مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

درجات ایمان

(4-20)

حدیث نمبر 1

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي الأحْوَصِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ الإيمَانَ عَلَى سَبْعَةِ أَسْهُمٍ عَلَى الْبِرِّ وَالصِّدْقِ وَالْيَقِينِ وَالرِّضَا وَالْوَفَاءِ وَالْعِلْمِ وَالْحِلْمِ ثُمَّ قَسَمَ ذَلِكَ بَيْنَ النَّاسِ فَمَنْ جَعَلَ فِيهِ هَذِهِ السَّبْعَةَ الأسْهُمِ فَهُوَ كَامِلٌ مُحْتَمِلٌ وَقَسَمَ لِبَعْضِ النَّاسِ السَّهْمَ وَلِبَعْضٍ السَّهْمَيْنِ وَلِبَعْضٍ الثَّلاثَةَ حَتَّى انْتَهَوْا إِلَى السَّبْعَةِ ثُمَّ قَالَ لا تَحْمِلُوا عَلَى صَاحِبِ السَّهْمِ سَهْمَيْنِ وَلا عَلَى صَاحِبِ السَّهْمَيْنِ ثَلاثَةً فَتَبْهَضُوهُمْ ثُمَّ قَالَ كَذَلِكَ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى السَّبْعَةِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایمان کو سات حصوں میں رکھا ہے بر، صدق، یقین، رضا، وفا، علم، حلم۔ پھر ان کو لوگوں میں تقسیم کیا۔ جس کو یہ ساتوں چیزیں مل گئیں وہ کامل ہو گیا اور بار شریعت اٹھانے والا ہے۔ پھر خدا نے کسی کو ایک حصہ دیا کسی کو دو اور کسی کو تین یہاں تک کسی کو سات، پھر حضرت نے فرمایا جس کو دو حصے ملے ہیں اس پر تیسرے کا بار نہ رکھو اس طرح تم عاجز بنا دو گے ان کو یہاں تک کہ حضرت نے سات تک یوں ہی بیان کیا۔

حدیث نمبر 2

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى جَمِيعاً عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الضَّحَّاكِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِنَا سَرَّاجٍ وَكَانَ خَادِماً لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ بَعَثَنِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي حَاجَةٍ وَهُوَ بِالْحِيرَةِ أَنَا وَجَمَاعَةً مِنْ مَوَالِيهِ قَالَ فَانْطَلَقْنَا فِيهَا ثُمَّ رَجَعْنَا مُغْتَمِّينَ قَالَ وَكَانَ فِرَاشِي فِي الْحَائِرِ الَّذِي كُنَّا فِيهِ نُزُولاً فَجِئْتُ وَأَنَا بِحَالٍ فَرَمَيْتُ بِنَفْسِي فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذَا أَنَا بِأَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَدْ أَقْبَلَ قَالَ فَقَالَ قَدْ أَتَيْنَاكَ أَوْ قَالَ جِئْنَاكَ فَاسْتَوَيْتُ جَالِساً وَجَلَسَ عَلَى صَدْرِ فِرَاشِي فَسَأَلَنِي عَمَّا بَعَثَنِي لَهُ فَأَخْبَرْتُهُ فَحَمِدَ الله ثُمَّ جَرَى ذِكْرُ قَوْمٍ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّا نَبْرَأُ مِنْهُمْ إِنَّهُمْ لا يَقُولُونَ مَا نَقُولُ قَالَ فَقَالَ يَتَوَلَّوْنَا وَلا يَقُولُونَ مَا تَقُولُونَ تَبْرَءُونَ مِنْهُمْ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَهُوَ ذَا عِنْدَنَا مَا لَيْسَ عِنْدَكُمْ فَيَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَبْرَأَ مِنْكُمْ قَالَ قُلْتُ لا جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ وَهُوَ ذَا عِنْدَ الله مَا لَيْسَ عِنْدَنَا أَ فَتَرَاهُ اطَّرَحَنَا قَالَ قُلْتُ لا وَالله جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا نَفْعَلُ قَالَ فَتَوَلَّوْهُمْ وَلا تَبَرَّءُوا مِنْهُمْ إِنَّ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ لَهُ سَهْمٌ وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ سَهْمَانِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ ثَلاثَةُ أَسْهُمٍ وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ خَمْسَةُ أَسْهُمٍ وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ سِتَّةُ أَسْهُمٍ وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ سَبْعَةُ أَسْهُمٍ فَلَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ صَاحِبُ السَّهْمِ عَلَى مَا عَلَيْهِ صَاحِبُ السَّهْمَيْنِ وَلا صَاحِبُ السَّهْمَيْنِ عَلَى مَا عَلَيْهِ صَاحِبُ الثَّلاثَةِ وَلا صَاحِبُ الثَّلاثَةِ عَلَى مَا عَلَيْهِ صَاحِبُ الأرْبَعَةِ وَلا صَاحِبُ الأرْبَعَةِ عَلَى مَا عَلَيْهِ صَاحِبُ الْخَمْسَةِ وَلا صَاحِبُ الْخَمْسَةِ عَلَى مَا عَلَيْهِ صَاحِبُ السِّتَّةِ وَلا صَاحِبُ السِّتَّةِ عَلَى مَا عَلَيْهِ صَاحِبُ السَّبْعَةِ وَسَأَضْرِبُ لَكَ مَثَلاً إِنَّ رَجُلاً كَانَ لَهُ جَارٌ وَكَانَ نَصْرَانِيّاً فَدَعَاهُ إِلَى الإسْلامِ وَزَيَّنَهُ لَهُ فَأَجَابَهُ فَأَتَاهُ سُحَيْراً فَقَرَعَ عَلَيْهِ الْبَابَ فَقَالَ لَهُ مَنْ هَذَا قَالَ أَنَا فُلانٌ قَالَ وَمَا حَاجَتُكَ فَقَالَ تَوَضَّأْ وَالْبَسْ ثَوْبَيْكَ وَمُرَّ بِنَا إِلَى الصَّلاةِ قَالَ فَتَوَضَّأَ وَلَبِسَ ثَوْبَيْهِ وَخَرَجَ مَعَهُ قَالَ فَصَلَّيَا مَا شَاءَ الله ثُمَّ صَلَّيَا الْفَجْرَ ثُمَّ مَكَثَا حَتَّى أَصْبَحَا فَقَامَ الَّذِي كَانَ نَصْرَانِيّاً يُرِيدُ مَنْزِلَهُ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ أَيْنَ تَذْهَبُ النَّهَارُ قَصِيرٌ وَالَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَ الظُّهْرِ قَلِيلٌ قَالَ فَجَلَسَ مَعَهُ إِلَى أَنْ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ قَالَ وَمَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ قَلِيلٌ فَاحْتَبَسَهُ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ قَالَ ثُمَّ قَامَ وَأَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَقَالَ لَهُ إِنَّ هَذَا آخِرُ النَّهَارِ وَأَقَلُّ مِنْ أَوَّلِهِ فَاحْتَبَسَهُ حَتَّى صَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَقَالَ لَهُ إِنَّمَا بَقِيَتْ صَلاةٌ وَاحِدَةٌ قَالَ فَمَكَثَ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ الآخِرَةَ ثُمَّ تَفَرَّقَا فَلَمَّا كَانَ سُحَيْرٌ غَدَا عَلَيْهِ فَضَرَبَ عَلَيْهِ الْبَابَ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالَ أَنَا فُلانٌ قَالَ وَمَا حَاجَتُكَ قَالَ تَوَضَّأْ وَالْبَسْ ثَوْبَيْكَ وَاخْرُجْ بِنَا فَصَلِّ قَالَ اطْلُبْ لِهَذَا الدِّينِ مَنْ هُوَ أَفْرَغُ مِنِّي وَأَنَا إِنْسَانٌ مِسْكِينٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَدْخَلَهُ فِي شَيْ‏ءٍ أَخْرَجَهُ مِنْهُ أَوْ قَالَ أَدْخَلَهُ مِنْ مِثْلِ ذِهْ وَأَخْرَجَهُ مِنْ مِثْلِ هَذَا۔

امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کے خادم نے بیان کیا کہ مجھے حضرت نے جبکہ آپ حیرہ (شہر) میں تھے ایک ضرورت سے بھیجا میرے ساتھ حضرت کے اور غلام بھی تھے۔ ہم روانہ ہوئے اور وقت شام وہاں سے لوٹے۔ میرا بستر حیرہ میں وہیں تھا جہاں چھوڑا تھا۔ میں وہیں گیا اور میں مغموم تھا۔ میں بستر پر لیٹ گیا۔ حضرت وہیں تشریف لے آئے اور فرمایا ہم خود ہی تمہارے پاس چلے آئے ہیں۔ میں بستر پر اٹھ بیٹھا۔ حضرت میرے فرش کے سرہانے پر بیٹھ گئے اور جس کام کے لیے بھیجا تھا اس کے متعلق پوچھنے لگے میں نے سب حال سنایا۔ حضرت نے خدا کی حمد کی پھر ایک قوم کا ذکر چل پڑا میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں ہم ان سے بری ہیں کیونکہ (نماز میں) وہ نہیں کہتے جو ہم کہتے ہیں۔ فرمایا وہ ہم کو دوست رکھتے ہوئے وہ نہیں کہتے جو تم کہتے ہو۔ میں نے کہا ہاں ۔ فرمایا بہت سی باتیں ایسی ہیں جنھیں وہ بجا لاتے ہیں تم نہیں کرتے تو کیا ہمارے لیے یہ زیبا ہے کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں۔ میں نے کہا نہیں میں آپ پر فدا ہوں۔ فرمایا بہت سی باتیں خدا کرتا ہے ہم نہیں کرتے (جیسے نافرمانوں کو رزق دیتا ہے) تو کیا خدا ہمیں چھوڑ دے۔ میں نے کہا خدا کی قسم ایسا نہیں ہے میں آپ پر فدا ہوں ہم ایسا نہ کریں گے۔ فرمایا ان کو دوست رکھو ان سے بیزار نہ ہو مسلمانوں میں کچھ ایسے ہیں جن کو سہام ایمان میں سے ایک ہی حصہ ملا ہے بعض کو دو بعض کو تین بعض کو چار بعض کو پانچ بعض کو چھ اور بعض کو سات۔ پس ایک والا دو کے بار کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا دو والا تین کا بار اور تین والا چار کا بار اور چار والا پانچ کا بار اور پانچ والا چھ کا بار اور چھ والا سات کا بار اٹھا نہیں سکتا۔ میں اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں ایک ملا کا پڑوسی ایک نصرانی تھا۔ ملا نے اسے مسلمان کر لیا۔ صبح صادق سے پہلے ملا نے اس کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ اس نے پوچھا کون ہے۔ کہا میں ہوں ملا۔ اس نے کہا کیسے آئے۔ ملا نے کہا وضو کر کے اپنے کپڑے پہنو اور میرے ساتھ مسجد میں نماز کے لیے چلو۔ اس نے وضو کیا کپڑے پہنے اور ملا کے ساتھ چل کھڑا ہوا۔ جب مسجد میں پہنچے تو ملا نے کہا پہلے سنت نمازیں پڑھ لو۔ صبح صادق نمودار ہوئی تو دونوں نے نماز صبح ادا کی اس کے بعد جو نصرانی تھا اس نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ ملا نے کہا اب کہاں جاتے ہو، دن چھوٹا ہے نماز ظہر کے درمیان بہت تھوڑا وقت ہے وہ رک گیا۔ جب ظہر کا وقت آیا تو اس نے ظہر کی نماز پڑھی۔ ملا نے کہا ظہر و عصر کے درمیان تھوڑا وقت ہے عصر کی نماز پڑھ لو۔ اس کو روک لیا عصر کی نماز کے بعد اس بیچارے نے گھر جانا چاہا۔ ملا نے کہا اب نماز مغرب کا وقت تو بہت ہی قریب ہے جب نماز مغرب پڑھ لی تو ملا نے کہا اب صرف ایک نماز باقی رہ گئی ہے اسے بھی پڑھتے جاؤ۔ وہ رک گیا عشاء کی نماز کے بعد وہ دونوں جدا ہوئے جب دوسری صبح ہوئی تو ملا نے پھر اس کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ پوچھا کون ہے کہا میں فلاں ہوں۔ وضو کر کے کپڑے پہنو اور میرے ساتھ چل کر نماز پڑھو۔ اس نے کہا اس دین کے لیے کسی ایسے کو ڈھونڈو جو مجھ سے زیادہ فارغ البال ہو۔ میں غریب آدمی ہوں اور بال بچوں والا ہوں۔ حضرت نے فرمایا اس شخص نے ایک شے میں داخل کیا اور دوسری سے نکال دیا۔