عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قُلْتُ لَهُ قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً وَمَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً قَالَ مَنْ أَخْرَجَهَا مِنْ ضَلالٍ إِلَى هُدًى فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهَا وَمَنْ أَخْرَجَهَا مِنْ هُدًى إِلَى ضَلالٍ فَقَدْ قَتَلَهَا۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جبکہ میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا جس نے ایک شخص کو بغیر کسی کے قتل کیے ہوئے قتل کیا تو ایسا ہے گویا سب آدمیوں کو قتل کیا اور جس نے ایک کو زندہ رکھا اس نے گویا سب کو زندہ رکھا۔ سائل نے کہا اس سے کچھ اور بھی مراد ہے۔ فرمایا جس نے کسی کو ہدایت سے ضلالت کی طرف پہنچایا اس نے گویا اس کو قتل کیا۔
عَنْهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ وَمَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً قَالَ مِنْ حَرَقٍ أَوْ غَرَقٍ قُلْتُ فَمَنْ أَخْرَجَهَا مِنْ ضَلالٍ إِلَى هُدًى قَالَ ذَاكَ تَأْوِيلُهَا الأعْظَمُ. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ وَعَبْدِ الله ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبَانٍ مِثْلَهُ۔
راوی کہتا ہے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کیا تفسیر ہے اس آیت کی جس نے ایک نفس کو زندہ کیا اس نے گویا کل آدمیوں کو زندہ کیا۔ فرمایا جس نے کسی کو جلنے یا ڈوبنے سے بچایا۔ میں نے کہا کیا یہ مراد نہیں جس نے گمراہی سے ہدایت کی طرف پہنچایا۔ فرمایا یہ تاویل سے اچھی ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْقَمَّاطِ عَنْ حُمْرَانَ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَسْأَلُكَ أَصْلَحَكَ الله فَقَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ كُنْتُ عَلَى حَالٍ وَأَنَا الْيَوْمَ عَلَى حَالٍ أُخْرَى كُنْتُ أَدْخُلُ الأرْضَ فَأَدْعُو الرَّجُلَ وَالإثْنَيْنِ وَالْمَرْأَةَ فَيُنْقِذُ الله مَنْ شَاءَ وَأَنَا الْيَوْمَ لا أَدْعُو أَحَداً فَقَالَ وَمَا عَلَيْكَ أَنْ تُخَلِّيَ بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ فَمَنْ أَرَادَ الله أَنْ يُخْرِجَهُ مِنْ ظُلْمَةٍ إِلَى نُورٍ أَخْرَجَهُ ثُمَّ قَالَ وَلا عَلَيْكَ إِنْ آنَسْتَ مِنْ أَحَدٍ خَيْراً أَنْ تَنْبِذَ إِلَيْهِ الشَّيْءَ نَبْذاً قُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً قَالَ مِنْ حَرَقٍ أَوْ غَرَقٍ ثُمَّ سَكَتَ ثُمَّ قَالَ تَأْوِيلُهَا الأعْظَمُ أَنْ دَعَاهَا فَاسْتَجَابَتْ لَهُ۔
حمران سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہا کہ کیا میں آپ سے سوال کروں اللہ آپ کی حفاظت کرے۔ فرمایا ہاں۔ میں نے کہا پہلے میری حالت اور تھی اور اب اور ہے۔ میں پہلے کسی بستی میں جا کر ایک یا دو مرد یا ایک عورت پر تبلیغ مذہب حقہ کرتا تھا خدا جس کو چاہتا ہے راہ راست پر لاتا ہے لیکن اب میں کسی کو دعوت الی الحق نہیں دیتا۔ فرمایا کوئی حرج نہیں، اگر تو لوگوں کو ان کے رب کی ہدایت پر چھوڑ دے تو اللہ جس کو چاہے ظلمت سے نور کی طرف نکالے گا اور اگر کوئی حصول نیکی کی طرف سے ہوا اور تجھ سے ہدایت چاہے تو تھوڑی سی ہدایت اسے کر۔ میں نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے جس نے ایک نفس کو زندہ کیا اس نے گویا سب کو زندہ کیا۔ فرمایا اس سے مراد ہے جلنے یا ڈوبنے سے بچانا۔ پھر فرمایا اس کی سب سے بڑی تاویل یہ ہے کہ اگر کوئی مدد کے لیے بلائے تو اس کی مدد کی جائے۔