مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

مصافحہ

(4-78)

حدیث نمبر 1

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ كُنْتُ زَمِيلَ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) وَكُنْتُ أَبْدَأُ بِالرُّكُوبِ ثُمَّ يَرْكَبُ هُوَ فَإِذَا اسْتَوَيْنَا سَلَّمَ وَسَاءَلَ مُسَاءَلَةَ رَجُلٍ لا عَهْدَ لَهُ بِصَاحِبِهِ وَصَافَحَ قَالَ وَكَانَ إِذَا نَزَلَ نَزَلَ قَبْلِي فَإِذَا اسْتَوَيْتُ أَنَا وَهُوَ عَلَى الأرْضِ سَلَّمَ وَسَاءَلَ مُسَاءَلَةَ مَنْ لا عَهْدَ لَهُ بِصَاحِبِهِ فَقُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ الله إِنَّكَ لَتَفْعَلُ شَيْئاً مَا يَفْعَلُهُ أَحَدُ مَنْ قِبَلَنَا وَإِنْ فَعَلَ مَرَّةً فَكَثِيرٌ فَقَالَ أَ مَا عَلِمْتَ مَا فِي الْمُصَافَحَةِ إِنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيُصَافِحُ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فَلا تَزَالُ الذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْهُمَا كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ عَنِ الشَّجَرِ وَالله يَنْظُرُ إِلَيْهَا حَتَّى يَفْتَرِقَا۔

راوی کہتا ہے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا ہم کجاوہ تھا اور ہر جگہ میں پہلے سوار ہوتا تھا اور حضرت بعد میں۔ جب ہم ٹھیک ہو بیٹھتے تو حضرت سلام کرتے اور اس طرح احوال پرسی کرتے جیسے اس شخص سے جو عرصہ سے نہ ملا ہو اور پھر مصافحہ کرتے اور پھر مصافحہ کرتے جب منزل پر اترنے کا وقت آتا تو مجھ سے پہلے اترتے اور جب ہم زمین پر بیٹھ جاتے تو سلام کرتے اور اسی طرح احوال پرسی کرتے جیسے مدت کے بعد ملنے والے سے کی جاتی ہے۔ میں نے کہا یابن رسول اللہ آپ وہ عمل کر رہے ہیں جو ہمارے شہر والے نہیں کرتے، ایک بار ہو تو خیر یہ تو بار بار ہے۔ فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ مصافحہ کا کیا فائدہ ہے۔ جب مومنین ملتے اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درخت کے پتے۔ اللہ ان دونوں کی بہ نظر رحمت رکھتا ہے جب تک وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوں۔

حدیث نمبر 2

عَنْهُ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْقَمَّاطِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ إِذَا الْتَقَيَا وَتَصَافَحَا أَدْخَلَ الله يَدَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا فَصَافَحَ أَشَدَّهُمَا حُبّاً لِصَاحِبِهِ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب دو مومن ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو خدا کا دستِ رحمت ان کے ہاتھوں کے درمیان ہوتا ہے اور مصافحہ ان کے درمیان محبت کو بڑھاتا ہے۔

حدیث نمبر 3

ابْنُ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنِ السَّمَيْدَعِ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَعْيَنَ الْجُهَنِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ إِذَا الْتَقَيَا فَتَصَافَحَا أَدْخَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ يَدَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا وَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ عَلَى أَشَدِّهِمَا حُبّاً لِصَاحِبِهِ فَإِذَا أَقْبَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ بِوَجْهِهِ عَلَيْهِمَا تَحَاتَّتْ عَنْهُمَا الذُّنُوبُ كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ۔

حضرتِ امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا جب دو مومن ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو خدا کی رحمت کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے درمیان ہوتا ہے اور مصافحہ سے ان کے درمیان بہت زیادہ محبت پیدا ہوتی ہے اور جب اللہ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ان کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جیسے موسمِ خزاں میں درخت سے پتے۔

حدیث نمبر 4

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ إِذَا الْتَقَيَا فَتَصَافَحَا أَقْبَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمَا بِوَجْهِهِ وَتَسَاقَطَتْ عَنْهُمَا الذُّنُوبُ كَمَا يَتَسَاقَطُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب دو مومن مل کر مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت سے پتے۔

