عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُغِيرَةِ أَوْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا كَانَ فِي وَصِيَّةِ لُقْمَانَ قَالَ كَانَ فِيهَا الأعَاجِيبُ وَكَانَ أَعْجَبَ مَا كَانَ فِيهَا أَنْ قَالَ لإبْنِهِ خَفِ الله عَزَّ وَجَلَّ خِيفَةً لَوْ جِئْتَهُ بِبِرِّ الثَّقَلَيْنِ لَعَذَّبَكَ وَارْجُ الله رَجَاءً لَوْ جِئْتَهُ بِذُنُوبِ الثَّقَلَيْنِ لَرَحِمَكَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كَانَ أَبِي يَقُولُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ إِلا [ وَ] فِي قَلْبِهِ نُورَانِ نُورُ خِيفَةٍ وَنُورُ رَجَاءٍ لَوْ وُزِنَ هَذَا لَمْ يَزِدْ عَلَى هَذَا وَلَوْ وُزِنَ هَذَا لَمْ يَزِدْ عَلَى هَذَا۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ سے پوچھا لقمان کی وصیت کیا تھی۔ فرمایا وہ عجیب باتیں ہیں ان میں سب سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا اللہ سے پوری طرح ڈرتے رہو اگر دو جہان کی نیکی تمہارے پاس ہو تو بھی وہ عذاب دے سکتا ہے اور اس سے پوری امید رکھو اگر دو جہان کے گناہ ہوں تو بھی وہ رحم کر سکتا ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ بندہ مومن کے دل میں دو نور ہیں نور خوف اور نور رجاء اورر نور رجاء اگر اسے وزن کیاجائے تو اس سے زیادہ نہ ہو گا اور اگر اسے وزن کیا جائے تو اس سے زیادہ نہ ہو گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَبَلَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا إِسْحَاقُ خَفِ الله كَأَنَّكَ تَرَاهُ وَإِنْ كُنْتَ لا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ فَإِنْ كُنْتَ تَرَى أَنَّهُ لا يَرَاكَ فَقَدْ كَفَرْتَ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ يَرَاكَ ثُمَّ بَرَزْتَ لَهُ بِالْمَعْصِيَةِ فَقَدْ جَعَلْتَهُ مِنْ أَهْوَنِ النَّاظِرِينَ عَلَيْكَ۔
اسحاق بن عمار نے روایت کی ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا اے اسحاق اللہ سے ڈر گویا کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے اگرچہ تو اسے نہیں دیکھتا لیکن وہ تو تجھے دیکھتا ہے اور اگر تو نے یہ سمجھا کہ وہ تجھے نہیں دیکھتا تو تو نے کفر کیا اور اگر یہ جانتے ہوئے کہ وہ تجھے دیکھتا ہے تو نے گناہ کیا تو تو نے دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ حقیر اسے سمجھا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ مَنْ خَافَ الله أَخَافَ الله مِنْهُ كُلَّ شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَخَفِ الله أَخَافَهُ الله مِنْ كُلِّ شَيْءٍ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جو اللہ سے ڈرے گا اللہ ہر شے کو اس سے ڈرائے گا اور جو اللہ سے نہیں ڈرے گا اللہ اس کو ہر شے سے ڈرائے گا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الله الْجَعْفَرِيِّ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَنْ عَرَفَ الله خَافَ الله وَمَنْ خَافَ الله سَخَتْ نَفْسُهُ عَنِ الدُّنْيَا۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جس نے اللہ کو پہچانا وہ اللہ سے ڈرا اور جو اللہ سے ڈرا اس کا نفس دنیا سے بیزار ہوا۔
