا كَمَا يَعْتَذِرُ الأخُ إِلَى أَخِيهِ فَيَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلالِي مَا أَحْوَجْتُكَ فِي الدُّنْيَا مِنْ هَوَانٍ كَانَ بِكَ عَلَيَّ فَارْفَعْ هَذَا السَّجْفَ فَانْظُرْ إِلَى مَا عَوَّضْتُكَ مِنَ الدُّنْيَا قَالَ فَيَرْفَعُ فَيَقُولُ مَا ضَرَّنِي مَا مَنَعْتَنِي مَعَ مَا عَوَّضْتَنِي۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ مومن سے جو دنیا میں محتاج رہا ہو اس طرح معذرت خواہی کرتا ہے جیسے ایک بھائی اپنے بھائی سے معذرت کرتا ہے۔ فرماتا ہے قسم ہے اپنے عزت و جلال کی میں نے تیری عدم قدرت کی وجہ سے تجھے دنیا میں محتاج نہیں بنایا تھا۔ پس اب تو پردہ اٹھا اور دیکھ میں نے دنیا کی محتاجی کے بدلے تجھے کیا عوض دیا ہے پس وہ پردہ اٹھا کر کہے گا جو مجھے وہاں نقصان پہنچا تھا اس سے یہ بدلہ زیادہ ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ قَامَ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَأْتُوا بَابَ الْجَنَّةِ فَيَضْرِبُوا بَابَ الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهُمْ مَنْ أَنْتُمْ فَيَقُولُونَ نَحْنُ الْفُقَرَاءُ فَيُقَالُ لَهُمْ أَ قَبْلَ الْحِسَابِ فَيَقُولُونَ مَا أَعْطَيْتُمُونَا شَيْئاً تُحَاسِبُونَّا عَلَيْهِ فَيَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ صَدَقُوا ادْخُلُوا الْجَنَّةَ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو لوگوں کی گردنیں اٹھیں گی وہ دروازہ جنت پر آئیں گے اور اس پر دستک دیں گے ان سے پوچھا جائے گا تم کون ہو وہ کہیں گے ہم فقراء ہیں ان سے کہا جائے گا حساب کے لیے چلو وہ کہیں گے ہمیں کچھ دیا ہی نہ گیا تھا کہ حساب دیں خدا کہے گا یہ سچے ہیں انہیں جنت میں داخل کرو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ مُبَارَكٍ غُلامِ شُعَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنِّي لَمْ أُغْنِ الْغَنِيَّ لِكَرَامَةٍ بِهِ عَلَيَّ وَلَمْ أُفْقِرِ الْفَقِيرَ لِهَوَانٍ بِهِ عَلَيَّ وَهُوَ مِمَّا ابْتَلَيْتُ بِهِ الأغْنِيَاءَ بِالْفُقَرَاءِ وَلَوْ لا الْفُقَرَاءُ لَمْ يَسْتَوْجِبِ الأغْنِيَاءُ الْجَنَّةَ۔
میں نے موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سنا کہ خدائے عزوجل فرماتا ہے میں نے کسی کو غنی اس لیے نہیں بنایا کہ اس کا کوئی احسان مجھ پر تھا اور نہ کسی کو اس لیے فقیر بنایا کہ اسے ذلیل کرنا چاہتا تھا میں نے فقراء کی وجہ سے اغنیاء کی آزمائش کی اگر فقراء نہ ہوتے تو اغنیاء جنت کے مستحق نہ ہوتے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عِيسَى عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ وَالْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالا قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَيَاسِيرُ شِيعَتِنَا أُمَنَاؤُنَا عَلَى مَحَاوِيجِهِمْ فَاحْفَظُونَا فِيهِمْ يَحْفَظْكُمُ الله۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نےہمارے مالدار شیعہ ہمارے مال کے امین ہیں اپنے صاحبِ احتیاج لوگوں کے لیے پس ایسے لوگوں کی اے مالدارو تم حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) الْفَقْرُ أَزْيَنُ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْعِذَارِ عَلَى خَدِّ الْفَرَسِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ فرمایا امیر المومنین علیہ السلام نے فقیری مومن کے لیے اس سے زیادہ زینت دینے والی ہے جتنی لگام سے گھوڑے کے جبڑے کی ہوتی ہے یعنے جس طرح لگام گھوڑے کو ادھر ادھر غلط حرکت سے روکتا ہے اسی طرح فقیری فقیر کو بری خواہشات سے روکتی ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ غَالِبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ سَأَلْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلَوْ لا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً قَالَ عَنَى بِذَلِكَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَنْ يَكُونُوا عَلَى دِينٍ وَاحِدٍ كُفَّاراً كُلَّهُمْ لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ وَلَوْ فَعَلَ الله ذَلِكَ بِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لَحَزِنَ الْمُؤْمِنُونَ وَغَمَّهُمْ ذَلِكَ وَلَمْ يُنَاكِحُوهُمْ وَلَمْ يُوَارِثُوهُمْ۔
راوی کہتا ہے میں نے علی بن الحسین علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق سوال کیا اگر ایسا نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جیسے ہو جائیں۔ فرمایا اس سے مراد ہے امت محمدی جو رسول کے بعد ایک دین پر ہوتے ہوئے امام برحق کا انکار کرنے سے سب کافر ہو گئے اگر خدا چاہتا تو اپنے منکروں اور کافروں کے گھروں کو (اتمام حجت کے لیے) چاندی کا بنا دیتا۔ لیکن امت محمدی کے لیے اگر ایسا کرتا تو ایمان والے رنجیدہ ہوتے اور ان کو یہ گمان ہوتا کہ یہ کافروں کی رضامندی کی علامت ہے اور یہ کہ کافر دولت مندی کے غرور میں نہ مومنوں کو لڑکی دیتے نہ لیتے اور نہ میراث ان میں قائم رہتی۔