عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الْعَبْدِ الصَّالِحِ (عَلَيهِ السَّلام) أُخْبِرُهُ أَنِّي شَاكٌّ وَقَدْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ (عَلَيهِ السَّلام) رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى وَأَنِّي أُحِبُّ أَنْ تُرِيَنِي شَيْئاً فَكَتَبَ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ مُؤْمِناً وَأَحَبَّ أَنْ يَزْدَادَ إِيمَاناً وَأَنْتَ شَاكٌّ وَالشَّاكُّ لا خَيْرَ فِيهِ وَكَتَبَ إِنَّمَا الشَّكُّ مَا لَمْ يَأْتِ الْيَقِينُ فَإِذَا جَاءَ الْيَقِينُ لَمْ يَجُزِ الشَّكُّ وَكَتَبَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ وَما وَجَدْنا لأكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ قَالَ نَزَلَتْ فِي الشَّاكِّ۔
راوی کہتا ہے میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو لکھا کہ میں آپ کی امامت کے بارے میں شک کرنے والا ہوں۔ ابراہیم نے کہا تھا پروردگارا مجھے دکھلا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے پس میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ آپ تصدیق امامت کے لیے کوئی ایسی چیز دکھائیں جس سے میرا شک دور ہو۔ امام نے جواب لکھا کہ ابراہیم علیہ السلام مومن تھے انھوں نے چاہا کہ ایمان زیادہ ہو اور تم شک کرنے والے ہو اور شک میں بہتری نہیں اور یہ بھی لکھا شک اسی وقت تک رہتا ہے جب تک یقین نہ ہو اور جب یقین آ جاتا ہے تو پھر شک باقی نہیں رہتا اور یہ بھی لکھا ہے کہ خدائے عزوجل فرماتا ہے ہم نے ان میں سے اکثر کو عہد پر قائم نہ پایا اور ہم نے ان میں سے اکثر کو فاسق پایا اور فرمایا یہ آیت شک کرنے والوں کے بارے میں ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَلَفِ بْنِ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) جَالِساً عَنْ يَسَارِهِ وَزُرَارَةُ عَنْ يَمِينِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الله مَا تَقُولُ فِيمَنْ شَكَّ فِي الله فَقَالَ كَافِرٌ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ قَالَ فَشَكَّ فِي رَسُولِ الله فَقَالَ كَافِرٌ قَالَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى زُرَارَةَ فَقَالَ إِنَّمَا يَكْفُرُ إِذَا جَحَدَ۔
محمد بن مسلم نے بیان کیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا میں بائیں طرف تھا زرارہ داہنی طرف کہ ابوبصیر بھی آ گئے کہنے لگے اے ابو عبداللہ آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو اللہ کے متعلق شک کرتا ہو۔ فرمایا وہ کافر ہے انھوں نے کہا جو رسول کے بارے میں شک کرے اس کے لیے۔ فرمایا اے ابو محمد (کنیت ابو بصیر) وہ بھی کافر ہے پھر زرارہ کی طرف رخ کر کے فرمایا ربوبیت باری تعالیٰ اور رسالت محمد مصطفیٰ کو سمجھتے ہوئے جو انکار کرے وہ کافر ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْخُرَاسَانِيِّ قَالَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ لا تَرْتَابُوا فَتَشُكُّوا وَلا تَشُكُّوا فَتَكْفُرُوا۔
ابو اسحاق خراسانی سے مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا شبہ کو امور دین میں دخل نہ دو ورنہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک میں نہ پڑو ورنہ کافر ہو جاؤ گے۔
عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ قَالَ بِشَكٍّ۔
ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا اس آیت کے متعلق جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ظلم سے اپنے ایمان کو نہیں ڈھانپا۔ فرمایا ظلم سے مراد یہاں شک ہے۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الشَّكَّ وَالْمَعْصِيَةَ فِي النَّارِ لَيْسَا مِنَّا وَلا إِلَيْنَا۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے شک و معصیت کا نتیجہ دوزخ ہے۔ ایسا شخص جو کہتا ہے نہ وہ ہماری بات ہے اور نہ اس کی رجوع ہماری طرف ہے
