مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

تقیہ

(4-97)

حدیث نمبر 1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَغَيْرِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ أُولئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِما صَبَرُوا قَالَ بِمَا صَبَرُوا عَلَى التَّقِيَّةِ وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ قَالَ الْحَسَنَةُ التَّقِيَّةُ وَالسَّيِّئَةُ الإذَاعَةُ۔

آیت ان لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا صبر کرنے کی بناء پر حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا صبر سے مراد ہے تقیہ پر صبر اور ایک آیت کے متعلق دفع کرتے ہیں برائی کو نیکی سے فرمایا حسنہ سے مراد ہے تقیہ اور سیئہ سے مراد افشاء راز کرنا۔

حدیث نمبر 2

ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ الأعْجَمِيِّ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا أَبَا عُمَرَ إِنَّ تِسْعَةَ أَعْشَارِ الدِّينِ فِي التَّقِيَّةِ وَلا دِينَ لِمَنْ لا تَقِيَّةَ لَهُ وَالتَّقِيَّةُ فِي كُلِّ شَيْ‏ءٍ إِلا فِي النَّبِيذِ وَالْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ تقیہ میں نوے حصہ دین ہے جو وقت ضرورت تقیہ نہ کرے اس کا دین نہیں اور تقیہ ہر شے ہے سوائے نبیذ ( جو کے شراب) اور موزوں پر مسح ہے۔
توضیح: نبیذ اور موزوں پر مسح کا استثناء اس لیے کیا ہے کہ مخالفین ان چیزوں پر مجبور نہیں کرتے لہذا بلا تقیہ ان کو ترک کرے۔

حدیث نمبر 3

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) التَّقِيَّةُ مِنْ دِينِ الله قُلْتُ مِنْ دِينِ الله قَالَ إِي وَالله مِنْ دِينِ الله وَلَقَدْ قَالَ يُوسُفُ (عَلَيهِ السَّلام) أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ وَالله مَا كَانُوا سَرَقُوا شَيْئاً وَلَقَدْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ (عَلَيهِ السَّلام) إِنِّي سَقِيمٌ وَالله مَا كَانَ سَقِيماً۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے تقیہ اللہ کا دین ہے ۔ میں نے کہا اللہ کا دین ہے فرمایا خدا کی قسم اللہ کا دین ہے۔ یوسف نے کہا تھا قافلہ والو تم چور ہو حالانکہ خدا کی قسم وہ چور نہ تھے اور ابراہیم نے کہا تھا کہ میں بیمار ہوں حالانکہ خدا کی قسم وہ بیمار نہ تھے۔

حدیث نمبر 4

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَالْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ جَمِيعاً عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْعَلاءِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ بِشْرِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ لا وَالله مَا عَلَى وَجْهِ الأرْضِ شَيْ‏ءٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ التَّقِيَّةِ يَا حَبِيبُ إِنَّهُ مَنْ كَانَتْ لَهُ تَقِيَّةٌ رَفَعَهُ الله يَا حَبِيبُ مَنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ تَقِيَّةٌ وَضَعَهُ الله يَا حَبِيبُ إِنَّ النَّاسَ إِنَّمَا هُمْ فِي هُدْنَةٍ فَلَوْ قَدْ كَانَ ذَلِكَ كَانَ هَذَا۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے میں نے اپنے والدِ ماجد سے سنا کہ روئے زمین پر میرے نزدیک تقیہ سے زیادہ محبوب چیز نہیں، جو تقیہ کرے گا خدا اس کو بلند مرتبہ دے گا۔ اے حبیب جو تقیہ نہ کرے گا خدا اس کو بلند مرتبہ دے گا، اے حبیب جو تقیہ نہ کرے گا اللہ اس کو پست کر دے گا اے حببب اس زمانہ میں مخالفین سکون و فرغت میں ہیں۔ ہاں ظہور حجت جب ہو گا تو اس وقت تقیہ ترک ہو گا۔

