عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ كُلَيْبِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الصَّيْدَاوِيِّ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِيَّاكُمْ وَالنَّاسَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَيْراً نَكَتَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةً فَتَرَكَهُ وَهُوَ يَجُولُ لِذَلِكَ وَيَطْلُبُهُ ثُمَّ قَالَ لَوْ أَنَّكُمْ إِذَا كَلَّمْتُمُ النَّاسَ قُلْتُمْ ذَهَبْنَا حَيْثُ ذَهَبَ الله وَاخْتَرْنَا مَنِ اخْتَارَ الله وَاخْتَارَ الله مُحَمَّداً وَاخْتَرْنَا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ۔
راوی کہتا ہے مجھ سے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے کو مخالف لوگوں سے بچاؤ۔ اللہ تعالیٰ جس کسی بندہ سے نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک نور پیدا کرا ہے پھر اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اس میں غور و فکر کر کے امر حق تلاش کرے۔ پھر فرمایا جب تم مخالفوں سے گفتگو کرو تو کہو ہم اسی طرف جا رہے ہیں جدھر اللہ گیا ہے اور ہم نے ہدایت کے لیے اسی کا انتخاب کیا جس کا انتخاب اللہ نے کیا ہے۔ اللہ نے محمد کو انتخاب کیا ہم نے ان کے بعد آلِ محمد کو۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ السَّرَّاجِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ ثَابِتٍ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا ثَابِتُ مَا لَكُمْ وَلِلنَّاسِ كُفُّوا عَنِ النَّاسِ وَلا تَدْعُوا أَحَداً إِلَى أَمْرِكُمْ فَوَ الله لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الأرْضِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يُضِلُّوا عَبْداً يُرِيدُ الله هُدَاهُ مَا اسْتَطَاعُوا كُفُّوا عَنِ النَّاسِ وَلا يَقُولُ أَحَدُكُمْ أَخِي وَابْنُ عَمِّي وَجَارِي فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَيْراً طَيَّبَ رُوحَهُ فَلا يَسْمَعُ بِمَعْرُوفٍ إِلا عَرَفَهُ وَلا بِمُنْكَرٍ إِلا أَنْكَرَهُ ثُمَّ يَقْذِفُ الله فِي قَلْبِهِ كَلِمَةً يَجْمَعُ بِهَا أَمْرَهُ۔
راوی کہتا ہے مجھ سے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا اے ثابت تمہارا مخالفوں سے کیا تعلق، تم ان سے الگ رہو ، امر امامت کی طرف لوگوں کو دعوت نہ دو۔ خدا کی قسم اگر تمام اہلِ آسمان و زمین ایسے بندے کو گمراہ کرنا چاہیں جس کو اللہ ہدایت کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسا نہ کر سکیں گے۔ تم لوگوں سے الگ ہی رہو اور اپنے مخالفوں کو یہ نہ سمجھو کہ یہ میرا بھائی ہے میرا ابن عمل ہے میرا پڑوسی ہے۔ بے شک جب خدا کسی کے ساتھ نیکی کرنا چاہتا ہے تو اس کی روح کو پاک کر دیتا ہے پس جب وہ امر نیک کو سنتا ہے تو اسے پہچانتا ہے اور بری بات سے انکار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ایک کلمہ ڈالتا ہے جس سے اس کی خاطر جمع ہو جاتی ہے یعنی آئمہ ضلالت کی پیروی سے رک جاتا ہے۔
أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنِ الْفُضَيْلِ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) نَدْعُو النَّاسَ إِلَى هَذَا الأمْرِ فَقَالَ يَا فُضَيْلُ إِنَّ الله إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَيْراً أَمَرَ مَلَكاً فَأَخَذَ بِعُنُقِهِ حَتَّى أَدْخَلَهُ فِي هَذَا الأمْرِ طَائِعاً أَوْ كَارِهاً۔
فضیل سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا ہم لوگوں کو امر امامت کی طرف دعوت دیں۔ فرمایا اے فضیل جب اللہ کسی بندہ کے لیے نیکی چاہتا ہے تو فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کی گردن پکڑ کر امر امامت کا اقرار کرائے خواہ وہ بخوشی اقرار کرے یا بہ کراہت۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) اجْعَلُوا أَمْرَكُمْ هَذَا لله وَلا تَجْعَلُوهُ لِلنَّاسِ فَإِنَّهُ مَا كَانَ لله فَهُوَ لله وَمَا كَانَ لِلنَّاسِ فَلا يَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ وَلا تُخَاصِمُوا بِدِينِكُمُ النَّاسَ فَإِنَّ الْمُخَاصَمَةَ مَمْرَضَةٌ لِلْقَلْبِ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلكِنَّ الله يَهْدِي مَنْ يَشاءُ وَقَالَ أَ فَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ذَرُوا النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ أَخَذُوا عَنِ النَّاسِ وَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمْ عَنْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَعَلِيٍّ (عَلَيهِ السَّلام) وَلا سَوَاءٌ وَإِنَّنِي سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ إِذَا كَتَبَ الله عَلَى عَبْدٍ أَنْ يُدْخِلَهُ فِي هَذَا الأمْرِ كَانَ أَسْرَعَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّيْرِ إِلَى وَكْرِهِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے دین کو رضائے الہٰی کے لیے اختیار کرو نہ کہ لوگوں کی رضا کے لیے۔ جو رضائے الہٰی کے لیے ہو گا تو وہ اللہ کے لیے ہو گا اور جو لوگوں کے لیے ہو گا تو وہ آسمان تک نہ جائیگا اور دین کے معاملہ میں لوگوں سے جھگڑا نہ کرو کیونکہ اس سے بہت سی قلبی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ خدا نے اپنے نبی سے فرمایا ہے جسے تم دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے اور خدا جسے چاہتا ہے مطلوب تک پہنچا دیتا ہے پھر سورہ یونس میں فرماتا ہے کیا تم لوگوں کو مومن ہونے پر مجبور کرو گے۔ لوگوں کو چھوڑو لوگوں نے جو علم لیا وہ لوگوں سے لیا ہے اور تم نے جو کچھ لیا ہے وہ رسول اور علی سے لیا ہے نہ کہ غیر سے اور میں نے اپنے باپ سے سنا ہے خدا جس کے لے امر دین میں داخلہ کے لیے لکھ دیتا ہے وہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیز جاتا ہے جتنا ایک طائر اپنے گھونسلہ کی طرف۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ قَوْماً لِلْحَقِّ فَإِذَا مَرَّ بِهِمُ الْبَابُ مِنَ الْحَقِّ قَبِلَتْهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنْ كَانُوا لا يَعْرِفُونَهُ وَإِذَا مَرَّ بِهِمُ الْبَابُ مِنَ الْبَاطِلِ أَنْكَرَتْهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنْ كَانُوا لا يَعْرِفُونَهُ وَخَلَقَ قَوْماً لِغَيْرِ ذَلِكَ فَإِذَا مَرَّ بِهِمُ الْبَابُ مِنَ الْحَقِّ أَنْكَرَتْهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنْ كَانُوا لا يَعْرِفُونَهُ وَإِذَا مَرَّ بِهِمُ الْبَابُ مِنَ الْبَاطِلِ قَبِلَتْهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنْ كَانُوا لا يَعْرِفُونَهُ۔
فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ خدا نے ایک قوم کو حق کے لیے پیدا کیا ہے پس جب وہ امر حق کے کسی دروازہ کی طرف سے گزرتے ہیں تو ان کے دل اس کو قبول کر لیتے ہیں اگرچہ وہ اس کی علت نہ جانتے ہوں اور ایک قوم ان کے علاوہ پیدا کی ہے جب وہ کسی امر باطل کی طرف سے گزرتے ہیں تو ان کے دل اس کو قبول کر لیتے ہیں اگرچہ اس کی علت نہ جانتے ہوں۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ أَبِي الْعَلاءِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَيْراً نَكَتَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةً مِنْ نُورٍ فَأَضَاءَ لَهَا سَمْعُهُ وَقَلْبُهُ حَتَّى يَكُونَ أَحْرَصَ عَلَى مَا فِي أَيْدِيكُمْ مِنْكُمْ وَإِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ سُوءاً نَكَتَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةً سَوْدَاءَ فَأَظْلَمَ لَهَا سَمْعُهُ وَقَلْبُهُ ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ فَمَنْ يُرِدِ الله أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ جب خدا کسی بندہ سے نیکی کا عمل چاہتا ہے تو اس کے قلب میں ایک نقطہ نورانی پیدا کر دیتا ہے جس سے اس کے کان اور دل روشن ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ تمہارے پاس جو امر امامت ہے اس کے حاصل کرنے میں سب سے زیادہ حریص ہو جاتا ہے۔ خدا جب کسی کے لیے برائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا کر دیتا ہے جس سے اس کے کان اور دل تاریک ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ آیت پڑھی، جب خدا ارادہ کرتا ہے کہ کسی کو ہدایت کرے تو اس کے سینے کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو گمراہی میں چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کے سینےکو ایسا تنگ بنا دیتا ہے گویا اسلام اس کے لیے آسمان پر چڑھنے کے برابر دشوار ہو جاتا ہے۔
توضیح: اس حدیث اور آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایمان و کفر پر مجبور ہے خدا جس کو چاہتا ہے مومن بناتا ہے جسے چاہتا ہے کافر، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس کی صورت یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں جو عمل کرنے والا ہوتا ہے وہ سب عمل سے پہلے علم الہٰی میں ہوتا ہے پس جس کا عمل نیک اس کے علم میں ہوتا ہے اور قبول حق کی صلاحیت اس میں پاتا ہے اس پر اپنی توفیقات نازل کرتا ہے جس کو ایسا نہیں پاتا اس کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور توفیق دنیا اللہ کا تفضل ہے کسی کو حق نہیں کیوں کہ توفیق و تفضل کسی کام کا اجر نہیں ہوتا اور علم الہٰی کسی کام پر کسی کو مجبور نہیں کرتا۔
عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُمْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ خَيْراً نَكَتَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةً بَيْضَاءَ وَفَتَحَ مَسَامِعَ قَلْبِهِ وَوَكَّلَ بِهِ مَلَكاً يُسَدِّدُهُ وَإِذَا أَرَادَ بِعَبْدٍ سُوءاً نَكَتَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةً سَوْدَاءَ وَسَدَّ مَسَامِعَ قَلْبِهِ وَوَكَّلَ بِهِ شَيْطَاناً يُضِلُّهُ۔
فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب اللہ کسی سے نیکی کرنا چاہتا ہے تو اسکے دل میں ایک سفید نقطہ پیدا کر دیتا ہے اور اس کے دل کے سننے والے سوراخ کھول دیتا ہے اور اس پر ایک فرشتہ معین کرتا ہے تاکہ برائی سے اسے روک دے اور جب کسی بندہ سے کوئی برائی روکنا نہیں چاہتا تو اس کے قلب میں ایک سیاہ نکتہ پیدا کر دیتا ہے اور اسکے قلب کے مسامات بند کر دیتا ہے اور ایک شیطان کو اس پر مسلط کر دیتا ہے کہ وہ اسے گمراہ کرتا رہے۔
توضیح: جب کوئی شخص باوجود نیک و بد جاننے کے اور احکام الہٰی سے باخبر ہونے کے اپنی بدکرداری سے باز نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کی توفیق و رحمت اس سے دور ہو جاتی ہے اور اسکو اسکے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور اس صورت میں شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے۔