عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الصَّبْرُ رَأْسُ الإيمَانِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے صبر ایمان کا سر ہے۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الصَّبْرُ مِنَ الإيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ فَإِذَا ذَهَبَ الرَّأْسُ ذَهَبَ الْجَسَدُ كَذَلِكَ إِذَا ذَهَبَ الصَّبْرُ ذَهَبَ الإيمَانُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ صبر کا ایمان سے وہی تعلق ہے جو سر کا جسد سے جب سر نہ ہو تو جسد بیکار ہے اسی طرح جب صبر نہ ہو تو ایمان بیکار ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأصْبَهَانِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْمِنْقَرِيِّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا حَفْصُ إِنَّ مَنْ صَبَرَ صَبَرَ قَلِيلاً وَإِنَّ مَنْ جَزِعَ جَزِعَ قَلِيلاً ثُمَّ قَالَ عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ فِي جَمِيعِ أُمُورِكَ فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّداً (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَأَمَرَهُ بِالصَّبْرِ وَالرِّفْقِ فَقَالَ وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلاً وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ السَّيِّئَةَ ] فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَداوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَما يُلَقَّاها إِلا الَّذِينَ صَبَرُوا وَما يُلَقَّاها إِلا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ فَصَبَرَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) حَتَّى نَالُوهُ بِالْعَظَائِمِ وَرَمَوْهُ بِهَا فَضَاقَ صَدْرُهُ فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِما يَقُولُونَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ ثُمَّ كَذَّبُوهُ وَرَمَوْهُ فَحَزِنَ لِذَلِكَ فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لا يُكَذِّبُونَكَ وَلكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآياتِ الله يَجْحَدُونَ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلى ما كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا فَأَلْزَمَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) نَفْسَهُ الصَّبْرَ فَتَعَدَّوْا فَذَكَرَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَكَذَّبُوهُ فَقَالَ قَدْ صَبَرْتُ فِي نَفْسِي وَأَهْلِي وَعِرْضِي وَلا صَبْرَ لِي عَلَى ذِكْرِ إِلَهِي فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّماواتِ وَالأرْضَ وَما بَيْنَهُما فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَما مَسَّنا مِنْ لُغُوبٍ فَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ فَصَبَرَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فِي جَمِيعِ أَحْوَالِهِ ثُمَّ بُشِّرَ فِي عِتْرَتِهِ بِالأئِمَّةِ وَوُصِفُوا بِالصَّبْرِ فَقَالَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا لَمَّا صَبَرُوا وَكانُوا بِآياتِنا يُوقِنُونَ فَعِنْدَ ذَلِكَ قَالَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) الصَّبْرُ مِنَ الإيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ فَشَكَرَ الله عَزَّ وَجَلَّ ذَلِكَ لَهُ فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنى عَلى بَنِي إِسْرائِيلَ بِما صَبَرُوا وَدَمَّرْنا ما كانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما كانُوا يَعْرِشُونَ فَقَالَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّهُ بُشْرَى وَانْتِقَامٌ فَأَبَاحَ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُ قِتَالَ الْمُشْرِكِينَ فَأَنْزَلَ الله فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ فَقَتَلَهُمُ الله عَلَى يَدَيْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَأَحِبَّائِهِ وَجَعَلَ لَهُ ثَوَابَ صَبْرِهِ مَعَ مَا ادَّخَرَ لَهُ فِي الآخِرَةِ فَمَنْ صَبَرَ وَاحْتَسَبَ لَمْ يَخْرُجْ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى يُقِرَّ الله لَهُ عَيْنَهُ فِي أَعْدَائِهِ مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الآخِرَةِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اے حفص (راوی) جس نے صبر کیا اس کا اجر باقی رہنے والا ہے اور جس نے بیتابی کا اظہار کیا تو اس کی بیتابی تھوڑی ہی دیر رہی لیکن اس کی شرمندگی دیرپا رہی۔ پھر فرمایا صبر کو اپنے اوپر لازم قرار دے اپنے تمام امور میں خدا نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو رسول بنا کر بھیجا اور صبر اور مدارا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا لوگوں کے کہنے پر صبر کرو اور پوری طرح ان سے قطعع تعلق کرو اور جھٹلانے والوں اور دولت مندوں کو چھوڑ دو اور فرماتا ہے لوگوں کے لیے اعتراض کا اچھے طریقہ سے دفعیہ کرو آج جس سے دشمنی ہے کل وہ خالص دوست بن جائے گا اور اس کی توفیق نہیں ہوتی مگر صبر کرنے والوں یا جن کو بارگاہ الہٰی سے بڑا حصہ ملا ہے۔
پس رسول اللہ ﷺ نے صبر کیا پھر انھوں نے بڑے سخت الفاظ میں دشنام طرازی کی اور حضرت کو عیب لگائے جس سے آپ دل تنگ ہوئے خدا نے یہ آیت نازل کی، ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا تم کو دل تنگ بناتا ہے پس تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو سجدہ کرنے والوں میں سے بنو ان لوگوں نے پھر بھی جھٹلایا اور تہمت تراشی کی۔ حضرت غمگین ہوئے تو خدا نے یہ آیت نازل کی ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا تم کو رنجیدہ کرتا ہےوہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم آیات خدا سے انکار کرتے ہیں تم سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا تھا لیکن اس کی تکذیب پر انھوں نے صبر کیا اور وہ اذیت دیئے گئے یہاں تک کہ ہماری نصرت ان کے پاس آئی۔ پس رسول اللہ نے صبر کو اپنے اوپر لازم قرار دیا۔ پھر مشرکوں نے حد سے تجاوز کیا اور اللہ کو برا کہنے لگے اور اس کو جھٹلایا۔ حضرت نے فرمایا میں نے صبر کیا اپنے معاملہ میں اپنے اہلبیت اور اپنی آبرو کے معاملہ میں لیکن صبر نہیں ہو سکتا خدا کو برا کہنے میں۔ خدا نے اس پر یہ آیت نازل کی ہم نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو بھی چھ دن میں بنایا اور ہم کو کوئی تھکن نہ ہوئی۔ پس جو کچھ یہ کہتے ہیں اس پر صبر کرو۔ اس بناء پر آنحضرت نے ہر حالت میں صبر کیا پھر حضرت کو بشارت دی گئی۔ عترت کے آئمہ ہونے کی اور صبر سے ان کی تعریف کی اور فرمایا ہم نے ان کو امام بنایا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں اور انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین کرنے والے ہیں اسی لیے رسول نے فرمایا ہے صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو بدن کو سر سے۔ حضرت نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور خدا نے اس پر یہ آیت نازل کی، اور تیرے رب کا کلمہ حسنیٰ تمام ہوا بنی اسرائیل پر اس لیے کہ انھوں نے صبر کیا اور جو فرعون نے اورر اس کے قوم نے کیا تھا اور جو مکانات بنائے تھے اور باغ لگائے تھے۔ ان سب کو ہلاک و تباہ کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بشارت ہے میرے لیے اور خبر انتقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرکوں سے قتال کرو جہاں ان کو پاؤ اور ان کو پکڑ لو محصور کر لو اور ہر گھات کی جگہ ان کے لیے بیٹھو اور جہاں پاؤ ان کو قتل کرو پس اللہ نے ان کو رسول اللہ کے ہاتھوں اور ان کے احباب کے ہاتھوں قتل کرایا اور ان کے صبر پر ثواب عطا کیا اور آخرت میں ان کے لیے ثواب کا ذخیرہ ہے۔ پس جس نے صبر کیا وہ دنیا سے نہ جائے گا جب تک اللہ اس کی آنکھوں کو دشمن کی تباہی سے ٹھنڈا نہ کر دے اور اس کے علاوہ آخرت میں بھی ثواب کا ذخیرہ ہو گا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ عَبْدِ الله السَّرَّاجِ رَفَعَهُ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ الصَّبْرُ مِنَ الإيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ وَلا إِيمَانَ لِمَنْ لا صَبْرَ لَهُ۔
