عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلالِيِّ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ بُنِيَ الْكُفْرُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ الْفِسْقِ وَالْغُلُوِّ وَالشَّكِّ وَالشُّبْهَةِ وَالْفِسْقُ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى الْجَفَاءِ وَالْعَمَى وَالْغَفْلَةِ وَالْعُتُوِّ فَمَنْ جَفَا احْتَقَرَ الْحَقَّ وَمَقَتَ الْفُقَهَاءَ وَأَصَرَّ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ وَمَنْ عَمِيَ نَسِيَ الذِّكْرَ وَاتَّبَعَ الظَّنَّ وَبَارَزَ خَالِقَهُ وَأَلَحَّ عَلَيْهِ الشَّيْطَانُ وَطَلَبَ الْمَغْفِرَةَ بِلا تَوْبَةٍ وَلا اسْتِكَانَةٍ وَلا غَفْلَةٍ وَمَنْ غَفَلَ جَنَى عَلَى نَفْسِهِ وَانْقَلَبَ عَلَى ظَهْرِهِ وَحَسِبَ غَيَّهُ رُشْداً وَغَرَّتْهُ الأمَانِيُّ وَأَخَذَتْهُ الْحَسْرَةُ وَالنَّدَامَةُ إِذَا قُضِيَ الأمْرُ وَانْكَشَفَ عَنْهُ الْغِطَاءُ وَبَدَا لَهُ مَا لَمْ يَكُنْ يَحْتَسِبُ وَمَنْ عَتَا عَنْ أَمْرِ الله شَكَّ وَمَنْ شَكَّ تَعَالَى الله عَلَيْهِ فَأَذَلَّهُ بِسُلْطَانِهِ وَصَغَّرَهُ بِجَلالِهِ كَمَا اغْتَرَّ بِرَبِّهِ الْكَرِيمِ وَفَرَّطَ فِي أَمْرِهِ وَالْغُلُوُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى التَّعَمُّقِ بِالرَّأْيِ وَالتَّنَازُعِ فِيهِ وَالزَّيْغِ وَالشِّقَاقِ فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ يُنِبْ إِلَى الْحَقِّ وَلَمْ يَزْدَدْ إِلا غَرَقاً فِي الْغَمَرَاتِ وَلَمْ تَنْحَسِرْ عَنْهُ فِتْنَةٌ إِلا غَشِيَتْهُ أُخْرَى وَانْخَرَقَ دِينُهُ فَهُوَ يَهْوِي فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ وَمَنْ نَازَعَ فِي الرَّأْيِ وَخَاصَمَ شُهِرَ بِالْعَثَلِ مِنْ طُولِ اللَّجَاجِ وَمَنْ زَاغَ قَبُحَتْ عِنْدَهُ الْحَسَنَةُ وَحَسُنَتْ عِنْدَهُ السَّيِّئَةُ وَمَنْ شَاقَّ اعْوَرَّتْ عَلَيْهِ طُرُقُهُ وَاعْتَرَضَ عَلَيْهِ أَمْرُهُ فَضَاقَ عَلَيْهِ مَخْرَجُهُ إِذَا لَمْ يَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى الْمِرْيَةِ وَالْهَوَى وَالتَّرَدُّدِ وَالإسْتِسْلامِ وَهُوَ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكَ تَتَمارى وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى عَلَى الْمِرْيَةِ وَالْهَوْلِ مِنَ الْحَقِّ وَالتَّرَدُّدِ وَالإسْتِسْلامِ لِلْجَهْلِ وَأَهْلِهِ فَمَنْ هَالَهُ مَا بَيْنَ يَدَيْهِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ وَمَنِ امْتَرَى فِي الدِّينِ تَرَدَّدَ فِي الرَّيْبِ وَسَبَقَهُ الأوَّلُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَدْرَكَهُ الآخَرُونَ وَوَطِئَتْهُ سَنَابِكُ الشَّيْطَانِ وَمَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ هَلَكَ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَمَنْ نَجَا مِنْ ذَلِكَ فَمِنْ فَضْلِ الْيَقِينِ وَلَمْ يَخْلُقِ الله خَلْقاً أَقَلَّ مِنَ الْيَقِينِ وَالشُّبْهَةُ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ إِعْجَابٍ بِالزِّينَةِ وَتَسْوِيلِ النَّفْسِ وَتَأَوُّلِ الْعِوَجِ وَلَبْسِ الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَذَلِكَ بِأَنَّ الزِّينَةَ تَصْدِفُ عَنِ الْبَيِّنَةِ وَأَنَّ تَسْوِيلَ النَّفْسِ يُقَحِّمُ عَلَى الشَّهْوَةِ وَأَنَّ الْعِوَجَ يَمِيلُ بِصَاحِبِهِ مَيْلاً عَظِيماً وَأَنَّ اللَّبْسَ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ فَذَلِكَ الْكُفْرُ وَدَعَائِمُهُ وَشُعَبُهُ۔
