عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلاً كَرِيماً قَالَ الْكَبَائِرُ الَّتِي أَوْجَبَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهَا النَّارَ۔
فرمایا صادق آل محمد علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق "اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو اللہ تمہارے پچھلے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا اور تم کو جنت کے بہترین مقام میں جگہ دے گا" امام نے فرمایا گناہ کبیرہ سے مراد وہ گناہ ہیں جن کے بجا لانے پر نار جہنم کو واجب کیا گیا ہے۔
عَنْهُ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ قَالَ كَتَبَ مَعِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا إِلَى أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) يَسْأَلُهُ عَنِ الْكَبَائِرِ كَمْ هِيَ وَمَا هِيَ فَكَتَبَ الْكَبَائِرُ مَنِ اجْتَنَبَ مَا وَعَدَ الله عَلَيْهِ النَّارَ كَفَّرَ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ إِذَا كَانَ مُؤْمِناً وَالسَّبْعُ الْمُوجِبَاتُ قَتْلُ النَّفْسِ الْحَرَامِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَأَكْلُ الرِّبَا وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ۔
امام رضا علیہ السلام سے کچھ لوگوں نے لکھ کر پوچھا کہ گناہان کبیر کتنے ہیں اور کیا ہیں۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ جن گناہوں پر اللہ نے جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کیا ہے اور ان سے بچنے پر پچھلے گناہوں کو معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے بشرطیکہ وہ مومن ہو۔ اور جہنم میں جانے کا سبب سات امر خاص طور سے ہیں، بے خطا قتل کرنا، والدین کی نافرمانی، سود کھانا، ہجرت کے بعد پھر بادیہ نشین بن جانا، زن عفیفہ پر تہمت زنا لگانا اور مال یتیم کھانا اور لشکر سے بھاگ جانا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ الْكَبَائِرُ سَبْعٌ قَتْلُ الْمُؤْمِنِ مُتَعَمِّداً وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ ظُلْماً وَأَكْلُ الرِّبَا بَعْدَ الْبَيِّنَةِ وَكُلُّ مَا أَوْجَبَ الله عَلَيْهِ النَّارَ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے گناہان کبیرہ سات ہیں۔ عمداً کسی مومن کو قتل کرنا، زن عفت دار پر تہمت زنا لگانا، لشکر سے بھاگ جانا، ہجرت کے بعد اپنے مقام پر واپس جانا، ظلم سے مال یتیم کھانا، حرمت ثابت ہونےکے بعد سود کھانا اور ہر وہ گناہ جس پر دوزخ حرام ہے۔
يُونُسُ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ مِنَ الْكَبَائِرِ عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ وَالْيَأْسَ مِنْ رَوْحِ الله وَالأمْنَ لِمَكْرِ الله وَقَدْ رُوِيَ أَنَّ أَكْبَرَ الْكَبَائِرِ الشِّرْكُ بِالله۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے گناہان کبیرہ میں والدین کی نافرمانی، رحمت خدا سے مایوسی، خدا کے عذاب سے بے خوف ہونا اور ایک روایت میں ہے شرک باللہ سب سے بڑا گناہ ہے۔
يُونُسُ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ نُعْمَانَ الرَّازِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ مَنْ زَنَى خَرَجَ مِنَ الإيمَانِ وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ خَرَجَ مِنَ الإيمَانِ وَمَنْ أَفْطَرَ يَوْماً مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ مُتَعَمِّداً خَرَجَ مِنَ الإيمَانِ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس نے زنا کیا وہ ایمان سے خارج ہوا اور جس نے شراب پی وہ ایمان سے خارج ہوا اور جس نے قصداً کسی دن ماہ صیام میں روزہ نہ رکھا وہ بھی ایمان سے خارج ہوا۔
عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدَةَ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) لا يَزْنِي الزَّانِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَ لا إِذَا كَانَ عَلَى بَطْنِهَا سُلِبَ الإيمَانُ مِنْهُ فَإِذَا قَامَ رُدَّ إِلَيْهِ فَإِذَا عَادَ سُلِبَ قُلْتُ فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَعُودَ فَقَالَ مَا أَكْثَرَ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يَعُودَ فَلا يَعُودُ إِلَيْهِ أَبَداً۔
میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا زنا نہیں کرتا کوئی زانی درآنحالیکہ وہ مومن ہو۔ فرمایا نہیں اگر وہ عورت کے بطن پر سوار ہو گا تو ایمان سلب ہو جائے گا اگر ہٹ جائے گا تو ایمان لوٹ آئے گا اگر پھر ایسا کرے گا تو سلب ہو جائے گا۔ میں نے کہا اگر وہ لوٹنے کا ارادہ کرے تو فرمایا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اعادہ نہیں کرتا۔
يُونُسُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الإثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلا اللَّمَمَ قَالَ الْفَوَاحِشُ الزِّنَى وَالسَّرِقَةُ وَاللَّمَمُ الرَّجُلُ يُلِمُّ بِالذَّنْبِ فَيَسْتَغْفِرُ الله مِنْهُ قُلْتُ بَيْنَ الضَّلالِ وَالْكُفْرِ مَنْزِلَةٌ فَقَالَ مَا أَكْثَرَ عُرَى الإيمَانِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق "جو لوگ بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں سوائے گناہ صغیرہ کے" اس میں فواحش سے مراد زنا ہے اور سرقہ ہے اور لمم سے مراد وہ شخص ہے جس کو گناہ پر ملامت کی جائے اور پھر وہ توبہ کر لے۔ میں نے کہا کیا گمراہی کے درمیان بھی کوئی درجہ ہے۔ فرمایا ایمان کی بہت سی رسیاں ہیں جن سے تمسک کر کے وہ مومن رہتا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنِ الْكَبَائِرِ فَقَالَ هُنَّ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ (عَلَيهِ السَّلام) سَبْعٌ الْكُفْرُ بِالله وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَأَكْلُ الرِّبَا بَعْدَ الْبَيِّنَةِ وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ ظُلْماً وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ قَالَ فَقُلْتُ فَهَذَا أَكْبَرُ الْمَعَاصِي قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَأَكْلُ دِرْهَمٍ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ ظُلْماً أَكْبَرُ أَمْ تَرْكُ الصَّلاةِ قَالَ تَرْكُ الصَّلاةِ قُلْتُ فَمَا عَدَدْتَ تَرْكَ الصَّلاةِ فِي الْكَبَائِرِ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَوَّلُ مَا قُلْتُ لَكَ قَالَ قُلْتُ الْكُفْرُ قَالَ فَإِنَّ تَارِكَ الصَّلاةِ كَافِرٌ يَعْنِي مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ۔
میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کبائر کے متعلق۔ فرمایا کتاب علی علیہ السلام میں وہ سات ہیں۔ کفر باللہ، کسی کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی، بعد ثبوت حرمت سود کھانا، ظلم سے مال یتیم کھانا، لشکر سے فرار، بعد ہجرت بادیہ نشینی۔ میں نے کہا کیا اکبر معاصی یہی ہیں۔ فرمایا ہاں۔ میں نے پوچھا بغیر حق مال یتیم سے ایک درہم کھانا زیادہ بڑا گناہ ہے یا نماز ترک کرنا۔ فرمایا ترک نماز۔ میں نے کہا پھر آپ نے اسے گناہان کبیرہ میں کیوں نہیں ذکر فرمایا۔ فرمایا میں نے سب سے پہلے کس گناہ کا ذکر کیا تھا۔ میں نے کہا کفر کا۔ پس بے سبب نماز کا ترک کرنا کفر ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأصَمِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَا مِنْ عَبْدٍ إِلا وَعَلَيْهِ أَرْبَعُونَ جُنَّةً حَتَّى يَعْمَلَ أَرْبَعِينَ كَبِيرَةً فَإِذَا عَمِلَ أَرْبَعِينَ كَبِيرَةً انْكَشَفَتْ عَنْهُ الْجُنَنُ فَيُوحِي الله إِلَيْهِمْ أَنِ اسْتُرُوا عَبْدِي بِأَجْنِحَتِكُمْ فَتَسْتُرُهُ الْمَلائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا قَالَ فَمَا يَدَعُ شَيْئاً مِنَ الْقَبِيحِ إِلا قَارَفَهُ حَتَّى يَمْتَدِحَ إِلَى النَّاسِ بِفِعْلِهِ الْقَبِيحِ فَيَقُولُ الْمَلائِكَةُ يَا رَبِّ هَذَا عَبْدُكَ مَا يَدَعُ شَيْئاً إِلا رَكِبَهُ وَإِنَّا لَنَسْتَحْيِي مِمَّا يَصْنَعُ فَيُوحِي الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ أَنِ ارْفَعُوا أَجْنِحَتَكُمْ عَنْهُ فَإِذَا فُعِلَ ذَلِكَ أَخَذَ فِي بُغْضِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَنْهَتِكُ سِتْرُهُ فِي السَّمَاءِ وَسِتْرُهُ فِي الأرْضِ فَيَقُولُ الْمَلائِكَةُ يَا رَبِّ هَذَا عَبْدُكَ قَدْ بَقِيَ مَهْتُوكَ السِّتْرِ فَيُوحِي الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ لَوْ كَانَتْ لله فِيهِ حَاجَةٌ مَا أَمَرَكُمْ أَنْ تَرْفَعُوا أَجْنِحَتَكُمْ عَنْهُ. وَرَوَاهُ ابْنُ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ)۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ بندہ کے اوپر چالیس فرشتے بطور سپر ہوتے ہیں جب تک وہ چالیس گناہ کبیرہ نہ کرے۔ جب وہ چالیس گناہ کبیرہ کرتا ہے تو یہ سپریں اس سے ہٹ جاتی ہیں اس وقت خدا ان فرشتوں کو وحی کرتا ہےکہ میرے بندے کو اپنے پروں سے چھپائے رہو پس ملائکہ اس کو ڈھانپ لیتے ہیں پھر فرمایا جب وہ کسی برائی کو ترک ہی نہیں کرتا اور اپنے برے فعل کی مدح کرنے لگتا ہے تو ملائکہ کہتے ہیں اے پروردگار اس تیرے بندے نے کوئی گناہ کرنے سے نہیں چھوڑا اور ہم کو اس کی بداعمالی سے حیا آتی ہے خدا تب ان کو وحی کرتا ہے کہ اپنے بازو اس پر سے ہٹا لو۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو اسے بندے میں ہم اہلبیت کا بغض پیدا ہو جاتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو زمین و آسمان میں اس کے گناہوں کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اور ملائکہ کہتے ہیں پروردگار یہ تیرا بندہ اس حالت میں ہے کہ اس کا کوئی گناہ پوشیدہ نہ رہا۔ خدا وحی کرتا ہے کہ اگر اس بندہ سے میری کوئی حاجت ہوتی تو میں تمہیں یہ حکم نہ دیتا کہ اپنے بازوؤں کو اس سے ہٹا لو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ الْكَبَائِرُ الْقُنُوطُ مِنْ رَحْمَةِ الله وَالْيَأْسُ مِنْ رَوْحِ الله وَالأمْنُ مِنْ مَكْرِ الله وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ الله وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ ظُلْماً وَأَكْلُ الرِّبَا بَعْدَ الْبَيِّنَةِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ فَقِيلَ لَهُ أَ رَأَيْتَ الْمُرْتَكِبُ لِلْكَبِيرَةِ يَمُوتُ عَلَيْهَا أَ تُخْرِجُهُ مِنَ الإيمَانِ وَإِنْ عُذِّبَ بِهَا فَيَكُونُ عَذَابُهُ كَعَذَابِ الْمُشْرِكِينَ أَوْ لَهُ انْقِطَاعٌ قَالَ يَخْرُجُ مِنَ الإسْلامِ إِذَا زَعَمَ أَنَّهَا حَلالٌ وَلِذَلِكَ يُعَذَّبُ أَشَدَّ الْعَذَابِ وَإِنْ كَانَ مُعْتَرِفاً بِأَنَّهَا كَبِيرَةٌ وَهِيَ عَلَيْهِ حَرَامٌ وَأَنَّهُ يُعَذَّبُ عَلَيْهَا وَأَنَّهَا غَيْرُ حَلالٍ فَإِنَّهُ مُعَذَّبٌ عَلَيْهَا وَهُوَ أَهْوَنُ عَذَاباً مِنَ الأوَّلِ وَيُخْرِجُهُ مِنَ الإيمَانِ وَلا يُخْرِجُهُ مِنَ الإسْلامِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے گناہان کبیرہ یہ ہیں، رحمت خدا سے ناامید ہونا، راحت الہٰیہ سے مایوس ہونا، عذاب خدا سے بے خوف ہونا، بے گناہ کا قتل، والدین کی نافرمانی، ظلم سے مال یتیم کھانا، سود کھانا اس کے حرمت ظاہر کونے کے بعد، ہجرت کے بعد پھر بادیہ بشین بن جانا، زن عفت دار پر تہمت زنا لگانا، لشکر سے بھاگ جانا۔ حضرت سے کسی نے سوال کیا کبائر کا ارتکاب کرنے والا اگر اسی حالت میں مر جائے تو کیا وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا اور اس پر وہی عذاب ہے جو مشرکین کے لیے یا انقطاع عذاب ہو گا۔ فرمایا اگر اس کا خیال ہو گا کہ اس نے یہ فعل حلال کیا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور اس کے لیے سخت عذاب ہو گا اور اگر اس کا معترف ہو گا کہ اس نے گناہ کبیرہ کیا ہے اور فعل حرام کا مرتکب ہوا ہے اور وہ اس کے لیے حلال نہ تھا تو اس کا عذاب پہلے والے سے کم ہو گا مگر وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا اسلام سے خارج نہ ہو گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِذَا زَنَى الرَّجُلُ فَارَقَهُ رُوحُ الإيمَانِ قَالَ هُوَ قَوْلُهُ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ ذَاكَ الَّذِي يُفَارِقُهُ۔
میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا رسول اللہ کے اس قول کے مطابق جب کوئی زنا کرتا ہے تو روح ایمان اس سے جدا ہو جاتی ہے۔ فرمایا قول باری کے متعلق ہے اور اس کی مدد کی روح سے یہی روح اس سے جدا ہو جاتی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يُسْلَبُ مِنْهُ رُوحُ الإيمَانِ مَا دَامَ عَلَى بَطْنِهَا فَإِذَا نَزَلَ عَادَ الإيمَانُ قَالَ قُلْتُ لَهُ أَ رَأَيْتَ إِنْ هَمَّ قَالَ لا أَ رَأَيْتَ إِنْ هَمَّ أَنْ يَسْرِقَ أَ تُقْطَعُ يَدُهُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب تک مرد عورت کے شکم پر رہے گا روح ایمان اس سے دور رہے گی۔ ہاں جب وہ بغیر زنا الگ ہو جائے گا تو روح ایمان عود کر آئے گی۔ میں نے کہا اگر وہ قصد زنا رکھتا ہو تب بھی روح ایمان جدا ہو جائے گی۔ فرمایا نہیں کیا تو نہیں جانتا کہ سرقہ کا ارادہ رکھنے والے کا ہاتھ قطع نہیں کیا جاتا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ صَبَّاحِ بْنِ سَيَابَةَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ لَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدَةَ يَزْنِي الزَّانِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَ لا إِذَا كَانَ عَلَى بَطْنِهَا سُلِبَ الإيمَانُ مِنْهُ فَإِذَا قَامَ رُدَّ عَلَيْهِ قُلْتُ فَإِنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ قَالَ مَا أَكْثَرَ مَا يَهُمُّ أَنْ يَعُودَ ثُمَّ لا يَعُودُ۔
راوی کہتا ہے میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ محمد بن عبدہ نے سوال کیا، کیا زنا کرنے والا مومن رہتا ہے۔ فرمایا نہیں، جب وہ عورت کے شکم پر رہے گا ایمان سے دور رہے گا ہاں اگر باز رہے (توبہ کے بعد) اس کا ایمان لوٹ آئے گا ۔ اس نے پوچھا اگر وہ زنا کی طرف پھر لوٹنے کا ارادہ کرے۔ فرمایا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوٹنے کا ارادہ کرتا ہے مگر نہیں لوٹتا (مطلب یہ ہے کہ صرف ارادہ پر سلبِ ایمان نہ ہو گا)۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ الْكَبَائِرُ سَبْعَةٌ مِنْهَا قَتْلُ النَّفْسِ مُتَعَمِّداً وَالشِّرْكُ بِالله الْعَظِيمِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ وَأَكْلُ الرِّبَا بَعْدَ الْبَيِّنَةِ وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ ظُلْماً قَالَ وَالتَّعَرُّبُ وَالشِّرْكُ وَاحِدٌ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کبائر سات ہیں، عمداً کسی بیگناہ مومن کا قتل کرنا، شرک باللہ، زن عفیفہ پر تہمت زنا لگانا، سود کھانا، لشکر سے فرار ہونا، ہجرت کے بعد کفر میں واپس جانا، والدین کی نافرمانی، ازروئے ظلم مالِ یتیم کھانا اور فرمایا تعرب اور شرک ایک ہی چیز ہے۔