فرمایا حضرت علی بن الحسین نے صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو جسد سے اور جس کے لیے صبر نہیں اس کے لیے ایمان نہیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ عَبْدِ الله عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الصَّبْرُ مِنَ الإيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ فَإِذَا ذَهَبَ الرَّأْسُ ذَهَبَ الْجَسَدُ كَذَلِكَ إِذَا ذَهَبَ الصَّبْرُ ذَهَبَ الإيمَانُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو جسم سے ہے اگر سر گیا تو جسم بھی گیا اسی طرح صبر گیا تو ایمان بھی گیا۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِنَّ الْحُرَّ حُرٌّ عَلَى جَمِيعِ أَحْوَالِهِ إِنْ نَابَتْهُ نَائِبَةٌ صَبَرَ لَهَا وَإِنْ تَدَاكَّتْ عَلَيْهِ الْمَصَائِبُ لَمْ تَكْسِرْهُ وَإِنْ أُسِرَ وَقُهِرَ وَاسْتُبْدِلَ بِالْيُسْرِ عُسْراً كَمَا كَانَ يُوسُفُ الصِّدِّيقُ الأمِينُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لَمْ يَضْرُرْ حُرِّيَّتَهُ أَنِ اسْتُعْبِدَ وَقُهِرَ وَأُسِرَ وَلَمْ تَضْرُرْهُ ظُلْمَةُ الْجُبِّ وَوَحْشَتُهُ وَمَا نَالَهُ أَنْ مَنَّ الله عَلَيْهِ فَجَعَلَ الْجَبَّارَ الْعَاتِيَ لَهُ عَبْداً بَعْدَ إِذْ كَانَ لَهُ مَالِكاً فَأَرْسَلَهُ وَرَحِمَ بِهِ أُمَّةً وَكَذَلِكَ الصَّبْرُ يُعَقِّبُ خَيْراً فَاصْبِرُوا وَوَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الصَّبْرِ تُوجَرُوا۔
ابو بصیر کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آزاد مرد تمام حالتوں میں آزاد رہتا ہے اگر اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے اور اگر مصائب ہجوم کرتے ہیں تو اس کا دل نہیں ٹوٹتا اور اگر قید کیا جائے یا مغلوب ہو یا تونگری عسرت سے بدل جائے تو بھی جیسے صدیق و امین یوسف علیہ السلام کو غلام بننے نے حریت پسندی سے نہیں روکا وہ مغلوب ہوئے قید کیے گئے لیکن وہ اپنے موقف سے نہ ہٹے۔ کنویں کی تاریکی اور وحشت نے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچایا یہاں تک کہ خدا نے ان پر احسان کیا اور نافرمان و سرکش کو ان کے غلام بنا دیا جو پہلے ان کا مالک تھا ان کو خدا نے اپنا رسول بنایا اور اس زمانہ کے لوگوں پر ان کی وجہ سے رحم کیا پس اسی طرح صبر کے بعد بہتری ہوتی ہے لہذا صبر کرو تم اپنے نفس کے لیے صبر کو لازم قرار دو خدا سے اجر پاؤ گے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ حُمْرَانَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْجَنَّةُ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَكَارِهِ وَالصَّبْرِ فَمَنْ صَبَرَ عَلَى الْمَكَارِهِ فِي الدُّنْيَا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَجَهَنَّمُ مَحْفُوفَةٌ بِاللَّذَّاتِ وَالشَّهَوَاتِ فَمَنْ أَعْطَى نَفْسَهُ لَذَّتَهَا وَشَهْوَتَهَا دَخَلَ النَّارَ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے جنت تکالیف سے گھری ہوئی ہے اور صبر سے جس نے تکالیفِ دنیا پر صبر کیا وہ داخلِ جنت ہوا اور جہنم گھری ہوئی ہے لذات و شہوات سے جس نے اپنے نفس کو لذت و شہوت میں رکھا وہ داخل جہنم ہوا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَرْحُومٍ عَنْ أَبِي سَيَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا دَخَلَ الْمُؤْمِنُ فِي