أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُوسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبَانٍ عَنْ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ لَوْ عَلِمَ النَّاسُ كَيْفَ خَلَقَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى هَذَا الْخَلْقَ لَمْ يَلُمْ أَحَدٌ أَحَداً فَقُلْتُ أَصْلَحَكَ الله فَكَيْفَ ذَاكَ فَقَالَ إِنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ أَجْزَاءً بَلَغَ بِهَا تِسْعَةً وَأَرْبَعِينَ جُزْءاً ثُمَّ جَعَلَ الأجْزَاءَ أَعْشَاراً فَجَعَلَ الْجُزْءَ عَشْرَةَ أَعْشَارٍ ثُمَّ قَسَمَهُ بَيْنَ الْخَلْقِ فَجَعَلَ فِي رَجُلٍ عُشْرَ جُزْءٍ وَفِي آخَرَ عُشْرَيْ جُزْءٍ حَتَّى بَلَغَ بِهِ جُزْءاً تَامّاً وَفِي آخَرَ جُزْءاً وَعُشْرَ جُزْءٍ وَآخَرَ جُزْءاً وَعُشْرَيْ جُزْءٍ وَآخَرَ جُزْءاً وَثَلاثَةَ أَعْشَارِ جُزْءٍ حَتَّى بَلَغَ بِهِ جُزْءَيْنِ تَامَّيْنِ ثُمَّ بِحِسَابِ ذَلِكَ حَتَّى بَلَغَ بِأَرْفَعِهِمْ تِسْعَةً وَأَرْبَعِينَ جُزْءاً فَمَنْ لَمْ يَجْعَلْ فِيهِ إِلأ؛ّّ عُشْرَ جُزْءٍ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى أَنْ يَكُونَ مِثْلَ صَاحِبِ الْعُشْرَيْنِ وَكَذَلِكَ صَاحِبُ الْعُشْرَيْنِ لا يَكُونُ مِثْلَ صَاحِبِ الثَّلاثَةِ الأعْشَارِ وَكَذَلِكَ مَنْ تَمَّ لَهُ جُزْءٌ لا يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يَكُونَ مِثْلَ صَاحِبِ الْجُزْءَيْنِ وَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ هَذَا الْخَلْقَ عَلَى هَذَا لَمْ يَلُمْ أَحَدٌ أَحَداً۔
اس سے پہلے باب میں امام علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ایمان کے سات سہم ہیں اگر ان سات کو سات میں ضرب دیا جائے تو انچاس حصے ہوتے ہیں اگر ان میں سے ہر ایک کے دس دس حصے کیے جائیں تو کل حصے چار سو نوے ہوتے ہیں۔ امام جعفر صادق نے فرمایا اگر لوگ یہ جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو کس طرح پیدا کیا ہے تو ایک دوسرے کو ملامت نہ کرتا۔ راوی نے کہا یہ کیسے۔ فرمایا خدا نے ایمان کے 49 جز قرار دیے ہیں پھر ان میں سے ہر ایک کے دس دس حصے کیے ان کو مخلوق پر تقسیم کیا کسی کو دسواں حصہ دیا کسی کو اس سے دو گناہ دیا کسی کو تگنا یہاں تک کہ ایک شخص میں ایک جز پورا ہو گیا۔ پھر ایک شخص کو ایک جز تام پر دسواں حصہ دوسرے جز کا اور زیادہ کیا۔ دوسرے کو ایک جز اور دو دہائیاں دیں۔ تیسرے کو تین دہائیاں یہاں تک کہ ایک شخص میں جا کر دو جز پورے ہو گئے ۔ اسی طرح تقسیم ہوتے ہوتے ایک شخص میں 49 جز کامل ہو گئے پس جس کو ایک جز کا دسواں حصہ ملا ہے وہ اس پر قادر نہیں کہ دو دہائیوں والے کے طرح عمل کرے اور دو دہائیوں والا تین دہائیوں والے کی طرح عمل نہیں کر سکتا اور نہ پورے جز والا دو جز والے کی طرح کر سکتا ہے اگر لوگ اس بات کو جان لیتے کہ خدا نے اپنی مخلوق میں سب کو ایمان کے اجزاء برابر نہیں دیے تو کوتاہی عمل پر ایک دوسرے کو ملامت نہ کرتا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمَّادٍ الْخَزَّازِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْقَرَاطِيسِيِّ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا عَبْدَ الْعَزِيزِ إِنَّ الإيمَانَ عَشْرُ دَرَجَاتٍ بِمَنْزِلَةِ السُّلَّمِ يُصْعَدُ مِنْهُ مِرْقَاةً بَعْدَ مِرْقَاةٍ فَلا يَقُولَنَّ صَاحِبُ الإثْنَيْنِ لِصَاحِبِ الْوَاحِدِ لَسْتَ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى الْعَاشِرِ فَلا تُسْقِطْ مَنْ هُوَ دُونَكَ فَيُسْقِطَكَ مَنْ هُوَ فَوْقَكَ وَإِذَا رَأَيْتَ مَنْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْكَ بِدَرَجَةٍ فَارْفَعْهُ إِلَيْكَ بِرِفْقٍ وَلا تَحْمِلَنَّ عَلَيْهِ مَا لا يُطِيقُ فَتَكْسِرَهُ فَإِنَّ مَنْ كَسَرَ مُؤْمِناً فَعَلَيْهِ جَبْرُهُ۔