أَبَانٌ عَنْ زِيَادٍ الْكُنَاسِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) وَالَّذِي إِذَا دَعَاهُ أَبُوهُ لَعَنَ أَبَاهُ وَالَّذِي إِذَا أَجَابَهُ ابْنُهُ يَضْرِبُهُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے یہ بھی گناہ کبیرہ سے ہے کہ باپ بیٹے سے کچھ طلب کرے اور وہ اسے نہ دے اور اپنے آپ کو برا کہے اور یہ بھی کہ جب بیٹا باپ کی خواہش پوری کرے تو باپ اسے مارے اور اس کی طاقت سے زیادہ مانگے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ رَفَعَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ الْغَنَوِيِّ عَنِ الأصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ نَاساً زَعَمُوا أَنَّ الْعَبْدَ لا يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلا يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلا يَشْرَبُ الْخَمْرَ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلا يَأْكُلُ الرِّبَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلا يَسْفِكُ الدَّمَ الْحَرَامَ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَقَدْ ثَقُلَ عَلَيَّ هَذَا وَحَرِجَ مِنْهُ صَدْرِي حِينَ أَزْعُمُ أَنَّ هَذَا الْعَبْدَ يُصَلِّي صَلاتِي وَيَدْعُو دُعَائِي وَيُنَاكِحُنِي وَأُنَاكِحُهُ وَيُوَارِثُنِي وَأُوَارِثُهُ وَقَدْ خَرَجَ مِنَ الإيمَانِ مِنْ أَجْلِ ذَنْبٍ يَسِيرٍ أَصَابَهُ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) صَدَقْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَقُولُ وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ كِتَابُ الله خَلَقَ الله عَزَّ وَجَلَّ النَّاسَ عَلَى ثَلاثِ طَبَقَاتٍ وَأَنْزَلَهُمْ ثَلاثَ مَنَازِلَ وَذَلِكَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ فِي الْكِتَابِ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ وَالسَّابِقُونَ فَأَمَّا مَا ذَكَرَ مِنْ أَمْرِ السَّابِقِينَ فَإِنَّهُمْ أَنْبِيَاءُ مُرْسَلُونَ وَغَيْرُ مُرْسَلِينَ جَعَلَ الله فِيهِمْ خَمْسَةَ أَرْوَاحٍ رُوحَ الْقُدُسِ وَرُوحَ الإيمَانِ وَرُوحَ الْقُوَّةِ وَرُوحَ الشَّهْوَةِ وَرُوحَ الْبَدَنِ فَبِرُوحِ الْقُدُسِ بُعِثُوا أَنْبِيَاءَ مُرْسَلِينَ وَغَيْرَ مُرْسَلِينَ وَبِهَا عَلِمُوا الأشْيَاءَ وَبِرُوحِ الإيمَانِ عَبَدُوا الله وَلَمْ يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَبِرُوحِ الْقُوَّةِ جَاهَدُوا عَدُوَّهُمْ وَعَالَجُوا مَعَاشَهُمْ وَبِرُوحِ الشَّهْوَةِ أَصَابُوا لَذِيذَ الطَّعَامِ وَنَكَحُوا الْحَلالَ مِنْ شَبَابِ النِّسَاءِ وَبِرُوحِ الْبَدَنِ دَبُّوا وَدَرَجُوا فَهَؤُلاءِ مَغْفُورٌ لَهُمْ مَصْفُوحٌ عَنْ ذُنُوبِهِمْ ثُمَّ قَالَ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ الله وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجاتٍ وَآتَيْنا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّناتِ وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ثُمَّ قَالَ فِي جَمَاعَتِهِمْ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ يَقُولُ أَكْرَمَهُمْ بِهَا فَفَضَّلَهُمْ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ فَهَؤُلاءِ مَغْفُورٌ لَهُمْ مَصْفُوحٌ عَنْ ذُنُوبِهِمْ ثُمَّ ذَكَرَ أَصْحَابَ الْمَيْمَنَةِ وَهُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً بِأَعْيَانِهِمْ جَعَلَ الله فِيهِمْ أَرْبَعَةَ أَرْوَاحٍ رُوحَ الإيمَانِ وَرُوحَ الْقُوَّةِ وَرُوحَ الشَّهْوَةِ وَرُوحَ الْبَدَنِ فَلا يَزَالُ الْعَبْدُ يَسْتَكْمِلُ هَذِهِ الأرْوَاحَ الأرْبَعَةَ حَتَّى تَأْتِيَ عَلَيْهِ حَالاتٌ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذِهِ الْحَالاتُ فَقَالَ أَمَّا أُولاهُنَّ فَهُوَ كَمَا قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئاً فَهَذَا يَنْتَقِصُ مِنْهُ جَمِيعُ الأرْوَاحِ وَلَيْسَ بِالَّذِي يَخْرُجُ مِنْ دِينِ الله لأنَّ الْفَاعِلَ بِهِ رَدَّهُ إِلَى أَرْذَلِ عُمُرِهِ فَهُوَ لا يَعْرِفُ لِلصَّلاةِ وَقْتاً وَلا يَسْتَطِيعُ التَّهَجُّدَ بِاللَّيْلِ وَلا بِالنَّهَارِ وَلا الْقِيَامَ فِي الصَّفِّ مَعَ النَّاسِ فَهَذَا نُقْصَانٌ مِنْ رُوحِ الإيمَانِ وَلَيْسَ يَضُرُّهُ شَيْئاً وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَقِصُ مِنْهُ رُوحُ الْقُوَّةِ فَلا يَسْتَطِيعُ جِهَادَ عَدُوِّهِ وَلا يَسْتَطِيعُ طَلَبَ الْمَعِيشَةِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَقِصُ مِنْهُ رُوحُ الشَّهْوَةِ فَلَوْ مَرَّتْ بِهِ أَصْبَحُ بَنَاتِ آدَمَ لَمْ يَحِنَّ إِلَيْهَا وَلَمْ يَقُمْ وَتَبْقَى رُوحُ الْبَدَنِ فِيهِ فَهُوَ يَدِبُّ وَيَدْرُجُ حَتَّى يَأْتِيَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَهَذَا الْحَالُ خَيْرٌ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ هُوَ الْفَاعِلُ بِهِ وَقَدْ تَأْتِي عَلَيْهِ حَالاتٌ فِي قُوَّتِهِ وَشَبَابِهِ فَيَهُمُّ بِالْخَطِيئَةِ فَيُشَجِّعُهُ رُوحُ الْقُوَّةِ وَيُزَيِّنُ لَهُ رُوحُ الشَّهْوَةِ وَيَقُودُهُ رُوحُ الْبَدَنِ حَتَّى تُوْقِعَهُ فِي الْخَطِيئَةِ فَإِذَا لامَسَهَا نَقَصَ مِنَ الإيمَانِ وَتَفَصَّى مِنْهُ فَلَيْسَ يَعُودُ فِيهِ حَتَّى يَتُوبَ فَإِذَا تَابَ تَابَ الله عَلَيْهِ وَإِنْ عَادَ أَدْخَلَهُ الله نَارَ جَهَنَّمَ فَأَمَّا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ فَهُمُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ آتَيْناهُمُ الْكِتابَ يَعْرِفُونَهُ كَما يَعْرِفُونَ أَبْناءَهُمْ يَعْرِفُونَ مُحَمَّداً وَالْوَلايَةَ فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ فِي مَنَازِلِهِمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ أَنَّكَ الرَّسُولُ إِلَيْهِمْ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ فَلَمَّا جَحَدُوا مَا عَرَفُوا ابْتَلاهُمُ الله بِذَلِكَ فَسَلَبَهُمْ رُوحَ الإيمَانِ وَأَسْكَنَ أَبْدَانَهُمْ ثَلاثَةَ أَرْوَاحٍ رُوحَ الْقُوَّةِ وَرُوحَ الشَّهْوَةِ وَرُوحَ الْبَدَنِ ثُمَّ أَضَافَهُمْ إِلَى الأنْعَامِ فَقَالَ إِنْ هُمْ إِلا كَالأنْعامِ لأنَّ الدَّابَّةَ إِنَّمَا تَحْمِلُ بِرُوحِ الْقُوَّةِ وَتَعْتَلِفُ بِرُوحِ الشَّهْوَةِ وَتَسِيرُ بِرُوحِ الْبَدَنِ فَقَالَ لَهُ السَّائِلُ أَحْيَيْتَ قَلْبِي بِإِذْنِ الله يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ۔
اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ایک بندہ زنا نہیں کرتا اور وہ مومن ہے چوری نہیں کرتا اور وہ مومن ہے شراب نہیں پیتا اور وہ مومن ہے سود نہیں کھاتا وہ مومن ہے ناحق کسی کو قتل نہیں کرتا وہ مومن ہے۔ مجھ سے بیان کیا گیا اور میرے سینے پر تنگی واقع ہوئی جب میں نے یہ گمان کیا کہ یہ شخص میری طرح نماز بھی پڑھتا ہے اور میری طرح دین حق کی دعوت بھی دیتا ہے اور میرے اور اس کے درمیان مناکحت اور میراث بھی درست ہے لیکن یہی شخص تھورا سا گناہ کرنے پر ایمان سے خارج ہو جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا میں نے رسول اللہ سے سنا ہے اور اس پر دلیل یہ آیت ہے داہنی طرف والے اور بائیں طرف والے سبقت کرنے والے وہ سابقین جن کا ذکر انبیاء مرسلین اور غیر مرسلین ہیں اللہ نے ان میں پانچ روحیں پیدا کی ہیں۔ روح قدس، روح ایمان، روح قوت، روح شہوت اور روح بدن۔ روح قدس کے لیے انبیاء و مرسلین وغیرہ مبعوث ہوئے اور اس کی وہ سے ان کو علم اشیاء حاصل ہوئی اور روح ایمان سے انھوں نے اللہ کی عبادت کی اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیا اور روح قوت سے انھوں نےجہاد کیا اپنے دشمنوں سے اور اپنی معاش حاصل کی اور روح شہوت سے لذت طعام حاصل کیا اور بطریق حلال عورتوں سے نکال کیا اور روح بدن سے چلے پھرے۔ پس یہ عنداللہ مغفور ہیں اور ان کی فروگزاشتوں سے درگذر کی گئی ہے۔ خدا نے فرمایا ہم نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور جس سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجات بلند کیے اور عیسیٰ بن مریم کو معجزات دیے اور روح القدس سے ان کی تائید اور ایک گروہ کے لیے کہا ہم نے اس کی تائید اپنی روح سے کی۔ خدا فرماتا ہے کہ اس نے ان کو مکرم کیا اور دوسروں پر ان کو فضیلت دی۔ یہ وہ گروہ ہے جو عنداللہ مغفور ہے اور جس کی فروگزاشت سے درگزر کی جاتی ہے اس کے بعد خدا نے داہنی طرف والوں کا ذکر کیا ہے بہ لحاظ اپنی ذاتوں کے سچے مومن ہوں گے ان میں خدا نے چار روحیں قرار دیں ہیں ، روح ایمان، روح قوت، روح شہوت اور روح بدن۔ عبد خدا ان چاروں کی تکمیل میں رہتا ہے جب تک حالات نہ بدلیں اس شخص نے کہا حالات بدلنے کی کیا صورت ہوتی ہے فرمایا پہلی صورت کے متعلق خدا فرماتا ہے بعض اپنی عمر کے پست تر حصہ تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ جاننے کے بعد سب کچھ بھول جائیں اس عمر میں تمام روحوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن باوجود اس کمی کے وہ دین خدا سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ وہ کمزوری خدا کی طرف سے دی ہوئی ہوتی ہے جو زوال عمر کی طرف اس کو لے جاتا ہے زیادہ بوڑھا ہو کر نہ تو وہ نماز کا وقت جانتا ہے اور نہ رات اور دن میں سنت نمازوں کا نہ جماعت میں لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے نہ نقصان روح ایمان ہے لیکن اس سے اس کو نقصان نہیں پہنچتا اور بعض کی ان میں روح قوت کمزور پڑ جاتی ہے جس سے وہ دشمن سے جہاد نہیں کر سکتا اور کسب معاش سے قاصر رہتا ہے بعض کی روح شہوت کمزور پڑ جاتی ہے جس سے وہ حسین سے حسین عورت کی طرف توجہ نہیں کرتا نہ کھڑے ہونے پر قدرت رکھتا ہے صرف روح بدن اس میں کام کرتی ہے جس سے وہ چلتا پھرتا ہے یہاں تک کہ موت کا فرشتہ اس تک پہنچ جاتا ہے یہ حالات انسان کے لیے بہتر ہوتے ہیں کیونکہ کمزوریاں اللہ کی طرف سے دی ہوئی ہوتی ہیں لیکن ایسے حالات بھی پیش آتے ہیں کہ انسان کے بدن میں قوت بھی ہوتی ہے اور عالم شباب بھی لیکن ایسی حالت میں بھی وہ گناہ کا ارادہ کرتا ہے جب کر گزرتا ہے تو اس کے ایمان میں نقصان پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس سے خارج ہو جاتا ہے اور جب تک توبہ نہیں کرتا ایمان اس کی طرف نہیں لوٹتا۔ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اگر وہ عور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نار جہنم میں داخل کرتا ہے ۔ رہے بائیں طرف والے لوگ تو وہ یہود و نصاریٰ ہیں جیسا کہ خدا فرماتا ہے وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب خدا دی ہے وہ رسول کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو اور ان کی ولایت کا ذکر توریت و انجیل میں ہے وہ اسے پڑھ کر حضرت کی معرفت اسی طرح حاصل کیے ہوئے ہیں جیسے اپنے گھروں میں اپنی اولاد کی پھر ان سے ایک گروہ نے حق بات کو چھپا لیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ رب کی طرف سے آنحضرت کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے پس تم انکار کرنے والے نہ بنو۔ جب انھوں نے معرفت کے بعد بھی انکار کر دیا تو خدا نے ان کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دیا اور روح ایمان کو ان سے سلب کر لیا اور ان کے ابدان میں تین روحیں رکھیں روح قوت، روح شہوت اور روح بدن اور ان کو نسبت دی چوپاؤں سے اور فرمایا وہ چوپاؤں کی طرح ہیں کیوں کہ چوپائے روح قوت سے بوجھ اٹھاتے ہیں اور روح شہوت سے چراتے ہیں اور روح بدن سے چلتے پھرتے ہیں۔ سائل نے امیر المومنین علیہ السلام سے یہ جواب سنا تو کہنے لگا اے امیر المومنین آپ نے باذن خدا میرے مردہ قلب کو زندہ کر دیا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ دَاوُدَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِذَا زَنَى الرَّجُلُ فَارَقَهُ رُوحُ الإيمَانِ قَالَ فَقَالَ هُوَ مِثْلُ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ ثُمَّ قَالَ غَيْرُ هَذَا أَبْيَنُ مِنْهُ ذَلِكَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ هُوَ الَّذِي فَارَقَهُ۔
داؤد نے کہا میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا قول رسول اللہ کے متعلق کہ جب کوئی مرد زنا کرتا ہے تو اس سے روح ایمان سلب ہو جاتی ہے۔ حضرت نے فرمایا یہ قول آنحضرت کا اس آیت کی مثل ہے خرمے جمع کرنے کے وقت خراب خرمے جو تمہیں مستحقوں کو دینے ہیں اپنے خرموں میں شامل کرنے کا قصد نہ کرو۔ اور اس سے زیادہ واضح آیت یہ ہے خدا نے اپنی روح سے ان کی مدد کی ۔ پس یہی روح ہے جو اس سے جدا ہو جاتی ہے۔
يُونُسُ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ الْكَبَائِرَ فَمَا سِوَاهَا قَالَ قُلْتُ دَخَلَتِ الْكَبَائِرُ فِي الإسْتِثْنَاءِ قَالَ نَعَمْ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے خدا شرک کا گناہ نہیں بخشتا اور اس کے سوا جو گناہ ہو گا اسے جسے چاہے بخش دے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا کیا استثناء میں کبائر داخل ہیں یعنے کبائر کو بخش دے گا۔ فرمایا ہاں۔
يُونُسُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) الْكَبَائِرُ فِيهَا اسْتِثْنَاءُ أَنْ يَغْفِرَ لِمَنْ يَشَاءُ قَالَ نَعَمْ۔
میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کیا گناہان کبیرہ میں سے کوئی گناہ بھی خدا جسے چاہے بخش دے گا۔ فرمایا ہاں۔
يُونُسُ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً قَالَ مَعْرِفَةُ الإمَامِ وَاجْتِنَابُ الْكَبَائِرِ الَّتِي أَوْجَبَ الله عَلَيْهَا النَّارَ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی اس سے مراد ہے امام کی معرفت اور ان گناہان کبیرہ سے اجتناب جس کے کرنے پر اللہ نے دوزخ کو واجب کیا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) الْكَبَائِرُ تُخْرِجُ مِنَ الإيمَانِ فَقَالَ نَعَمْ وَمَا دُونَ الْكَبَائِرِ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لا يَزْنِي الزَّانِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلا يَسْرِقُ السَّارِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کیا گناہان کبیرہ ایمان سے خارج کر دیتے ہیں۔ فرمایا ہاں، اور کبائر کے علاوہ رسول اللہ نے فرمایا زنا نہیں کرتا کوئی زنا کرنے والا درآنحالیکہ وہ مومن ہو اور چوری نہیں کرتا چور درآنحالیکہ وہ مومن ہو۔
ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الزَّيَّاتِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ دَخَلَ ابْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرِ وَعَمْرُو بْنُ ذَرٍّ وَأَظُنُّ مَعَهُمَا أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فَتَكَلَّمَ ابْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرِ فَقَالَ إِنَّا لا نُخْرِجُ أَهْلَ دَعْوَتِنَا وَأَهْلَ مِلَّتِنَا مِنَ الإيمَانِ فِي الْمَعَاصِي وَالذُّنُوبِ قَالَ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَا ابْنَ قَيْسٍ أَمَّا رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَدْ قَالَ لا يَزْنِي الزَّانِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلا يَسْرِقُ السَّارِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ حَيْثُ شِئْتَ۔
قیس بن ناصر اور عمرو بن ذر اور میرا خیال ہے کہ ابوحنیفہ بھی امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آئے ابن قیس نے کہا ہم نہیں خارج ہوتے دین دینے والی جماعت سے اور اہل ایمان کے گروہ سے در صورت گناہ کرنے کے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا اے ابن قیس رسول اللہ یہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی مومن ہے وہ نہ زنا کرتا ہے اور نہ چوری کرتا ہے پس تو اور تیرا ساتھی جو راہ چاہو اختیار کرو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنِ الرَّجُلِ يَرْتَكِبُ الْكَبِيرَةَ مِنَ الْكَبَائِرِ فَيَمُوتُ هَلْ يُخْرِجُهُ ذَلِكَ مِنَ الإسْلامِ وَإِنْ عُذِّبَ كَانَ عَذَابُهُ كَعَذَابِ الْمُشْرِكِينَ أَمْ لَهُ مُدَّةٌ وَانْقِطَاعٌ فَقَالَ مَنِ ارْتَكَبَ كَبِيرَةً مِنَ الْكَبَائِرِ فَزَعَمَ أَنَّهَا حَلالٌ أَخْرَجَهُ ذَلِكَ مِنَ الإسْلامِ وَعُذِّبَ أَشَدَّ الْعَذَابِ وَإِنْ كَانَ مُعْتَرِفاً أَنَّهُ أَذْنَبَ وَمَاتَ عَلَيْهِ أَخْرَجَهُ مِنَ الإيمَانِ وَلَمْ يُخْرِجْهُ مِنَ الإسْلامِ وَكَانَ عَذَابُهُ أَهْوَنَ مِنْ عَذَابِ الأوَّلِ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو کسی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہو اور اسی حالت میں مر گیا ہو، آیا وہ اسلام سے خارج ہو گا یا نہیں اور اسی پر وہی عذاب ہو گا جو مشرک کے لیے یا کچھ مدت کے لیے منقطع ہو جائیگا۔ فرمایا اگر وہ مرتکب گناہ اس خیال کے ساتھ ہوا ہے کہ وہ فعل حلال کر رہا ہے تو اسلام سے خارج ہو جائے گا اور اس کے لیے سخت عذاب ہو گا اور اگر اس کا اقرار کر لے گا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور اس حالت میں مر جائے گا تو ایمان سے خارج ہو جائے گا مگر اسلام سے خارج نہ ہو گا اور اس پر عذاب پہلے شخص سے کم ہو گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ الله الْحَسَنِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ سَمِعْتُ أَبِي مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ (عَلَيهِما السَّلام) يَقُولُ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَلَمَّا سَلَّمَ وَجَلَسَ تَلا هَذِهِ الآيَةَ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الإثْمِ وَالْفَواحِشَ ثُمَّ أَمْسَكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا أَسْكَتَكَ قَالَ أُحِبُّ أَنْ أَعْرِفَ الْكَبَائِرَ مِنْ كِتَابِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ نَعَمْ يَا عَمْرُو أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ الإشْرَاكُ بِالله يَقُولُ الله وَمَنْ يُشْرِكْ بِالله فَقَدْ حَرَّمَ الله عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَبَعْدَهُ الإيَاسُ مِنْ رَوْحِ الله لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّهُ لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ثُمَّ الأمْنُ لِمَكْرِ الله لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ وَمِنْهَا عُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ لأنَّ الله سُبْحَانَهُ جَعَلَ الْعَاقَّ جَبَّاراً شَقِيّاً وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ الله إِلا بِالْحَقِّ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فِيها إِلَى آخِرِ الآيَةِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ لُعِنُوا فِي الدُّنْيا وَالآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذابٌ عَظِيمٌ وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّما يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ ناراً وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلا مُتَحَرِّفاً لِقِتالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلى فِئَةٍ فَقَدْ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ الله وَمَأْواهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَأَكْلُ الرِّبَا لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبا لا يَقُومُونَ إِلا كَما يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطانُ مِنَ الْمَسِّ وَالسِّحْرُ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَراهُ ما لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ وَالزِّنَا لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً يُضاعَفْ لَهُ الْعَذابُ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهاناً وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ الْفَاجِرَةُ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ الله وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلاً أُولئِكَ لا خَلاقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ وَالْغُلُولُ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمَنْعُ الزَّكَاةِ الْمَفْرُوضَةِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ وَشَهَادَةُ الزُّورِ وَكِتْمَانُ الشَّهَادَةِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَمَنْ يَكْتُمْها فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَشُرْبُ الْخَمْرِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ نَهَى عَنْهَا كَمَا نَهَى عَنْ عِبَادَةِ الأوْثَانِ وَتَرْكُ الصَّلاةِ مُتَعَمِّداً أَوْ شَيْئاً مِمَّا فَرَضَ الله لأنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ مَنْ تَرَكَ الصَّلاةَ مُتَعَمِّداً فَقَدْ بَرِئَ مِنْ ذِمَّةِ الله وَذِمَّةِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَنَقْضُ الْعَهْدِ وَقَطِيعَةُ الرَّحِمِ لأنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ أُولئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ قَالَ فَخَرَجَ عَمْرٌو وَلَهُ صُرَاخٌ مِنْ بُكَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ هَلَكَ مَنْ قَالَ بِرَأْيِهِ وَنَازَعَكُمْ فِي الْفَضْلِ وَالْعِلْمِ۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ میں نے اپنے باپ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سنا کہ عمرو بن عبید ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا سلام کیا اور بیٹھا اور آیت پڑھی اور چپ ہو گیا۔ اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ کتاب خدا سے کبائر بیان فرمائیں۔ فرمایا سن اے عمرو سب سے بڑا گناہ شرک باللہ ہے خدا نے فرمایا ہے جس نے خدا کا شریک قرار دیا جنت اس پر حرام ہے اس کے بعد رحمت خدا سے مایوسی ہے جیسا کہ فرماتا ہے کافروں کے سوا کوئی رحمت خدا سے مایوس نہیں ہوتا اس کے بعد عذاب خدا سے مایوسی ہے فرماتا ہے خدا کے عذاب سے بے خوف نہیں ہوتا مگر خسارہ پانے والے لوگ اور ان کبائر میں والدین کی نافرمانی ہے کیوں کہ خدا نے نافرمان کو جبار و شقی فرمایا ہے اور ناحق کسی کو قتل کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی جگہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور زن عفیفہ پر تہمت زنا لگانا خدا فرماتا ہے ایسے لوگوں پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے اور مال یتیم کھانا خدا فرماتا ہے ایسے لوگ اپنے پیٹوں میں آگے بھرتے ہیں اور وہ عنقریب جہنم کی آگ تاپیں گے اور جہاد سے فرار خدا فرماا ہے کوئی اس وقت پشت پھیرے گا سوائے کار جنگ کے لیے جیسے زرہ وغیرہ کی درستگی یا کسی گروہ میں شامل ہونے کے لیے تو وہ غضب خدا میں آ گیا اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے اور بری جگہ اور سود کھانا خدا فرماتا ہے جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے کسی شیطان نے چھو کر لڑکھڑا دیا ہو اور جادو ہے خدا فرماتا ہے کہ انھوں نے جان لیا کہ انھوں نے ایسا سودا کیا جس سے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور زنا ہے خدا فرماتا ہے اس گناہ کے کرنے والے کے لیے روز قیامت دو گنا عذاب ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ رہے گا اور نقصان رساں جھوٹی قسم کھانا خدا فرماتا ہے وہ اللہ سے وعدہ خلافی کر کے اور جھوٹی قسم کھا کر تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور خیانت خدا فرماتا ہے ہے وہی مال اس کے ساتھ قیامت میں لایا جائے گا اور مفروضہ زکوٰۃ نہ دینا خدا فرماتا ہے کہ ان کی پیشانیوں اور پہلو اور پشتیں اس مال سے داغی جائیں گی اور جھوٹی گواہی دینا اور سچی گواہی چھپانا۔
خدا فرماتا ہے جو اسے چھپاتے گا تو اس کا دل گنہگار قرار پائے گا اور شراب کا پینا خدا نےا سےاسی طرح منع کیا ہے جس طرح بت پرستی سے باہر تک نماز سے قصداً یا ہر شے کے ترک سے جسے اللہ نے فرض کیا ہے اور رسول اللہ نے فرمایا ہے جس نے عمداً نماز کو ترک کیا اللہ اور رسول کی ذمہ داری سے الگ ہو گیا اور وعدہ کا توڑنا قطع رحم کرنا خدا فرماتا ہے ایسے لوگوں کے لیے لعنت ہے اور برا ٹھکانا ہے۔ یہ سن کر عمرو بن عبید وہاں چیخوں کے ساتھ روتا ہوا نکلا اور کہتا جا رہا تھا ہلاک ہوا وہ جس نے اپنی رائے سے حکم لگایا اور آپ سے فضل و علم میں جھگڑا کیا۔