مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

عیب جوئی

(4-201)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ أَسْرَعَ الْخَيْرِ ثَوَاباً الْبِرُّ وَإِنَّ أَسْرَعَ الشَّرِّ عُقُوبَةً الْبَغْيُ وَكَفَى بِالْمَرْءِ عَيْباً أَنْ يُبْصِرَ مِنَ النَّاسِ مَا يَعْمَى عَنْهُ مِنْ نَفْسِهِ أَوْ يُعَيِّرَ النَّاسَ بِمَا لا يَسْتَطِيعُ تَرْكَهُ أَوْ يُؤْذِيَ جَلِيسَهُ بِمَا لا يَعْنِيهِ۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جو نیکی سب سے زیادہ جلد ثواب لانے والی ہے وہ احسان ہے اور وہ بدی جو سب سے جلد عذاب لانے والی ہے وہ سرکشی ہے اور انسان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ جس عیب کو دوسروں میں دیکھتا ہے اپنے اس عیب کو نہیں دیکھتا اور لوگوں کو عیب لگاتا ہے اس چیز کا جس کے ترک کرے پر خود قدرت نہیں رکھتا اور اپنے ہم نشین کو بغیر کسی فائدہ کے ستاتا ہے۔

حدیث نمبر 2

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) كَفَى بِالْمَرْءِ عَيْباً أَنْ يُبْصِرَ مِنَ النَّاسِ مَا يَعْمَى عَلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَنْ يُؤْذِيَ جَلِيسَهُ بِمَا لا يَعْنِيهِ۔

فرمایا حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کے لیے سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ لوگوں کے عیبوں کو تو ظاہر کرے اور اپنے وہی عیب نظر انداز کرے یا لوگوں کو اس امر کا عیب لگائے جس کے ترک کی طاقت نہیں رکھتا اور بغیر کسی فائدے کے اپنے ساتھی کو ستاتا ہے۔

حدیث نمبر 3

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُخْتَارٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَفَى بِالْمَرْءِ عَيْباً أَنْ يَتَعَرَّفَ مِنْ عُيُوبِ النَّاسِ مَا يَعْمَى عَلَيْهِ مِنْ أَمْرِ نَفْسِهِ أَوْ يَعِيبَ عَلَى النَّاسِ أَمْراً هُوَ فِيهِ لا يَسْتَطِيعُ التَّحَوُّلَ عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ أَوْ يُؤْذِيَ جَلِيسَهُ بِمَا لا يَعْنِيهِ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا انسان کے عیب کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کے عیبوں میں سے ان باتوں کو پہچانے جس سے وہ اپنے معاملات میں اندھا ہے، یا کسی ایسے معاملے میں لوگوں سے عیب نکالے جس میں وہ خود ہے اور اسے بدل نہیں سکتا، یا اپنے ساتھی کو ایسی چیز سے نقصان پہنچانا جس سے اسے کوئی سروکار نہیں۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأعْرَجِ وَعُمَرَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالا إِنَّ أَسْرَعَ الْخَيْرِ ثَوَاباً الْبِرُّ وَأَسْرَعَ الشَّرِّ عُقُوبَةً الْبَغْيُ وَكَفَى بِالْمَرْءِ عَيْباً أَنْ يَنْظُرَ فِي عُيُوبِ غَيْرِهِ مَا يَعْمَى عَلَيْهِ مِنْ عَيْبِ نَفْسِهِ أَوْ يُؤْذِيَ جَلِيسَهُ بِمَا لا يَعْنِيهِ أَوْ يَنْهَى النَّاسَ عَمَّا لا يَسْتَطِيعُ تَرْكَهُ۔

امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا نیکی کی جزا سب سے جلد نیکی ہے اور برے کام کی سزا سب سے جلد زیادتی ہے۔ انسان کے عیب کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے عیبوں سے اندھا ہو کر دوسروں کے عیبوں کو دیکھے، یا اپنے ساتھی کو ایسی چیز سے تکلیف دے جس سے اسے کوئی سروکار نہ ہو، یا لوگوں کو ایسے کام سے روکے جس سے وہ باز نہ آسکے۔