حدیث نمبر 5

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ زَامَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فِي شِقِّ مَحْمِلٍ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ وَعَادَ قَالَ هَاتِ يَدَكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ فَنَاوَلْتُهُ يَدِي فَغَمَزَهَا حَتَّى وَجَدْتُ الأذَى فِي أَصَابِعِي ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ لَقِيَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَصَافَحَهُ وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ فِي أَصَابِعِهِ إِلا تَنَاثَرَتْ عَنْهُمَا ذُنُوبُهُمَا كَمَا يَتَنَاثَرُ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ فِي الْيَوْمِ الشَّاتِي۔

ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ ایک محمل میں مدینہ سے مکہ تک سفر کیا۔ حضرت ایک منزل پر اترے جب ضروریات سے فارغ ہوئے تو میرے پاس آ کر فرمایا اپنا ہاتھ لاؤ۔ میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ حضرت نے اتنا دبایا کہ میری انگلیوں میں درد ہونے لگا۔ پھر فرمایا اے ابو عبیدہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے مصافحہ کرتا ہے اور اس کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں داخل کرتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جیسے فصلِ خزاں میں درخت کے پتے۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنْ مَالِكٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَا مَالِكُ أَنْتُمْ شِيعَتُنَا أَ لا تَرَى أَنَّكَ تُفْرِطُ فِي أَمْرِنَا إِنَّهُ لا يُقْدَرُ عَلَى صِفَةِ الله فَكَمَا لا يُقْدَرُ عَلَى صِفَةِ الله كَذَلِكَ لا يُقْدَرُ عَلَى صِفَتِنَا وَكَمَا لا يُقْدَرُ عَلَى صِفَتِنَا كَذَلِكَ لا يُقْدَرُ عَلَى صِفَةِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَلْقَى الْمُؤْمِنَ فَيُصَافِحُهُ فَلا يَزَالُ الله يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَالذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْ وُجُوهِهِمَا كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ مِنَ الشَّجَرِ حَتَّى يَفْتَرِقَا فَكَيْفَ يُقْدَرُ عَلَى صِفَةِ مَنْ هُوَ كَذَلِكَ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے اے مالک تم ہمارے شیعہ ہو کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ تم نے کوتاہی کی ہے ہمارے امر امانت میں جس طرح کوئی خدا کی صفت بیان کرنے پر قادر نہیں۔ اسی طرح ہماری صفت بیان کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا اور اسی طرح مومن کی صفت کے بیان کرنے پر بھی قادر نہیں۔ مومن جب مومن سے ملتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے تو ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور ان دونوں کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت کے پتے جب تک وہ جدا نہیں ہوتے۔ پس جو ایسا ہو اس کی صفت بیان کرنے پر کیسے قدر ہو گی۔

حدیث نمبر7

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ زَامَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) فَحَطَطْنَا الرَّحْلَ ثُمَّ مَشَى قَلِيلاً ثُمَّ جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِي فَغَمَزَهَا غَمْزَةً شَدِيدَةً فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَ وَمَا كُنْتُ مَعَكَ فِي الْمَحْمِلِ فَقَالَ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا جَالَ جَوْلَةً ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ أَخِيهِ نَظَرَ الله إِلَيْهِمَا بِوَجْهِهِ فَلَمْ يَزَلْ مُقْبِلاً عَلَيْهِمَا بِوَجْهِهِ وَيَقُولُ لِلذُّنُوبِ تَحَاتَّ عَنْهُمَا فَتَتَحَاتُّ يَا أَبَا حَمْزَةَ كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ عَنِ الشَّجَرِ فَيَفْتَرِقَانِ وَمَا عَلَيْهِمَا مِنْ ذَنْبٍ۔

ابو حمزہ نے کہا کہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ سفر کر رہا تھا جب ہم سواری سے اترے تو حضرت کچھ دور چلے۔ پھر میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر زور سے دبایا۔ میں نے کہا کیا میں آپ کے ساتھ محمل میں نہ تھا۔ فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ جب مومن تھوڑی سی حرکت کر کے اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو خدا ان دونوں کو بہ نظر رحمت ہے اور کہتا ہے ان دونوں کے گناہ معاف ہوئے اے ابو حمزہ ان کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جیسے درخت سے پتے جب تک وہ جدا ہوں ان کا کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔

حدیث نمبر8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْ حَدِّ الْمُصَافَحَةِ فَقَالَ دَوْرُ نَخْلَةٍ۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ استجاب مصافحہ کتنی دوری کے بعد ہے۔ فرمایا بقدر ایک درخت خرما کی دوری کے۔

