مؤلف الشیخ مولانا محمد بن یعقوب الکلینی

مترجم مفسرِ قرآن مولانا سید ظفر حسن نقوی

مومن اور اس کی علامات و صفات

(4-99)

حدیث نمبر 1

مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ دَاهِرٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ يَحْيَى عَنْ قُثَمَ أَبِي قَتَادَةَ الْحَرَّانِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَامَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ هَمَّامٌ وَكَانَ عَابِداً نَاسِكاً مُجْتَهِداً إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) وَهُوَ يَخْطُبُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ صِفْ لَنَا صِفَةَ الْمُؤْمِنِ كَأَنَّنَا نَنْظُرُ إِلَيْهِ فَقَالَ يَا هَمَّامُ الْمُؤْمِنُ هُوَ الْكَيِّسُ الْفَطِنُ بِشْرُهُ فِي وَجْهِهِ وَحُزْنُهُ فِي قَلْبِهِ أَوْسَعُ شَيْ‏ءٍ صَدْراً وَأَذَلُّ شَيْ‏ءٍ نَفْساً زَاجِرٌ عَنْ كُلِّ فَانٍ حَاضٌّ عَلَى كُلِّ حَسَنٍ لا حَقُودٌ وَلا حَسُودٌ وَلا وَثَّابٌ وَلا سَبَّابٌ وَلا عَيَّابٌ وَلا مُغْتَابٌ يَكْرَهُ الرِّفْعَةَ وَيَشْنَأُ السُّمْعَةَ طَوِيلُ الْغَمِّ بَعِيدُ الْهَمِّ كَثِيرُ الصَّمْتِ وَقُورٌ ذَكُورٌ صَبُورٌ شَكُورٌ مَغْمُومٌ بِفِكْرِهِ مَسْرُورٌ بِفَقْرِهِ سَهْلُ الْخَلِيقَةِ لَيِّنُ الْعَرِيكَةِ رَصِينُ الْوَفَاءِ قَلِيلُ الأذَى لا مُتَأَفِّكٌ وَلا مُتَهَتِّكٌ إِنْ ضَحِكَ لَمْ يَخْرَقْ وَإِنْ غَضِبَ لَمْ يَنْزَقْ ضِحْكُهُ تَبَسُّمٌ وَاسْتِفْهَامُهُ تَعَلُّمٌ وَمُرَاجَعَتُهُ تَفَهُّمٌ كَثِيرٌ عِلْمُهُ عَظِيمٌ حِلْمُهُ كَثِيرُ الرَّحْمَةِ لا يَبْخَلُ وَلا يَعْجَلُ وَلا يَضْجَرُ وَلا يَبْطَرُ وَلا يَحِيفُ فِي حُكْمِهِ وَلا يَجُورُ فِي عِلْمِهِ نَفْسُهُ أَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ وَمُكَادَحَتُهُ أَحْلَى مِنَ الشَّهْدِ لا جَشِعٌ وَلا هَلِعٌ وَلا عَنِفٌ وَلا صَلِفٌ وَلا مُتَكَلِّفٌ وَلا مُتَعَمِّقٌ جَمِيلُ الْمُنَازَعَةِ كَرِيمُ الْمُرَاجَعَةِ عَدْلٌ إِنْ غَضِبَ رَفِيقٌ إِنْ طَلَبَ لا يَتَهَوَّرُ وَلا يَتَهَتَّكُ وَلا يَتَجَبَّرُ خَالِصُ الْوُدِّ وَثِيقُ الْعَهْدِ وَفِيُّ الْعَقْدِ شَفِيقٌ وَصُولٌ حَلِيمٌ خَمُولٌ قَلِيلُ الْفُضُولِ رَاضٍ عَنِ الله عَزَّ وَجَلَّ مُخَالِفٌ لِهَوَاهُ لا يَغْلُظُ عَلَى مَنْ دُونَهُ وَلا يَخُوضُ فِيمَا لا يَعْنِيهِ نَاصِرٌ لِلدِّينِ مُحَامٍ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ كَهْفٌ لِلْمُسْلِمِينَ لا يَخْرِقُ الثَّنَاءُ سَمْعَهُ وَلا يَنْكِي الطَّمَعُ قَلْبَهُ وَلا يَصْرِفُ اللَّعِبُ حُكْمَهُ وَلا يُطْلِعُ الْجَاهِلَ عِلْمَهُ قَوَّالٌ عَمَّالٌ عَالِمٌ حَازِمٌ لا بِفَحَّاشٍ وَلا بِطَيَّاشٍ وَصُولٌ فِي غَيْرِ عُنْفٍ بَذُولٌ فِي غَيْرِ سَرَفٍ لا بِخَتَّالٍ وَلا بِغَدَّارٍ وَلا يَقْتَفِي أَثَراً وَلا يَحِيفُ بَشَراً رَفِيقٌ بِالْخَلْقِ سَاعٍ فِي الأرْضِ عَوْنٌ لِلضَّعِيفِ غَوْثٌ لِلْمَلْهُوفِ لا يَهْتِكُ سِتْراً وَلا يَكْشِفُ سِرّاً كَثِيرُ الْبَلْوَى قَلِيلُ الشَّكْوَى إِنْ رَأَى خَيْراً ذَكَرَهُ وَإِنْ عَايَنَ شَرّاً سَتَرَهُ يَسْتُرُ الْعَيْبَ وَيَحْفَظُ الْغَيْبَ وَيُقِيلُ الْعَثْرَةَ وَيَغْفِرُ الزَّلَّةَ لا يَطَّلِعُ عَلَى نُصْحٍ فَيَذَرَهُ وَلا يَدَعُ جِنْحَ حَيْفٍ فَيُصْلِحَهُ أَمِينٌ رَصِينٌ تَقِيٌّ نَقِيٌّ زَكِيٌّ رَضِيٌّ يَقْبَلُ الْعُذْرَ وَيُجْمِلُ الذِّكْرَ وَيُحْسِنُ بِالنَّاسِ الظَّنَّ وَيَتَّهِمُ عَلَى الْعَيْبِ نَفْسَهُ يُحِبُّ فِي الله بِفِقْهٍ وَعِلْمٍ وَيَقْطَعُ فِي الله بِحَزْمٍ وَعَزْمٍ لا يَخْرَقُ بِهِ فَرَحٌ وَلا يَطِيشُ بِهِ مَرَحٌ مُذَكِّرٌ لِلْعَالِمِ مُعَلِّمٌ لِلْجَاهِلِ لا يُتَوَقَّعُ لَهُ بَائِقَةٌ وَلا يُخَافُ لَهُ غَائِلَةٌ كُلُّ سَعْيٍ أَخْلَصُ عِنْدَهُ مِنْ سَعْيِهِ وَكُلُّ نَفْسٍ أَصْلَحُ عِنْدَهُ مِنْ نَفْسِهِ عَالِمٌ بِعَيْبِهِ شَاغِلٌ بِغَمِّهِ لا يَثِقُ بِغَيْرِ رَبِّهِ غَرِيبٌ وَحِيدٌ جَرِيدٌ حَزِينٌ يُحِبُّ فِي الله وَيُجَاهِدُ فِي الله لِيَتَّبِعَ رِضَاهُ وَلا يَنْتَقِمُ لِنَفْسِهِ بِنَفْسِهِ وَلا يُوَالِي فِي سَخَطِ رَبِّهِ مُجَالِسٌ لأهْلِ الْفَقْرِ مُصَادِقٌ لأهْلِ الصِّدْقِ مُؤَازِرٌ لأهْلِ الْحَقِّ عَوْنٌ لِلْقَرِيبِ أَبٌ لِلْيَتِيمِ بَعْلٌ لِلأرْمَلَةِ حَفِيٌّ بِأَهْلِ الْمَسْكَنَةِ مَرْجُوٌّ لِكُلِّ كَرِيهَةٍ مَأْمُولٌ لِكُلِّ شِدَّةٍ هَشَّاشٌ بَشَّاشٌ لا بِعَبَّاسٍ وَلا بِجَسَّاسٍ صَلِيبٌ كَظَّامٌ بَسَّامٌ دَقِيقُ النَّظَرِ عَظِيمُ الْحَذَرِ لا يَجْهَلُ وَإِنْ جُهِلَ عَلَيْهِ يَحْلُمُ لا يَبْخَلُ وَإِنْ بُخِلَ عَلَيْهِ صَبَرَ عَقَلَ فَاسْتَحْيَا. وَقَنِعَ فَاسْتَغْنَى حَيَاؤُهُ يَعْلُو شَهْوَتَهُ وَوُدُّهُ يَعْلُو حَسَدَهُ وَعَفْوُهُ يَعْلُو حِقْدَهُ لا يَنْطِقُ بِغَيْرِ صَوَابٍ وَلا يَلْبَسُ إِلا الإقْتِصَادِ مَشْيُهُ التَّوَاضُعُ خَاضِعٌ لِرَبِّهِ بِطَاعَتِهِ رَاضٍ عَنْهُ فِي كُلِّ حَالاتِهِ نِيَّتُهُ خَالِصَةٌ أَعْمَالُهُ لَيْسَ فِيهَا غِشٌّ وَلا خَدِيعَةٌ نَظَرُهُ عِبْرَةٌ سُكُوتُهُ فِكْرَةٌ وَكَلامُهُ حِكْمَةٌ مُنَاصِحاً مُتَبَاذِلاً مُتَوَاخِياً نَاصِحٌ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ لا يَهْجُرُ أَخَاهُ وَلا يَغْتَابُهُ وَلا يَمْكُرُ بِهِ وَلا يَأْسَفُ عَلَى مَا فَاتَهُ وَلا يَحْزَنُ عَلَى مَا أَصَابَهُ وَلا يَرْجُو مَا لا يَجُوزُ لَهُ الرَّجَاءُ وَلا يَفْشَلُ فِي الشِّدَّةِ وَلا يَبْطَرُ فِي الرَّخَاءِ يَمْزُجُ الْحِلْمَ بِالْعِلْمِ وَالْعَقْلَ بِالصَّبْرِ تَرَاهُ بَعِيداً