مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

رضاء بالقضاء

(4-31)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ بَعْضِ أَشْيَاخِ بَنِي النَّجَاشِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ رَأْسُ طَاعَةِ الله الصَّبْرُ وَالرِّضَا عَنِ الله فِيمَا أَحَبَّ الْعَبْدُ أَوْ كَرِهَ وَلا يَرْضَى عَبْدٌ عَنِ الله فِيمَإ؛ّّ أَحَبَّ أَوْ كَرِهَ إِلا كَانَ خَيْراً لَهُ فِيمَا أَحَبَّ أَوْ كَرِهَ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اطاعت خدا میں سب سے سردار صبر ہے اور خدا سے راضی رہنا ہر اس امر میں جسے بندہ پسند کرے یا ناپسند کرے اور جو عبدِ خدا ہے وہ نہیں پسند کرتا اللہ سے اس چیز میں جو محبوب یا مکروہ ہو مگر وہی جس میں اس کے لیے بہتری ہو خواہ اسے پسند کرے یا ناپسند۔

حدیث نمبر 2

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ لَيْثٍ الْمُرَادِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِالله أَرْضَاهُمْ بِقَضَاءِ الله عَزَّ وَجَلَّ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے اللہ کے متعلق دانا تر انسان وہ ہے کہ تقاضائے الہٰی پر سب سے زیادہ راضی ہو۔

حدیث نمبر 3

عَنْهُ عَنْ يَحْيَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي الْبِلادِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ الصَّبْرُ وَالرِّضَا عَنِ الله رَأْسُ طَاعَةِ الله وَمَنْ صَبَرَ وَرَضِيَ عَنِ الله فِيمَا قَضَى عَلَيْهِ فِيمَا أَحَبَّ أَوْ كَرِهَ لَمْ يَقْضِ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ فِيمَا أَحَبَّ أَوْ كَرِهَ إِلا مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ۔

علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا خدا کی اطاعت میں سب سے بہتر صبر و رضا ہے جس نے صبر کیا اور راضی رہا اللہ سے اس کے حکم پر خواہ وہ محبوب رہا ہو یا مکروہ تو خدا اس کے لیے وہی کرتا ہے جو اس کے بہتر ہو۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ مِنْ عِبَادِيَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَاداً لا يَصْلُحُ لَهُمْ أَمْرُ دِينِهِمْ إِلا بِالْغِنَى وَالسَّعَةِ وَالصِّحَّةِ فِي الْبَدَنِ فَأَبْلُوهُمْ بِالْغِنَى وَالسَّعَةِ وَصِحَّةِ الْبَدَنِ فَيُصْلِحُ عَلَيْهِمْ أَمْرَ دِينِهِمْ وَإِنَّ مِنْ عِبَادِيَ الْمُؤْمِنِينَ لَعِبَاداً لا يَصْلُحُ لَهُمْ أَمْرُ دِينِهِمْ إِلا بِالْفَاقَةِ وَالْمَسْكَنَةِ وَالسُّقْمِ فِي أَبْدَانِهِمْ فَأَبْلُوهُمْ بِالْفَاقَةِ وَالْمَسْكَنَةِ وَالسُّقْمِ فَيُصْلِحُ عَلَيْهِمْ أَمْرَ دِينِهِمْ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا يَصْلُحُ عَلَيْهِ أَمْرُ دِينِ عِبَادِيَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِنَّ مِنْ عِبَادِيَ الْمُؤْمِنِينَ لَمَنْ يَجْتَهِدُ فِي عِبَادَتِي فَيَقُومُ مِنْ رُقَادِهِ وَلَذِيذِ وِسَادِهِ فَيَتَهَجَّدُ لِيَ اللَّيَالِيَ فَيُتْعِبُ نَفْسَهُ فِي عِبَادَتِي فَأَضْرِبُهُ بِالنُّعَاسِ اللَّيْلَةَ وَاللَّيْلَتَيْنِ نَظَراً مِنِّي لَهُ وَإِبْقَاءً عَلَيْهِ فَيَنَامُ حَتَّى يُصْبِحَ فَيَقُومُ وَهُوَ مَاقِتٌ لِنَفْسِهِ زَارِئٌ عَلَيْهَا وَلَوْ أُخَلِّي بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَا يُرِيدُ مِنْ عِبَادَتِي لَدَخَلَهُ الْعُجْبُ مِنْ ذَلِكَ فَيُصَيِّرُهُ الْعُجْبُ إِلَى الْفِتْنَةِ بِأَعْمَالِهِ فَيَأْتِيهِ مِنْ ذَلِكَ مَا فِيهِ هَلاكُهُ لِعُجْبِهِ بِأَعْمَالِهِ وَرِضَاهُ عَنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَظُنَّ أَنَّهُ قَدْ فَاقَ الْعَابِدِينَ وَجَازَ فِي عِبَادَتِهِ حَدَّ التَّقْصِيرِ فَيَتَبَاعَدُ مِنِّي عِنْدَ ذَلِكَ وَهُوَ يَظُنُّ أَنَّهُ يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ فَلا يَتَّكِلِ الْعَامِلُونَ عَلَى أَعْمَالِهِمُ الَّتِي يَعْمَلُونَهَا لِثَوَابِي فَإِنَّهُمْ لَوِ اجْتَهَدُوا وَأَتْعَبُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَفْنَوْا أَعْمَارَهُمْ فِي عِبَادَتِي كَانُوا مُقَصِّرِينَ غَيْرَ بَالِغِينَ فِي عِبَادَتِهِمْ كُنْهَ عِبَادَتِي فِيمَا يَطْلُبُونَ عِنْدِي مِنْ كَرَامَتِي وَالنَّعِيمِ فِي جَنَّاتِي وَرَفِيعِ دَرَجَاتِيَ الْعُلَى فِي جِوَارِي وَلَكِنْ فَبِرَحْمَتِي فَلْيَثِقُوا وَبِفَضْلِي فَلْيَفْرَحُوا وَإِلَى حُسْنِ الظَّنِّ بِي فَلْيَطْمَئِنُّوا فَإِنَّ رَحْمَتِي عِنْدَ ذَلِكَ تَدَارَكُهُمْ وَمَنِّي يُبَلِّغُهُمْ رِضْوَانِي وَمَغْفِرَتِي تُلْبِسُهُمْ عَفْوِي فَإِنِّي أَنَا الله الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ وَبِذَلِكَ تَسَمَّيْتُ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے میرے مومن بندوں میں کچھ ایسے ہیں کہ ان کے دینی معاملات کی اصلاح مالداری، کشادگی اور صحتِ بدن سے ہوتی ہے لہذا میں ان کو غنی کر کے خوش حال بنا کے بدن کی صحت عطا کر کے ان کے دین کی اصلاح کر دیتا ہوں اور بعض میرے مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کی اصلاح فقر و فاقہ اور بدن کی بیماری سے ہوتی ہے پس میں ان کو فقر و فاقہ اور بیماری میں مبتلا کرتا ہوں پس اس طرح ان کے دین کی اصلاح ہوتی ہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے مومن بندوں کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے میرے ایمان لانے والے بندے ایسے بھی ہیں جو اپنی میٹھی نیند کھو کر اور اپنا نرم و گرم بستر چھوڑ کر راتوں کو میری عبادت کرتے ہیں اور میری عبادت میں اپنے نفسوں کو تعب میں ڈالتے ہیں۔ لہذا ایک رات یا دو رات کے لیے میں اس پر نیند کو مسلط کر دیتا ہوں اپنے رحم و کرم کی وجہ سے جو اس پر ہے اور اس کی زندگی باقی رکھنے کے لیے پس وہ صبح تک سوتا رہتا ہے پھر بیدار ہوتا ہے درآنحالیکہ اپنے نفس سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کو ملامت کرتا ہے اور اگر میں اس کی عبادت جاری رکھنے پر چھوڑ دوں تو اس سے خودپسندی آ جائے گی جو اس کو فریفتہ کر دے گی اس کے اعمال پر، پس اس کا اپنے اعمال پر فریفتہ ہونا اور اپنے نفس سے راضی ہو جانا اس کے لیے باعثِ ہلاکت ہو گا اور وہ گمان کرنے لگے گا کہ وہ اپنی عبادت میں عابدوں پر فوقیت لے گیا ہے اور اپنی عبادت میں حد تقصیر سے آگے بڑھ گیا ہے ایسی صورت میں وہ مجھ سے دور ہو جائے گا اور خیال کرنے لگے گا کہ وہ مجھ سے قریب ہو گیا ہے پس ایسی صورت میں مجھ سے ثواب حاصل کرنے کے لیے جو عمل وہ لوگ کریں گے عالمین کو ان پر اعتماد نہ رہے گا ایسے لوگ اگر جدوجہد کریں اور اپنے نفسوں کو تعب میں ڈالیں اور اپنی عمریں صرف کریں میری عبادت میں تو پھر وہ قاصر رہیں گے اور میری عبادت کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں گے جس سے ان کو میری بخشش کی طلب ہوتی اور میری جنتوں کی نعمتیں حاصل کرتے اور میرے جوار رحمت میں بلند درجے پاتے لیکن میری رحمت و فضل کی وجہ سے ان کو خوش ہونا چاہیے اور میری طرف حسن ظن رکھنے کی وجہ سے ان کو اطمینان سے رہنا چاہیے ایسی صورت میں میری رحمت ان کو پا لے گی اور میری مرضی ان تک پہنچ جائے گی میری مغفرت حاصل ہو گی میرا عفو ان کو ڈھانپ لے گا بے شک میں رحمٰن و رحیم خدا ہوں اور یہی میں نے اپنا نام رکھا ہے۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الأوَّلِ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَنْبَغِي لِمَنْ عَقَلَ عَنِ الله أَنْ لا يَسْتَبْطِئَهُ فِي رِزْقِهِ وَلا يَتَّهِمَهُ فِي قَضَائِهِ۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا جس نے خدا سے عقل لی ہے وہ خدا کو رزق دینے میں کاہل نہیں جانتا اور نہ اس کو قضا و قدر کے معاملے میں تہمت لگاتا ہے۔

