مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مُفَضَّلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى دَاوُدَ (عَلَيهِ السَّلام) مَا اعْتَصَمَ بِي عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي دُونَ أَحَدٍ مِنْ خَلْقِي عَرَفْتُ ذَلِكَ مِنْ نِيَّتِهِ ثُمَّ تَكِيدُهُ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ إِلا جَعَلْتُ لَهُ الْمَخْرَجَ مِنْ بَيْنِهِنَّ وَمَا اعْتَصَمَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِي عَرَفْتُ ذَلِكَ مِنْ نِيَّتِهِ إِلا قَطَعْتُ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ مِنْ يَدَيْهِ وَأَسَخْتُ الأرْضَ مِنْ تَحْتِهِ وَلَمْ أُبَالِ بِأَيِّ وَادٍ هَلَكَ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کی داؤد علیہ السلام کو کہ جس میرے بندے نے میری پناہ لی اور میری مخلوق میں سے کسی کی پناہ میں نہ گیا اور میں نے اس کی خالص نیت کو پہچان لیا تو آسمان و زمین اور جو چیزیں ان کے درمیان ہے میں اس سے نکلنے کی جگہ اس کے لیے قرار دوں گا اور جس نے مجھے چھوڑ کر کسی مخلوق کی پناہ لی اور میں نے اس کی نیت کو جان لیا تو آسمان و زمین کے اسباب کو جو اس کے سامنے ہیں قطع کر دوں گا اور زمین کو اس کے نیچے مضطرب کر دوں گا اور میں پرواہ نہ کروں گا چاہے وہ کسی وادی میں ہلاک ہو۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي حَفْصٍ الأعْشَى عَنْ عَمْرِو [ عُمَرَ ] بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ خَرَجْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى هَذَا الْحَائِطِ فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ يَنْظُرُ فِي تُجَاهِ وَجْهِي ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ مَا لِي أَرَاكَ كَئِيباً حَزِيناً أَ عَلَى الدُّنْيَا فَرِزْقُ الله حَاضِرٌ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ قُلْتُ مَا عَلَى هَذَا أَحْزَنُ وَإِنَّهُ لَكَمَا تَقُولُ قَالَ فَعَلَى الآخِرَةِ فَوَعْدٌ صَادِقٌ يَحْكُمُ فِيهِ مَلِكٌ قَاهِرٌ أَوْ قَالَ قَادِرٌ قُلْتُ مَا عَلَى هَذَا أَحْزَنُ وَإِنَّهُ لَكَمَا تَقُولُ فَقَالَ مِمَّ حُزْنُكَ قُلْتُ مِمَّا نَتَخَوَّفُ مِنْ فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَمَا فِيهِ النَّاسُ قَالَ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ هَلْ رَأَيْتَ أَحَداً دَعَا الله فَلَمْ يُجِبْهُ قُلْتُ لا قَالَ فَهَلْ رَأَيْتَ أَحَداً تَوَكَّلَ عَلَى الله فَلَمْ يَكْفِهِ قُلْتُ لا قَالَ فَهَلْ رَأَيْتَ أَحَداً سَأَلَ الله فَلَمْ يُعْطِهِ قُلْتُ لا ثُمَّ غَابَ عَنِّي. عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ مِثْلَهُ۔