حدیث نمبر9

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الأفْرَقِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنَيْنِ إِذَا تَوَارَى أَحَدُهُمَا عَنْ صَاحِبِهِ بِشَجَرَةٍ ثُمَّ الْتَقَيَا أَنْ يَتَصَافَحَا۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے مومنین کو چاہیے کہ جب ایک دوسرے سے بقدر ایک درخت کے الگ ہوں تو پھر دونوں مصافحہ کریں۔

حدیث نمبر 10

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ وَلْيُصَافِحْهُ فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَكْرَمَ بِذَلِكَ الْمَلائِكَةَ فَاصْنَعُوا صُنْعَ الْمَلائِكَةِ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو چاہیے سلام کرے اور مصافحہ کرے ، خدا نے اس مصافحہ سے ملائکہ کو مکرم بنایا ہے پس تم بھی وہ کرو جو ملائکہ کرتے ہیں۔

حدیث نمبر11

عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ ابْنِ بَقَّاحٍ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِذَا الْتَقَيْتُمْ فَتَلاقَوْا بِالتَّسْلِيمِ وَالتَّصَافُحِ وَإِذَا تَفَرَّقْتُمْ فَتَفَرَّقُوا بِالإسْتِغْفَارِ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم ایک دوسرے سے ملو تو سلام اور مصافحہ کرو اور جدا ہوتے وقت استغفار کرو۔

حدیث نمبر 12

عَنْهُ عَنْ مُوسَى بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ جَدِّهِ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ أَوْ غَيْرِهِ عَنْ رَزِينٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا غَزَوْا مَعَ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَمَرُّوا بِمَكَانٍ كَثِيرِ الشَّجَرِ ثُمَّ خَرَجُوا إِلَى الْفَضَاءِ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَتَصَافَحُوا۔

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب مسلمان غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جاتے اور ایسی جگہ سے گزر ہوتا جہاں گھنے درخت ہوتے تو پھر صحرا میں نکلتے اور ایک دوسرے کو دیکھتے تو مصافحہ کرتے۔

حدیث نمبر 13

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ الْجَهْمِ الْهِلالِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ فَالَّذِي يَلْزَمُ التَّصَافُحَ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الَّذِي يَدَعُ أَلا وَإِنَّ الذُّنُوبَ لَتَتَحَاتُّ فِيمَا بَيْنَهُمْ حَتَّى لا يَبْقَى ذَنْبٌ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے جب کوئی مصافحہ کرتا ہے اپنے ساتھی سے پس جو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رہے اس کا مرتبہ اس سے زیادہ ہے جو مصافحہ ختم کرے۔ ان دونوں کے گناہ اس طرح ختم ہو جاتے ہیں کہ پھر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔

حدیث نمبر 14

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ جَبَلَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فَنَظَرَ إِلَيَّ بِوَجْهٍ قَاطِبٍ فَقُلْتُ مَا الَّذِي غَيَّرَكَ لِي قَالَ الَّذِي غَيَّرَكَ لِإِخْوَانِكَ بَلَغَنِي يَا إِسْحَاقُ أَنَّكَ أَقْعَدْتَ بِبَابِكَ بَوَّاباً يَرُدُّ عَنْكَ فُقَرَاءَ الشِّيعَةِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي خِفْتُ الشُّهْرَةَ فَقَالَ أَ فَلا خِفْتَ الْبَلِيَّةَ أَ وَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ إِذَا الْتَقَيَا فَتَصَافَحَا أَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ الرَّحْمَةَ عَلَيْهِمَا فَكَانَتْ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ لأشَدِّهِمَا حُبّاً لِصَاحِبِهِ فَإِذَا تَوَافَقَا غَمَرَتْهُمَا الرَّحْمَةُ فَإِذَا قَعَدَا يَتَحَدَّثَانِ قَالَ الْحَفَظَةُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ اعْتَزِلُوا بِنَا فَلَعَلَّ لَهُمَا سِرّاً وَقَدْ سَتَرَ الله عَلَيْهِمَا فَقُلْتُ أَ لَيْسَ الله عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ ما يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقيبٌ عَتِيدٌ فَقَالَ يَا إِسْحَاقُ إِنْ كَانَتِ الْحَفَظَةُ لا تَسْمَعُ فَإِنَّ عَالِمَ السِّرِّ يَسْمَعُ وَيَرَى۔

