عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأشْعَرِيِّ عَنِ ابْنِ الْقَدَّاحِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّهُ قَالَ لِعَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ الْبَصْرِيِّ فِي الْمَسْجِدِ وَيْلَكَ يَا عَبَّادُ إِيَّاكَ وَالرِّيَاءَ فَإِنَّهُ مَنْ عَمِلَ لِغَيْرِ الله وَكَلَهُ الله إِلَى مَنْ عَمِلَ لَهُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے عباد بن کثیر بصری سے مسجد میں، اے عباد وائے ہو تجھ پر اپنے کو ریاکاری سے بچا کیوں کہ جو عمل اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کیا جاتا ہے اللہ اس کا اجر اسی کے سپرد کرتا ہے جس کے لیے وہ کیا گیا ہو۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ اجْعَلُوا أَمْرَكُمْ هَذَا لله وَلا تَجْعَلُوهُ لِلنَّاسِ فَإِنَّهُ مَا كَانَ لله فَهُوَ لله وَمَا كَانَ لِلنَّاسِ فَلا يَصْعَدُ إِلَى الله۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جو امر نیک کرو وہ اللہ کے لیے کرو، لوگوں کے خوش کرنے یا دکھانے کے لیے نہیں جو کام رضائے الہٰی کے لیے کیا جاتا ہے اس کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے اور جو بندوں کے لیے کیا جاتا ہے وہ اللہ کی طرف نہیں جاتا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي الْمَغْرَاءِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خَلِيفَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كُلُّ رِيَاءٍ شِرْكٌ إِنَّهُ مَنْ عَمِلَ لِلنَّاسِ كَانَ ثَوَابُهُ عَلَى النَّاسِ وَمَنْ عَمِلَ لله كَانَ ثَوَابُهُ عَلَى الله۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے ہر ریا شرک ہے جو کام بندوں کے لیے کیا جاتا ہے اس کا ثواب دینا بندوں سے متعلق ہوتا ہے اور جو اللہ کے لیے کیا جاتا ہے اس کا اجر اللہ دیتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ جَرَّاحٍ الْمَدَائِنِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صالِحاً وَلا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً قَالَ الرَّجُلُ يَعْمَلُ شَيْئاً مِنَ الثَّوَابِ لا يَطْلُبُ بِهِ وَجْهَ الله إِنَّمَا يَطْلُبُ تَزْكِيَةَ النَّاسِ يَشْتَهِي أَنْ يُسْمِعَ بِهِ النَّاسَ فَهَذَا الَّذِي أَشْرَكَ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَسَرَّ خَيْراً فَذَهَبَتِ الأيَّامُ أَبَداً حَتَّى يُظْهِرَ الله لَهُ خَيْراً وَمَا مِنْ عَبْدٍ يُسِرُّ شَرّاً فَذَهَبَتِ الأيَّامُ أَبَداً حَتَّى يُظْهِرَ الله لَهُ شَرّاً۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس قول خدا کے متعلق جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ عمل نیک کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے کہ جو کوئی ثواب کے لیے کام کرتا ہے اور تقرب خدا کو ملحوظ نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ لوگوں کی مرضی کا طالب ہو کر چاہتا ہے کہ لوگ اس کے عمل کا چرچا سنیں تو یہ وہ شخص ہے جو اپنے رب کی عبادت میں دوسرے کو شریک بناتا ہے پھر فرمایا جو کوئی پوشیدہ نیکی کرتا ہے کچھ عرصہ نہیں گزرے گا کہ اللہ اس عمل کا نیک بدلہ دے گا اور جو بدی کو چھپا کر کرے گا کچھ عرصہ بعد خدا اس کے لیے بدلہ ظاہر کرے گا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَرَفَةَ قَالَ قَالَ لِيَ الرِّضَا (عَلَيهِ السَّلام) وَيْحَكَ يَا ابْنَ عَرَفَةَ اعْمَلُوا لِغَيْرِ رِيَاءٍ وَلا سُمْعَةٍ فَإِنَّهُ مَنْ عَمِلَ لِغَيْرِ الله وَكَلَهُ الله إِلَى مَا عَمِلَ وَيْحَكَ مَا عَمِلَ أَحَدٌ عَمَلاً إِلا رَدَّاهُ الله إِنْ خَيْراً فَخَيْرٌ وَإِنْ شَرّاً فَشَرٌّ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے محمد بن عرفہ سے فرمایا جو عمل کرو بے ریا و فریب ہو کیوںکہ کہ جو کام غیر خدا کے لیے ہو گا تو اللہ اس کو اسی کے سپرد کر دے گا جس کے لیے وہ کیا گیا ہے وائے تجھ پر جو شخص کوئی کام کرتا ہے اللہ اس کا ویسا ہی بدلہ دیتا ہے اگر اچھا کام ہے تو اچھا بدلہ دے گا اور اگر برا ہے تو برا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ إِنِّي لأتَعَشَّى مَعَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِذْ تَلا هَذِهِ الآيَةَ بَلِ الإنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقى مَعاذِيرَهُ يَا أَبَا حَفْصٍ مَا يَصْنَعُ الإنْسَانُ أَنْ يَتَقَرَّبَ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ بِخِلافِ مَا يَعْلَمُ الله تَعَالَى إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) كَانَ يَقُولُ مَنْ أَسَرَّ سَرِيرَةً رَدَّاهُ الله رِدَاءَهَا إِنْ خَيْراً فَخَيْرٌ وَإِنْ شَرّاً فَشَرٌّ۔
عمر ابن زید سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھایا۔ حضرت نے یہ آیت تلاوت کی، انسان اپنے نفس سے خود واقف ہے اگرچہ وہ کیسے ہی عذر کرے۔ اے ابو حفص بخلاف اس چیز کے جو علم الہٰی میں ہے انسان اللہ کا تقرب کیسے حاصل کرے گا رسول اللہ نے فرمایا ہے جو اپنی کسی حالت کو چھپاتا ہے اللہ اسے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپتا ہے پھر وہ لوگوں پر ظاہر ہوتی ہے اگر اچھی ہے تو اچھی صورت میں بری ہے تو بری صورت میں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّ الْمَلَكَ لَيَصْعَدُ بِعَمَلِ الْعَبْدِ مُبْتَهِجاً بِهِ فَإِذَا صَعِدَ بِحَسَنَاتِهِ يَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ اجْعَلُوهَا فِي سِجِّينٍ إِنَّهُ لَيْسَ إِيَّايَ أَرَادَ بِهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب فرشتہ کسی بندے کا عمل لے کر جس سے وہ خوش ہو اوپر جاتا ہے پس جب وہ اس کی نیکیاں لے کر مقام رد و قبول میں جاتا ہے تو خدا فرماتا ہے اسے سجین (دوزخ کا آخری طبقہ) میں ڈال دو کیوں کہ اس عمل سے اس نے میرے سوا میرے غیر کو خوش کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
وَبِإِسْنَادِهِ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) ثَلاثُ عَلامَاتٍ لِلْمُرَائِي يَنْشَطُ إِذَا رَأَى النَّاسَ وَيَكْسَلُ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَيُحِبُّ أَنْ يُحْمَدَ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ۔
فرمایا حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے خودنمائی کی تین موقعے ہیں اول یہ کہ اپنے عمل پر خوش ہو جب لوگ دیکھیں اور اپنے عمل میں سست پڑ جائے جب تنہا ہو اور یہ کہ پسند کرے اس بات کو کہ تمام امور میں اس کی تعریف ہو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ أَنَا خَيْرُ شَرِيكٍ مَنْ أَشْرَكَ مَعِي غَيْرِي فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لَمْ أَقْبَلْهُ إِلا مَا كَانَ لِي خَالِصاً۔
راوی کہتا ہے میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ اللہ تعالیٰ (حدیث قدسی) میں فرماتا ہے انسان اپنے عمل میں میرے سوا جس کو شریک کرتا ہے میں ان تمام شرکاء سے بہتر ہوں، میں اس کے عمل کو قبول نہ کروں گا جب تک وہ خالص میرے لیے نہ ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ دَاوُدَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَنْ أَظْهَرَ لِلنَّاسِ مَا يُحِبُّ الله وَبَارَزَ الله بِمَا كَرِهَهُ لَقِيَ الله وَهُوَ مَاقِتٌ لَهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ جو شخص لوگوں پر اس عمل کو ظاہر کرتا ہے جسے اللہ دوست رکھتا ہے اور اللہ پر خلوت میں ظاہر کرتا ہے وہ چیز جسے وہ دوست نہیں رکھتا تو روز قیامت وہ اللہ کے سامنے اس طرح حاضر ہو گا کہ اللہ اس سے ناخوش ہو گا۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ فَضْلٍ أَبِي الْعَبَّاسِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَا يَصْنَعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يُظْهِرَ حَسَناً وَيُسِرَّ سَيِّئاً أَ لَيْسَ يَرْجِعُ إِلَى نَفْسِهِ فَيَعْلَمَ أَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ كَذَلِكَ وَالله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ بَلِ الإنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ إِنَّ السَّرِيرَةَ إِذَا صَحَّتْ قَوِيَتِ الْعَلانِيَةُ. الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ فَضَالَةَ عَنْ مُعَاوِيَةَ عَنِ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مِثْلَهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے تم میں سے ایک شخص نیکی کو ظاہر کرتا ہے اور بدی کو چھپاتا ہے کیا وہ اپنے نفس کی طرف رجوع کر کے یہ پتہ نہیں چلاتا کہ ایسا نہیں ہے جیسا وہ سمجھ رہا ہے۔ خدا فرماتا ہے انسان اپنے نفس سے خبردار ہے جب نیت صحیح ہوتی ہے تو ظاہری حالت قوی ہوتی ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا مِنْ عَبْدٍ يُسِرُّ خَيْراً إِلا لَمْ تَذْهَبِ الأيَّامُ حَتَّى يُظْهِرَ الله لَهُ خَيْراً وَمَا مِنْ عَبْدٍ يُسِرُّ شَرّاً إِلا لَمْ تَذْهَبِ الأيَّامُ حَتَّى يُظْهِرَ الله لَهُ شَرّاً۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جو کوئی اپنے عمل قلیل سے خدا کو راضی کرنا چاہتا ہے تو خدا اس کو لوگوں کی نظروں میں زیادہ ظاہر کرتا ہے اور جو اپنے عمل کو لوگوں کے سامنے زیادہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور اپنے بدن کی تکان اور شب بیداری بیان کرتا ہے خدا اس کو لوگوں کی نظر میں کم ظاہر ہونے دیتا ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ بَشِيرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَنْ أَرَادَ الله عَزَّ وَجَلَّ بِالْقَلِيلِ مِنْ عَمَلِهِ أَظْهَرَ الله لَهُ أَكْثَرَ مِمَّا أَرَادَ وَمَنْ أَرَادَ النَّاسَ بِالْكَثِيرِ مِنْ عَمَلِهِ فِي تَعَبٍ مِنْ بَدَنِهِ وَسَهَرٍ مِنْ لَيْلِهِ أَبَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلا أَنْ يُقَلِّلَهُ فِي عَيْنِ مَنْ سَمِعَهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جو کوئی عمل نیک کرتا ہے کچھ دن نہیں گزرتے کہ اللہ اس عمل خیر کو اس کے لیے ظاہر کر دیتا ہے اور جو عمل بد کرتا ہے خدا چند روز بعد اس کے عمل بد کو ظاہر کر دیتا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ تَخْبُثُ فِيهِ سَرَائِرُهُمْ وَتَحْسُنُ فِيهِ عَلانِيَتُهُمْ طَمَعاً فِي الدُّنْيَا لا يُرِيدُونَ بِهِ مَا عِنْدَ رَبِّهِمْ يَكُونُ دِينُهُمْ رِيَاءً لا يُخَالِطُهُمْ خَوْفٌ يَعُمُّهُمُ الله بِعِقَابٍ فَيَدْعُونَهُ دُعَاءَ الْغَرِيقِ فَلا يَسْتَجِيبُ لَهُمْ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا عنقریب ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ لوگوں کی بری نیتیں پوشیدہ ہو گی اور ان کے ظاہری اعمال جو بہ طمع دنیا ہوں گے لوگوں پر ظاہر ہوں گے جن سے ان کا مقصد تقرب ایزدی نہ ہو گا بلکہ ان کی یہ دینداری دکھاوا ہو گی عذاب الہٰی کا خوف ان کے دلوں میں نہ ہو گا اس وقت وہ خدا کو اس طرح پکاریں گے جیسے ڈوبنے والا پکارتا ہے لیکن خدا ان کی دعا کو قبول نہیں