كَسَلُهُ دَائِماً نَشَاطُهُ قَرِيباً أَمَلُهُ قَلِيلاً زَلَلُهُ مُتَوَقِّعاً لأجَلِهِ خَاشِعاً قَلْبُهُ ذَاكِراً رَبَّهُ قَانِعَةً نَفْسُهُ مَنْفِيّاً جَهْلُهُ سَهْلاً أَمْرُهُ حَزِيناً لِذَنْبِهِ مَيِّتَةً شَهْوَتُهُ كَظُوماً غَيْظَهُ صَافِياً خُلُقُهُ آمِناً مِنْهُ جَارُهُ ضَعِيفاً كِبْرُهُ قَانِعاً بِالَّذِي قُدِّرَ لَهُ مَتِيناً صَبْرُهُ مُحْكَماً أَمْرُهُ كَثِيراً ذِكْرُهُ يُخَالِطُ النَّاسَ لِيَعْلَمَ وَيَصْمُتُ لِيَسْلَمَ وَيَسْأَلُ لِيَفْهَمَ وَيَتَّجِرُ لِيَغْنَمَ لا يُنْصِتُ لِلْخَبَرِ لِيَفْجُرَ بِهِ وَلا يَتَكَلَّمُ لِيَتَجَبَّرَ بِهِ عَلَى مَنْ سِوَاهُ نَفْسُهُ مِنْهُ فِي عَنَاءٍ وَالنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ أَتْعَبَ نَفْسَهُ لآِخِرَتِهِ فَأَرَاحَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِهِ إِنْ بُغِيَ عَلَيْهِ صَبَرَ حَتَّى يَكُونَ الله الَّذِي يَنْتَصِرُ لَهُ بُعْدُهُ مِمَّنْ تَبَاعَدَ مِنْهُ بُغْضٌ وَنَزَاهَةٌ وَدُنُوُّهُ مِمَّنْ دَنَا مِنْهُ لِينٌ وَرَحْمَةٌ لَيْسَ تَبَاعُدُهُ تَكَبُّراً وَلا عَظَمَةً وَلا دُنُوُّهُ خَدِيعَةً وَلا خِلابَةً بَلْ يَقْتَدِي بِمَنْ كَانَ قَبْلَهُ مِنْ أَهْلِ الْخَيْرِ فَهُوَ إِمَامٌ لِمَنْ بَعْدَهُ مِنْ أَهْلِ الْبِرِّ قَالَ فَصَاحَ هَمَّامٌ صَيْحَةً ثُمَّ وَقَعَ مَغْشِيّاً عَلَيْهِ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) أَمَا وَالله لَقَدْ كُنْتُ أَخَافُهَا عَلَيْهِ وَقَالَ هَكَذَا تَصْنَعُ الْمَوْعِظَةُ الْبَالِغَةُ بِأَهْلِهَا فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ فَمَا بَالُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ إِنَّ لِكُلٍّ أَجَلاً لا يَعْدُوهُ وَسَبَباً لا يُجَاوِزُهُ فَمَهْلاً لا تُعِدْ فَإِنَّمَا نَفَثَ عَلَى لِسَانِكَ شَيْطَانٌ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ جب امیر المومنین علیہ السلام خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص جو عابد و زاہد و مجتہد تھا کھڑے ہو کر کہنے لگا اے امیر المومنین آپ مومن کا وصف اس طرح بیان کریں گویا ہم اس کو دیکھ رہے ہیں۔ فرمایا اے ہمام مومن زیرک و دانا ہوتا ہے چہرہ بشاش، دل حزن آگیں، کشادہ سینہ ازروئے نفس ذلیل ہر فانی شے کو حقیر سمجھنے والا۔ حریص ہے ہر قسم کی نیکی پر نہ کینہ ور ہے نہ حاسد ہے نہ جھگڑالو ہے نہ گلیارا نہ عیب جو نہ غیبت گو، سربلندی کو برا جانتا ہے اور ریا کو معیوب جانتا ہے اس کا غم طولانی ہوتا ہے اور ارادہ کا پختہ ہوتا ہے خاموش زیادہ رہتا ہے صاحبِ وقار ہوتا ہے غصہ میں آپے سے باہر نہیں ہوتا، ذکر الہٰی کرنے والا ہوتا ہے صبر و شکر کرنےو الا ہوتا ہے فکر آخرت میں مغموم رہتا ہے اپنے فقر میں خوش رہتا ہے اس کی طبیعت میں خشونت نہیں ہوتی نرم طبیعت، وفائے عہد پر قائم رہنے والا ہوتا ہے لوگوں کو اذیت بہت کم دیتا ہے تہمت تراشی نہیں کرتا، کسی کی ہتک نہیں کرتا، اگر ہنستا ہے تو گلا نہیں پھاڑتا۔ اگر غصہ ہوتا ہے تو خفیف الحرکات نہیں بنتا اس کا ہنسنا مسکرانا ہوتا ہےاور اس کا سوال علم حاصل ہوتا ہے اور کسی کی طرف اس کا رجوع کرنا کچھ سمجھنے کے لیے ہوتا ہے اس کا علم زیادہ ہوتا ہے اور حلم عظیم الشان، رحم زیادہ کرتا ہے بخل سے دور رہتا ہے کام میں جلدی نہیں کرتا نہ کسی بات سے دل تنگ ہوتا ہے اور نہ اتراتا ہے نہ اپنے حکم میں ظلم کرتا ہے اور نہ اپنے علم میں اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اور مصائب کی برداشت میں اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے اور امور معاش میں اس کی سعی شہد کی طرح میٹھی ہوتی ہے (یعنے کسی کے لیے باعثِ تکلیف نہیں بنتا) اور ایسا حریص نہیں بنتا کہ دوسروں کے حق پر ہاتھ مارے اور نہ بیقرار ظاہر کرنے والا ہوتا ہے نہ سخت مزاج اور نہ شیخی باز اور نہ تکلیف پسند اور نہ معاملاتِ دنیا میں زیادہ غور کرنے والا، اگر کسی سے نزاع کرتا ہے تو بحسن و خوبی بزرگ طبیعت ہوتا ہے اگر غصہ آئے تو عدل سے کام لیتا ہے اس سے کچھ مانگا جائے تو نرمی کا برتاؤ کرتا ہے تھوڑے سے کام نہیں لیتا، ہتک نہیں کرتا جبر نہیں کرتا سچی محبت رکھتا ہے وعدہ کا پکا اور عہد کا پورا ہوتا ہے لوگوں پر مہربان ان تک پہنچنے والا، بردبار، گم نامی میں بسر کرنے والا۔ فضول بات کم کرنے والا، اپنے اللہ سے راضی رہنے والا، اپنی خواہشوں کے خلاف کرنے والا اور اپنے سے کم پر سختی نہ کرنے والا، غیر متعلق چیزوں پر غور و فکر نہیں کرتا، دین کا ناصر ہوتا ہے، مومنوں سے دفع ضرر کرنے والا، مسلمان کو پناہ دینے والا، مدح اس کے کانوں کو اچھی نہیں لگتی اور طمع اس کے دل کو زخمی نہیں کرتی اور لہو و لعب اس کو حکمت سے باز نہیں رکھتی، جاہل اس کے علم سے واقف نہیں ہوتا۔ دین حق کی تائید میں سب سے زیادہ بولنے والا، دین کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے والا عالم و دانا ہوتا ہتے فخش گوئی نہیں کرتا، تند خو نہیں ہوتا، دوستوں پر بغیر بار ہوئے ان سے تعلق رکھنے والا، خرچ کرنے والا مگر اسراف سے بچ کر، نہ کسی سے حیلہ و فریب کرتا ہے نہ غداری اور پیروی نہیں کرتا کسی ایسی چیز کی جس سے کسی کا عیب ظاہر ہو اور نہ کسی بشر پر ظلم کرتا ہے لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور زمین پر لوگوں کے لیے سعی کرتا ہے کمزوروں کا مددگار ہے مصیبت زدوں کا فریاد رس ہے وہ کسی کی پردہ دری نہیں کرتا اور نہ کسی کا بھید کھولتا ہے اس کو مصائب کا سامنا زیادہ ہوتا ہے مگر وہ حرف شکایت زبان پر نہیں لاتا، اگر نیکی دیکھتا تو اس کا ذکر کرتا ہے اور اگر بدی دیکھتا ہے تو اس کو چھپاتا ہے لوگوں کے عیب چھپاتا ہے اور نگاہ رکھتا ہے غائبانہ لوگوں کے عذرِ خطا کو قبول کرتا ہے اور غلطی کو معاف کر دیتا ہے جب اچھی بات پر اطلاع پاتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں اور برائی کی اصلاح کیے بغیر نہیں رہتا وہ امانت دار ہے پرہیزگار ہے باطن صاف ہے طبع پاک ہے لوگ اس سے راضی ہیں وہ خطاکاروں کے عذر کو قبول کرتا ہے اور احسن عنوان سے ذکر کرتا ہے لوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہے اور پوشیدہ باتوں کے معلوم کرنے کے شوق پر اپنے نفس پر الزام لگاتا ہے۔ اور اپنی دینداری اور علم کی بناء پر کسی کو قربۃً الی اللہ رکھتا ہے اور قطع تعلق کرتا ہے برائے خدا اس سے جو بدی کا ارادہ رکھتے ہوئے ہو خوشی اسے بے عقل نہیں بتاتی اور نہ راحت رسانی اسے تند مزاجی پر مائل کرتی ہے عالم کو آخرت کی یاد دلانے والا ہے جاہل کو تعلیم دینے والا ہے اس سے کسی مصیبت کے نازل کرنے کی امید نہیں کی جاتی اور نہ کسی حادثہ کا خوف کیا جاتا ہے۔ راہ خدا میں وہ اپنی ہر کوشش کو وہ اپنی سعی سے زیادہ خالص جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہر نفس اس سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے وہ اپنے عیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غم آخرت میں مشغول رہتا ہے وہ خدا کے سوا کسی چیز پر بھروسہ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں مسافرانہ زندگی بسر کرتا ہے وہ تنہائی پسند ہے نجاتِ آخرت کے لیے محزون رہتا ہے وہ خوشنودی خدا کے لیے کسی کو دوست رکھتا ہے اور رضائے الہٰی کے لیے جہاد کرتا ہے اپنے نفس کے لیے انتقام نہیں لیتا بلکہ اس انتقام کو خدا پر چھوڑتا ہے اور دوستی نہیں کرتا اس سے جو دشمن خدا ہو۔ اہل فقر کی صبحت میں بیٹھتا ہے اور راست گو لوگوں سے ملتا جلتا ہے، مددگار ہے اہل حق کا، قرابتداروں کا معین ہے یتیموں کا باپ ہے بیواؤں کا مددگار ہے اور مصیبت زدوں پر مہربان ہے ہر مصیبت میں لوگوں کو اس سے مدد کی امید کی جاتی ہے اور ہر سختی میں وہ مرجع امید رہتا ہے کشادہ رو ہے خوش رہنے والا ہے وہ ترش رو نہیں عیب جو نہیں، امر دین میں مستحکم، غصہ کا پینے والا تبسم کرنے والا، دقیق النظر، احتیاط سے کام لینے والا بخل پسند نہیں، اگر اس کا حق دینے میں لوگ بخل کریں تو صبر کرتا ہے بری باتوں کو جان کر ان کے بجا لانے سے حیا کرتا ہے قناعت کی وجہ سے غنی ہے اس کی حیا اس کی خواہش پر غالب آتی اور اس کی محبت حس کے جذبہ کو پیدا نہیں ہونے دیتی۔ اسی کی بخشش اس کے کینہ پر غالب آتی ہے سوائے صحیح بات کے نہیں بولتا اور اس کا لباس میانہ روی ہے اس کی چال تواضع ہے وہ اپنی اطاعت میں اپنے رب کے سامنے اظہار عجز و نیاز کرنے والا ہے اور ہر حالت میں اس سے راضی رہتا ہے اس کی نیت خالص ہوتی ہے اس کے عمل میں کھوٹ نہیں ہوتی اور نہ فریب ہوتا ہے اس کی نگاہ عبرت آگیں ہے اس کے دل کا سکون فکر آخرت میں ہے وہ نصیحت کرنے والا ہے خرچ کرنے والا ہے برادری کا قائم کرنے والا ہے ظاہر و باطن ہر حالت میں نصیحت کرنے والا ہے برادر مومن سے ترک تعلق نہیں کرتا اور نہ اس کی غیبت کرتا ہے اور نہ اس سے مکر کرتا ہے اور جو چیز ہاتھ سے جاتی رہی اس پر افسوس نہیں کرتا اور جو مصیبت آتی ہے اس پر رنجیدہ نہیں ہوتا اور اس چیز کی امید نہیں کرتا جس کی امید کرنا جائز نہیں، سختی کے اوقات میں سست نہیں ہوتا اور عیش پر اتراتا نہیں حلم کے ساتھ علم کو لیے رہتا ہے اور عقل کے ساتھ صبر کو تم اس کو دیکھو گے کہ وہ کل سے دور ہو گا ہمیشہ خوش رہنے والا ہو گا۔ امید اس سے قریب ہو گی لغزش اس سے کم ہو گی اپنی موت کا امیدوار ہو گا اس کے دل میں خشوع ہو گا اپنے رب کا ذکر کرنے والا ہو گا اس کے نفس میں قناعت ہو گی جہالت کو روکنے والا ہو گا اس کا امر آخرت آسان ہو گا اپنے گناہوں کے تصور سے رنجیدہ رہتا ہو گا اس کی خواہش مردہ ہو گی غصہ کو پینے والا ہو گا اس کے اخلاق پاک ہوں گے اس کا ہمسایہ اس سے پرامن ہو گا۔
اس کا تکبر کمزور ہوتا ہے اور جو خدا نے اس کے لیے مقدر کر دیا ہے اس پر قانع ہوتا ہے اس کا صبر پختہ ہوتا ہے اس کا امر دین مستحکم ہوتا ہے اس کا ذکر زیادہ ہوتا ہے وہ لوگوں سے علم حاصل کرنے کے لیے ملتا ہے اور سمجھنے کے لیے سوال کرتا ہے اور تجارت کرتا ہے تاکہ فائدہ پائے اور امر حق کو اس لیے نہیں سنتا کہ فخر کرے اور نہیں کلام کرتا اس لیے کہ دوسرے لوگوں پر اپنی بزرگی ظاہر کرے اور خود رنج اٹھاتا ہے اور لوگ اس سے راحت میں رہتے ہیں اپنی آخرت کی بہتری کے لیے اپنے نفس کو تعب میں ڈالتا ہے اور دوسروں کو آرام پہنچاتا ہے اگر اس سے بغاوت کی جائے تو صبر کرتا ہے تاکہ اللہ اس سے آخرت میں یا اس دنیا میں بدلہ لے اور اس کا دور رہنا کسی سے محض دین کی مخالفت میں ہوتا ہے اور فساد سے بچنے کے لیے اور اس کی نزدیکی نرمی اور رحمت کے لیے ہوتی ہے اس کا لوگوں سے دور رہنا اظہار تکبر و عظمت کے لیے نہیں ہوتا اور نہ اس کا میل جول مکر و فریب کے لیے ہوتا ہے بلکہ وہ پیروی کرتا ہے ان اصحاب خیر کی جو اس سے پہلے تھے لہذا وہ پیشوا ہوتا ہے اپنے بعد والے نیکوکاروں کا۔
یہ سن کر ہمام نے چیخ ماری اور مردہ ہو کر گر پڑا۔ امیر المومنین نے فرمایا خدا کی قسم اس کے متعلق اسی بات کا مجھے خوف تھا اور فرمایا کہ موثر موعظہ کا اہل لوگوں پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے۔ کسی کہنے والے نے کہا اے امیر المومنین آپ نے یہ کیا کیا۔ فرمایا ہر شخص کی موت کا ایک وقت ہے جو نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے اور ہر ایک کے لیے مرنے کا ایک سبب ہوتا ہے ٹھہر جا گستاخانہ بات نہ کر۔ بے شک شیطان نے تیرے اندر پھونک ماری ہے جو تیری زبان پر یہ لفظ آئے۔

