عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلٍ قَالَ كَانَ الطَّيَّارُ يَقُولُ لِي إِبْلِيسُ لَيْسَ مِنَ الْمَلائِكَةِ وَإِنَّمَا أُمِرَتِ الْمَلائِكَةُ بِالسُّجُودِ لآدَمَ (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ إِبْلِيسُ لا أَسْجُدُ فَمَا لِإِبْلِيسَ يَعْصِي حِينَ لَمْ يَسْجُدْ وَلَيْسَ هُوَ مِنَ الْمَلائِكَةِ قَالَ فَدَخَلْتُ أَنَا وَهُوَ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ فَأَحْسَنَ وَالله فِي الْمَسْأَلَةِ فَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَ رَأَيْتَ مَا نَدَبَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ قَوْلِهِ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَ دَخَلَ فِي ذَلِكَ الْمُنَافِقُونَ مَعَهُمْ قَالَ نَعَمْ وَالضُّلالُ وَكُلُّ مَنْ أَقرَّ بِالدَّعْوَةِ الظَّاهِرَةِ وَكَانَ إِبْلِيسُ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالدَّعْوَةِ الظَّاهِرَةِ مَعَهُمْ۔
جمیل نے کہا مجھ سے طیار نے کہا کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھا اور خدا نے سجدہ کا حکم ملائکہ کو دیا تھا۔ ابلیس نے کہا میں سجدہ نہ کروں گا۔ پس اس صورت میں ابلیس گنہگار کیوں ہوا درآنحالیکہ وہ ملائکہ میں سے نہ تھا۔ ہم اور وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آئے۔ طیار نے بڑے اچھے طریقے سے اس مسئلے کو پیش کیا۔ یعنے چونکہ مسئلہ کی موجودہ صورت میں قرآن پر اعتراض لازم آتا تھا۔ لہذا سوال کی صورت یوں بدلی، کہنے لگا میں آپ پر فدا ہوں خدا نے مومنین کو جو یہ کہہ کر نوازا ہے یا ایھا الذین آمنو تو کیا منافق بھی ان کے ساتھ اس خطاب میں داخل ہیں۔ فرمایا ہاں وہ بھی اور اہل ضلال بھی اور ہر وہ شخص جس نے بہ دعوت ظاہری اقرار کیا اور ابلیس بھی ملائکہ کے ساتھ بہ دعوت ظاہری تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت بعلم امامت طیار کا سوال معلوم ہو گیا تھا۔