حدیث نمبر 5

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ الْمَكْفُوفِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ اتَّقُوا عَلَى دِينِكُمْ فَاحْجُبُوهُ بِالتَّقِيَّةِ فَإِنَّهُ لا إِيمَانَ لِمَنْ لا تَقِيَّةَ لَهُ إِنَّمَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ كَالنَّحْلِ فِي الطَّيْرِ لَوْ أَنَّ الطَّيْرَ تَعْلَمُ مَا فِي أَجْوَافِ النَّحْلِ مَا بَقِيَ مِنْهَا شَيْ‏ءٌ إِلا أَكَلَتْهُ وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ عَلِمُوا مَا فِي أَجْوَافِكُمْ أَنَّكُمْ تُحِبُّونَّا أَهْلَ الْبَيْتِ لأكَلُوكُمْ بِأَلْسِنَتِهِمْ وَلَنَحَلُوكُمْ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ رَحِمَ الله عَبْداً مِنْكُمْ كَانَ عَلَى وَلايَتِنَا۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اپنے دین کو مخالفوں سے بچاؤ اور تقیہ کے ذریعہ سے اسے چھپاؤ۔ جس کے لیے تقیہ نہیں اس کے لیے ایمان نہیں۔ تم مخالفوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں میں شہد کی مکھی اگر وہ جان لیں کہ شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں کیا چیز ہے تو وہ البتہ اس کو کھا جائیں اور تمہارے مخالفین جان لیں کہ تمہارے اندر ہم اہلبیت کی محبت ہے تو تم کو اپنی زبانوں سے کھا جائیں یعنی تمہاری مذمت کریں اور پوشیدہ علانیہ تم کو گالیاں دیں خدا ان لوگوں پر رحم کرے جو ہماری ولایت کا دم بھرتے ہیں۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَمَّنْ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي قَوْلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ قَالَ الْحَسَنَةُ التَّقِيَّةُ وَالسَّيِّئَةُ الإذَاعَةُ وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ قَالَ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ التَّقِيَّةُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَداوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق نیکی اور بدی برابر نہیں کہ نیکی سے مراد تقیہ ہے اور برائی سے مراد زبان وجوب تقیہ میں اپنے عقائد کا ظاہر کرنا ہے اور اس آیت کے متعلق برائی کا دفعیہ اچھے طریقہ سے کرو۔ فرمایا وہ اچھا طریقہ تقیہ ہے اس طرح کہ جس سے تم کو عداوت ہے اس سے اپنے کو خالص دوست ظاہر کرو۔

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْكِنَانِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا أَبَا عَمْرٍو أَ رَأَيْتَكَ لَوْ حَدَّثْتُكَ بِحَدِيثٍ أَوْ أَفْتَيْتُكَ بِفُتْيَا ثُمَّ جِئْتَنِي بَعْدَ ذَلِكَ فَسَأَلْتَنِي عَنْهُ فَأَخْبَرْتُكَ بِخِلافِ مَا كُنْتُ أَخْبَرْتُكَ أَوْ أَفْتَيْتُكَ بِخِلافِ ذَلِكَ بِأَيِّهِمَا كُنْتَ تَأْخُذُ قُلْتُ بِأَحْدَثِهِمَا وَأَدَعُ الآخَرَ فَقَالَ قَدْ أَصَبْتَ يَا أَبَا عَمْرٍو أَبَى الله إِلا أَنْ يُعْبَدَ سِرّاً أَمَا وَالله لَئِنْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ إِنَّهُ لَخَيْرٌ لِي وَلَكُمْ وَأَبَى الله عَزَّ وَجَلَّ لَنَا وَلَكُمْ فِي دِينِهِ إِلا التَّقِيَّةَ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اے ابو عمرو اگر میں تجھ سے ایک بات بیان کروں یا ایک فتویٰ دوں پھر تم دوبارہ مجھ سے وہی سوال کرو اور اور میں پہلے کے خلاف جواب دوں تو تم کس پر عمل کرو گے۔ میں نے کہا نئی بات پر اور دوسری با ت کو چھوڑ دوں گا۔ فرمایا تم نے ٹھیک کہا، اللہ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت پوشیدہ طور پر کی جائے۔ خدا کی قسم اگر تم نے ایسا کیا تو میرے اور تمہارے دونوں کے لیے بہتر ہو گا اور اللہ نے امر دین میں تمہارے اور ہمارے لیے تقیہ چاہا ہے۔