حدیث نمبر 2

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ غَالِبٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ فِيهِ ثَمَانُ خِصَالٍ وَقُورٌ عِنْدَ الْهَزَاهِزِ صَبُورٌ عِنْدَ الْبَلاءِ شَكُورٌ عِنْدَ الرَّخَاءِ قَانِعٌ بِمَا رَزَقَهُ الله لا يَظْلِمُ الأعْدَاءَ وَلا يَتَحَامَلُ لِلأصْدِقَاءِ بَدَنُهُ مِنْهُ فِي تَعَبٍ وَالنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ إِنَّ الْعِلْمَ خَلِيلُ الْمُؤْمِنِ وَالْحِلْمَ وَزِيرُهُ وَالصَّبْرَ أَمِيرُ جُنُودِهِ وَالرِّفْقَ أَخُوهُ وَاللِّينَ وَالِدُهُ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ مومن میں آٹھ خصلتیں ہونی چاہیں جب لوگ مضطر ہوں تو وہ صاحبِ وقار ہو، مصیبتوں میں صبر کرنے والا ہو، نعمتوں میں شکر کرنے والا ہو، جو رزق اللہ نے دیا ہے اس پر قانع ہو، دشمنوں پر بھی ظلم نہ کرے، اپنا بار دشمنوں پر نہ ڈالے، بدن اس کا تعب ہو اور لوگ اس سے راحت میں ہوں علم مومن کا دوست ہے اور حلم اس کا وزیر ہے اور صبر اس کے لشکر کا امیر ہے اور مہربانی اس کا بھائی ہے اور نرمی اس کا باپ۔

حدیث نمبر 3

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ يَصْمُتُ لِيَسْلَمَ وَيَنْطِقُ لِيَغْنَمَ لا يُحَدِّثُ أَمَانَتَهُ الأصْدِقَاءَ وَلا يَكْتُمُ شَهَادَتَهُ مِنَ الْبُعَدَاءِ وَلا يَعْمَلُ شَيْئاً مِنَ الْخَيْرِ رِيَاءً وَلا يَتْرُكُهُ حَيَاءً إِنْ زُكِّيَ خَافَ مِمَّا يَقُولُونَ وَيَسْتَغْفِرُ الله لِمَا لا يَعْلَمُونَ لا يَغُرُّهُ قَوْلُ مَنْ جَهِلَهُ وَيَخَافُ إِحْصَاءَ مَا عَمِلَهُ۔

فرمایا علی بن الحسین علیہ السلام نے مومن خاموش رہتا ہے تاکہ لوگوں کے اعتراضات سے بچا رہے اور بولتا ہے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں جو راز دوستوں کے ہیں انہیں بیان نہیں کرتا اور دور رہنے والوں سے اپنی گواہی نہیں لیتا اور ریا سے کوئی عمل خیر نہیں کرتا اور نہ شرم سے اسے چھوڑتا ہے اگر لوگ تعریف کرتے ہیں تو اپنے میں غرور پیدا ہونے سے ڈرتا ہے اور جو عیب اس کے لوگ نہیں جانتے اس کے لیے اللہ سے استغفار کرتا ہے اور نہیں مغرور ہوتا ان لوگوں کی تعریف سے جو اس کے حال سے ناواقف ہیں اور خوف کرتا ہے شمار کیے جانے سے اپنے اعمال کے۔

حدیث نمبر 4

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ بَعْضِ مَنْ رَوَاهُ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ لَهُ قُوَّةٌ فِي دِينٍ وَحَزْمٌ فِي لِينٍ وَإِيمَانٌ فِي يَقِينٍ وَحِرْصٌ فِي فِقْهٍ وَنَشَاطٌ فِي هُدًى وَبِرٌّ فِي اسْتِقَامَةٍ وَعِلْمٌ فِي حِلْمٍ وَكَيْسٌ فِي رِفْقٍ وَسَخَاءٌ فِي حَقٍّ وَقَصْدٌ فِي غِنًى وَتَجَمُّلٌ فِي فَاقَةٍ وَعَفْوٌ فِي قُدْرَةٍ وَطَاعَةٌ لله فِي نَصِيحَةٍ وَانْتِهَاءٌ فِي شَهْوَةٍ وَوَرَعٌ فِي رَغْبَةٍ وَحِرْصٌ فِي جِهَادٍ وَصَلاةٌ فِي شُغُلٍ وَصَبْرٌ فِي شِدَّةٍ وَفِي الْهَزَاهِزِ وَقُورٌ وَفِي الْمَكَارِهِ صَبُورٌ وَفِي الرَّخَاءِ شَكُورٌ وَلا يَغْتَابُ وَلا يَتَكَبَّرُ وَلا يَقْطَعُ الرَّحِمَ وَلَيْسَ بِوَاهِنٍ وَلا فَظٍّ وَلا غَلِيظٍ وَلا يَسْبِقُهُ بَصَرُهُ وَلا يَفْضَحُهُ بَطْنُهُ وَلا يَغْلِبُهُ فَرْجُهُ وَلا يَحْسُدُ النَّاسَ يُعَيَّرُ وَلا يُعِيِّرُ وَلا يُسْرِفُ يَنْصُرُ الْمَظْلُومَ وَيَرْحَمُ الْمِسْكِينَ نَفْسُهُ مِنْهُ فِي عَنَاءٍ وَالنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ لا يَرْغَبُ فِي عِزِّ الدُّنْيَا وَلا يَجْزَعُ مِنْ ذُلِّهَا لِلنَّاسِ هَمٌّ قَدْ أَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَلَهُ هَمٌّ قَدْ شَغَلَهُ لا يُرَى فِي حُكْمِهِ نَقْصٌ وَلا فِي رَأْيِهِ وَهْنٌ وَلا فِي دِينِهِ ضَيَاعٌ يُرْشِدُ مَنِ اسْتَشَارَهُ وَيُسَاعِدُ مَنْ سَاعَدَهُ وَيَكِيعُ عَنِ الْخَنَا وَالْجَهْلِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے دین کے معاملہ میں مومن کو قوت ہوتی ہے اور احتیاط سے کام لیتا ہے نرمی میں اس کا ایمان یقین کے ساتھ ہے اور وہ حریص ہوتا ہے تحصیل علم دین میں، خوش ہوتا ہے ہدایت سے اور نیکی پر قائم رہتا ہے اور حلم کا دانا ہوتا ہے اور ہوشیار ہے نرمی کرنے میں، امر حق میں سخی ہے اور مالداری میں میانہ رو ہے۔ فاقہ میں اپنی شان باقی رکھتا ہے اور باوجود قدرت انتقال معاف کرتا ہے اور نصیحت حاصل کر کے طاعت خدا میں رہتا ہے اور خواہشات سے باز رہتا ہے اور زہد کی طرف رغبت رکھتا ہے اور جہاد کا حریص ہے اور باوجود مصروفیت نماز ادا کرتا ہے اور سختی میں صبر کرتا ہے اور اضطراب کے عالم میں صاحبِ وقار ہوتا ہے مصیبتوں میں صبر کرتا ہے عیش میں شکر کرتا ہے۔ نہ غیبت کرتا ہے نہ تکبر اور نہ قطع رحم کرتا ہے اور سست نہ ترش رو ہے اور نہ سخت دل اور نہ ادھر ادھر نگاہ ڈالتا ہے اور اس کا شکم اسے رسوا نہیں کرتا (بے طلب کھانے پر) اور نہ شرمگاہ اس پر غالب آتی ہے (زنا نہیں کرتا) اور لوگوں پر حسد نہیں کرتا نادان اسے عیب لگاتے ہیں وہ کسی کو عیب نہیں لگاتا، وہ فضول خرچی نہیں کرتا، مظلوم کی مدد کرتا ہے، مسکین پر رحم کرتا ہے اس کا نفس تکلیف میں رہتا ہے مگر لوگ اس سے راحت میں رہتے ہیں، وہ عزت دنیا کی طرف راغب نہیں ہوتا اور نہ اس کی ذلت سے گھبراتا ہے لوگوں کو اس کو فکر ہے کہ وہ کارہائے دنیا کی طرف متوجہ ہیں اور اس کو یہ فکر ہے کہ وہ کارہائے دنیا میں مشغول کیوں ہے اسکے حکم میں کوتاہی نہ پاؤ گے اور اس کی رائے میں سستی نہ دیکھو گے اس کا دین ضائع نہ ہو گا۔ یعنے راہ حق سے ہٹے گا نہیں جو اس سے مشورہ کرے گا ہدایت پائے گا اور جو اس کی مدد کرے گا سعادت حاصل کرے گا اور احتزاز کرتا ہے فحش و دشنام سے۔