قَبْرِهِ كَانَتِ الصَّلاةُ عَنْ يَمِينِهِ وَالزَّكَاةُ عَنْ يَسَارِهِ وَالْبِرُّ مُطِلٌّ عَلَيْهِ وَيَتَنَحَّى الصَّبْرُ نَاحِيَةً فَإِذَا دَخَلَ عَلَيْهِ الْمَلَكَانِ اللَّذَانِ يَلِيَانِ مُسَاءَلَتَهُ قَالَ الصَّبْرُ لِلصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ وَالْبِرِّ دُونَكُمْ صَاحِبَكُمْ فَإِنْ عَجَزْتُمْ عَنْهُ فَأَنَا دُونَهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب مومن قبر میں داخل ہوتا ہے تو نماز اس کے داہنی طرف ہوتی ہے اور زکوٰۃ بائیں طرف اور نیکی اس پر سایہ کیے ہوتی ہے اور صبر گوشہ گیر ہوتا ہے جب منکر و نکیر آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں تو صبر نماز و زکوٰۃ و نیکی سے کہتا ہے اگر تم اس کو نجات نہیں دلا سکتے تو ہٹ جاؤ میں اس کے لیے کافی ہوں۔
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأشْعَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ دَخَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ كَئِيبٍ حَزِينٍ فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) مَا لَكَ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُصِبْتُ بِأَبِي [ وَأُمِّي ] وَأَخِي وَأَخْشَى أَنْ أَكُونَ قَدْ وَجِلْتُ فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) عَلَيْكَ بِتَقْوَى الله وَالصَّبْرِ تَقْدَمْ عَلَيْهِ غَداً وَالصَّبْرُ فِي الأمُورِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ فَإِذَا فَارَقَ الرَّأْسُ الْجَسَدَ فَسَدَ الْجَسَدُ وَإِذَا فَارَقَ الصَّبْرُ الأمُورَ فَسَدَتِ الأمُورُ۔
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہ امیر المومنین ایک روز مسجد میں داخل ہوئے ، دیکھا دروازہ مسجد پر ایک شخص نہایت محزون و مغموم کھڑا ہے۔ فرمایا تیرا کیا حال ہے۔ اس نے کہا باپ، بھائی اور بہن کے مرنے سے حد درجہ دل شکستہ ہوں۔ فرمایا تقویٰ اور صبر سے کام لے کل صبر تیرے کام آئے گا (تو مرنے والوں سے عنقریب ملے گا) معاملات میں صبر کرنا ایسا ہے جیسے سر کا بدن پر ہونا جب بدن پر سر نہیں رہتا تو بدن فاسد ہو جاتا ہے اور جب صبر نہیں رہتا تو تمام معاملات خراب ہو جاتے ہیں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ لِي مَا حَبَسَكَ عَنِ الْحَجِّ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَقَعَ عَلَيَّ دَيْنٌ كَثِيرٌ وَذَهَبَ مَالِي وَدَيْنِيَ الَّذِي قَدْ لَزِمَنِي هُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَهَابِ مَالِي فَلَوْ لا أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِنَا أَخْرَجَنِي مَا قَدَرْتُ أَنْ أَخْرُجَ فَقَالَ لِي إِنْ تَصْبِرْ تُغْتَبَطْ وَإِلا تَصْبِرْ يُنْفِذِ الله مَقَادِيرَهُ رَاضِياً كُنْتَ أَمْ كَارِهاً۔
راوی کہتا ہے امام رضا علیہ السلام نے فرمایا مجھ سے کہ سالِ گزشتہ تمہیں حج سے کس چیز نے روکا۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں میرے اوپر قرض بہت ہے میرا مال گیا اور جو قرض میرے اوپر ہے وہ میرے مال کے جانے سے زیادہ ہے اگر میرا ایک دوست مجھے اس سال حج کے لیے لے کر نہ آتا تو میں آ نہیں سکتا تھا حضرت نے مجھ سے فرمایا اگر صبر کرو گے تو خوشحال ہو جاؤ گے اور اگر صبر نہ کرو گے تو چاہے راضی ہو یا ناراض مقادیرِ الہٰیہ تو نافذ ہو کر رہیں گی۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنِ الأصْبَغِ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ حَسَنٌ جَمِيلٌ وَأَحْسَنُ مِنْ ذَلِكَ الصَّبْرُ عِنْدَ مَا حَرَّمَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ وَالذِّكْرُ ذِكْرَانِ ذِكْرُ الله عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ وَأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ ذِكْرُ الله عِنْدَ مَا حَرَّمَ عَلَيْكَ فَيَكُونُ حَاجِزاً۔
اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا صبر دو طرح کا ہے ایک مصیبت پر صبر اور اس سے بہتر صبر وہ ہے جو اس چیز پر کیا جائے جو اللہ نے تجھ پر حرام کر دی ہے اور ذکر دو ذکر ہیں ایک وقت مصیبت اللہ کو یاد کرنا اور اس سے زیادہ افضل حرام چیزوں سے بچنے کے لیے اللہ کا ذکر ہے کہ یہ ذکر تجھے حرام سے بچا لے گا۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَامِرٍ عَنِ الْعَرْزَمِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لا يُنَالُ الْمُلْكُ فِيهِ إِلا بِالْقَتْلِ وَالتَّجَبُّرِ وَلا الْغِنَى إِلا بِالْغَصْبِ وَالْبُخْلِ وَلا الْمَحَبَّةُ إِلا بِاسْتِخْرَاجِ الدِّينِ وَاتِّبَاعِ الْهَوَى فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ الزَّمَانَ فَصَبَرَ عَلَى الْفَقْرِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى الْغِنَى وَصَبَرَ عَلَى الْبِغْضَةِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَصَبَرَ عَلَى الذُّلِّ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى الْعِزِّ آتَاهُ الله ثَوَابَ خَمْسِينَ صِدِّيقاً مِمَّنْ صَدَّقَ بِي۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ بادشاہت نہ ملےے گی مگر قتل اور ظلم کرنے سے اور مالداری حاصل نہ ہو گی مگر غصب اور بخل سے اور محبت نہ ہو گی مگر دین سے خارج ہونے اور خواہشوں کی پیروی کرنے کے بعد جو شخص اس زمانہ کو پائے اس کو فقیری پر صبر کرنا چاہیے درآنحالیکہ اسے تونگری پر قدرت ہو اور صبر کرنا چاہیے بعض پر درآنحالیکہ اس کو محبت پر قدرت ہو اور صبر کرنا چاہیے ذلت پر درآنحالیکہ اسے عزت پر قدرت ہو اللہ تعالیٰ اس کو پچاس ایسے صدیقوں کا ثواب عطا فرمائے گا جنھوں نے میری تصدیق کی ہو۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ دُرُسْتَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ عِيسَى بْنِ بَشِيرٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) لَمَّا حَضَرَتْ أَبِي عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) الْوَفَاةُ ضَمَّنِي إِلَى صَدْرِهِ وَقَالَ يَا بُنَيَّ أُوصِيكَ بِمَا أَوْصَانِي بِهِ أَبِي حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ وَبِمَا ذَكَرَ أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَاهُ بِهِ يَا بُنَيَّ اصْبِرْ عَلَى الْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرّاً۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ میرے پدر بزرگوار حضرت علی بن الحسین کے مرنے کا وقت آیا تو مجھے اپنے سینے سے لگا کر فرمایا بیٹا تم کو وصیت کرتا ہوں جو مجھے وصیت کی ہے میرے پدر بزرگوار نے وقتِ وفات اور فرمایا ان کو وصیت کی ان کے والد نے کہ بیٹا امرِ حق میں صبر کرنا اگرچہ وہ کتنا ہی تلخ ہو۔
عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَفَعَهُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلَى الْبَلاءِ حَسَنٌ جَمِيلٌ وَأَفْضَلُ الصَّبْرَيْنِ الْوَرَعُ عَنِ الْمَحَارِمِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے صبر دو طرح کا ہے صبر کرنا بلا پر حسن و جمیل ہے اور دونوں صبروں میں محارم سے پرہیز کرنا افضل ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شِمْرٍ الْيَمَانِيُّ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى عَلِيٍّ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) الصَّبْرُ ثَلاثَةٌ صَبْرٌ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ وَصَبْرٌ عَلَى الطَّاعَةِ وَصَبْرٌ عَنِ الْمَعْصِيَةِ فَمَنْ صَبَرَ عَلَى الْمُصِيبَةِ حَتَّى يَرُدَّهَا بِحُسْنِ عَزَائِهَا كَتَبَ الله لَهُ ثَلاثَمِائَةِ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَةِ إِلَى الدَّرَجَةِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الأرْضِ وَمَنْ صَبَرَ عَلَى الطَّاعَةِ كَتَبَ الله لَهُ سِتَّمِائَةِ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَةِ إِلَى الدَّرَجَةِ كَمَا بَيْنَ تُخُومِ الأرْضِ إِلَى الْعَرْشِ وَمَنْ صَبَرَ عَنِ الْمَعْصِيَةِ كَتَبَ الله لَهُ تِسْعَمِائَةِ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَةِ إِلَى الدَّرَجَةِ كَمَا بَيْنَ تُخُومِ الأرْضِ إِلَى مُنْتَهَى الْعَرْشِ۔