حدیث نمبر 8

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ دُرُسْتَ الْوَاسِطِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا بَلَغَتْ تَقِيَّةُ أَحَدٍ تَقِيَّةَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ إِنْ كَانُوا لَيَشْهَدُونَ الأعْيَادَ وَيَشُدُّونَ الزَّنَانِيرَ فَأَعْطَاهُمُ الله أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے نہیں پہنچا کسی کا تقیہ اصحاب کہف کے تقیہ کو کہ وہ قوم کی عیدوں میں حاضر ہوتے تھے اور ازروئے تقیہ زنانیر باندھتے تھے پس اللہ نے ان کو دو بار اجر عطا فرمایا۔

حدیث نمبر 9

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ وَاقِدٍ اللَّحَّامِ قَالَ اسْتَقْبَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) فِي طَرِيقٍ فَأَعْرَضْتُ عَنْهُ بِوَجْهِي وَمَضَيْتُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي لألْقَاكَ فَأَصْرِفُ وَجْهِي كَرَاهَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ فَقَالَ لِي رَحِمَكَ الله وَلَكِنَّ رَجُلاً لَقِيَنِي أَمْسِ فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ عَلَيْكَ السَّلامُ يَا أَبَا عَبْدِ الله مَا أَحْسَنَ وَلا أَجْمَلَ۔

راوی کہتا ہے میں راستہ میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے ملا۔ میں نے حضرت کی طرف سے منہ پھیر لیا اور آگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد آپ کی خدمت میں آیا اورر کہا میں آپ پر فدا ہوں میں آپ سے ملا تھا اور میں نے کراہت سے مصلحتاً منہ پھیر لیا تھا تاکہ آپ کو کوئی اذیت نہ پہنچے۔ حضرت نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے لیکن ایک شخص فلاں مقام پر مجھے ملا جب کہ مخالفوں کا مجمع تھا اس نے کہا علیک السلام یا ابا عبداللہ ، اس نے اچھا نہ کیا۔
توضیح: مطلب یہ ہے کہ اس نے السلام علیک کو مقدم کیا اور بجائے میرے نام کے کنیت کا ذکر کیا اور دونوں باتوں سے مخصوص تعظیم کا اظہار کیا۔ مخالفوں کی موجودگی میں اسے ایسا نہ کرنا چاہیے تھا بلکہ تقیہ سے کام لینا چاہئے تھا۔

حدیث نمبر 10

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ قَالَ قِيلَ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ النَّاسَ يَرْوُونَ أَنَّ عَلِيّاً (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ سَتُدْعَوْنَ إِلَى سَبِّي فَسُبُّونِي ثُمَّ تُدْعَوْنَ إِلَى الْبَرَاءَةِ مِنِّي فَلا تَبَرَّءُوا مِنِّي فَقَالَ مَا أَكْثَرَ مَا يَكْذِبُ النَّاسُ عَلَى عَلِيٍّ (عَلَيهِ السَّلام) ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا قَالَ إِنَّكُمْ سَتُدْعَوْنَ إِلَى سَبِّي فَسُبُّونِي ثُمَّ سَتُدْعَوْنَ إِلَى الْبَرَاءَةِ مِنِّي وَإِنِّي لَعَلَى دِينِ مُحَمَّدٍ وَلَمْ يَقُلْ لا تَبَرَّءُوا مِنِّي فَقَالَ لَهُ السَّائِلُ أَ رَأَيْتَ إِنِ اخْتَارَ الْقَتْلَ دُونَ الْبَرَاءَةِ فَقَالَ وَالله مَا ذَلِكَ عَلَيْهِ وَمَا لَهُ إِلا مَا مَضَى عَلَيْهِ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ حَيْثُ أَكْرَهَهُ أَهْلُ مَكَّةَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمَانِ فَأَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ إِلا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمانِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) عِنْدَهَا يَا عَمَّارُ إِنْ عَادُوا فَعُدْ فَقَدْ أَنْزَلَ الله عَزَّ وَجَلَّ عُذْرَكَ وَأَمَرَكَ أَنْ تَعُودَ إِنْ عَادُوا۔