حدیث نمبر 5

عَنْهُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ مَرَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) بِمَجْلِسٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَإِذَا هُوَ بِقَوْمٍ بِيضٍ ثِيَابُهُمْ صَافِيَةٍ أَلْوَانُهُمْ كَثِيرٍ ضِحْكُهُمْ يُشِيرُونَ بِأَصَابِعِهِمْ إِلَى مَنْ يَمُرُّ بِهِمْ ثُمَّ مَرَّ بِمَجْلِسٍ لِلأوْسِ وَالْخَزْرَجِ فَإِذَا قَوْمٌ بُلِيَتْ مِنْهُمُ الأبْدَانُ وَدَقَّتْ مِنْهُمُ الرِّقَابُ وَاصْفَرَّتْ مِنْهُمُ الألْوَانُ وَقَدْ تَوَاضَعُوا بِالْكَلامِ فَتَعَجَّبَ عَلِيٌّ (عَلَيهِ السَّلام) مِنْ ذَلِكَ وَدَخَلَ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنِّي مَرَرْتُ بِمَجْلِسٍ لآِلِ فُلانٍ ثُمَّ وَصَفَهُمْ وَمَرَرْتُ بِمَجْلِسٍ لِلأوْسِ وَالْخَزْرَجِ فَوَصَفَهُمْ ثُمَّ قَالَ وَجَمِيعٌ مُؤْمِنُونَ فَأَخْبِرْنِي يَا رَسُولَ الله بِصِفَةِ الْمُؤْمِنِ فَنَكَسَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ عِشْرُونَ خَصْلَةً فِي الْمُؤْمِنِ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكْمُلْ إِيمَانُهُ إِنَّ مِنْ أَخْلاقِ الْمُؤْمِنِينَ يَا عَلِيُّ الْحَاضِرُونَ الصَّلاةَ وَالْمُسَارِعُونَ إِلَى الزَّكَاةِ وَالْمُطْعِمُونَ الْمِسْكِينَ الْمَاسِحُونَ رَأْسَ الْيَتِيمِ الْمُطَهِّرُونَ أَطْمَارَهُمْ الْمُتَّزِرُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمُ الَّذِينَ إِنْ حَدَّثُوا لَمْ يَكْذِبُوا وَإِذَا وَعَدُوا لَمْ يُخْلِفُوا وَإِذَا ائْتُمِنُوا لَمْ يَخُونُوا وَإِذَا تَكَلَّمُوا صَدَقُوا رُهْبَانٌ بِاللَّيْلِ أُسُدٌ بِالنَّهَارِ صَائِمُونَ النَّهَارَ قَائِمُونَ اللَّيْلَ لا يُؤْذُونَ جَاراً وَلا يَتَأَذَّى بِهِمْ جَارٌ الَّذِينَ مَشْيُهُمْ عَلَى الأرْضِ هَوْنٌ وَخُطَاهُمْ إِلَى بُيُوتِ الأرَامِلِ وَعَلَى أَثَرِ الْجَنَائِزِ جَعَلَنَا الله وَإِيَّاكُمْ مِنَ الْمُتَّقِينَ۔

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جناب امیر المومنین علیہ السلام قریش کے جلسہ کی طرف سے گزرے جو صاف ستھرے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے بہت زیادہ ہنس رہے تھے اور جو ان کی طرف سے گزرتا تھا انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ پھر حضرت اوس و خزرج کے جلسہ کی طرف سے گزرے۔ وہاں ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے بدن کمزور تھے اور گردنیں پتلی اور رنگ پیلے تھے نہایت عجز و انکسار سے بولتے تھے۔ حضرت کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا اور حضرت رسولِ خدا سے دونوں گروہوں کا حال بیان کر کے پوچھا یہ سب مومنین ہیں یا رسول اللہ، مومن کی صفت بیان کیجیے۔ حضرت نے سر جھکا لیا پھر سر اٹھا کر فرمایا مومن کی بیس خصلتیں ہیں اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو ا س کا ایمان کامل نہیں۔ اے علی مومنین کے اخلاق میں سے یہ ہے کہ نماز میں حاضر ہوں اور جلدی کریں زکوٰۃ ادا کرنے میں، مسکینوں کو کھانا دینے والے ہیں یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرنے والے ہیں سترپوشی کے لیے ان کو ازار پہنانے والے ہیں جب بولتے ہیں تو سچ، جب وعدہ کرتے ہیں تو اس کے خلاف نہیں کرتے، اگر امین بنائے جائیں تو امانت میں خیانت نہیں کرتے جب کلام کرتے ہیں تو ان میں صداقت ہوتی ہے۔ رات میں تارک الدنیا کی طرح ریاضت کرنے والے، دن میں شیر جیسے یعنی برائیوں پر غالب، دن کو روزہ رکھتے ہیں رات کو عبادت خدا کرتے ہیں اپنے ہمسایہ کو ستاتے نہیں، نہ دانستہ اور نہ ہمسایہ کو ان سے اذیت پہنچتی ہے نادانستہ، وہ زمین پر ہلکے سے چلتے ہیں اور ان کے قدم اٹھتے ہیں بیواؤں کی امداد کے لیے اور جنازوں کی مشایعت کے لیے اللہ ہم کو اور تم کو متقیوں میں قرار دے۔

حدیث نمبر 6

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ‏۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے جو نیکی سے خوش ہو اور بدی کو برا جانے وہ مومن ہے

حدیث نمبر 7

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَعْلانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْخُرَاسَانِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ جُمَيْعٍ الْعَبْدِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ شِيعَتُنَا هُمُ الشَّاحِبُونَ الذَّابِلُونَ النَّاحِلُونَ الَّذِينَ إِذَا جَنَّهُمُ اللَّيْلُ اسْتَقْبَلُوهُ بِحُزْنٍ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ہمارے شیعہ پریدہ رنگ باریک اندام اور خودرانی نہ کرنے والے ہیں جب رات ان کو گھیر لیتی ہے تو اس کا استقبال حزن سے کرتے ہیں۔

حدیث نمبر 8

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ شِيعَتُنَا أَهْلُ الْهُدَى وَأَهْلُ التُّقَى وَأَهْلُ الْخَيْرِ وَأَهْلُ الإيمَانِ وَأَهْلُ الْفَتْحِ وَالظَّفَرِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ہمارے شیعہ صاحبِ ہدایت، صاحبِ تقویٰ، صاحبِ خیر و ایمان اور صاحب فتح و ظفر ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر 9

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ بُزُرْجَ عَنْ مُفَضَّلٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِيَّاكَ وَالسَّفِلَةَ فَإِنَّمَا شِيعَةُ عَلِيٍّ مَنْ عَفَّ بَطْنُهُ وَفَرْجُهُ وَاشْتَدَّ جِهَادُهُ وَعَمِلَ لِخَالِقِهِ وَرَجَا ثَوَابَهُ وَخَافَ عِقَابَهُ فَإِذَا رَأَيْتَ أُولَئِكَ فَأُولَئِكَ شِيعَةُ جَعْفَرٍ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے بچو پست فطرت انسان سے جو اپنے آپ کو شیعہ کہتا ہے شیعہ علی وہ ہے جس کا شکم و شرمگاہ حرام سے محفوظ ہو اور اس کا جہاد نفس سخت ہو وہ جو عمل کرے خوشنودیِ خدا کے لیے کرے اور اس سے ثواب پانے کی امیدیں کرے اور اس کے عذاب سے ڈرے، جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو تو سمجھ لو کہ یہی شیعہ جعفر ہیں۔

حدیث نمبر 10

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّ شِيعَةَ عَلِيٍّ كَانُوا خُمُصَ الْبُطُونِ ذُبُلَ الشِّفَاهِ أَهْلَ رَأْفَةٍ وَعِلْمٍ وَحِلْمٍ يُعْرَفُونَ بِالرَّهْبَانِيَّةِ فَأَعِينُوا عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِالْوَرَعِ وَالإجْتِهَادِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ شیعہ علی خالی شکم ہوتے ہیں اور مہربانی و علم و حلم۔ وہ زہد و ریاضت نفس سے پہچانے جاتے ہیں تم ان کی مدد کرو اپنی پرہیزگاری اور سعی و کوشش سے۔

حدیث نمبر 11

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُ الَّذِي إِذَا غَضِبَ لَمْ يُخْرِجْهُ غَضَبُهُ مِنْ حَقٍّ وَإِذَا رَضِيَ لَمْ يُدْخِلْهُ رِضَاهُ فِي بَاطِلٍ وَإِذَا قَدَرَ لَمْ يَأْخُذْ أَكْثَرَ مِمَّا لَهُ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن وہ ہے کہ جب غضبناک ہو تو اس کا غصہ اس کو حق سے خارج نہ کر دے اور جب راضی ہو تو یہ رضامندی اسے باطل میں داخل نہ کر دے اور جب مال لینے پر قدرت رکھتا ہو تو اپنے حصہ سے زیادہ نہ لے۔

حدیث نمبر 12

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ النُّعْمَانِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) يَا سُلَيْمَانُ أَ تَدْرِي مَنِ الْمُسْلِمُ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنْتَ أَعْلَمُ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ثُمَّ قَالَ وَتَدْرِي مَنِ الْمُؤْمِنُ قَالَ قُلْتُ أَنْتَ أَعْلَمُ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ مَنِ ائْتَمَنَهُ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَالْمُسْلِمُ حرَامٌ عَلَى الْمُسْلِمِ أَنْ يَظْلِمَهُ أَوْ يَخْذُلَهُ أَوْ يَدْفَعَهُ دَفْعَةً تُعَنِّتُهُ۔

فرمایا ابو جعفر علیہ السلام نے کہ اے سلیمان کیا تو جانتا ہے کہ مسلمان کون ہے میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں آپ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سالم رہیں۔ پھر فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ مومن کون ہے۔ میں نے کہا آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا مومن وہ ہے جو مسلمان کے جان و مال کا امین ہو اور مسلمان پر حرام ہے کہ مسلمان پر ظلم کرے یا اسے ذلیل کرے یا جھڑک کر اسے اپنے پاس سے ہٹائے۔

حدیث نمبر 13

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُ الَّذِي إِذَا رَضِيَ لَمْ يُدْخِلْهُ رِضَاهُ فِي إِثْمٍ وَلا بَاطِلٍ وَإِذَا سَخِطَ لَمْ يُخْرِجْهُ سَخَطُهُ مِنْ قَوْلِ الْحَقِّ وَالَّذِي إِذَا قَدَرَ لَمْ تُخْرِجْهُ قُدْرَتُهُ إِلَى التَّعَدِّي إِلَى مَا لَيْسَ لَهُ بِحَقٍّ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن وہ ہے کہ جب کسی سے راضی ہو تو یہ امر اسے گناہ یا باطل کی طرف نہ لے جائے اور جب غصہ ہو تو قول حق سے روگردانی نہ کرے اور جب قادر ہو تو اس کی یہ قدرت ظلم کی طرف نہ لے جائے اور وہ اپنے حق سے زیاہ نہ لے لے۔

حدیث نمبر 14

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ رَفَعَهُ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ الْمُؤْمِنُونَ هَيِّنُونَ لَيِّنُونَ كَالْجَمَلِ الأنِفِ إِذَا قِيدَ انْقَادَ وَإِنْ أُنِيخَ عَلَى صَخْرَةٍ اسْتَنَاخَ۔

ابو بختری نے امام سے (نام نہیں بتایا) روایت کی ہے کہ مومن فرمانبردار اور نرم طبیعت ہوتا ہے جیسے اونٹ کہ جب اس کی ناک میں نکیل ڈالی جاتی ہے تو مطیع ہو جاتا ہے اور اگر کسی پتھر پر بٹھایا جاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے۔

حدیث نمبر 15

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ ثَلاثَةٌ مِنْ عَلامَاتِ الْمُؤْمِنِ الْعِلْمُ بِالله وَمَنْ يُحِبُّ وَمَنْ يَكْرَهُ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن کی تین علامتیں ہیں اول معرفت باری تعالیٰ دوسرے یہ جاننا کہ خدا کسے دوست رکھتا ہے (امام برحق) اور کسے دشمن (امام مضل)۔

حدیث نمبر 16

وَبِهَذَا الإسْنَادِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) الْمُؤْمِنُ كَمِثْلِ شَجَرَةٍ لا يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا فِي شِتَاءٍ وَلا صَيْفٍ قَالُوا يَا رَسُولَ الله وَمَا هِيَ قَالَ النَّخْلَةُ۔

فرمایا حضرت رسولِ خدا نے مومن کی مثال اس درخت کی ہے جس کے پتے نہ جاڑوں میں گرتے ہیں نہ گرمی میں، لوگوں نے پوچھا وہ کون سا درخت ہے۔ فرمایا کھجور۔

حدیث نمبر 17

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ الأعْجَمِيِّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ حَلِيمٌ لا يَجْهَلُ وَإِنْ جُهِلَ عَلَيْهِ يَحْلُمُ وَلا يَظْلِمُ وَإِنْ ظُلِمَ غَفَرَ وَلا يَبْخَلُ وَإِنْ بُخِلَ عَلَيْهِ صَبَرَ۔

فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے مومن حلیم ہوتا ہے جاہلوں کا سا عمل نہیں کرتا اور اس کے ساتھ برا برتاؤ کیا جائے تو حلم سے کام لیتا ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس پر کوئی ظلم کرتا ہے تو معاف کر دیتا ہے وہ بخل نہیں کرتا اور اگر اس سے بخل کا برتاؤ کیا جائے تو صبر سے کام لیتا ہے۔

حدیث نمبر 18

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ مُنْذِرِ بْنِ جَيْفَرٍ عَنْ آدَمَ أَبِي الْحُسَيْنِ اللُّؤْلُؤِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ مَنْ طَابَ مَكْسَبُهُ وَحَسُنَتْ خَلِيقَتُهُ وَصَحَّتْ سَرِيرَتُهُ وَأَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ وَأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ كَلامِهِ وَكَفَى النَّاسَ شَرَّهُ وَأَنْصَفَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِهِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن وہ ہے جس کا پیشہ پاک ہو اس کی عادتیں اچھی ہوں اس کی طبیعت صحت مند ہو اپنے مال کا ضرورت سے زیادہ حصہ راہ خدا میں خرچ کرے اور زیادہ کلام کرنے سے زبان کو روکے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں اور اپنے نفس اور لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔

حدیث نمبر 19

أَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي كَهْمَسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَ لا أُنَبِّئُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ مَنِ ائْتَمَنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ أَ لا أُنَبِّئُكُمْ بِالْمُسْلِمِ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ السَّيِّئَاتِ وَتَرَكَ مَا حَرَّمَ الله وَالْمُؤْمِنُ حَرَامٌ عَلَى الْمُؤْمِنِ أَنْ يَظْلِمَهُ أَوْ يَخْذُلَهُ أَوْ يَغْتَابَهُ أَوْ يَدْفَعَهُ دَفْعَةً۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا میں بتاؤں کہ مومن کون ہوتا ہے وہ ہے جس کو مومنین اپنے نفسوں اور مالوں کا امین بنائیں، کیا میں بتاؤں کہ مسلمان کون ہے ، وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سالم رہیں اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں کو چھوڑے، محرکات کو ترک کرے ۔ مومن پر حرام ہے کہ وہ کسی مومن پر ظلم کرے یا اسے ذلیل کرے یا اس کی غیبت کرے یا یکایک اپنے سامنے سے اسے ہٹائے۔

حدیث نمبر 20

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْعَطَّارِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّمَا شِيعَةُ عَلِيٍّ الْحُلَمَاءُ الْعُلَمَاءُ الذُّبُلُ الشِّفَاهِ تُعْرَفُ الرَّهْبَانِيَّةُ عَلَى وُجُوهِهِمْ۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے علی کے شیعہ علماء ہیں اور وہ علماء جن کے کثرت ریاضت سے ہونٹ خشک ہیں وہ پہچانے جاتے ہیں اپنی ریاضت کشی سے جس کا اثر ان کے چہروں سے ظاہر ہوتا ہے۔

حدیث نمبر 21

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سِنَانٍ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ صَلَّى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) بِالنَّاسِ الصُّبْحَ بِالْعِرَاقِ فَلَمَّا انْصَرَفَ وَعَظَهُمْ فَبَكَى وَأَبْكَاهُمْ مِنْ خَوْفِ الله ثُمَّ قَالَ أَمَا وَالله لَقَدْ عَهِدْتُ أَقْوَاماً عَلَى عَهْدِ خَلِيلِي رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَإِنَّهُمْ لَيُصْبِحُونَ وَيُمْسُونَ شُعْثاً غُبْراً خُمُصاً بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ كَرُكَبِ الْمِعْزَى يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِيَاماً يُرَاوِحُونَ بَيْنَ أَقْدَامِهِمْ وَجِبَاهِهِمْ يُنَاجُونَ رَبَّهُمْ وَيَسْأَلُونَهُ فَكَاكَ رِقَابِهِمْ مِنَ النَّارِ وَالله لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ مَعَ هَذَا وَهُمْ خَائِفُونَ مُشْفِقُونَ۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ نماز صبح امیر المومنینؑ نے لوگوں کے ساتھ عراق میں پڑھی جب وہاں سے لوٹے تو لوگوں کو وعظ کیا اور خوف خدا سے خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔ پھر فرمایا میں نے اپنے حبیب حضرت رسولِ خدا کے زمانہ میں ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو صبح سے شام تک اس حال میں رہتے تھے، پریشان حال گرد آلود چہرے، گرسنہ شکم، ان کی پیشانیوں پر زانو کے طرح گٹھے، راتوں کو سجدوں اور قیام میں گزارنے والے اور اپنے قدموں اور پیشانیوں سے عبادت کر کے راحت پاتے تھے اپنے رب سے مناجات کرتے تھے کہ نار جہنم سے ان کی گردنوں کو آزاد کرے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ اس حالت میں بھی وہ خدا سے خائف و ترساں تھے۔