راوی کہتا ہے کہ فرمایا صادق آل محمد نے ایمان کے دس درجے ہیں مثل سیڑھی کے ایک ڈنڈے کے بعد دوسرے پر جاتے ہیں پس جو دوسرے پر ہے اسے پہلے ڈنڈے والے سے یہ نہ کہنا چاہیے کہ تو کچھ بھی نہیں اسی طرح دسویں والے تک جو تم سے پست ہے اسے نظر سے نہ گراؤ ورنہ جو تم سے اوپر ہے وہ تم کو نظر نہ گرا دے گا۔ جب تم کسی کو اپنے درجہ سے نیچے پاؤ تو نرمی سے اس کو اپنی طرف ابھارو اور اس پر نہ لادو جس کے اٹھانے کی اس میں طاقت نہ ہو اس صورت میں اس کا ایمان شکستہ ہو جائے گا اور جس نے کسی مومن کے ایمان کو شکستہ کیا اس پر اس کی تلافی لازم ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ سَدِيرٍ قَالَ قَالَ لِي أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَنَازِلَ مِنْهُمْ عَلَى وَاحِدَةٍ وَمِنْهُمْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَمِنْهُمْ عَلَى ثَلاثٍ وَمِنْهُمْ عَلَى أَرْبَعٍ وَمِنْهُمْ عَلَى خَمْسٍ وَمِنْهُمْ عَلَى سِتٍّ وَمِنْهُمْ عَلَى سَبْعٍ فَلَوْ ذَهَبْتَ تَحْمِلُ عَلَى صَاحِبِ الْوَاحِدَةِ ثِنْتَيْنِ لَمْ يَقْوَ وَعَلَى صَاحِبِ الثِّنْتَيْنِ ثَلاثاً لَمْ يَقْوَ وَعَلَى صَاحِبِ الثَّلاثِ أَرْبَعاً لَمْ يَقْوَ وَعَلَى صَاحِبِ الأرْبَعِ خَمْساً لَمْ يَقْوَ وَعَلَى صَاحِبِ الْخَمْسِ سِتّاً لَمْ يَقْوَ وَعَلَى صَاحِبِ السِّتِّ سَبْعاً لَمْ يَقْوَ وَعَلَى هَذِهِ الدَّرَجَات۔
سدیر سے مروی ہے کہ فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ مومنین کے لیے منازل و مراتب ہیں کسی کے لیے ایک ہے کسی کے لیے دو کسی کے لیے تین کسی کے لیے چار کسی کے لیے پانچ کسی کے لیے چھ اور کسی کے لیے سات۔ اگر تم ایک والے پر دو کا بوجھ رکھو گے تو وہ تاب نہ لائے گا اور دو والے پر تین کا بوجھ لادو گے تو وہ گھبرا جائے گا اور اگر تین والے پر چار کا بوجھ رکھو گے تو وہ تلملا جائے گا اور اگر چار والے پر پانچ کا بوجھ بار کر دو گے تو وہ چیخ اٹھے گا اور اگر پانچ والے پر چھ کا بار رکھ دو گے تو وہ بے طاقت ہو جائے گا اور اگر چھ والے پر سات کا بوجھ رکھو گے تو وہ اس کے اٹھانے سے عاجز رہے گا پس درجات ایمان کی یہی صورت ہے۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ سَيَابَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَا أَنْتُمْ وَالْبَرَاءَةَ يَبْرَأُ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ بَعْضُهُمْ أَفْضَلُ مِنْ بَعْضٍ وَبَعْضُهُمْ أَكْثَرُ صَلاةً مِنْ بَعْضٍ وَبَعْضُهُمْ أَنْفَذُ بَصَراً مِنْ بَعْضٍ وَهِيَ الدَّرَجَاتُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ کیا بات ہے کہ تم ایک دوسرے سے برات کا اظہار کرتے ہو۔ بے شک مومنین بعض بعض سے افضل ہیں بعض نماز زیادہ پڑھنے میں بعض سے زیادہ ہیں بعض کی نظر بعض سے زیادہ گہری ہے یعنی عقل میں زیادہ ہیں یوں ہی درجات ہیں۔