حدیث نمبر 6

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَمْرِو بْنِ نُهَيْكٍ بَيَّاعِ الْهَرَوِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ لا أَصْرِفُهُ فِي شَيْ‏ءٍ إِلا جَعَلْتُهُ خَيْراً لَهُ فَلْيَرْضَ بِقَضَائِي وَلْيَصْبِرْ عَلَى بَلائِي وَلْيَشْكُرْ نَعْمَائِي أَكْتُبْهُ يَا مُحَمَّدُ مِنَ الصِّدِّيقِينَ عِنْدِي۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا نے فرمایا (حدیث قدسی) میں اپنے بندہ مومن کو جس کام میں لگاتا ہوں وہ اس کے لیے بہتری کا باعث ہوتا ہے پس اس کو چاہیے کہ وہ میری مشیت پر راضی ہو، میرے امتحان پر صبر کرے اور میری نعمتوں کا شکر ادا کرے ایسے بندہ کو اے محمد میں صدیقوں میں لکھوں۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنَّ فِيمَا أَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ (عَلَيهِ السَّلام) يَا مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ فَإِنِّي إِنَّمَا أَبْتَلِيهِ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأُعَافِيهِ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَزْوِي عَنْهُ مَا هُوَ شَرٌّ لَهُ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا يَصْلُحُ عَلَيْهِ عَبْدِي فَلْيَصْبِرْ عَلَى بَلائِي وَلْيَشْكُرْ نَعْمَائِي وَلْيَرْضَ بِقَضَائِي أَكْتُبْهُ فِي الصِّدِّيقِينَ عِنْدِي إِذَا عَمِلَ بِرِضَائِي وَأَطَاعَ أَمْرِي۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا نے حضرت موسیٰ پر وحی کی کہ میں نے اپنے بندہ مومن سے زیادہ محبوب کوئی مخلوق پیدا نہیں کی۔ میں اس کی بہتری کے لیے اسے کسی مصیبت میں ڈالتا ہوں اور اس کی بہتری کے لیے کسی چیز کو اس سے روکتا ہوں میں جانتا ہوں کہ میرے بندے کے لیے کیا چیز بہتری کا باعث ہو گی پس اس کو چاہیے کہ بلا پر صبر کرے اور میری نعمت کا شکر بجا لائے اور میرے حکم پر راضی ہو۔ میں اس کو اپنے صدیقین میں لکھوں گا اگر وہ میری مرضی کے مطابق عمل کرے اور میرے امر کی اطاعت کرے۔

حدیث نمبر 8

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عُثْمَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ عَجِبْتُ لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لا يَقْضِي الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ قَضَاءً إِلا كَانَ خَيْراً لَهُ وَإِنْ قُرِّضَ بِالْمَقَارِيضِ كَانَ خَيْراً لَهُ وَإِنْ مَلَكَ مَشَارِقَ الأرْضِ وَمَغَارِبَهَا كَانَ خَيْراً لَهُ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے تعجب ہوتا ہے حالت سے اس مرد مومن مخلص کی قضا و قدر الہٰی پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی بہتری کے لیے اور اگر اس کا بدن قینچیوں سے کاٹا جائے تو بھی اس کی بہتری کے لیے ہو اور اگر دنیا کے مشرق و مغرب کا مالک ہو تو یہ بھی اس کے بہتری کے لیے ہو۔