حدیث نمبر 22

عَنْهُ عَنِ السِّنْدِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ صَلَّى أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) الْفَجْرَ ثُمَّ لَمْ يَزَلْ فِي مَوْضِعِهِ حَتَّى صَارَتِ الشَّمْسُ عَلَى قِيدِ رُمْحٍ وَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ وَالله لَقَدْ أَدْرَكْتُ أَقْوَاماً يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِيَاماً يُخَالِفُونَ بَيْنَ جِبَاهِهِمْ وَرُكَبِهِمْ كَانَ زَفِيرُ النَّارِ فِي آذَانِهِمْ إِذَا ذُكِرَ الله عِنْدَهُمْ مَادُوا كَمَا يَمِيدُ الشَّجَرُ كَأَنَّمَا الْقَوْمُ بَاتُوا غَافِلِينَ قَالَ ثُمَّ قَامَ فَمَا رُئِيَ ضَاحِكاً حَتَّى قُبِضَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه)۔

فرمایا حضرت علی بن الحسین علیہ السلام نے امیر المومنین علیہ السلام نے نماز پڑھی اور سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے تک وہیں بیٹھے رہے۔ پھر اپنا رخ لوگوں کی طرف کر کے فرمایا واللہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے تھے اور ان کے سجدے قعود سے زیادہ ہوتے تھے اور دوزخ کی آگ کی بھڑک کا شور گویا ان کے کان میں آتا تھا اور جب اللہ کا ذکر ان کے سامنے ہو تو اس طرح ہلتے تھے جیسے تند ہوا میں درخت، وہ اس طرح خائفانہ زندگی بسر کرتے تھے جیسے غافل لوگ بسر کرتے ہیں امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ اس کے بعد تا دم مرگ کسی نے حضرت کو ہنستے نہ دیکھا۔

حدیث نمبر 23

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْرِفَ أَصْحَابِي فَانْظُرْ إِلَى مَنِ اشْتَدَّ وَرَعُهُ وَخَافَ خَالِقَهُ وَرَجَا ثَوَابَهُ وَإِذَا رَأَيْتَ هَؤُلاءِ فَهَؤُلاءِ أَصْحَابِي۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اگر تم میرے اصحاب کو جاننا چاہو تو ایسے شخص کو دیکھو جس کی پرہیزگاری سخت ہو اور اپنے خدا سے ڈرتا ہو اور اس کے ثواب کی امید رکھتا ہو جب ایسے لوگ مل جائیں تو سمجھ لو یہی میرے اصحاب ہیں۔

حدیث نمبر 24

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَمُّونٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرِو بْنِ الأشْعَثِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ حَمَّادٍ الأنْصَارِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) شِيعَتُنَا الْمُتَبَاذِلُونَ فِي وَلايَتِنَا الْمُتَحَابُّونَ فِي مَوَدَّتِنَا الْمُتَزَاوِرُونَ فِي إِحْيَاءِ أَمْرِنَا الَّذِينَ إِنْ غَضِبُوا لَمْ يَظْلِمُوا وَإِنْ رَضُوا لَمْ يُسْرِفُوا بَرَكَةٌ عَلَى مَنْ جَاوَرُوا سِلْمٌ لِمَنْ خَالَطُوا۔

فرمایا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ فرمایا امیر المومنین نے ہمارے شیعہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ہماری ولایت کے لیے اور باہم محبت کرتے ہماری محبت کے لیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ہمارے امر کو زندہ رکھنے کے لیے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب غصہ آئے تو ظلم نہیں کرتے اگر راضی ہوں تو فضول خرچی نہیں کرتے برکت ہیں اپنے پڑوسیوں کے لیے اور سلامتی ہیں اپنے ملنے والوں کے لیے۔

حدیث نمبر 25

عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عِيسَى النَّهْرِيرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) مَنْ عَرَفَ الله وَعَظَّمَهُ مَنَعَ فَاهُ مِنَ الْكَلامِ وَبَطْنَهُ مِنَ الطَّعَامِ وَعَفَا نَفْسَهُ بِالصِّيَامِ وَالْقِيَامِ قَالُوا بِ‏آبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا يَا رَسُولَ الله هَؤُلاءِ أَوْلِيَاءُ الله قَالَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ الله سَكَتُوا فَكَانَ سُكُوتُهُمْ ذِكْراً وَنَظَرُوا فَكَانَ نَظَرُهُمْ عِبْرَةً وَنَطَقُوا فَكَانَ نُطْقُهُمْ حِكْمَةً وَمَشَوْا فَكَانَ مَشْيُهُمْ بَيْنَ النَّاسِ بَرَكَةً لَوْ لا الآجَالُ الَّتِي قَدْ كُتِبَتْ عَلَيْهِمْ لَمْ تَقِرَّ أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ خَوْفاً مِنَ الْعَذَابِ وَشَوْقاً إِلَى الثَّوَابِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے خدا کو پہچانا اور اس کی تعظیم کی اس زبان کو کلام سے اور اپنے بطن کو طعام سے روکا اور پاک بنایا اپنے نفس کو روزہ اور قیام شب سے۔ لوگوں نے کہا ہمارے ماں باپ فدا ہوں یا رسول اللہ کیا یہ لوگ اولیائے خدا خاموش رہتے ہیں اور ان کا سکوت اللہ کا ذکر ہوتا ہے اورر وہ نظر کرتے ہیں اور ان کا نطر کرنا عبرت ہوتا ہے وہ کلام کرتے ہیں اور ان کا کام کرنا حکمت ہوتا ہے اور وہ چلتے ہیں اور ان کا چلنا لوگوں کے درمیان برکت ہوتا ہے اگو وہ موت نہ ہوتی جو ان کے لیے لکھی گئی ہے تو خوف عذاب اور شوق ثواب سے ان کی روحیں ان کے اجسام میں قرار نہ پاتیں۔

حدیث نمبر 26

عَنْهُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ مِنَ الْعِرَاقِيِّينَ رَفَعَهُ قَالَ خَطَبَ النَّاسَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ أَنَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَخٍ لِي كَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ فِي عَيْنِي وَكَانَ رَأْسُ مَا عَظُمَ بِهِ فِي عَيْنِي صِغَرَ الدُّنْيَا فِي عَيْنِهِ كَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِهِ فَلا يَشْتَهِي مَا لا يَجِدُ وَلا يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ كَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ فَرْجِهِ فَلا يَسْتَخِفُّ لَهُ عَقْلَهُ وَلا رَأْيَهُ كَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ الْجَهَالَةِ فَلا يَمُدُّ يَدَهُ إِلا عَلَى ثِقَةٍ لِمَنْفَعَةٍ كَانَ لا يَتَشَهَّى وَلا يَتَسَخَّطُ وَلا يَتَبَرَّمُ كَانَ أَكْثَرَ دَهْرِهِ صَمَّاتاً فَإِذَا قَالَ بَذَّ الْقَائِلِينَ كَانَ لا يَدْخُلُ فِي مِرَاءٍ وَلا يُشَارِكُ فِي دَعْوًى وَلا يُدْلِي بِحُجَّةٍ حَتَّى يَرَى قَاضِياً وَكَانَ لا يَغْفُلُ عَنْ إِخْوَانِهِ وَلا يَخُصُّ نَفْسَهُ بِشَيْ‏ءٍ دُونَهُمْ كَانَ ضَعِيفاً مُسْتَضْعَفاً فَإِذَا جَاءَ الْجِدُّ كَانَ لَيْثاً عَادِياً كَانَ لا يَلُومُ أَحَداً فِيمَا يَقَعُ الْعُذْرُ فِي مِثْلِهِ حَتَّى يَرَى اعْتِذَاراً كَانَ يَفْعَلُ مَا يَقُولُ وَيَفْعَلُ مَا لا يَقُولُ كَانَ إِذَا ابْتَزَّهُ أَمْرَانِ لا يَدْرِي أَيُّهُمَا أَفْضَلُ نَظَرَ إِلَى أَقْرَبِهِمَا إِلَى الْهَوَى فَخَالَفَهُ كَانَ لا يَشْكُو وَجَعاً إِلا عِنْدَ مَنْ يَرْجُو عِنْدَهُ الْبُرْءَ وَلا يَسْتَشِيرُ إِلا مَنْ يَرْجُو عِنْدَهُ النَّصِيحَةَ كَانَ لا يَتَبَرَّمُ وَلا يَتَسَخَّطُ وَلا يَتَشَكَّى وَلا يَتَشَهَّى وَلا يَنْتَقِمُ وَلا يَغْفُلُ عَنِ الْعَدُوِّ فَعَلَيْكُمْ بِمِثْلِ هَذِهِ الأخْلاقِ الْكَرِيمَةِ إِنْ أَطَقْتُمُوهَا فَإِنْ لَمْ تُطِيقُوهَا كُلَّهَا فَأَخْذُ الْقَلِيلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِيرِ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِالله۔