عَنْهُ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ قَوْمٌ يَعْمَلُونَ بِالْمَعَاصِي وَيَقُولُونَ نَرْجُو فَلا يَزَالُونَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَهُمُ الْمَوْتُ فَقَالَ هَؤُلاءِ قَوْمٌ يَتَرَجَّحُونَ فِي الأمَانِيِّ كَذَبُوا لَيْسُوا بِرَاجِينَ إِنَّ مَنْ رَجَا شَيْئاً طَلَبَهُ وَمَنْ خَافَ مِنْ شَيْءٍ هَرَبَ مِنْهُ۔
راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ سے کہا کہ بعض لوگ گناہ کرتے ہوئے بخشش کی امید رکھتے ہیں اور اسی خیال میں مر جاتے ہیں۔ فرمایا یہ لوگ غلط آرزوئیں کرتے ہیں جھوٹے ہیں۔ یہ رجا والے نہیں ہیں جو کوئی شے کا آرزومند ہوتا ہے وہ اس کی طلب میں رہتا ہے اور جو کسی شے سے ڈرتا ہے وہ اس سے بھاگا کرتا ہے۔
وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ رَفَعَهُ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ قَوْماً مِنْ مَوَالِيكَ يُلِمُّونَ بِالْمَعَاصِي وَيَقُولُونَ نَرْجُو فَقَالَ كَذَبُوا لَيْسُوا لَنَا بِمَوَالٍ أُولَئِكَ قَوْمٌ تَرَجَّحَتْ بِهِمُ الأمَانِيُّ مَنْ رَجَا شَيْئاً عَمِلَ لَهُ وَمَنْ خَافَ مِنْ شَيْءٍ هَرَبَ مِنْهُ۔
میں نے حضرت ابو عبداللہ سے کہا آپ کے دوستوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو معاصی پر ملامت کی جاتی ہے لیکن وہ کہتے ہیں ہمیں امید بخشش ہے۔ فرمایا وہ جھوٹے ہیں وہ ہمارے دوست نہیں وہ ایسے لوگ ہیں جنھیں آرزوؤں نے چیر لیا ہے جو کسی شے کی امید کرتا ہے تو اس کے حاصل کرنے کے لیے بھی کام کرتا ہے اور جو کسی چیز سے خوف کرتا ہے تو اس سے بھاگتا ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ صَالِحِ بْنِ حَمْزَةَ رَفَعَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ مِنَ الْعِبَادَةِ شِدَّةَ الْخَوْفِ مِنَ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ الله إِنَّما يَخْشَى الله مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ وَقَالَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فَلا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ يَتَّقِ الله يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً قَالَ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ حُبَّ الشَّرَفِ وَالذِّكْرِ لا يَكُونَانِ فِي قَلْبِ الْخَائِفِ الرَّاهِبِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ عبادت کی صورت یہ ہے کہ اللہ سے شدید خوف رکھے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اللہ کے بندوں میں علماء اس سے ڈرتے ہیں اور خدا نے فرمایا ہے لوگوں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو اور یہ بھی فرمایا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے خدا اس کو (مشکل) سے نکال دیتا ہے امام علیہ السلام نے فرمایا جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور پرہیزگار ہیں انھیں شرف و شہرت کی پرواہ نہیں ہوتی۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْمُكَارِي عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) [ قَالَ ] قَالَ إِنَّ رَجُلاً رَكِبَ الْبَحْرَ بِأَهْلِهِ فَكُسِرَ بِهِمْ فَلَمْ يَنْجُ مِمَّنْ كَانَ فِي السَّفِينَةِ إِلا امْرَأَةُ الرَّجُلِ فَإِنَّهَا نَجَتْ عَلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ حَتَّى أَلْجَأَتْ عَلَى جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ وَكَانَ فِي تِلْكَ الْجَزِيرَةِ رَجُلٌ يَقْطَعُ الطَّرِيقَ وَلَمْ يَدَعْ لله حُرْمَةً إِلا انْتَهَكَهَا فَلَمْ يَعْلَمْ إِلا وَالْمَرْأَةُ قَائِمَةٌ عَلَى رَأْسِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهَا فَقَالَ إِنْسِيَّةٌ أَمْ جِنِّيَّةٌ فَقَالَتْ إِنْسِيَّةٌ فَلَمْ يُكَلِّمْهَا كَلِمَةً حَتَّى جَلَسَ مِنْهَا مَجْلِسَ الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِهِ فَلَمَّا أَنْ هَمَّ بِهَا اضْطَرَبَتْ فَقَالَ لَهَا مَا لَكِ تَضْطَرِبِينَ فَقَالَتْ أَفْرَقُ مِنْ هَذَا وَأَوْمَأَتْ بِيَدِهَا إِلَى السَّمَاءِ قَالَ فَصَنَعْتِ مِنْ هَذَا شَيْئاً قَالَتْ لا وَعِزَّتِهِ قَالَ فَأَنْتِ تَفْرَقِينَ مِنْهُ هَذَا الْفَرَقَ وَلَمْ تَصْنَعِي مِنْ هَذَا شَيْئاً وَإِنَّمَا أَسْتَكْرِهُكِ اسْتِكْرَاهاً فَأَنَا وَالله أَوْلَى بِهَذَا الْفَرَقِ وَالْخَوْفِ وَأَحَقُّ مِنْكِ قَالَ فَقَامَ وَلَمْ يُحْدِثْ شَيْئاً وَرَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَلَيْسَتْ لَهُ هِمَّةٌ إِلا التَّوْبَةُ وَالْمُرَاجَعَةُ فَبَيْنَا هُوَ يَمْشِي إِذْ صَادَفَهُ رَاهِبٌ يَمْشِي فِي الطَّرِيقِ فَحَمِيَتْ عَلَيْهِمَا الشَّمْسُ فَقَالَ الرَّاهِبُ لِلشَّابِّ ادْعُ الله يُظِلَّنَا بِغَمَامَةٍ فَقَدْ حَمِيَتْ عَلَيْنَا الشَّمْسُ فَقَالَ الشَّابُّ مَا أَعْلَمُ أَنَّ لِي عِنْدَ رَبِّي حَسَنَةً فَأَتَجَاسَرَ عَلَى أَنْ أَسْأَلَهُ شَيْئاً قَالَ فَأَدْعُو أَنَا وَتُؤَمِّنُ أَنْتَ قَالَ نَعَمْ فَأَقْبَلَ الرَّاهِبُ يَدْعُو وَالشَّابُّ يُؤَمِّنُ فَمَا كَانَ بِأَسْرَعَ مِنْ أَنْ أَظَلَّتْهُمَا غَمَامَةٌ فَمَشَيَا تَحْتَهَا مَلِيّاً مِنَ النَّهَارِ ثُمَّ تَفَرَّقَتِ الْجَادَّةُ جَادَّتَيْنِ فَأَخَذَ الشَّابُّ فِي وَاحِدَةٍ وَأَخَذَ الرَّاهِبُ فِي وَاحِدَةٍ فَإِذَا السَّحَابَةُ مَعَ الشَّابِّ فَقَالَ الرَّاهِبُ أَنْتَ خَيْرٌ مِنِّي لَكَ اسْتُجِيبَ وَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي فَأَخْبِرْنِي مَا قِصَّتُكَ فَأَخْبَرَهُ بِخَبَرِ الْمَرْأَةِ فَقَالَ غُفِرَ لَكَ مَا مَضَى حَيْثُ دَخَلَكَ الْخَوْفُ فَانْظُرْ كَيْفَ تَكُونُ فِيمَا تَسْتَقْبِلُ۔
راوی کہتا ہے حضرت علی بن الحسین نے فرمایا کہ ایک شخص معہ اہل و عیال کشتی میں سوار ہوا کشتی ٹوٹ جانے سے سوائے اس شخص کی بی بی کے اور سب ڈوب گئے وہ عورت ایک تختہ کے سہارے ایک جزیرہ کے کنارے جا لگی اس جزیرہ میں ایک ڈاکو تھا جس نے حرمت الہٰیہ کی ہتک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تھا۔ یہ عورت جب اس کے سامنے آئی تو اس نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا اور اس سے کہنے لگا تو از قسم انسان ہے یا اس قسم جن۔ اس نے کہا میں انسان ہوں اس نے بغیر اس سے کچھ کہے اسے پکڑ کر لٹا دیا اور زنا کرنا چاہا عورت کے بدن میں کپکپی پڑ گئی اس نے پوچھا تو اتنی بے چین کیوں ہے۔ اس نے کہا میں اس سے ڈرتی ہوں اور اشارہ کیا آسمان کی طرف۔ مرد نے کہا کیا تو نے اس سے پہلے بھی ایسا کام کرایا ہے۔ اس نے کہا نہیں قسم ہے عزت و جلال خدا کی اس نے کہا تو تو صرف اسی کام کی وجہ سے اتنا خوف کھا رہی ہے حالانکہ میں زبردستی تیرے ساتھ یہ کار بد کرنا چاہ رہا ہوں لہذا میں تجھ سے خدا سے ڈرنے کا زیادہ مستحق ہوں یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر اس سے کلام کیے اپنے گھر کی طرف چلا گیا اور اب اس کا کام سوائے توبہ اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کے کچھ اور نہ رہا۔
وہ راہ میں چلا جا رہا تھا کہ ایک راہب ہم سفر ملا۔ کڑی دھوپ تھی، راہب نے اس جوان سے کہا اللہ سے دعا کرو کہ وہ ہمارے سایہ کے لیے بادل بھیج دے۔ دھوپ بہت سخت ہے اس نے کہا میں نے کون سی نیکی کی ہے کہ اللہ سے دعا کرنے کی جرات کروں۔ اس نے کہا اچھا میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو۔ چنانچہ راہب نے دعا کی اور جوان نے آمین کہی۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بادل آ گیا اور اس کے سایہ میں دونوں چلنے لگے اور دن میں دیر تک چلتے رہے پھر انھوں نے الگ الگ راستہ اختیار کیا ایک راستہ پر وہ جوان چلا دوسرے پر راہب، بادل اس جوان کے ساتھ ہو گیا۔ راہب نے کہا تو مجھ سے بہتر ہے تیری دعا قبول ہوئی میری نہیں۔ پس مجھے بتا تیرا قصہ کیا ہے اس نے عورت کا واقعہ بیان کیا اس نے کہا تیرے اس خوف کی وجہ سے خدا نے تیرے گناہ بخش دیئے پس آگے کے لیے خبردار رہنا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ حُمْرَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ مِمَّا حُفِظَ مِنْ خُطَبِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَنَّهُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ لَكُمْ مَعَالِمَ فَانْتَهُوا إِلَى مَعَالِمِكُمْ وَإِنَّ لَكُمْ نِهَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى نِهَايَتِكُمْ أَلا إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَعْمَلُ بَيْنَ مَخَافَتَيْنِ بَيْنَ أَجَلٍ قَدْ مَضَى لا يَدْرِي مَا الله صَانِعٌ فِيهِ وَبَيْنَ أَجَلٍ قَدْ بَقِيَ لا يَدْرِي مَا الله قَاضٍ فِيهِ فَلْيَأْخُذِ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ مِنْ نَفْسِهِ لِنَفْسِهِ وَمِنْ دُنْيَاهُ لآِخِرَتِهِ وَفِي الشَّبِيبَةِ قَبْلَ الْكِبَرِ وَفِي الْحَيَاةِ قَبْلَ الْمَمَاتِ فَوَ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا بَعْدَ الدُّنْيَا مِنْ مُسْتَعْتَبٍ وَمَا بَعْدَهَا مِنْ دَارٍ إِلا الْجَنَّةُ أَوِ النَّارُ۔
راوی کہتا ہے میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام کو کہتے سنا کہ رسول اللہ سے خطبوں میں سے جو میں نے یاد کیا یہ ہے کہ حضرت نے فرمایا لوگو یہ تمہارے لیے دلائل و براہین ہیں اور تمہارے لیے ایک نہایت ہے پس اپنی نہایت پر نظر رکھو آگاہ رہو کہ بندہ مومن دو قوتوں کے درمیان کام کرتا ہے ایک عمر کا وہ حصہ ہےے جو گزر چکا وہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کے متعلق کیا کرے گا اور عمر کا ایک وہ حصہ ہے جو باقی ہے وہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کے متعلق کیا فیصلہ کرے گا پس چاہیے کہ بندہ مومن وہ کام کرے جو اس کے نفس کے لیے مفید ہو اور دنیا سے آخرت کے لیے حاصل کرے اور جوانی میں بڑھاپے سے پہلے اور زندگی میں موت سے پہلے۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے کہ دنیا کے بعد کوئی عذر قبول نہ ہو گا اس دنیا کے علاوہ سوائے جنت و نار کوئی اور گھر نہیں۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ جَنَّتانِ قَالَ مَنْ عَلِمَ أَنَّ الله يَرَاهُ وَيَسْمَعُ مَا يَقُولُ وَيَعْلَمُ مَا يَعْمَلُهُ مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ فَيَحْجُزُهُ ذَلِكَ عَنِ الْقَبِيحِ مِنَ الأعْمَالِ فَذَلِكَ الَّذِي خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى۔
آیت جو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں کے متعلق فرمایا جس نے یہ جان لیا کہ اللہ ہر اس کام کو دیکھتا ہے جو وہ کرتا ہے اور ہر اس بات کو سنتا ہے جو وہ کہتا ہے اور اس کے ہر عمل کو اچھا ہو یا برا جاننے والا ہے تو وہ شخص اعمال قبیح سے رک جاتا ہے یہ مطلب ہے اس آیت کا کہ جس نے خوف کیا مقام رب سے اور بری خواہشوں سے نفس کو روکا۔
توضیح: دو جنتوں سے مراد ایک تو بہشت دنیا ہے وہ حاصل ہوتی ہے قضائے الہٰی پر راضی ہونے سے اور دوسری بہشت آخرت ہے جو جزا ہے مرضیِ الہٰی پر راضی ہونے کی۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي سَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ لا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ خَائِفاً رَاجِياً وَلا يَكُونُ خَائِفاً رَاجِياً حَتَّى يَكُونَ عَامِلاً لِمَا يَخَافُ وَيَرْجُو۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ نے کوئی مومن مومن نہیں ہو سکتا جبتک خوف کرنے والا اور امید کرنے والا نہ ہو اور ایسا نہیں ہو سکتا جب تک خوف اور رجا کے معاملات پر عمل کرنے والا نہ ہو۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ بَيْنَ مَخَافَتَيْنِ ذَنْبٍ قَدْ مَضَى لا يَدْرِي مَا صَنَعَ الله فِيهِ وَعُمُرٍ قَدْ بَقِيَ لا يَدْرِي مَا يَكْتَسِبُ فِيهِ مِنَ الْمَهَالِكِ فَهُوَ لا يُصْبِحُ إِلا خَائِفاً وَلا يُصْلِحُهُ إِلا الْخَوْفُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ نے مومن دو خوفوں کے درمیان ہے ایک وہ گناہ جو گزر گیا، نہیں جانتا کہ خدا نے اس کے متعلق کیا کیا دوسرے باقی عمر کے متعلق نہیں جانتا کہ کیسی مہلک غلطیوں کا مرتکب ہو گا وہ صبح کرتا ہے خوف کی حالت میں اور اس کی اصلاح نہیں کر سکتا مگر خوف۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ أَبِي (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ إِلا وَفِي قَلْبِهِ نُورَانِ نُورُ خِيفَةٍ وَنُورُ رَجَاءٍ لَوْ وُزِنَ هَذَا لَمْ يَزِدْ عَلَى هَذَا وَلَوْ وُزِنَ هَذَا لَمْ يَزِدْ عَلَى هَذَا۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ میرے باپ نے فرمایا کوئی بندہ مومن ایسا نہیں جس کے قلب میں دو نور نہ ہوں، نور خوف اور نور رجاء ۔ اگر ان دونوں کو وزن کیا جائے تو ایک کو دوسرے پر فوقیت نہ ہو گی۔