ابو حمزہ ثمالی نے بیان کیا کہ فرمایا علی بن الحسین نے کہ میں گھر سے نکلا اور ایک دیوار پر تکیہ لگا کر کھڑا ہوا کہ ایک شخص دو کپڑے پہنے ہوئے آیا اور میرے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگا اے علی بن الحسین یہ کیا بات ہے کہ میں آپ کو محزون و مغموم پا رہا ہوں۔ کیا یہ رنج دنیا کے متعلق ہے نہ ہونا چاہیے کیونکہ رزق الہٰی تو ہر نیک و بد کے لیے ہے میں نے کہا اس پر کیا رنجیدہ ہوتا وہ تو ایسا ہی ہے جیسا تم کہتے ہو اس نے کہا تو پھر آخرت کے متعلق ہے اس پر نہ ہونا چاہیے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس روز وہ مالک قاہر حکمران ہو گا جو ہر شے پر قادر ہے میں نے کہا اس پر کیوں رنجیدہ ہوتا جبکہ ایسا ہی جیسا تم نے بیان کیا اس نے کہا پھر بتائیں کیا غم ہے۔ میں نے کہا خوف ہے ابن زبیر کے فتنہ کا اس سے ہمارے شیعوں پر مصیبت نازل ہے یہ سن کر وہ ہنسا اور کہنے لگا اے علی بن الحسین کیا تم نے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جس نے خدا سے دعا کی ہو اور اس نے قبول نہ کی ہو۔ میں نے کہا نہیں اس نے کہا کیا تم نے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے کہ اس نے خدا پر توکل کیا ہو اور خدا نے اس کا کام پورا نہ کیا ہو۔ میں نے کہا نہیں اس نے کہا کوئی ایسا شخص پایا ہے جس نے اللہ سے سوال کیا ہو اور خدا نے اسے نہ دیا ہو میں نے کہا نہیں، اس کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ یہی روایت علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے اور اس نے ابن محبوب سے کی ہے۔
توضیح: یہ شخص یا تو کوئی فرشتہ تھا یا خضر تھے جنھوں نے یہ کلام امام علیہ السلام کی تسکین قلب کے لیے کیا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْغِنَى وَالْعِزَّ يَجُولانِ فَإِذَا ظَفِرَا بِمَوْضِعِ التَّوَكُّلِ أَوْطَنَا. عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ مِثْلَهُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے مالداری اور عزت گردش کرتی رہتی ہیں جب توکل کا مقام پانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہیں ڈیرے ڈال دیتی ہیں۔ علی بن حسان نے بھی ایسی ہی روایت کی ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ أَيُّمَا عَبْدٍ أَقْبَلَ قِبَلَ مَا يُحِبُّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَقْبَلَ الله قِبَلَ مَا يُحِبُّ وَمَنِ اعْتَصَمَ بِالله عَصَمَهُ الله وَمَنْ أَقْبَلَ الله قِبَلَهُ وَعَصَمَهُ لَمْ يُبَالِ لَوْ سَقَطَتِ السَّمَاءُ عَلَى الأرْضِ أَوْ كَانَتْ نَازِلَةٌ نَزَلَتْ عَلَى أَهْلِ الأرْضِ فَشَمِلَتْهُمْ بَلِيَّةٌ كَانَ فِي حِزْبِ الله بِالتَّقْوَى مِنْ كُلِّ بَلِيَّةٍ أَ لَيْسَ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ۔
فرمایا صادق آل محمد نے جو بندہ متوجہ ہوتا ہے اس امر کی طرف جس کو خدا دوست رکھتا ہے تو خدا متوجہ کرتا ہے اس طرف جسے بندہ چاہتا ہے اور جس نے اللہ کی پناہ ڈھونڈی خدا نے اس کو پناہ دی اور جو اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی پناہ میں آ گیا اس کی قطعاً پرواہ نہیں ہوئی کہ آسمان زمین پر گر پڑے یا کوئی بلا اہل زمین پر نازل ہو جائے اور یہ بلا ان کو گھیر لے وہ اپنے تقویٰ کی وجہ سے خدائی گروہ میں شامل ہوتا ہے کیا خدا نے نہیں فرمایا متقی لوگ امن کی جگہ میں ہیں۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْحَلالِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الأوَّلِ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى الله فَهُوَ حَسْبُهُ فَقَالَ التَّوَكُّلُ عَلَى الله دَرَجَاتٌ مِنْهَا أَنْ تَتَوَكَّلَ عَلَى الله فِي أُمُورِكَ كُلِّهَا فَمَا فَعَلَ بِكَ كُنْتَ عَنْهُ رَاضِياً تَعْلَمُ أَنَّهُ لا يَأْلُوكَ خَيْراً وَفَضْلاً وَتَعْلَمُ أَنَّ الْحُكْمَ فِي ذَلِكَ لَهُ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله بِتَفْوِيضِ ذَلِكَ إِلَيْهِ وَثِقْ بِهِ فِيهَا وَفِي غَيْرِهَا۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے راوی نے اس آیت کے متعلق سوال کیا کہ جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔ فرمایا توکل علی اللہ کے درجات ہیں ان میں سے یہ ہے کہ تم اللہ پر اپنے تمام معاملات میں توکل کرو اور جو صورت تمہارے لیے پیش آئے اس پر راضی رہو اور یہ جان لو کہ وہ تمہارے خیر اور فضل کو روکے گا نہیں، اور یہ سمجھ لو کہ اس بارے میں اللہ کا حکم یہی ہے اللہ پر توکل کرو اور اپنے معاملات اس کے سپرد کرو اور ہر معاملہ میں اس پر بھروسہ کرو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَعَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنْ يَحْيَى بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَبَلَةَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَنْ أُعْطِيَ ثَلاثاً لَمْ يُمْنَعْ ثَلاثاً مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ أُعْطِيَ الإجَابَةَ وَمَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ أُعْطِيَ الزِّيَادَةَ وَمَنْ أُعْطِيَ التَّوَكُّلَ أُعْطِيَ الْكِفَايَةَ ثُمَّ قَالَ أَ تَلَوْتَ كِتَابَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى الله فَهُوَ حَسْبُهُ وَقَالَ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأزِيدَنَّكُمْ وَقَالَ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔
فرمایا ابو عبداللہ نے جس کو تین چیزیں ملیں اس سے تین چیزیں دور نہ رہیں جس نے دعا کی قبولیت اسے عطا ہوئی جس کو شکر ملا اس کو اس چیز میں زیادتی ملی جسے توکل ملا خدا نے اس کے اغراض کو پورا کیا۔ پھر فرمایا کیا تو نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا جس نے خدا پر توکل کیا تو وہ اس کے لیے کافی ہوا اور فرمایا ہے اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں نعمت کو زیادہ کروں گا اور فرمایا تم مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ رَاشِدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُلْوَانَ قَالَ كُنَّا فِي مَجْلِسٍ نَطْلُبُ فِيهِ الْعِلْمَ وَقَدْ نَفِدَتْ نَفَقَتِي فِي بَعْضِ الأسْفَارِ فَقَالَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا مَنْ تُؤَمِّلُ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ فَقُلْتُ فُلاناً فَقَالَ إِذاً وَالله لا تُسْعَفُ حَاجَتُكَ وَلا يَبْلُغُكَ أَمَلُكَ وَلا تُنْجَحُ طَلِبَتُكَ قُلْتُ وَمَا عَلَّمَكَ رَحِمَكَ الله قَالَ إِنَّ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) حَدَّثَنِي أَنَّهُ قَرَأَ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ أَنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلالِي وَمَجْدِي وَارْتِفَاعِي عَلَى عَرْشِي لأقْطَعَنَّ أَمَلَ كُلِّ مُؤَمِّلٍ [ مِنَ النَّاسِ ] غَيْرِي بِالْيَأْسِ وَلأكْسُوَنَّهُ ثَوْبَ الْمَذَلَّةِ عِنْدَ النَّاسِ وَلأنَحِّيَنَّهُ مِنْ قُرْبِي وَلأبَعِّدَنَّهُ مِنْ فَضْلِي أَ يُؤَمِّلُ غَيْرِي فِي الشَّدَائِدِ وَالشَّدَائِدُ بِيَدِي وَيَرْجُو غَيْرِي وَيَقْرَعُ بِالْفِكْرِ بَابَ غَيْرِي وَبِيَدِي مَفَاتِيحُ الأبْوَابِ وَهِيَ مُغْلَقَةٌ وَبَابِي مَفْتُوحٌ لِمَنْ دَعَانِي فَمَنْ ذَا الَّذِي أَمَّلَنِي لِنَوَائِبِهِ فَقَطَعْتُهُ دُونَهَا وَمَنْ ذَا الَّذِي رَجَانِي لِعَظِيمَةٍ فَقَطَعْتُ رَجَاءَهُ مِنِّي جَعَلْتُ آمَالَ عِبَادِي عِنْدِي مَحْفُوظَةً فَلَمْ يَرْضَوْا بِحِفْظِي وَمَلأتُ سَمَاوَاتِي مِمَّنْ لا يَمَلُّ مِنْ تَسْبِيحِي وَأَمَرْتُهُمْ أَنْ لا يُغْلِقُوا الأبْوَابَ بَيْنِي وَبَيْنَ عِبَادِي فَلَمْ يَثِقُوا بِقَوْلِي أَ لَمْ يَعْلَمْ [ أَنَّ ] مَنْ طَرَقَتْهُ نَائِبَةٌ مِنْ نَوَائِبِي أَنَّهُ لا يَمْلِكُ كَشْفَهَا أَحَدٌ غَيْرِي إِلا مِنْ بَعْدِ إِذْنِي فَمَا لِي أَرَاهُ لاهِياً عَنِّي أَعْطَيْتُهُ بِجُودِي مَا لَمْ يَسْأَلْنِي ثُمَّ انْتَزَعْتُهُ عَنْهُ فَلَمْ يَسْأَلْنِي رَدَّهُ وَسَأَلَ غَيْرِي أَ فَيَرَانِي أَبْدَأُ بِالْعَطَاءِ قَبْلَ الْمَسْأَلَةِ ثُمَّ أُسْأَلُ فَلا أُجِيبُ سَائِلِي أَ بَخِيلٌ أَنَا فَيُبَخِّلُنِي عَبْدِي أَ وَلَيْسَ الْجُودُ وَالْكَرَمُ لِي أَ وَلَيْسَ الْعَفْوُ وَالرَّحْمَةُ بِيَدِي أَ وَلَيْسَ أَنَا مَحَلَّ الآمَالِ فَمَنْ يَقْطَعُهَا دُونِي أَ فَلا يَخْشَى الْمُؤَمِّلُونَ أَنْ يُؤَمِّلُوا غَيْرِي فَلَوْ أَنَّ أَهْلَ سَمَاوَاتِي وَأَهْلَ أَرْضِي أَمَّلُوا جَمِيعاً ثُمَّ أَعْطَيْتُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِثْلَ مَا أَمَّلَ الْجَمِيعُ مَا انْتَقَصَ مِنْ مُلْكِي مِثْلَ عُضْوِ ذَرَّةٍ وَكَيْفَ يَنْقُصُ مُلْكٌ أَنَا قَيِّمُهُ فَيَا بُؤْساً لِلْقَانِطِينَ مِنْ رَحْمَتِي وَيَا بُؤْساً لِمَنْ عَصَانِي وَلَمْ يُرَاقِبْنِ۔
حسین بن علوان (جو مخالفوں میں سے ہے) راوی ہے کہ میں طلب علم کے لیے ایک جگہ گیا سفر میں میرے پاس خرچ کے لیے کچھ نہ رہا۔ ایک دوست نے پوچھا تمہیں حاجت براوی کی کس سے امید ہے میں نے کہا فلاں سے اس نے کہا تمہاری حاجت پوری نہ ہو گی اور تم اپنی امید کو نہ پاؤ گے اور اس جستجو میں کامیابی نہ ہو گی۔ میں نے کہا اللہ تم پر رحم کرے تم نے یہ کیسے جانا۔اس نے کہا ابو عبداللہ علیہ السلام نے مجھ سے بیان کیا کہ انھوں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مجھے اپنے عزت و جلال اور بزرگی اور عرش پر برتری کی قسم جو مجھے چھوڑ کر میرے غیر سے امید کو وابستہ کرتا ہے میں اس کی امید کو قطع کر دوں گا اور لوگوں کے سامنے اسے ذلت کا لباس پہناؤں گا۔ میں اسے اپنے قریب سے ہٹا دوں گا اور اپنے فضل سے دور کر دوں گا کیا وہ شدائد میں میرے غیر سے دفع کی امید رکھتا ہے حالانکہ شدائد کو دور کرنا میرے ہاتھ میں ہے وہ میرے غیر سے امید رکھتا ہے اور فکر کے وقت غیر کا درواز کھٹکھٹاتا ہے حالانکہ ابواب کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہیں لوگوں کے دروازے بند ہیں میرا دروازہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جو مجھے پکارے وہ کون ہے ایسا جس نے مصیبتوں میں مجھ سے امید وابستہ کی ہو اور میں نے اس کی امید کو قطع کر دیا ہو کون ہے ایسا جس نے مجھ سے کچھ مانگا ہو اور میں نے اس کی خواہش پوری نہ کی ہو۔ میں نے اپنے بندوں کی امیدوں کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہے لیکن وہ میری حفاظت پر راضی نہیں۔ میرے آسمان ایسی مخلوق سے بھرے پڑے ہیں جو میری تسبیح سے ملول نہیں ہوتے۔ میں نے ان کو یہ حکم دے دیا ہے کہ میری مخلوق کے درمیان دروازوں کو بند نہ کریں اس پر بھی میرے بندوں نے مجھ پر اعتماد نہ کیا کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ جتنی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں انھیں میرے سوا کوئی نہیں کھول کر دور کر سکتا مگر میرے اذن کے بعد یہ کیا معاملہ ہے کہ بندہ مجھے بھولا ہوا ہے۔ میں نے اپنے جود و کرم سے اسے کیا کیا نہیں دیا۔ پھر جب میں نے کوئی نیکی سلب کر لی تو اس نے لوٹانے کا سوال نہ کیا اور میرے غیر سے مانگا۔ کیا اس نے مجھے کبھی ایسا پایا ہے کہ میں نے قبل سوال نہ دیا ہو یا مانگنے والے کی دعا قبول نہ کی ہو کیا میں بخیل ہوں کہ میرا بندہ مجھے ایسا سمجھتا ہے کیا جود و کرم میرے لیے نہیں کیا عفو و رحمت میرے ہاتھ میں نہیں۔ کیا میں امید کا محل نہیں، پس کون ہے جو مجھ سے قطع تعلق کرے تو کیا لوگ غیروں سے امید لگاتے دوڑتے نہیں۔ اگر تمام اہل آسمان و زمین بیک وقت مجھ سے مانگیں تو میں ان میٰں سے صرف ایک کو اتنا دوں گا جس کی امید ان سب کو ہو اور میرے خزانے میں بقدر چیونٹی کے ایک عضو کے کمی نہ ہو گی اور کیسے کمی ہو سکتی ہے جب اس تمام کارخانہ کا بنانے والا میں ہوں ہلاکت ہو اس کے لیے جو میری رحمت سے مایوس ہوا اور تباہی ہو اس کے لیے جس نے میری نافرمانی کی اور مجھ سے امید نہ رکھی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ عَبَّادِ بْنِ يَعْقُوبَ الرَّوَاجِنِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ كُنْتُ مَعَ مُوسَى بْنِ عَبْدِ الله بِيَنْبُعَ وَقَدْ نَفِدَتْ نَفَقَتِي فِي بَعْضِ الأسْفَارِ فَقَالَ لِي بَعْضُ وُلْدِ الْحُسَيْنِ مَنْ تُؤَمِّلُ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ فَقُلْتُ مُوسَى بْنَ عَبْدِ الله فَقَالَ إِذاً لا تُقْضَى حَاجَتُكَ ثُمَّ لا تُنْجَحُ طَلِبَتُكَ قُلْتُ وَلِمَ ذَاكَ قَالَ لأنِّي قَدْ وَجَدْتُ فِي بَعْضِ كُتُبِ آبَائِي أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَهُ فَقُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ الله أَمْلِ عَلَيَّ فَأَمْلاهُ عَلَيَّ فَقُلْتُ لا وَالله مَا أَسْأَلُهُ حَاجَةً بَعْدَهَا۔
راوی کہتا ہے میں مقام ینبع میں موسیٰ بن عبداللہ بن الحسن کے ساتھ تھا میرے پاس خرچ کو کچھ نہ رہا۔ مجھ سے امام حسین کی نسل سے ایک صاحب نے کہا یہ کس سے ملنے کی امید ہے۔ میں نے کہا موسیٰ بن عبداللہ سے انھوں نے کہا تمہاری حاجت براوی نہ ہو گی۔ میں نے کہا کیوں انھوں نے کہا میں نے اپنے آبا کی ایک کتاب میں یہ لکھا دیکھا ہے پھر اوپر والی روایت بیان کی۔ میں نے کہا یابن رسول اللہ مجھے لکھوا دیجیے۔ انھوں نے لکھوا دی میں نے کہا اب اس کے بعد میں ان سے نہ مانگوں گا۔