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے صبر کی تین صورتیں ہیں مصیبت پر صبر اطاعت پر صبر اور معصیت پر صبر جس نے مصیبت پر پورا پورا صبر کیا اللہ اس کے لیے تین سو درجے معین کرتا ہے جس کے ایک درجے کو دوسرے سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے اور جس نے اطاعت پر صبر کیا خدا اس کے لیے چھ سو درجے ایسے لکھتا ہے جس کے درجے کو دوسرے سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین کے آخری حصہ کو عرش سے ہے اور جس نے معصیت پر صبر کیا اس کے لیے نو سو درجے ایسے لکھتا ہے جن میں ایک کا فاصلہ دوسرے سے اتنا ہے جتنا آخر حصہ زمین سے انتہائی عرش تک ہے۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ قَالَ أَمَرَنِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنْ آتِيَ الْمُفَضَّلَ وَأُعَزِّيَهُ بِإِسْمَاعِيلَ وَقَالَ أَقْرِئِ الْمُفَضَّلَ السَّلامَ وَقُلْ لَهُ إِنَّا قَدْ أُصِبْنَا بِإِسْمَاعِيلَ فَصَبَرْنَا فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرْنَا إِنَّا أَرَدْنَا أَمْراً وَأَرَادَ الله عَزَّ وَجَلَّ أَمْراً فَسَلَّمْنَا لأمْرِ الله عَزَّ وَجَلَّ۔
راوی کہتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ میں مفضل بن عمر کے پاس جا کر ان کے فرزند اسماعیل کے مرنے پر تعزیت کروں اور فرمایا مفضل کو سلام کہنا اور اس سے کہو کہ اسماعیل کی موت سے ہم پر بھی مصیبت آئی تھی ہم نے صبر کیا لہذا تم بھی اسی طرح صبر کرو جیسے ہم نے صبر کیا تھا۔ ایک امر کا ارادہ ہم نے کیا اور ایک امر کا اللہ نے ۔ ہم نے اللہ کے ارادہ کو تسلیم کر لیا۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَنِ ابْتُلِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بِبَلاءٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ أَلْفِ شَهِيدٍ۔
ابو حمزہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا جو مومن کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور اس پر صبر کرے تو اس کو ہزار شہید کا ثواب ملتا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَنْعَمَ عَلَى قَوْمٍ فَلَمْ يَشْكُرُوا فَصَارَتْ عَلَيْهِمْ وَبَالاً وَابْتَلَى قَوْماً بِالْمَصَائِبِ فَصَبَرُوا فَصَارَتْ عَلَيْهِمْ نِعْمَةً۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو نعمتیں دیں انھوں نے شکر نہ کیا ان پر وبال نازل ہوا اور ایک قوم کو مصائب میں مبتلا کیا انھوں نے صبر کیا ان پر خدا نے نعمتیں نازل کیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي مُسَافِرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا قَالَ اصْبِرُوا عَلَى الْمَصَائِبِ. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ صَابِرُوا عَلَى الْمَصَائِبِ
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق اے ایمان والو صبر کرو اور انتہائی صبر کرو۔ فرمایا اس سے مراد مصائب پر صبر ہے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ جَدِّهِ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ قَالَ لَوْ لا أَنَّ الصَّبْرَ خُلِقَ قَبْلَ الْبَلاءِ لَتَفَطَّرَ الْمُؤْمِنُ كَمَا تَتَفَطَّرُ الْبَيْضَةُ عَلَى الصَّفَا۔
