مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقاً لِلإيمَانِ لا زَوَالَ لَهُ وَخَلَقَ خَلْقاً لِلْكُفْرِ لا زَوَالَ لَهُ وَخَلَقَ خَلْقاً بَيْنَ ذَلِكَ وَاسْتَوْدَعَ بَعْضَهُمُ الإيمَانَ فَإِنْ يَشَأْ أَنْ يُتِمَّهُ لَهُمْ أَتَمَّهُ وَإِنْ يَشَأْ أَنْ يَسْلُبَهُمْ إِيَّاهُ سَلَبَهُمْ وَكَانَ فُلانٌ مِنْهُمْ مُعَاراً۔
محمد بن مسلم نے امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت کی ہے کہ فرمایا حضرت نے خدا نے ایک مخلوق کو پیدا کیا ایسے کفر کے لیے جس کو زوال نہیں، اور ایک مخلوق کو ان دونوں کے درمیان اور بعض کے ایمان کی صورت یہ ہے کہ اگر اس نے یہ چاہا کہ خدا اسے پورا کر دے تو اس نے پورا کر دیا اگر اس نے چاہا کہ سلب ایمان کر دے تو اس نے سلب کر لیا اور فلاں کا ایمان عاریتی ہے۔ توضیح: بندوں کی استعداد ان کی قابلیت اور قلبی رجوع اور ان کے مراتب ایمان و کفر ان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی علم الہٰی میں ہوتے ہیں وہ جانتا ہے کہ کون کون ایمان میں راسخ اور کامل ہوں گے پس یہ ایسا ہے گویا خدا نے ان کو کامل اور راسخ الایمان پیدا کیا ہے یہی صورت کفر کی ہے وہ کافروں کے متعلق پہلے سے جانتا ہے کہ یہ پیدا ہو کر کیا کرنے والے ہیں اور ان کو بھی جانتا ہے کہ جو کفر اور ایمان کے درمیان متزلزل اور متردد رہنے والے ہیں پس گویا ان کو ایسا ہی پیدا کیا اور گویا ان میں بعض کے ایمان پر مہر لگا دی اور بعض کے کفر پر۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَوْهَرِيِّ عَنْ كُلَيْبِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الأسَدِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ يُصْبِحُ مُؤْمِناً وَيُمْسِيَ كَافِراً وَيُصْبِحُ كَافِراً وَيُمْسِيَ مُؤْمِناً وَقَوْمٌ يُعَارُونَ الإيمَانَ ثُمَّ يُسْلَبُونَهُ وَيُسَمَّوْنَ الْمُعَارِينَ ثُمَّ قَالَ فُلانٌ مِنْهُمْ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شخص صبح کو مومن ہوتا ہے اور شام کو کافر اور کچھ لوگ عاریتی ایمان رکھتے ہیں جن سے ایمان سلب کر لیا جاتا ہے ان کو معارین کہتے ہیں پھر فرمایا فلاں شخص ان میں سے ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَفْصِ بْنِ الْبَخْتَرِيِّ وَغَيْرِهِ عَنْ عِيسَى شَلَقَانَ قَالَ كُنْتُ قَاعِداً فَمَرَّ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى (عَلَيهِ السَّلام) وَمَعَهُ بَهْمَةٌ قَالَ قُلْتُ يَا غُلامُ مَا تَرَى مَا يَصْنَعُ أَبُوكَ يَأْمُرُنَا بِالشَّيْءِ ثُمَّ يَنْهَانَا عَنْهُ أَمَرَنَا أَنْ نَتَوَلَّى أَبَا الْخَطَّابِ ثُمَّ أَمَرَنَا أَنْ نَلْعَنَهُ وَنَتَبَرَّأَ مِنْهُ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) وَهُوَ غُلامٌ إِنَّ الله خَلَقَ خَلْقاً لِلإيمَانِ لا زَوَالَ لَهُ وَخَلَقَ خَلْقاً لِلْكُفْرِ لا زَوَالَ لَهُ وَخَلَقَ خَلْقاً بَيْنَ ذَلِكَ أَعَارَهُ الإيمَانَ يُسَمَّوْنَ الْمُعَارِينَ إِذَا شَاءَ سَلَبَهُمْ وَكَانَ أَبُو الْخَطَّابِ مِمَّنْ أُعِيرَ الإيمَانَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَأَخْبَرْتُهُ مَا قُلْتُ لأبِي الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) وَمَا قَالَ لِي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّهُ نَبْعَةُ نُبُوَّةٍ۔