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَنْ شَكَّ فِي الله بَعْدَ مَوْلِدِهِ عَلَى الْفِطْرَةِ لَمْ يَفِئْ إِلَى خَيْرٍ أَبَداً۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو اللہ کی ربوبیت میں شک کرے اس کے بعد بھی کہ اس کی ولادت فطرت اسلام پر ہوئی ہو تو نیکی کو کبھی نہ پائے گا۔
عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لا يَنْفَعُ مَعَ الشَّكِّ وَالْجُحُودِ عَمَلٌ۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ شک اور انکار کے ہوتے ہوئے عمل بیکار ہے۔
وَفِي وَصِيَّةِ الْمُفَضَّلِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ مَنْ شَكَّ أَوْ ظَنَّ وَأَقَامَ عَلَى أَحَدِهِمَا أَحْبَطَ الله عَمَلَهُ إِنَّ حُجَّةَ الله هِيَ الْحُجَّةُ الْوَاضِحَةُ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا جس نے شک یا گمان کیا اور ان میں سے کسی ایک پر قائم رہا تو اللہ اس کے عمل کو ضبط کر لیتا ہے اللہ ہی کی حجت حجتِ واضح ہے یعنی جب عقل و نقلی دلائل ربوبیت باری تعالیٰ پر موجود ہیں تو پھر شک یا گمان کیسا۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ قُلْتُ إِنَّا لَنَرَى الرَّجُلَ لَهُ عِبَادَةٌ وَاجْتِهَادٌ وَخُشُوعٌ وَلا يَقُولُ بِالْحَقِّ فَهَلْ يَنْفَعُهُ ذَلِكَ شَيْئاً فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ الْبَيْتِ مَثَلُ أَهْلِ بَيْتٍ كَانُوا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ لا يَجْتَهِدُ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً إِلا دَعَا فَأُجِيبَ وَإِنَّ رَجُلاً مِنْهُمُ اجْتَهَدَ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ دَعَا فَلَمْ يُسْتَجَبْ لَهُ فَأَتَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ (عَلَيهِما السَّلام) يَشْكُوا إِلَيْهِ مَا هُوَ فِيهِ وَيَسْأَلُهُ الدُّعَاءَ قَالَ فَتَطَهَّرَ عِيسَى وَصَلَّى ثُمَّ دَعَا الله عَزَّ وَجَلَّ فَأَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ يَا عِيسَى إِنَّ عَبْدِي أَتَانِي مِنْ غَيْرِ الْبَابِ الَّذِي أُوتَى مِنْهُ إِنَّهُ دَعَانِي وَفِي قَلْبِهِ شَكٌّ مِنْكَ فَلَوْ دَعَانِي حَتَّى يَنْقَطِعَ عُنُقُهُ وَتَنْتَثِرَ أَنَامِلُهُ مَا اسْتَجَبْتُ لَهُ قَالَ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ عِيسَى (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ تَدْعُو رَبَّكَ وَأَنْتَ فِي شَكٍّ مِنْ نَبِيِّهِ فَقَالَ يَا رُوحَ الله وَكَلِمَتَهُ قَدْ كَانَ وَالله مَا قُلْتَ فَادْعُ الله لِي أَنْ يَذْهَبَ بِهِ عَنِّي قَالَ فَدَعَا لَهُ عِيسَى (عَلَيهِ السَّلام) فَتَابَ الله عَلَيْهِ وَقَبِلَ مِنْهُ وَصَارَ فِي حَدِّ أَهْلِ بَيْتِهِ۔
محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام یا امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا ایک شخص ایسا ہو جو عبادت گزار ہو، ریاضت کرتا ہو، فروتنی کرتا ہو لیکن آپ کی امامت کا قائل نہ ہو تو اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ فرمایا اے محمد اس زمانہ کے خاندان بھی ویسے ہی ہیں جیسے بنی اسرائیل کے زمانہ میں تھے۔ ان میں سے ایک نے چالیس دن کا چلہ کر کے دعا مانگی جو قبول ہوئی۔ دوسرے نے بھی ویسا ہی کیا اس کی دعا قبول نہ ہوئی۔ اس نے حضرت سے شکایت کی اور دعا کی درخواست کی۔ آپ نے وضو کر کے نماز پڑھی اور خدا سے دعا کی اللہ نے وحی کی اے عیسیٰ یہ میرا بندہ اس دروازہ سے جس سے اسے دیا جاتا ہے اس نے مجھ سے دعا کی لیکن اس کے دل میں تمہاری رسالت کے متعلق شک تھا اگر اس حالت میں وہ دعا کرتا رہتا یہاں تک کہ اس کی گردن قطع ہو جاتی اور انگلی کے پور پور جدا ہو جاتے تب بھی اس کی دعا قبول نہ ہوتی۔ حضرت عیسیٰ نے اس سے کہا تو نے رب سے دعا ایسی حالت میں کی جب کہ اس کے نبی کی نبوت میں تجھے شک تھا۔ اس نے کہا اے روح اللہ کلمۃ اللہ ایسا ہی تھا جیسا آپ نے کہا۔ اب آپ خدا سے دعا کریں کہ اس شک کو میرے دل سے دور کر دے۔ حضرت نے دعا کی اس نے خدا سے دعا کی جو قبول ہوئی اور وہ اپنے اہل خاندان کے مرتبہ میں داخل ہوا۔