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے کہا گیا کہ لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے منبر کوفہ پر کہا لوگو عنقریب تم سے کہا جائے گا کہ مجھے گالی دو تو تم مجھے گالی دے دینا اور اگر مجھ سے برات ظاہر کرنے کو کہیں تو نہ کرنا۔ حضرت نے فرمایا لوگوں نے حضرت پر کیسا جھوٹ بولا۔ پھر فرمایا حضرت نے تو یہ فرمایا تھا کہ تم سے مجھے گالی دینے کو کہا جائے تو تم مجھے گالی دے دینا اور مجھ سے برات کو کہا جائے تو میں دین محمد پر ہوں یہ نہیں فرمایا کہ تم مجھ سے اظہار برات نہ کرنا۔ پوچھا کیا برات کے مقابلہ میں قتل ہونے کو ترجیح دی جائے۔ حضرت نے فرمایا یہ تکلیف اس پر نہیں اور نہ اس کے لیے جائز ہے بلکہ اس کو وہی کرنا چاہیے جو عمار بن یاسر نے کیا۔ جبکہ اہل مکہ نے انہیں مجبور کیا (کلمہ کفر کہنے پر) حالانکہ ان کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن تھا خدا نے یہ آیت نازل کی ، مگر وہ جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو اس موقع پر رسول اللہ نے عمار سے فرمایا اگر وہ لوگ پھر ایسا کرنے کو کہیں تو کہہ دینا۔ خدا نے تمہارا عذر قبول کر لیا اور تمہیں حکم دیا ہے کہ اگر دوبارہ کلمہ کفر کہنے پر مجبور کریں تو کہہ دینا۔

حدیث نمبر 11

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلاً يُعَيِّرُونَّا بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَلا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَعُودُوا مَرْضَاهُمْ وَاشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَلا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَالله مَا عُبِدَ الله بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَمَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّةُ۔

میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا تم ایسے عمل سے بچو جس پر لوگ ہمیں عیب لگائیں۔ برا بیٹا اپنے عمل بد سے اپنے باپ کو عیب لگاتا ہے۔ تم ایسے بنو کہ جو آپ کے لیے باعثِ زینت ہو نہ کہ باعثِ شرم ہو۔ قبلہ والوں سے اگرچہ وہ مذہباً مخالف ہوں ان کے مریضوں کی عیادت کرو ان کے جنازوں میں موجود رہا کرو کسی امر نیک میں ان کو سبقت نہ کرنے دو کیونکہ تم اس کے لیے ان سے زیادہ بہتر ہو۔ خدا کی قسم خدا کو سب سے زیادہ محبوب عبادت وہ ہے جو پوشیدہ ہو یعنی بصورت تقیہ۔

حدیث نمبر 12

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلادٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ (عَلَيهِ السَّلام) عَنِ الْقِيَامِ لِلْوُلاةِ فَقَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) التَّقِيَّةُ مِنْ دِينِي وَدِينِ آبَائِي وَلا إِيمَانَ لِمَنْ لا تَقِيَّةَ لَهُ۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے جس کے لیے تقیہ نہیں اس کے لیے دین نہیں۔

حدیث نمبر 13

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ التَّقِيَّةُ فِي كُلِّ ضَرُورَةٍ وَصَاحِبُهَا أَعْلَمُ بِهَا حِينَ تَنْزِلُ بِهِ۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے تقیہ ہر ضرورت میں ہے اور جو صاحب زیادہ جاننے والا ہے اس کی ضرورت ہے۔

حدیث نمبر 14

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ أَبِي (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ وَأَيُّ شَيْ‏ءٍ أَقَرُّ لِعَيْنِي مِنَ التَّقِيَّةِ إِنَّ التَّقِيَّةَ جُنَّةُ الْمُؤْمِنِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے میرے پدر بزرگوار فرماتے تھے میری آنکھ کو تقیہ سے زیادہ ٹھنڈک پہنچانے والی کوئی چیز نہیں، بے شک تقیہ مومن کے لیے سپر ہے۔

حدیث نمبر 15

عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَا مُنِعَ مِيثَمٌ رَحِمَهُ الله مِنَ التَّقِيَّةِ فَوَ الله لَقَدْ عَلِمَ أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي عَمَّارٍ وَأَصْحَابِهِ إِلا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمانِ

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کس چیز نے میثم علیہ الرحمہ کو تقیہ سے منع کیا تھا خدا کی قسم وہ اس آیت کو جانتے تھے، مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو مگر اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو عمار اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

حدیث نمبر 16

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ شُعَيْبٍ الْحَدَّادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّمَا جُعِلَتِ التَّقِيَّةُ لِيُحْقَنَ بِهَا الدَّمُ فَإِذَا بَلَغَ الدَّمَ فَلَيْسَ تَقِيَّةٌ۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تقیہ خدا اور رسول نے اس لیے رکھا ہے تاکہ مومن کا خون نہ بہے اور اگر خون بہنے سے روکنا تقیہ سے ممکن نہ ہو تو پھر تقیہ جائز نہیں۔