کرے گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ إِنِّي لأتَعَشَّى مَعَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِذْ تَلا هَذِهِ الآيَةَ بَلِ الإنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقى مَعاذِيرَهُ يَا أَبَا حَفْصٍ مَا يَصْنَعُ الإنْسَانُ أَنْ يَعْتَذِرَ إِلَى النَّاسِ بِخِلافِ مَا يَعْلَمُ الله مِنْهُ إِنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) كَانَ يَقُولُ مَنْ أَسَرَّ سَرِيرَةً أَلْبَسَهُ الله رِدَاءَهَا إِنْ خَيْراً فَخَيْرٌ وَإِنْ شَرّاً فَشَرٌّ۔
عمرو بن یزید نے بیان کیا میں نے رات کا کھانا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کے ساتھ کھایا حضرت نے یہ آیت تلاوت کی"انسان اپنے نفس سے خوب واقف ہے چاہے کتنے ہی عذر کرے" پھر فرمایا اے ابو حفص جو کچھ اس کے عمل کے متعلق خدا جانتا ہے انسان اس کے خلاف لوگوں سے بیان کرتا ہے رسول اللہ نے فرمایا جو اپنی نیت کو چھپاتا ہے خدا اس پر پردہ ڈالتا ہے لیکن اگر وہ نیک ہے تو نیک ظاہر ہو کر رہتی ہے اور اگر بد ہے تو بد۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّهُ قَالَ الإبْقَاءُ عَلَى الْعَمَلِ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَلِ قَالَ وَمَا الإبْقَاءُ عَلَى الْعَمَلِ قَالَ يَصِلُ الرَّجُلُ بِصِلَةٍ وَيُنْفِقُ نَفَقَةً لله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ فَكُتِبَ لَهُ سِرّاً ثُمَّ يَذْكُرُهَا وَتُمْحَى فَتُكْتَبُ لَهُ عَلانِيَةً ثُمَّ يَذْكُرُهَا فَتُمْحَى وَتُكْتَبُ لَهُ رِيَاءً۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ عمل خیر پر باقی رہنا عمل سے زیادہ مشکل ہے کسی نے کہا عمل پر باقی رہنے سے کیا مراد ہے۔ فرمایا ایک صلہ رحم کرتا ہے یا راہ خدا میں صرف خوشنودیِ خدا کے لیے خرچ کرتا ہے اس کے نام نیکی لکھی جاتی ہے پھر وہ لوگوں سے اس کا ذکر کرتا ہے پس دفتر الہٰی سے پوشیدہ نیکی کرنے والے کو ظاہری نیکی لکھا جاتا ہے جب وہ پھر لوگوں سے اس کا ذکر کرتا ہے تو اس ظاہری نیکی کو بھی محو کر کے ریاکاری لکھ دیا جاتا ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأشْعَرِيِّ عَنِ ابْنِ الْقَدَّاحِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) اخْشَوُا الله خَشْيَةً لَيْسَتْ بِتَعْذِيرٍ وَاعْمَلُوا لله فِي غَيْرِ رِيَاءٍ وَلا سُمْعَةٍ فَإِنَّهُ مَنْ عَمِلَ لِغَيْرِ الله وَكَلَهُ الله إِلَى عَمَلِهِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ امیر المومنین نے فرمایا اللہ سے ڈرو بغیر سزا کے خوف کے اور بے ریا اور خود نمائی کے عمل کرو کیونکہ جو کوئی غیر خدا کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو خدا اس کو اس کے عمل کے سپرد کر دیتا ہے یعنے اس کا عمل بے جزا رہتا ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَعْمَلُ الشَّيْءَ مِنَ الْخَيْرِ فَيَرَاهُ إِنْسَانٌ فَيَسُرُّهُ ذَلِكَ فَقَالَ لا بَأْسَ مَا مِنْ أَحَدٍ إِلا وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَظْهَرَ لَهُ فِي النَّاسِ الْخَيْرُ إِذَا لَمْ يَكُنْ صَنَعَ ذَلِكَ لِذَلِكَ۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جب ان سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو کوئی عمل خیر کرے اور اس کو کوئی دیکھے تو وہ خوش ہو کہ اس کا کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ نیکی کرتا ہے تو یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگوں پر اس کا اظہار ہو لیکن شرط یہ ہے کہ یہ خیال مدنظر رکھ کر وہ نیکی نہ کی ہو کیوں کہ اس صورت میں ریا ہو گی خالصتاً اللہ کے لیے نہ رہے گی۔