حدیث نمبر 9

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَحَقُّ خَلْقِ الله أَنْ يُسَلِّمَ لِمَا قَضَى الله عَزَّ وَجَلَّ مَنْ عَرَفَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ رَضِيَ بِالْقَضَاءِ أَتَى عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَعَظَّمَ الله أَجْرَهُ وَمَنْ سَخِطَ الْقَضَاءَ مَضَى عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَأَحْبَطَ الله أَجْرَهُ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ لوگوں کے لیے لائق ہے کہ وہ قضا و قدر الہٰی کو تسلیم کریں جس نے معرفتِ خدا حاصل کی اور جو قضائے الہٰی پر راضی ہوا اور حکم قضا و قدر اس پر جاری ہو گا اور اللہ اس کے اجر کو زیادہ کرے گا اور جو قضائے الہٰی سے ناخوش ہوا اس پر بھی حکم قضا جاری ہو گا لیکن وہ اجر سے محروم رہے گا۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمَا الزُّهْدُ عَشَرَةُ أَجْزَاءٍ أَعْلَى دَرَجَةِ الزُّهْدِ أَدْنَى دَرَجَةِ الْوَرَعِ وَأَعْلَى دَرَجَةِ الْوَرَعِ أَدْنَى دَرَجَةِ الْيَقِينِ وَأَعْلَى دَرَجَةِ الْيَقِينِ أَدْنَى دَرَجَةِ الرِّضَا۔

فرمایا امام زین العابدین علیہ السلام نے زہد کے دس جز ہیں اعلیٰ درجہ زہد کا ادنیٰ درجہ تقویٰ کا اور ورع کا اعلیٰ درجہ ادنیٰ درجہ ہے یقین کا اور اعلیٰ درجہ یقین کا ادنیٰ درجہ سے رضا کا۔

حدیث نمبر 11

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لَقِيَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (عَلَيهِما السَّلام) عَبْدَ الله بْنَ جَعْفَرٍ فَقَالَ يَا عَبْدَ الله كَيْفَ يَكُونُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً وَهُوَ يَسْخَطُ قِسْمَهُ وَيُحَقِّرُ مَنْزِلَتَهُ وَالْحَاكِمُ عَلَيْهِ الله وَأَنَا الضَّامِنُ لِمَنْ لَمْ يَهْجُسْ فِي قَلْبِهِ إِلا الرِّضَا أَنْ يَدْعُوَ الله فَيُسْتَجَابَ لَهُ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ امام حسین علیہ السلام عبداللہ ابن جعفر سے ملے اور فرمایا اے عبداللہ وہ شخص کیسے مومن ہو سکتا ہے جو تقسیم الہٰی سے ناراض ہو اور اپنی منزلت کو حقیر سمجھتا ہو درآنحالیکہ اللہ اس پر حکم ہو اور جس کے دل میں اللہ کی رضا کے سوا دوسرا خیال نہ گزرتا ہو۔ میں اس کا ضامن ہوں کہ اگر وہ خدا سے دعا کرے گا اور اللہ اسکی دعا کو قبول کرے گا۔

حدیث نمبر 12

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ بِأَيِّ شَيْ‏ءٍ يُعْلَمُ الْمُؤْمِنُ بِأَنَّهُ مُؤْمِنٌ قَالَ بِالتَّسْلِيمِ لله وَالرِّضَا فِيمَا وَرَدَ عَلَيْهِ مِنْ سُرُورٍ أَوْ سَخَطٍ۔

راوی کہتا ہے میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ مومن کیسے جانا جائے کہ وہ مومن ہے۔ فرمایا امر خدا کے تسلیم کرنے اور راضی ہونے سے اس امر پر جو اس پر وارد ہو خوشی یا رنج سے۔

حدیث نمبر 13

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَقُولُ لِشَيْ‏ءٍ قَدْ مَضَى لَوْ كَانَ غَيْرُهُ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ نے رسول اللہ جو چیز ہو جاتی تھی اس کے متعلق کبھی یہ نہ فرماتے تھے کہ اس کا غیر ہوتا۔