حدیث نمبر 17

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كُلَّمَا تَقَارَبَ هَذَا الأمْرُ كَانَ أَشَدَّ لِلتَّقِيَّةِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جب ظہور حضرت حجت کا وقت قریب ہو تو تقیہ اور زیادہ سختی سے ہونا چاہیے۔

حدیث نمبر 18

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ الْجُعْفِيِّ وَمُعَمَّرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَامٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ وَزُرَارَةَ قَالُوا سَمِعْنَا أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ التَّقِيَّةُ فِي كُلِّ شَيْ‏ءٍ يُضْطَرُّ إِلَيْهِ ابْنُ آدَمَ فَقَدْ أَحَلَّهُ الله لَه۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے تقیہ ہر اس شے میں ہے جس کے معاملہ میں انسان مضطر ہو اللہ نے یہ اس کے لیے حلال کیا ہے۔

حدیث نمبر19

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ التَّقِيَّةُ تُرْسُ الله بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَلْقِهِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے تقیہ سپر ہے اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان۔

حدیث نمبر 20

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَمْزَةَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) خَالِطُوهُمْ بِالْبَرَّانِيَّةِ وَخَالِفُوهُمْ بِالْجَوَّانِيَّةِ إِذَا كَانَتِ الإمْرَةُ صِبْيَانِيَّةً۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مخالفین سے بظاہر میل ملت رکھو اور باطن میں مخالفت رکھو جبکہ حکومت بازیچہ اطفال ہو۔

حدیث نمبر 21

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ زَكَرِيَّا الْمُؤْمِنِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَسَدٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَطَاءٍ قَالَ قُلْتُ لأبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) رَجُلانِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ أُخِذَا فَقِيلَ لَهُمَا ابْرَأَا مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَبَرِئَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا وَأَبَى الآخَرُ فَخُلِّيَ سَبِيلُ الَّذِي بَرِئَ وَقُتِلَ الآخَرُ فَقَالَ أَمَّا الَّذِي بَرِئَ فَرَجُلٌ فَقِيهٌ فِي دِينِهِ وَأَمَّا الَّذِي لَمْ يَبْرَأْ فَرَجُلٌ تَعَجَّلَ إِلَى الْجَنَّةِ۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ کوفہ کے دو شیعہ بنی امیہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ ان سے کہا گیا تم امیر المومنین پر تبرا کرو۔ ان میں سے ایک نے کیا دوسرے نے انکار کر دیا۔ جس نے تبرا کیا تھا اسے چھوڑ دیا دوسرے کو قتل کر دیا گیا۔ حضرت نے فرمایا جس نے تبرا کیا وہ علم دین کا عالم تھا اور جس نے تبرا نہ کیا اس نے جنت کی طرف جانے میں جلدی کی۔

حدیث نمبر 22

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) احْذَرُوا عَوَاقِبَ الْعَثَرَاتِ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے لغزشوں کے انجام سے ڈرو۔

حدیث نمبر 23

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ التَّقِيَّةُ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ وَالتَّقِيَّةُ حِرْزُ الْمُؤْمِنِ وَلا إِيمَانَ لِمَنْ لا تَقِيَّةَ لَهُ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَقَعُ إِلَيْهِ الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِنَا فَيَدِينُ الله عَزَّ وَجَلَّ بِهِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَيَكُونُ لَهُ عِزّاً فِي الدُّنْيَا وَنُوراً فِي الآخِرَةِ وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَقَعُ إِلَيْهِ الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِنَا فَيُذِيعُهُ فَيَكُونُ لَهُ ذُلاً فِي الدُّنْيَا وَيَنْزِعُ الله عَزَّ وَجَلَّ ذَلِكَ النُّورَ مِنْهُ۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا کہ تقیہ مومن کے سپر ہے اور تقیہ مومن کے لیے حرز ہے جس کے لیے تقیہ نہیں اس کے لیے ایمان نہیں جو ہماری حدیث کو سنے اور اسکی اشاعت نہ کرے تو اس کے لیے دنیا میں ذلت ہو گی اور اللہ اس کے دل سے نور نکال لے گا۔