راوی کہتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ کفر کی بنیاد چار ارکان پر ہے فسق، غلو، شک و شبہ۔ فسق کی چار شاخیں ہیں جفا، عمی، غفلت اور عتو۔ جفا کے یہ معنی ہیں کہ جفا کرنے والا امر حق کو حقیر سمجھتا ہے اور عالمان دین کا دشمن ہوتا ہے اور گناہ عظیم پر اصرار کرتا ہے عمی سے مراد یہ ہے کہ ذکر خدا کو بھول جاتا ہے اور ظن کی پیروی کرتا ہے اور اپنے خالق کا مقابلہ کرتا ہے اور اس پر شیطان کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ طلب مغفرت کرتا ہے بغیر توبہ کے اور بغیر اقرار کے اپنی سستی اور غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نقصان پہنچاتا ہے اور راہ حق میں بجائے چلنے کے چت لیٹ جاتا ہے اور اپنی گمراہی کو نیکی جانتا ہے امیدیں اسے دھوکہ دیتی ہیں اور حسرت و ندامت نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور جب معاملہ ہو چکتا ہے تو آنکھوں سے پردہ ہٹتا ہے تو اس پر وہ ظاہر ہوتا ہے جس کا اسے گمان نہ تھا۔ غلو سے مراد یہ ہے کہ وہ امر خدا کے مقابل سرکشی دکھاتا ہے شک کرنے میں اور جس نے شک کیا تو خدا اسے ذلیل کرتا ہے اپنی قوت سے اور حقیر بناتا ہے اپنے عزت و جلال سے کیونکہ اس نے اپنے رب کریم کو دھوکا دیا اور اس کے معاملہ میں تفریط سے کام لیا۔
غلو کی چار صورتیں تعمق بالرائے یعنے اپنی رائے سے مسائل دین میں دخل دینا اور لوگوں سے اپنی غلط رائے کی بنا پر جھگڑا کرنا اور کج رائی اور آئمہ سے مخالفت کا اظہار پس جس نے ایسا کیا وہ حق کی طرف رجوع نہیں کر سکتا اور وہ تاریکیوں میں ڈوبتا ہی چلا جائے گا اور ایک فتنہ کے بعد دوسرا اسے گھیر لئے گا اور دین اس کا تباہ ہو جائے گا اور ایک پریشان کن معاملہ میں پڑ جائے گا جس نے مسائل دین میں خود رائی سے نزاع کیا اور خصومت کا اظہار کیا اور مخاصمت کی تو وہ حماقت میں مشہور ہوا اور اپنے طولانی جھگڑے کی وجہ سے اور جس نے راہ حق سے کجی کی اس کی نظر میں نیکی بدی بن گئی اور بدی نیکی اور جس نے رسول اور آئمہ کی مخالفت کی تو غیر مفید ہوئے اس کے لیے وہ راستے جو اس نے اختیار کیے اور دشوار ہو گیا اس کا معاملہ اس پر اور چونکہ اس نے راہ مومنین کا اتباع نہ کیا لہذا اس کو وہاں سے نکلنا دشوار ہو گیا۔
اور شک کی چار صورتیں ہیں مریہ، ہوا، ترد اور استسلام ۔ مریہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے تم خدا کی کون کون سی نعمت کے بارے میں شک اور جھگڑا کرو گے دوسری روایت میں ہے اور حق بات سے خوف اور حق سے وحشت اورر جہالت اور اس کے اہل سے تعلق ہو جاتا ہے پس جو وحشت میں مبتلا ہوا ان باتوں سے جو اس کے سامنے ہیں تو وہ اپنے پچھلے پاؤں پلٹ گیا اور جس نے اپنی رائے سے دینی امور میں جھگڑا کیا وہ شک میں جا پڑا مومنین اولین نے چونکہ مخاصمت سے تعلق نہ رکھا۔ لہذا انھوں نے علم میں ترقی کی اور آخر والے لکد کوب میں آ گئے اور جس نے اس کی بات مان لی اسکی دنیا و آخرت تباہ اور ہلاک ہوئی اور وہ چیز جو ان کے درمیان ہے جس نے اس سے نجات پائی وہ یقین کی فضیلت سے بہرہ ور ہوا اور خدا نے یقین سے کم کوئی چیز پیدا نہیں کی یعنی اہل یقین بہت کم ہیں۔
اور شبہ کی چار صورتیں ہیں اعجاب بالزینہ، تسویل نفس، تاول عوج اور لبس الحق بالباطل۔ شبہ یعنی حق کو باطل کی مثل بنانا ان میں پہلی چیز امر باطل کو قیاسات شعریہ پر آراستہ کرنا جو پلٹ دیتی ہے کھلی دلیل سے دوسرے فریب نفس جو آدمی کو شہوت سے مغلوب کرتا ہےا ور کج فہمی آدمی کو بری طرح مائل کرتی ہے اور لبس سے مراد تاریکیوں پر تاریکی ہے یہ ہے کفر اور اس کے ستون اور شاخیں۔