راوی کہتا ہے میں بیٹھا تھا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ادھر سے گزرے آپ کے ساتھ بکری تھی۔ میں نے کہا اے لڑکے آپ اپنے باپ کی حالت کو دیکتھے ہیں کبھی ایک بات کا حکم دیتے ہیں پھر اس سے منع کرتے ہیں۔ پہلے کہا ابو الخطاب سے دوستی کر لو پھر کہا اس پر لعن کرو اور بیزاری کا اظہار کرو۔ آپ اس وقت کم سن تھے۔ فرمایا خدا نے کچھ لوگ لازوال ایمان والے پیدا کیے ہیں اور کچھ زوال کفر والے اور کچھ ان کے درمیان عاریتی ایمان والے جنکو معارین کہتے ہیں جب خدا نے چاہا ان کے ایمان کو سلب کر لیا۔ ابو الخطاب انہی عاریتی ایمان والوں میں سے ہے۔ میں یہ سن کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا تو میں نے جو کہا تھا اور جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا تھا بیان کیا۔ فرمایا وہ سرچشمہ نبوت کی ایک شاخ ہیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مَرَّارٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي الْحَسَنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ إِنَّ الله خَلَقَ النَّبِيِّينَ عَلَى النُّبُوَّةِ فَلا يَكُونُونَ إِلا أَنْبِيَاءَ وَخَلَقَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الإيمَانِ فَلا يَكُونُونَ إِلا مُؤْمِنِينَ وَأَعَارَ قَوْماً إِيمَاناً فَإِنْ شَاءَ تَمَّمَهُ لَهُمْ وَإِنْ شَاءَ سَلَبَهُمْ إِيَّاهُ قَالَ وَفِيهِمْ جَرَتْ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ وَقَالَ لِي إِنَّ فُلاناً كَانَ مُسْتَوْدَعاً إِيمَانُهُ فَلَمَّا كَذَبَ عَلَيْنَا سُلِبَ إِيمَانُهُ ذَلِكَ۔
فرمایا حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے کہ خدا نے انبیاء کو نبوت پر خلق کیا۔ پس وہ نبی ہو گئے اور مومن کو ایمان پر خلق فرمایا پس وہ مومن ہی رہیں گے اور ایک قوم کو عاریتی ایمان دیا۔ اگر خدا چاہے گا تو اسے کمال تک پہنچا دے گا اور اگر نہ چاہے گا تو ایمان سلب کر لے گا اور امام نے فرمایا یہ طریقہ کار جاری ہوا پس بعض میں ایمان کو مستقل بنایا گیا اور بعض میں بطور امانت رکھا گیا ہے اور امام نے فرمایا فلاں شخص مستودع ہے یعنے ایمان اس میں امانت تھا جب اس نے جھوٹ بولا تو اس کا ایمان سلب کر لیا گیا۔
توضیح: اس حدیث سے بظاہر جبر معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب انبیاء و مومنین وہی بنا کر بھیجے گئے ہیں تو انکی نیکیاں قابل اجر نہ رہیں گی اس کا جواب یہ ہے کہ خلق کرنے سے پہلے خلاق عالم کو ان تمام افعال و اعمال کا علم تھا جو وہ دار دنیا میں کرنے والے تھے لہذا اسی اعتبار سے ان کی خلقت کا خمیر کیا گیا اب رہا سلب ایمان ان لوگوں سے جن میں ایمان امانت تھا تو یہ ظلم نہیں ہے کیونکہ ایمان کی بقا و سلب کا انحصار بندوں کے افعال و اعمال پر ہے اگر وہ نیک کام کیے جاتے ایمان باقی رہتا نہ کہ سلب کر لیا جاتا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله جَبَلَ النَّبِيِّينَ عَلَى نُبُوَّتِهِمْ فَلا يَرْتَدُّونَ أَبَداً وَجَبَلَ الأوْصِيَاءَ عَلَى وَصَايَاهُمْ فَلا يَرْتَدُّونَ أَبَداً وَجَبَلَ بَعْضَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الإيمَانِ فَلا يَرْتَدُّونَ أَبَداً وَمِنْهُمْ مَنْ أُعِيرَ الإيمَانَ عَارِيَّةً فَإِذَا هُوَ دَعَا وَأَلَحَّ فِي الدُّعَاءِ مَاتَ عَلَى الإيمَانِ۔
فرمایا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے خدا نے نبیوں کو ان کی نبوت پر پیدا کیا اور اوصیاء کو ان کی وصیتوں پر پس وہ مرتد نہیں ہوئے اور بعض مومنوں کو ایمان پر پیدا کیا اور وہ مرتد نہ ہوئے بعض کو عارضی ایمان دیا گیا پس جب اس نے دعا میں الحاح و زاری کی تو وہ ایمان پر مرا۔