مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مِنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ أَنْ يُشْبِعَ جَوْعَتَهُ وَيُوَارِيَ عَوْرَتَهُ وَيُفَرِّجَ عَنْهُ كُرْبَتَهُ وَيَقْضِيَ دَيْنَهُ فَإِذَا مَاتَ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ وَوُلْدِهِ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے مومن کا حق مومن بھائی پر یہ ہے کہ اگر بھوکا ہو تو سیر کرے برہنہ ہو تو لباس پہنائے اس کی مصیبت کو دور کرے اگر مر جائے تو اس کے گھر والوں کی اس کا جانشین بن کر خیر خبر لے۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ بُكَيْرٍ الْهَجَرِيِّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ قَالَ لَهُ سَبْعُ حُقُوقٍ وَاجِبَاتٍ مَا مِنْهُنَّ حَقٌّ إِلا وَهُوَ عَلَيْهِ وَاجِبٌ إِنْ ضَيَّعَ مِنْهَا شَيْئاً خَرَجَ مِنْ وِلايَةِ الله وَطَاعَتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لله فِيهِ مِنْ نَصِيبٍ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَمَا هِيَ قَالَ يَا مُعَلَّى إِنِّي عَلَيْكَ شَفِيقٌ أَخَافُ أَنْ تُضَيِّعَ وَلا تَحْفَظَ وَتَعْلَمَ وَلا تَعْمَلَ قَالَ قُلْتُ لَهُ لا قُوَّةَ إِلا بِالله قَالَ أَيْسَرُ حَقٍّ مِنْهَا أَنْ تُحِبَّ لَهُ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَتَكْرَهَ لَهُ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ وَالْحَقُّ الثَّانِي أَنْ تَجْتَنِبَ سَخَطَهُ وَتَتَّبِعَ مَرْضَاتَهُ وَتُطِيعَ أَمْرَهُ وَالْحَقُّ الثَّالِثُ أَنْ تُعِينَهُ بِنَفْسِكَ وَمَالِكَ وَلِسَانِكَ وَيَدِكَ وَرِجْلِكَ وَالْحَقُّ الرَّابِعُ أَنْ تَكُونَ عَيْنَهُ وَدَلِيلَهُ وَمِرْآتَهُ وَالْحَقُّ الْخَامِسُ أَنْ لا تَشْبَعَ وَيَجُوعُ وَلا تَرْوَى وَيَظْمَأُ وَلا تَلْبَسَ وَيَعْرَى وَالْحَقُّ السَّادِسُ أَنْ يَكُونَ لَكَ خَادِمٌ وَلَيْسَ لأخِيكَ خَادِمٌ فَوَاجِبٌ أَنْ تَبْعَثَ خَادِمَكَ فَيَغْسِلَ ثِيَابَهُ وَيَصْنَعَ طَعَامَهُ وَيُمَهِّدَ فِرَاشَهُ وَالْحَقُّ السَّابِعُ أَنْ تُبِرَّ قَسَمَهُ وَتُجِيبَ دَعْوَتَهُ وَتَعُودَ مَرِيضَهُ وَتَشْهَدَ جَنَازَتَهُ وَإِذَا عَلِمْتَ أَنَّ لَهُ حَاجَةً تُبَادِرُهُ إِلَى قَضَائِهَا وَلا تُلْجِئُهُ أَنْ يَسْأَلَكَهَا وَلَكِنْ تُبَادِرُهُ مُبَادَرَةً فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ وَصَلْتَ وَلايَتَكَ بِوَلايَتِهِ وَوَلايَتَهُ بِوَلايَتِكَ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہا مسلمان کا حق مسلمان پر کیا ہے۔ فرمایا سات حق واجب ہیں اگر ان میں سے ایک حق بھی ادا نہ ہو تو ولایت و اطاعتِ خدا سے باہر ہو جائے گا اور خدا کی اطاعت کا اس میں کوئی حصہ نہ رہے گا۔ میں نے کہا وہ کیا ہیں۔ فرمایا اے معلیٰ میں ازراہ شفقت ڈرتا ہوں کہ تو ان حقوق کو ضائع کرے اور حفاظت نہ کرے اور جان بوجھ کر عمل نہ کرے۔ میں نے کہا خدا ہی مجھے عمل کی قوت دینے والا ہے۔ فرمایا سب سے آسان حق مرد مسلم کا یہ ہے کہ تو اس کے لیے دوست رکھ ہر اس چیز کو جس کو اپنے لیے دوست رکھتا ہے اور برا سمجھے اس چیز کو جس کو اپنے لیے برا سمجھے اور دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے غصہ سے بچے اور اس کی مرضی کا خواستگار ہو اور اس کے امر کی اطاعت کرے۔ تیسرا امر یہ ہے کہ اپنے نفس اپنے مال اپنی زبان اپنے ہاتھ اور اپنے پیر سے اس کی مدد کرے چوتھا حق یہ ہے کہ اس کا محافظ ہو اس کا رہنما ہو اس کے حالات کا آئینہ ہو پانچواں حق یہ ہے کہ سیر نہ ہو جبکہ وہ بھوکا ہو اور سیراب نہ ہو جب کہ وہ پیاسا ہو اور لباس نہ پہنے اگرچہ وہ ننگا ہو چھٹا حق یہ ہے کہ اگر تمہارا نوکر ہو اور اس کے پاس کوئی نوکر نہ ہو تو لازم ہے کہ اپنے اس بھائی کے پاس اس نوکر کو بھیج دو کہ وہ اس کے کپڑے دھوئے اور اس کا کھانا پکائے اور اس کا فرش بچھائے اور ساتواں حق یہ ہے کہ اس کی قسم قبول کرے اس کی دعوت قبول کرے مریض ہو تو اس کی عیادت کرے مر جائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو اور اگر اس کی کوئی ضرورت معلوم ہو تو اس کو پورا کرنے میں جلدی کرے اور اس کو سوال کرنے پر مجبور نہ کرے اور جلد سے جلد پورا کرے اگر تو نے ایسا کیا تو تیری محبت اس سے اور اس کی محبت تجھ سے مل جائے گی۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَيْفٍ عَنْ أَبِيهِ سَيْفٍ عَنْ عَبْدِ الأعْلَى بْنِ أَعْيَنَ قَالَ كَتَبَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا يَسْأَلُونَ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ أَشْيَاءَ وَأَمَرُونِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يُجِبْنِي فَلَمَّا جِئْتُ لأوَدِّعَهُ فَقُلْتُ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُجِبْنِي فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا إِنَّ مِنْ أَشَدِّ مَا افْتَرَضَ الله عَلَى خَلْقِهِ ثَلاثاً إِنْصَافَ الْمَرْءِ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى لا يَرْضَى لأخِيهِ مِنْ نَفْسِهِ إِلا بِمَا يَرْضَى لِنَفْسِهِ مِنْهُ وَمُوَاسَاةَ الأخِ فِي الْمَالِ وَذِكْرَ الله عَلَى كُلِّ حَالٍ لَيْسَ سُبْحَانَ الله وَالْحَمْدُ لله وَلَكِنْ عِنْدَ مَا حَرَّمَ الله عَلَيْهِ فَيَدَعُهُ۔
راوی کہتا ہے میرے بعض دوستوں نے جو کہ کوفہ میں تھے مجھے لکھا کہ میں چند مسئلے حضرت عبداللہ علیہ السلام سے دریافت کر کے لکھوں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ میں دریافت کروں کہ مسلمان بھائی کا حق کیا ہے۔ میں نے حضرت سے دریافت کیا آپ نے کوئی جواب نہ دیا جب کوفہ جانے لگا اور حضرت سےرخصت ہونے آیا تو میں نے کہا میں نے آپ سے مسلمان بھائی کے حق کے متعلق پوچھا تھا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ فرمایا مجھے خوف ہے کہ تم جاننے کے بعد عمل نہ کرنے سے کافر ہو جاؤ۔ اچھا سنو خدا نے سب سے بڑا فرض اپنی مخلوق پر تین چیزوں کو قرار دیا ہے ایک یہ کہ آدمی اپنے نفس سے انصاف کرے بایں معنی کہ اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے دوسرے بھائی سے ہمدردی کرے مال کے ساتھ تیسرے ذکر کرے اللہ کا ہر حال میں اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ سبحان اللہ والحمد للہ کہتا رہے بلکہ جو چیزیں اللہ نے حرام کر دی ہیں ان کو ترک کر دے۔
عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ جَمِيلٍ عَنْ مُرَازِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَا عُبِدَ الله بِشَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَاءِ حَقِّ الْمُؤْمِنِ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا کی اس سے بہتر عبادت نہیں کہ مومن کا حق ادا کیا جائے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ أَنْ لا يَشْبَعَ وَيَجُوعُ أَخُوهُ وَلا يَرْوَى وَيَعْطَشُ أَخُوهُ وَلا يَكْتَسِيَ وَيَعْرَى أَخُوهُ فَمَا أَعْظَمَ حَقَّ الْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ وَقَالَ أَحِبَّ لأخِيكَ الْمُسْلِمِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَإِذَا احْتَجْتَ فَسَلْهُ وَإِنْ سَأَلَكَ فَأَعْطِهِ لا تَمَلَّهُ خَيْراً وَلا يَمَلَّهُ لَكَ كُنْ لَهُ ظَهْراً فَإِنَّهُ لَكَ ظَهْرٌ إِذَا غَابَ فَاحْفَظْهُ فِي غَيْبَتِهِ وَإِذَا شَهِدَ فَزُرْهُ وَأَجِلَّهُ وَأَكْرِمْهُ فَإِنَّهُ مِنْكَ وَأَنْتَ مِنْهُ فَإِنْ كَانَ عَلَيْكَ عَاتِباً فَلا تُفَارِقْهُ حَتَّى تَسْأَلَ سَمِيحَتَهُ وَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ فَاحْمَدِ الله وَإِنِ ابْتُلِيَ فَاعْضُدْهُ وَإِنْ تُمُحِّلَ لَهُ فَأَعِنْهُ وَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لأخِيهِ أُفٍّ انْقَطَعَ مَا بَيْنَهُمَا مِنَ الْوَلايَةِ وَإِذَا قَالَ أَنْتَ عَدُوِّي كَفَرَ أَحَدُهُمَا فَإِذَا اتَّهَمَهُ انْمَاثَ الإيمَانُ فِي قَلْبِهِ كَمَا يَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ وَقَالَ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَزْهَرُ نُورُهُ لأهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تَزْهَرُ نُجُومُ السَّمَاءِ لأهْلِ الأرْضِ وَقَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ وَلِيُّ الله يُعِينُهُ وَيَصْنَعُ لَهُ وَلا يَقُولُ عَلَيْهِ إِلا الْحَقَّ وَلا يَخَافُ غَيْرَهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ مسلمان کا حق مسلمان پر یہ ہے کہ سیر نہ ہو جبکہ اس کا بھائی بھوکا ہو اور سیراب نہ ہو جبکہ اس کا بھائی پیاسا ہو اور لباس نہ پہنے اگر اس کا بھائی ننگا ہو۔ پس کس قدر عظیم ہے مسلمان کا حق۔ پھر فرمایا اپنے مسلمان بھائی کے لیے دوست رکھ اس چیز کو جس کو اپنے لیے دوست رکھے اور جب تو محتاج ہو تو اس سے سوال کرے اور اگر وہ تجھ سے سوال کرے تو اس کو دے اس پر احسان کر کے ملول نہ کر اور تجھے ملول نہ کرے اس کا مددگار بن وہ تیرا مددگار بنے گا اور جب وہ گھر سے باہر چلا جائے تو اس کے مال کی حفاظت کر اس کی عدم موجودگی میں اور جب آ جائے تو اس سے ملاقات کر اور بعزت و اکرام پیش آ۔ کیونکہ وہ تیرا ساتھی ہے اور تو اس کا اگر وہ تجھ پر غصہ کرے تو اس سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ تو اس سے طلب احسان کرے اگ اس سے اچھا سلوک ظاہر ہو تو خدا کا شکر ادا کر اگر وہ کسی بلا میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کر اور اگر وہ کسی فریب کا شکار ہو تو اس کی مدد کر اگر کوئی اپنے بھائی سے اف کہے تو ان کے درمیان محبت قطع ہو جائے گی اور اگر ایہ دوسرے سے کہے کہ تو میرا دشمن ہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہو جائے گا اگر یہ کہنے والا سچا ہے تو دوسر کافر اور اگر یہ جھوٹا ہے تو یہ کافر اور اگر برادر مسلم کو تہمت لگائے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح گھل کر رہ جائے گا جیسے نمک پانی میں اور فرمایا مجھے یہ معلوم ہے کہ مومن کا نور آسمان والوں کے لیے اسی طرح چمکتا ہے جیسے زمین والوں کے لیے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ مومن اللہ کا دوست ہے اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے اور اس کے لیے کام کرتا ہے اور خدا پر افترا نہیں کرتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ مِنَ الْحَقِّ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَيَعُودَهُ إِذَا مَرِضَ وَيَنْصَحَ لَهُ إِذَا غَابَ وَيُسَمِّتَهُ إِذَا عَطَسَ وَيُجِيبَهُ إِذَا دَعَاهُ وَيَتْبَعَهُ إِذَا مَاتَ. عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ مِثْلَهُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ مسلمان پر مسلمان بھائی کا حق یہ ہے کہ جب اس سے ملے تو سلام کرے اور جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے اور جب وہ گھر سے دور ہو تو اس کے لیے طالب خیر ہو اور جب وہ چھینکے تو اس کے لیے الحمد للہ کہے اور جب بلائے تو اس کے پاس آئے مر جائے تو مشایعت جنازہ کرے۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي الْمَأْمُونِ الْحَارِثِيِّ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا حَقُّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ قَالَ إِنَّ مِنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ الْمَوَدَّةَ لَهُ فِي صَدْرِهِ وَالْمُوَاسَاةَ لَهُ فِي مَالِهِ وَالْخَلَفَ لَهُ فِي أَهْلِهِ وَالنُّصْرَةَ لَهُ عَلَى مَنْ ظَلَمَهُ وَإِنْ كَانَ نَافِلَةٌ فِي الْمُسْلِمِينَ وَكَانَ غَائِباً أَخَذَ لَهُ بِنَصِيبِهِ وَإِذَا مَاتَ الزِّيَارَةَ إِلَى قَبْرِهِ وَأَنْ لا يَظْلِمَهُ وَأَنْ لا يَغُشَّهُ وَأَنْ لا يَخُونَهُ وَأَنْ لا يَخْذُلَهُ وَأَنْ لا يُكَذِّبَهُ وَأَنْ لا يَقُولَ لَهُ أُفٍّ وَإِذَا قَالَ لَهُ أُفٍّ فَلَيْسَ بَيْنَهُمَا وَلايَةٌ وَإِذَا قَالَ لَهُ أَنْتَ عَدُوِّي فَقَدْ كَفَرَ أَحَدُهُمَا وَإِذَا اتَّهَمَهُ انْمَاثَ الإيمَانُ فِي قَلْبِهِ كَمَا يَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ۔
راوی کہتا ہے کہ فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ مومن کا مومن پر حق یہ ہے کہ اس کے سینے میں اس کی محبت ہو اور اس کے مال میں ہمدردی کرے اور اس کے بال بچوں میں اس کا جانشین بنے اور اگر اس پر کوئی ظلم کرے تو اس کی مدد کرے اور اگر وہ غائب ہو اور مسلمانوں میں مال غنیمت تقسیم ہو تو اس کا حصہ لے لے اور اگر وہ مر جائے تو اس کی قبر کی زیارت کرے اور اس پر ظلم نہ کرے دھوکا نہ دے خیانت نہ کرے رسوا نہ کرے جھٹلائے نہیں اف نہ کہے ورنہ ان کے درمیان محبت نہ رہے گی اور دونوں میں سے جو کوئی یہ کہے گا تو میرا دشمن ہے تو وہ کفر کرے گا اور اگر اسے تہمت لگائے گا تو اس کے دل میں ایمان اس طرح گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ صَاحِبِ الْكِلَلِ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَعَرَضَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا كَانَ سَأَلَنِي الذَّهَابَ مَعَهُ فِي حَاجَةٍ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) وَأَذْهَبَ إِلَيْهِ فَبَيْنَا أَنَا أَطُوفُ إِذْ أَشَارَ إِلَيَّ أَيْضاً فَرَآهُ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَقَالَ يَا أَبَانُ إِيَّاكَ يُرِيدُ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَمَنْ هُوَ قُلْتُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ هُوَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبْ إِلَيْهِ قُلْتُ فَأَقْطَعُ الطَّوَافَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَإِنْ كَانَ طَوَافَ الْفَرِيضَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ فَقَالَ يَا أَبَانُ دَعْهُ لا تَرِدْهُ قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ فَلَمْ أَزَلْ أُرَدِّدُ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَبَانُ تُقَاسِمُهُ شَطْرَ مَالِكَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ فَرَأَى مَا دَخَلَنِي فَقَالَ يَا أَبَانُ أَ مَا تَعْلَمُ أَنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ قَدْ ذَكَرَ الْمُؤْثِرِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ أَمَّا إِذَا أَنْتَ قَاسَمْتَهُ فَلَمْ تُؤْثِرْهُ بَعْدُ إِنَّمَا أَنْتَ وَهُوَ سَوَاءٌ إِنَّمَا تُؤْثِرُهُ إِذَا أَنْتَ أَعْطَيْتَهُ مِنَ النِّصْفِ الآخَرِ۔
ابان بن تخلب سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو عبدللہ علیہ السلام کے ساتھ طواف کر رہا تھا کہ میرا ایک ساتھی آیا اور مجھے ساتھ ایک ضرورت سے لے جانا چاہا اسنے اشارہ کیا حضرت نے دیکھ لیا اور فرمایا اے ابان کیا یہ تجھے بلا رہا ہے، میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا یہ کون ہے۔ میں نے کہا میرا ساتھی ۔ فرمایا کیا یہ بھی اسی عقیدہ کا ہے جس کا تو ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا اس کے پاس جا میں نے کہا کیا طواف قطع کر دوں۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا اگرچہ طواف واجب ہو فرمایا ہاں۔ پس میں چلا گیا بعد میں جب میں پھر حاضرِ خدمت ہوا تو میں نے حق مومن کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا اے ابان ترک کر اس کا علم میں نے کہا بہتر اس کے بعد میں برابر پوچھتا رہا۔ فرمایا اے ابان اس کا نصف مال اس کو دے دے پھر حضرت نے میری طرف دیکھا اور اس حق کو سن کر میرے چہرے پر تغیر محسوس کیا۔ فرمایا کیا تو نہیں جانتا کہ خدا نے اپنے نفسوں پر ایثار کرنے والوں کا ذکر کیا ہے۔ میں نے کہا معلوم ہے۔ فرمایا جب تو اپنا آدھا مال دے دے تو اپنے کو اس پر ترجیح نہ دے تو وہ برابر ہے ہاں جب تو باقی آدھا بھی دے دے تب اپنے کو اس پر ترجیح دے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَنَا وَابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَعَبْدُ الله بْنُ طَلْحَةَ فَقَالَ ابْتِدَاءً مِنْهُ يَا ابْنَ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) سِتُّ خِصَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ بَيْنَ يَدَيِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَعَنْ يَمِينِ الله فَقَالَ ابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَمَا هُنَّ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ يُحِبُّ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ لأخِيهِ مَا يُحِبُّ لأعَزِّ أَهْلِهِ وَيَكْرَهُ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ لأخِيهِ مَا يَكْرَهُ لأعَزِّ أَهْلِهِ وَيُنَاصِحُهُ الْوَلايَةَ فَبَكَى ابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَقَالَ كَيْفَ يُنَاصِحُهُ الْوَلايَةَ قَالَ يَا ابْنَ أَبِي يَعْفُورٍ إِذَا كَانَ مِنْهُ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ بَثَّهُ هَمَّهُ فَفَرِحَ لِفَرَحِهِ إِنْ هُوَ فَرِحَ وَحَزِنَ لِحُزْنِهِ إِنْ هُوَ حَزِنَ وَإِنْ كَانَ عِنْدَهُ مَا يُفَرِّجُ عَنْهُ فَرَّجَ عَنْهُ وَإِلا دَعَا الله لَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) ثَلاثٌ لَكُمْ وَثَلاثٌ لَنَا أَنْ تَعْرِفُوا فَضْلَنَا وَأَنْ تَطَئُوا عَقِبَنَا وَأَنْ تَنْتَظِرُوا عَاقِبَتَنَا فَمَنْ كَانَ هَكَذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيِ الله عَزَّ وَجَلَّ فَيَسْتَضِيءُ بِنُورِهِمْ مَنْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُمْ وَأَمَّا الَّذِينَ عَنْ يَمِينِ الله فَلَوْ أَنَّهُمْ يَرَاهُمْ مَنْ دُونَهُمْ لَمْ يَهْنِئْهُمُ الْعَيْشُ مِمَّا يَرَوْنَ مِنْ فَضْلِهِمْ فَقَالَ ابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَمَا لَهُمْ لا يَرَوْنَ وَهُمْ عَنْ يَمِينِ الله فَقَالَ يَا ابْنَ أَبِي يَعْفُورٍ إِنَّهُمْ مَحْجُوبُونَ بِنُورِ الله أَ مَا بَلَغَكَ الْحَدِيثُ أَنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) كَانَ يَقُولُ إِنَّ لله خَلْقاً عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ بَيْنَ يَدَيِ الله وَعَنْ يَمِينِ الله وُجُوهُهُمْ أَبْيَضُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَضْوَأُ مِنَ الشَّمْسِ الضَّاحِيَةِ يَسْأَلُ السَّائِلُ مَا هَؤُلاءِ فَيُقَالُ هَؤُلاءِ الَّذِينَ تَحَابُّوا فِي جَلالِ الله۔
عیسیٰ بن منصور سے روایت ہے کہ میں اور ابن ابی یعفور اور عبداللہ بن طلحہ حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے اور حضرت نے خود ہی فرمایا اے ابن ابی یعفور رسول اللہ ﷺ نے چھ خصلتیں بیان کی ہیں جس میں وہ پائی جائیں گی وہ خدا کے سامنے کمال تقرب میں ہو گا۔ ابن ابی یعفور نے کہا وہ کیا ہیں۔ فرمایا مومن اپنے مومن بھائی کے لیے وہی دوست رکھے جو اپنے عزیز ترین خاندان والوں کے لیے دوست رکھتا ہے اور بندہ مومن کے لیے ناپسند کرے اس امر کو جسے وہ اپنے عزیز ترین خاندان والوں کے لیے ناپسند کرتا ہے اور خالص محبت کا اظہار کرے۔ یہ سن کر ابن ابی یعفور رو دیے اور کہنے لگے یہ کیسے۔ فرمایا اگر تمہارے اندر یہ تین خصلتیں ہوں گے تو وہ اپنے راز کو ظاہر کرے گا اور خوش ہو گا اس کی خوشی سے جب کہ خوش ہو اور غمگین ہو گا اس کے غم سے جب کہ وہ رنجیدہ ہو گا اور اگر اس کے پاس کوئی چیز اس کے خوش کرنے کے لیے نہ ہو گی تو وہ خدا سے اس کے لیے دعا کرے گا۔ پھر حضرت نے فرمایا یہ تین تمہارے لیے ہیں اور دوسرے تین ہمارے لیے ہیں۔ پہلی یہ کہ تم ہماری فضیلت کو پہچانو، دوسرے یہ کہ تم ہمارے پیچھے چلو، تیسرے یہ کہ انتظار کرو ہماری سلطنت کا جو دنیا کے اختتام پر ہو گی جس میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہ مقرب بارگاہِ ایزدی ہو گا اس کے نور سےاس سے نیچے کے درجہ والے نور حاصل کریں گے جو لوگ مقام قربت ایزدی ہوں گے جب ان کو نیچے والے دیکھیں گے تو ان کو اپنا موجودہ عیش اچھا معلوم نہ ہو گا اوپر والوں کی فضیلت کے مقابل ابن ابی یعفور نے کہا جو جماعت قربت ایزدی رکھتی ہو گی اسے دیکھا کیوں نہ جا سکے گا۔ فرمایا وہ نور خدا سے ڈھکے ہوئے ہوں گے کیا تم نے رسول اللہ کی وہ حدیث نہیں سنی کہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے عرش کے داہنی جانب جن کے چہرے برف سے زیادہ سفید ہوں گے اور سورج سے زیادہ چمکدار ایک پوچھنے والا پوچھے گا یہ کون ہیں۔ جواب دیا جائے گا یہ جلال ایزدی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے۔
عَنْهُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَدَخَلَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ كَيْفَ مَنْ خَلَّفْتَ مِنْ إِخْوَانِكَ قَالَ فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ وَزَكَّى وَأَطْرَى فَقَالَ لَهُ كَيْفَ عِيَادَةُ أَغْنِيَائِهِمْ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَقَالَ قَلِيلَةٌ قَالَ وَكَيْفَ مُشَاهَدَةُ أَغْنِيَائِهِمْ لِفُقَرَائِهِمْ قَالَ قَلِيلَةٌ قَالَ فَكَيْفَ صِلَةُ أَغْنِيَائِهِمْ لِفُقَرَائِهِمْ فِي ذَاتِ أَيْدِيهِمْ فَقَالَ إِنَّكَ لَتَذْكُرُ أَخْلاقاً قَلَّ مَا هِيَ فِيمَنْ عِنْدَنَا قَالَ فَقَالَ فَكَيْفَ تَزْعُمُ هَؤُلاءِ أَنَّهُمْ شِيعَةٌ۔
محمد بن عجلان سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور سلام کیا آپ نے فرمایا کیا حال ہے وہاں تمہارے مومن بھائیوں کا اس نے بڑی تعریف کی، بیعت پر قائم رہنے کا ذکر کیا اور ان کے اوصاف میں مبالغہ کیا۔ حضرت نے پوچھا اغنیا کا فقرا کے پاس پرشش احوال کے لیے آنا کیسا ہے اس نے کہا بہت کم۔ فرمایا مال داروں کا فقراء سے ملنا جلنا کیسا ہے۔ کہا بہت کم فرمایا اغنیا کا فقراء سے صلہ رحم کیسا ہے۔ اس نے کہا آپ ایسے اخلاق کا ذکر فرما رہے ہیں جن کی ہمارے یہاں کمی ہے۔ فرمایا پھر تم ان کو شیعہ کیوں گمان کرتے ہو۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ النَّضْرِ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ الشِّيعَةَ عِنْدَنَا كَثِيرٌ فَقَالَ فَهَلْ يَعْطِفُ الْغَنِيُّ عَلَى الْفَقِيرِ وَهَلْ يَتَجَاوَزُ الْمُحْسِنُ عَنِ الْمُسِيءِ وَيَتَوَاسَوْنَ فَقُلْتُ لا فَقَالَ لَيْسَ هَؤُلاءِ شِيعَةً الشِّيعَةُ مَنْ يَفْعَلُ هَذَا۔
راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ ہمارے یہاں شیعہ بہت ہیں۔ فرمایا مال دار فقیروں سے مہربانی کا برتاؤ کرتے ہیں، احسان کرنے والے گناہ گاروں سے درگزر کرتے ہیں اور ان میں باہمی ہمدردی ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا تو وہ شیعہ نہیں، شیعہ وہ ہے جو ایسا ہو۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَقُولُ عَظِّمُوا أَصْحَابَكُمْ وَوَقِّرُوهُمْ وَلا يَتَجَهَّمُ بَعْضُكُمْ بَعْضاً وَلا تَضَارُّوا وَلا تَحَاسَدُوا وَإِيَّاكُمْ وَالْبُخْلَ كُونُوا عِبَادَ الله الْمُخْلَصِينَ۔
فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اصحاب کی عظمت کرو ان کا وقار قائم رکھو اور ایک دوسرے سے بہ کراہت نہ ملو اور نقصان نہ پہنچاؤ، حسد نہ کرو اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ اور خدا کے سچے بندے بنو۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) أَ يَجِيءُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيُدْخِلَ يَدَهُ فِي كِيسِهِ فَيَأْخُذَ حَاجَتَهُ فَلا يَدْفَعَهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فَلا شَيْءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلاكُ إِذاً فَقَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يُعْطَوْا أَحْلامَهُمْ بَعْدُ۔
فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے آیا تمہارے درمیان ایسا ہے کہ ایک برادر مومن دوسرے مومن کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنی حاجت پوری کرتا ہے اور وہ اس کو منع نہیں کرتا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا ایسا تو ہم میں کوئی نہیں۔ فرمایا تو کچھ بھی نہیں۔ میں نے کہا تو ہم سب جہنمی ہیں۔ فرمایا میری یہ مراد نہیں بلکہ یہ ہے کہ ابھی ان شیعوں میں اتنی عقل نہیں کہ آداب ایمان سمجھیں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ رَفَعَهُ عَنْ مُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) عَنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ فَقَالَ سَبْعُونَ حَقّاً لا أُخْبِرُكَ إِلا بِسَبْعَةٍ فَإِنِّي عَلَيْكَ مُشْفِقٌ أَخْشَى أَلا تَحْتَمِلَ فَقُلْتُ بَلَى إِنْ شَاءَ الله فَقَالَ لا تَشْبَعُ وَيَجُوعُ وَلا تَكْتَسِي وَيَعْرَى وَتَكُونُ دَلِيلَهُ وَقَمِيصَهُ الَّذِي يَلْبَسُهُ وَلِسَانَهُ الَّذِي يَتَكَلَّمُ بِهِ وَتُحِبُّ لَهُ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَإِنْ كَانَتْ لَكَ جَارِيَةٌ بَعَثْتَهَا لِتُمَهِّدَ فِرَاشَهُ وَتَسْعَى فِي حَوَائِجِهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ وَصَلْتَ وَلايَتَكَ بِوَلايَتِنَا وَوَلايَتَنَا بِوَلايَةِ الله عَزَّ وَجَلَّ۔
راوی کہتا ہے ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حق مومن کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا برادر مومن کے ستر حق ہیں ان میں سے صرف سات بتاؤں گا۔ میں تم پر مہربان ہوں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم تحمل نہ کر سکو گے۔ میں نے کہا ہاں اگر اللہ نے چاہا۔ فرمایا مت کھاؤ اگر برادر مومن بھوکا ہو، مت پہنو اگر وہ ننگا ہوں، اس کے رہنما بنو، اس کے رازدار بنو اور جو چیز اپنے لیے پسند کرو اس کے لیے بھی پسند کرو اور اس کی زبان گویا بنو، اگر تمہاری کنیز ہو تو اس کو بھیجو تاکہ وہ اس کے لیے بستر بچھائے اور اس کی ضرورتیں پوری کرنے کی رات دن کوشش کرو اگر ایسا کرو گے تو اپنی محبت ہماری محبت سے محبت خدا کے ساتھ ملا دو گے۔
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي الْمَغْرَاءِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لا يَظْلِمُهُ وَلا يَخْذُلُهُ وَلا يَخُونُهُ وَيَحِقُّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الإجْتِهَادُ فِي التَّوَاصُلِ وَالتَّعَاوُنُ عَلَى التَّعَاطُفِ وَالْمُوَاسَاةُ لأهْلِ الْحَاجَةِ وَتَعَاطُفُ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ حَتَّى تَكُونُوا كَمَا أَمَرَكُمُ الله عَزَّ وَجَلَّ رُحَمَاءَ بَيْنَكُمْ مُتَرَاحِمِينَ مُغْتَمِّينَ لِمَا غَابَ عَنْكُمْ مِنْ أَمْرِهِمْ عَلَى مَا مَضَى عَلَيْهِ مَعْشَرُ الأنْصَارِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه)۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مسلمان مسلمان کا بھائی ہے چاہیے کہ اس پر ظلم نہ کرے اس کو رسوا نہ کرے اس کے مال میں خیانت نہ کرے اور مسلمانوں کو سزاوار ہے کہ آپس میں اتحاد رکھیں اور لطف و مہربانی میں تعاون کریں اور اہل حاجت کے ساتھ ہمدردی کریں اور ایک دوسرے پر مہربان رہیں تاکہ تم ویسے ہی بن جاؤ جیسا خدا نے حکم دیا ہے، آپس میں رحم کرنے والے، اور مومن کے سفر میں ہونے کی حالت میں ہمدردی اور غمگساری اسی طرح کرنا جیسی عہد رسول اللہ میں تھی۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) حَقٌّ عَلَى الْمُسْلِمِ إِذَا أَرَادَ سَفَراً أَنْ يُعْلِمَ إِخْوَانَهُ وَحَقٌّ عَلَى إِخْوَانِهِ إِذَا قَدِمَ أَنْ يَأْتُوهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا مسلمان کا فرض ہے کہ جب سفر کا ارادہ کرے تو اپنے بھائیوں کو آگاہ کرے اور بھائیوں کا فرض ہے کہ جب وہ آئے تو اس سے ملنے آئیں۔