اسحاق بن عمار سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں آیا۔ حضرت نے میری طرف غصہ سے دیکھا۔ میں نے کہا کس امر نے آپ کو مجھ سے ناراض کیا۔ جس چیز نے تجھ کو تیرے بھائیوں سے ناخوش کیا۔ اے اسحاق مجھے خبر ملی ہے کہ تو نے دروازہ پر دربان بٹھایا ہے تاکہ وہ فقراء شیعہ کو تجھ تک پہنچنے سے روکے۔ میں نے کہا میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ ان کی آمدو رفت سے میری شیعت کی شہرت نہ ہو۔ فرمایا تو نے ضلالت کی مصیبت کا خیال نہ کیا، کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ جب دو مومن مل کر مصافحہ کرتے ہیں تو خدا کی رحمت ان دونوں پر نازل ہوتی ہے اور سو میں سے ننانوے حصے محبت کے ان دونوں کو مل جاتے ہیں جب وہ دونوں خلوص برتتے ہیں تو خدا کی رحمت ان کو گھیر لیتی ہے اور جب وہ باتیں کرتے ہیں تو ان کے محافظ فرشتے آپس میں کہتے ہیں ان سے الگ ہو جاؤ شاید کوئی راز کی بات ہو اور اللہ نے ان کے لیے چھپانا چاہا ہو۔ میں نے کہا کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کوئی لفظ نہیں بولتے مگر یہ کہ ان کے پاس ایک سخت نگہبان ہوتا ہے۔ فرمایا اے اسحاق اسے فرشتے نہ سنیں تو بھی راز کا جاننے والا تو سنتا اور دیکھتا ہے مراد یہ ہے کہ رقیب عتید (نگہبان ) ہے وہی ہر بات کو سنتا اور دیکھتا ہے۔

حدیث نمبر 15

عَنْهُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَيْمَنَ بْنِ مُحْرِزٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ مَا صَافَحَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) رَجُلاً قَطُّ فَنَزَعَ يَدَهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْهُ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ ﷺ جب مصافحہ کرتے تو اپنا ہاتھ کبھی نہ ہٹاتے جب تک دوسرا شخص اپنا ہاتھ نہ ہٹاتا۔

حدیث نمبر 16

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لا يُوصَفُ وَكَيْفَ يُوصَفُ وَقَالَ فِي كِتَابِهِ وَما قَدَرُوا الله حَقَّ قَدْرِهِ فَلا يُوصَفُ بِقَدَرٍ إِلا كَانَ أَعْظَمَ مِنْ ذَلِكَ وَإِنَّ النَّبِيَّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) لا يُوصَفُ وَكَيْفَ يُوصَفُ عَبْدٌ احْتَجَبَ الله عَزَّ وَجَلَّ بِسَبْعٍ وَجَعَلَ طَاعَتَهُ فِي الأرْضِ كَطَاعَتِهِ فِي السَّمَاءِ فَقَالَ وَما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَمَنْ أَطَاعَ هَذَا فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَاهُ فَقَدْ عَصَانِي وَفَوَّضَ إِلَيْهِ وَإِنَّا لا نُوصَفُ وَكَيْفَ يُوصَفُ قَوْمٌ رَفَعَ الله عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَهُوَ الشَّكُّ وَالْمُؤْمِنُ لا يُوصَفُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَلْقَى أَخَاهُ فَيُصَافِحُهُ فَلا يَزَالُ الله يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَالذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْ وُجُوهِهِمَا كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ عَنِ الشَّجَرِ،

فرمایا ابو جعفر علیہ السلام نے کہ خداوند عالم کا وصف کما حقہُ بیان نہیں کیا جا سکتا اور کیوں کر بیان کیا جا سکتا درآنحالیکہ وہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے یہودیوں نے نہیں تعظیم کی اللہ کی جو حق تعظیم کرنے کا ہے پس جو کچھ وصف اس کا بیان کیا جائے وہ اس سے عظیم تر ہو گا اسی طرح نبی کا وصف بھی بیان نہیں کیا جا سکتا اور کیسے بیان کیا جا سکتا ہے اس بندے کا وصف جس کے لیے خدا نے سات آسمانوں کے پردے اٹھا دیئے ہوں اور زمین پر جس کی اطاعت مثل اپنی اطاعت کے قرار دی ہو اور فرمایا ہو رسول جو تمہیں دے دیں لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور اپنے معاملات ان کے سپرد کر دیے اور ہمارا وصف بھی بیان میں نہیں آ سکتا اور کیسے آئے۔ خدا نے ہم کو رجس سے دور رکھا ہے اور رِجس شک ہے اور مومن کا وصف بھی بیان نہیں کیا جا سکا کیونکہ جب مومن، مومن سے مصافحہ کرتا ہے تو خدا نظرِ رحمت سے انکو دیکھتا ہے اور ان کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جیسے درختوں کے پتے۔