بیان کیا حضرت کے بعض اصحاب نے اگر مصیبت سے پہلے صبر نہ پیدا کیا جاتا تو مومن کا دل اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا جس طرح انڈا سخت پتھر پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ وَعَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِنِّي جَعَلْتُ الدُّنْيَا بَيْنَ عِبَادِي قَرْضاً فَمَنْ أَقْرَضَنِي مِنْهَا قَرْضاً أَعْطَيْتُهُ بِكُلِّ وَاحِدَةٍ عَشْراً إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ وَمَا شِئْتُ مِنْ ذَلِكَ وَمَنْ لَمْ يُقْرِضْنِي مِنْهَا قَرْضاً فَأَخَذْتُ مِنْهُ شَيْئاً قَسْراً فَصَبَرَ أَعْطَيْتُهُ ثَلاثَ خِصَالٍ لَوْ أَعْطَيْتُ وَاحِدَةً مِنْهُنَّ مَلائِكَتِي لَرَضُوا بِهَا مِنِّي قَالَ ثُمَّ تَلا أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَوْلَ الله عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ فَهَذِهِ وَاحِدَةٌ مِنْ ثَلاثِ خِصَالٍ وَرَحْمَةٌ اثْنَتَانِ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ثَلاثٌ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) هَذَا لِمَنْ أَخَذَ الله مِنْهُ شَيْئاً قَسْراً۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں فرمایا میں نے دنیا میں اپنے بندوں کے درمیان قرض حسنہ کو جاری کیا ہے پس جس نے مجھے قرض حسنہ دیا یعنی مستحق بندوں کو دیا تو میں اس کے بدلے میں دس سے لے کر سات سو تک دوں گا بدلہ اس سے بھی کہیں زیادہ اور جس نے مجھے قرض نہ دیا تو میں اپنے انعام کو اس سے کچھ کم کر لوں گا اگر اس نے اس پر صبر کیا تو میں اس کو تین ایسی خصلتیں دوں گا کہ اگر ان میں سے ایک اپنے ملائکہ کو دے دوں تو وہ میرے اس عطیہ کو پسند کریں۔ پھر حضرت نے اس آیت کی تلاوت کی ، ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو ہے انھوں نے کہا ہم اللہ کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا درود اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں حضرت نے فرمایا یہ تو اس کے لیے ہے جو تھوڑی سی کمی پر صبر کرے اور جو بڑے بڑے مصائب پر صبر کرنے والے ہیں ان کے اجر کا کیا ٹھکانہ ہے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مُرُوَّةُ الصَّبْرِ فِي حَالِ الْحَاجَةِ وَالْفَاقَةِ وَالتَّعَفُّفِ وَالْغِنَى أَكْثَرُ مِنْ مُرُوَّةِ الإعْطَاءِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جوانمردی سے صبر دکھانا وقتِ حاجت و فاقہ پاکدامنی اور بے نیازی کہیں بہتر ہے لوگوں کو عطا کرنے سے۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَرْحَمُكَ الله مَا الصَّبْرُ الْجَمِيلُ قَالَ ذَلِكَ صَبْرٌ لَيْسَ فِيهِ شَكْوَى إِلَى النَّاسِ۔
جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا صبر جمیل کیا ہے۔ فرمایا وہ صبر جس میں لوگوں کی طرف شکایت نہ ہو۔
حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَيَابَةَ عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله أَوْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَنْ لا يُعِدَّ الصَّبْرَ لِنَوَائِبِ الدَّهْرِ يَعْجِزْ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ یا امام محمد باقر علیہما السلام نے کہ جس نے مصائبِ زمانہ پر صبر نہ کیا زمانہ اسے عاجز کر دے گا۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّا صُبُرٌ وَشِيعَتُنَا أَصْبَرُ مِنَّا قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ كَيْفَ صَارَ شِيعَتُكُمْ أَصْبَرَ مِنْكُمْ قَالَ لأنَّا نَصْبِرُ عَلَى مَا نَعْلَمُ وَشِيعَتُنَا يَصْبِرُونَ عَلَى مَا لا يَعْلَمُونَ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے ہم صبر کرنے والے ہیں اور ہمارے شیعہ ہم سے زیادہ صبر کرنے والے ہیں ۔ میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں شیعہ آپ سے زیادہ صابر کیسے ہو گئے۔ فرمایا ہم صبر کرتے ہیں اس صورت میں کہ حقیقتِ امر کو جانتے ہیں اور ہمارے شیعہ صبر کرتے ہیں باوجود لا علمی ہے۔