مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

ایمان کے کس دعوے دار کا حق واجب ہے

(4-73)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ وَسُئِلَ عَنْ إِيمَانِ مَنْ يَلْزَمُنَا حَقُّهُ وَأُخُوَّتُهُ كَيْفَ هُوَ وَبِمَا يَثْبُتُ وَبِمَا يَبْطُلُ فَقَالَ إِنَّ الإيمَانَ قَدْ يُتَّخَذُ عَلَى وَجْهَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَهُوَ الَّذِي يَظْهَرُ لَكَ مِنْ صَاحِبِكَ فَإِذَا ظَهَرَ لَكَ مِنْهُ مِثْلُ الَّذِي تَقُولُ بِهِ أَنْتَ حَقَّتْ وَلايَتُهُ وَأُخُوَّتُهُ إِلا أَنْ يَجِي‏ءَ مِنْهُ نَقْضٌ لِلَّذِي وَصَفَ مِنْ نَفْسِهِ وَأَظْهَرَهُ لَكَ فَإِنْ جَاءَ مِنْهُ مَا تَسْتَدِلُّ بِهِ عَلَى نَقْضِ الَّذِي أَظْهَرَ لَكَ خَرَجَ عِنْدَكَ مِمَّا وَصَفَ لَكَ وَأَظْهَرَ وَكَانَ لِمَا أَظْهَرَ لَكَ نَاقِضاً إِلا أَنْ يَدَّعِيَ أَنَّهُ إِنَّمَا عَمِلَ ذَلِكَ تَقِيَّةً وَمَعَ ذَلِكَ يُنْظَرُ فِيهِ فَإِنْ كَانَ لَيْسَ مِمَّا يُمْكِنُ أَنْ تَكُونَ التَّقِيَّةُ فِي مِثْلِهِ لَمْ يُقْبَلْ مِنْهُ ذَلِكَ لأنَّ لِلتَّقِيَّةِ مَوَاضِعَ مَنْ أَزَالَهَا عَنْ مَوَاضِعِهَا لَمْ تَسْتَقِمْ لَهُ وَتَفْسِيرُ مَا يُتَّقَى مِثْلُ أَنْ يَكُونَ قَوْمُ سَوْءٍ ظَاهِرُ حُكْمِهِمْ وَفِعْلِهِمْ عَلَى غَيْرِ حُكْمِ الْحَقِّ وَفِعْلِهِ فَكُلُّ شَيْ‏ءٍ يَعْمَلُ الْمُؤْمِنُ بَيْنَهُمْ لِمَكَانِ التَّقِيَّةِ مِمَّا لا يُؤَدِّي إِلَى الْفَسَادِ فِي الدِّينِ فَإِنَّهُ جَائِزٌ۔

راوی کہتا ہے میں نے سنا ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ وہ ایمان جس پر حق ادا کرنا اور اخوت کرنا واجب ہوتا ہے وہ کیا ہے کس صورت میں اس کا اثبات ہوتا ہے اور کس صورت میں ابطال۔ فرمایا ایمان کی دو صورتیں ہیں ایک یہ ہے کہ جیسا ایمان کوئی ظاہر کرتا ہے اگر اس کے عمل سے بھی تم پر ویسا ہی ثابت ہو تو اس کی محبت و اخوت تمہارے لیے ضروری ہے جب تک کہ جیسا اس نے بیان کیا ہے اس کے خلاف تم پر ظاہر نہ ہو۔ پس اگر اس کے اظہار کے خلاف ثابت ہو تو نہیں لیکن اگر وہ ظاہر کرے کہ ایسا عمل اس سے ازروئے تقیہ ظاہر ہوا ہے تو اگر تم دیکھو کہ تقیہ اس محل پر درست نہیں۔ تو اس کا کہنا قبول نہ کیا جائے کیونکہ تقیہ کا محل و موقع ہوتا ہے جو اس موقع سے ہٹ گیا اس کے لیے درست نہیں جو اس قوم بد کی مانند ہو گا کہ جن کا ظاہری حکم و فعل خلاف حق ہو اگر کوئی مومن ایسے امور میں تقیہ کرے جس سے فساد دین لازم نہ ہوتو وہ جائز ہے۔