حدیث نمبر 17

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِذَا الْتَقَى الْمُؤْمِنَانِ فَتَصَافَحَا أَقْبَلَ الله بِوَجْهِهِ عَلَيْهِمَا وَتَتَحَاتُّ الذُّنُوبُ عَنْ وُجُوهِهِمَا حَتَّى يَفْتَرِقَا۔

فرمایا صادقِ آل محمد نے جب دو مومن مل کر مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کی طرف توجہ کرتا ہے اور ان دونوں کے گناہ محو ہو جاتے ہیں جب تک وہ جدا ہوں۔

حدیث نمبر 18

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ تَصَافَحُوا فَإِنَّهَا تَذْهَبُ بِالسَّخِيمَةِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ مصافحہ کرو کہ وہ دل سے حسد اور کینہ کو دور کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر19

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأشْعَرِيِّ عَنِ ابْنِ الْقَدَّاحِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ لَقِيَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) حُذَيْفَةَ فَمَدَّ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَدَهُ فَكَفَّ حُذَيْفَةُ يَدَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) يَا حُذَيْفَةُ بَسَطْتُ يَدِي إِلَيْكَ فَكَفَفْتَ يَدَكَ عَنِّي فَقَالَ حُذَيْفَةُ يَا رَسُولَ الله بِيَدِكَ الرَّغْبَةُ وَلَكِنِّي كُنْتُ جُنُباً فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ تَمَسَّ يَدِي يَدَكَ وَأَنَا جُنُبٌ فَقَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَ مَا تَعْلَمُ أَنَّ الْمُسْلِمَيْنِ إِذَا الْتَقَيَا فَتَصَافَحَا تَحَاتَّتْ ذُنُوبُهُمَا كَمَا يَتَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ حذیفہ نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے اپنا ہاتھ حذیفہ کی طرف بڑھایا انھوں نے اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ حضرت نے فرمایا اے حذیفہ میں نے مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تم نے اپنے ہاتھ کو مجھ کو روکے رکھا۔ حذیفہ نے کہا یا رسول اللہ آپ سے مصافحہ کرنے کی رغبت تمام دنیا کو ہے لیکن میں جنب ہوں میں نے پسند نہ کیا کہ بحالت جنابت میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ کو مس کرے۔ حضرت نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ جب دو مسلمان ملتے اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت سے پتے۔

حدیث نمبر 20

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لا يَقْدِرُ أَحَدٌ قَدْرَهُ وَكَذَلِكَ لا يَقْدِرُ قَدْرَ نَبِيِّهِ وَكَذَلِكَ لا يَقْدِرُ قَدْرَ الْمُؤْمِنِ إِنَّهُ لَيَلْقَى أَخَاهُ فَيُصَافِحُهُ فَيَنْظُرُ الله إِلَيْهِمَا وَالذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْ وُجُوهِهِمَا حَتَّى يَفْتَرِقَا كَمَا تَتَحَاتُّ الرِّيحَ الشَّدِيدَةَ الْوَرَقُ عَنِ الشَّجَرِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا کی قدرت و مرتبہ کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا اسی طرح نبی کا مرتبہ اسی طرح مومن کا مرتبہ کا کیوں کہ جب وہ اپنے بھائی سے ملتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے تو اللہ بہ نظرِ رحمت ان کی طرف دیکھتا ہے اورر جب تک وہ جدا ہوں گناہ ان سے اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت سے پتے۔

حدیث نمبر 21

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ رِفَاعَةَ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مُصَافَحَةُ الْمُؤْمِنِ أَفْضَلُ مِنْ مُصَافَحَةِ الْمَلائِكَةِ۔

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا مومن سے مصافحہ کرنا بہتر ہے بہ نسبت ملائکہ سے مصافحہ کرنے سے۔