امام حسن علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں بیان فرمایا لوگو میں تم کو اپنے ایسے بھائی کی خبر دیتا ہوں جو میری نظر میں سب سے زیادہ صاحبِ عظمت ہے اور وہ وہ ہے جس کی نظر میں دنیا حقیر ہو اور وہ غلبہ شکم سے آزاد ہو پس وہ اس چیز کی خواہش نہیں کرتا جسے نہیں پاتا اور جب پاتا ہے تو اس میں زیادتی نہیں چاہتا اور وہ غلبہ فرج (زنا نہیں کرتا) سے بھی الگ رہتا ہے یہ غلبہ اس کو خفیف العقل اور ضعیف الرائے نہیں بناتا اور وہ جہالت کے غلبہ سے بھی آزاد رہتا ہے وہ اپنا ہاتھ نہیں بڑھاتا مگر اعتمادی نفع کی طرف اور وہ ناجائز امر کی خواہش نہیں کرتا اور نہ بیجا بات پر غصہ ہوتا ہے اور نہ ترک تعلق کرتا ہے۔ اور اس کی عمر کا زیادہ زمانہ سکوت میں گزرتا ہے اور جب گفتگو کرتا ہے تو قائلین پر غالب آتا ہے وہ کسی جھگڑے میں شامل نہیں ہوتا اور نہ کسی دعوئے باطل میں شریک ہوتا ہے اور نہ ہی پیش کرتا اپنی حجت کو مگر دلیل قاطع سے یہاں تک کہ حق بجانب فیصلہ کرتا ہے اور اپنے برادر مومن سے غافل نہیں ہوتا اور لوگوں سے علیحدہ ہو کر اپنے نفس کے لیے کوئی شے خاص نہیں کرتا۔ وہ ضعیف و کمزور نظر آتا ہے لیکن جب امر نیک میں کوشش کا وقت آتا ہے تو جلد شکار کرنے والا شیر نظر آتا ہے وہ کسی کو ملامت نہیں کرتا ایسے حال میں جبکہ دوسرے کے لیے عذر ہو وہ جو کہتا ہے اسے کرتا بھی ہے اور کرتا ہے وہ جسے زبان سے نہیں کہتا اور جب پیش آتے ہیں ایسے دو امر کو وہ نہیں جانتا کہ ان میں افضل کون ہے تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کونسا امر خواہش دل سے زیادہ قریب ہے پس اسی کو ترک کرتا ہے اور وہ اپنے دکھ درد کی شکایت نہیں کرتا مگر صرف اس کے سامنے جس سے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ اس کو دور کر دے گا اور نہیں مشورہ کرتا ایسے شخص سے جس سے نصیحت کی امید ہوتی ہے قطع تعلق نہیں کرتا اور غضب ناک نہیں ہوتا اور شکایت نہیں کرتا اور خواہش کا اظہار نہیں کرتا اور انتقام نہیں لیتا اور غافل نہیں ہوتا اپنے دشمن سے پس تم کو چاہیے کہ ایسے اخلاق کریمانہ کو اختیار کرو اگر کل کے اختیار کرنے کی طاقت نہ ہو تو تھوڑے سے سہی نیکی کا کم کرنا زیادہ کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے اور نہیں ہے مدد اور قوت مگر اللہ کے ساتھ۔

حدیث نمبر 27

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ مِهْزَمٍ وَبَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكَاهِلِيِّ وَأَبُو عَلِيٍّ الأشْعَرِيُّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ رَبِيعِ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنْ مِهْزَمٍ الأسَدِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) يَا مِهْزَمُ شِيعَتُنَا مَنْ لا يَعْدُو صَوْتُهُ سَمْعَهُ وَلا شَحْنَاؤُهُ بَدَنَهُ وَلا يَمْتَدِحُ بِنَا مُعْلِناً وَلا يُجَالِسُ لَنَا عَائِباً وَلا يُخَاصِمُ لَنَا قَالِياً إِنْ لَقِيَ مُؤْمِناً أَكْرَمَهُ وَإِنْ لَقِيَ جَاهِلاً هَجَرَهُ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَكَيْفَ أَصْنَعُ بِهَؤُلاءِ الْمُتَشَيِّعَةِ قَالَ فِيهِمُ التَّمْيِيزُ وَفِيهِمُ التَّبْدِيلُ وَفِيهِمُ التَّمْحِيصُ تَأْتِي عَلَيْهِمْ سِنُونَ تُفْنِيهِمْ وَطَاعُونٌ يَقْتُلُهُمْ وَاخْتِلافٌ يُبَدِّدُهُمْ شِيعَتُنَا مَنْ لا يَهِرُّ هَرِيرَ الْكَلْبِ وَلا يَطْمَعُ طَمَعَ الْغُرَابِ وَلا يَسْأَلُ عَدُوَّنَا وَإِنْ مَاتَ جُوعاً قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَيْنَ أَطْلُبُ هَؤُلاءِ قَالَ فِي أَطْرَافِ الأرْضِ أُولَئِكَ الْخَفِيضُ عَيْشُهُمْ الْمُنْتَقِلَةُ دِيَارُهُمْ إِنْ شَهِدُوا لَمْ يُعْرَفُوا وَإِنْ غَابُوا لَمْ يُفْتَقَدُوا وَمِنَ الْمَوْتِ لا يَجْزَعُونَ وَفِي الْقُبُورِ يَتَزَاوَرُونَ وَإِنْ لَجَأَ إِلَيْهِمْ ذُو حَاجَةٍ مِنْهُمْ رَحِمُوهُ لَنْ تَخْتَلِفَ قُلُوبُهُمْ وَإِنِ اخْتَلَفَ بِهِمُ الدَّارُ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَنَا الْمَدِينَةُ وَعَلِيٌّ الْبَابُ وَكَذَبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ لا مِنْ قِبَلِ الْبَابِ وَكَذَبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يُحِبُّنِي وَيُبْغِضُ عَلِيّاً (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه)۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے اے مہزم ہمارا شیعہ وہ ہے کہ اس کی آواز تجاوز نہ کرے اس شخص سے جو اس کو سن رہا ہے اور اسکی عداوت تجاوز نہ کرے اس کے نفس سے اور تعریف نہ کرے اس کی جو دشمنوں کے سامنے ہماری تعریف بالاعلان کرتا ہے (یہ سب تقیہ کی صورتیں ہیں) اور ہمارے معاملے میں دشمنوں سے جھگڑا نہ کرے اگر مومن سے ملے تو اس کا اکرام کرے اور اگر جاہل سے ملے تو اس کی صحبت ترک کرے۔ میں نے کہا ہم کیسا برتاؤ کریں ان لوگوں کے ساتھ جو بظاہر شیعہ ہیں۔ فرمایا ان میں تمیز کرنے کی علامتیں ہیں ان کے حالات میں تبدیلیاں ہوتی ہیں ان کے لیے امتحان ہے سالوں کی آمد و رفت ان کو فنا کر دے گی اور طاعون ان کو قتل کر دے گا اور باہمی اختلافات ان میں تفرقہ ڈال دے گا ہمارے شیعہ وہ ہیں جو کتوں کی طرح بھونکتے نہیں اور کوے کی طرح لالچی نہیں ہوتے اور چاہے بھوک سے مر جائیں مگر دشمن سے سوال نہیں کرتے۔ میں نے کہا میں آپ پر قربان ایسے خالص شیعوں کو ہم کہاں پائیں۔ فرمایا وہ اطراف زمین میں پائے جاتے ہیں ان کی زندگی اطمینان سے گزرتی ہے وہ تلاش علم میں شہر بہ شہر منتقل ہوتے رہتے ہیں اگر وہ موجود ہوں تو وہ مرد غریب ہونے کی وجہ سے پہچانے نہیں جاتے اور غائب ہوں تو تلاش نہیں کیے جاتے کیوں کہ لوگ ان سے واقف نہیں ہوتے وہ موت گھبراتے نہیں وہ ایک دوسرے کی قبور کی زیارت کرتے ہیں اور کوئی صاحب حاجت ان کے پاس آتا ہے تو اس کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرتے ہیں ان کے قلوب میں اختلاف نہیں ہوتا اگرچہ وہ مختلف شہروں میں آباد ہوں پھر فرمایا رسول اللہ نے فرمایا ہے میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جھوٹا ہے وہ جو گمان کرتا ہے کہ وہ شہر میں داخل ہوا ہے بغیر دروازہ کے اور جھوٹا ہے وہ جو میری محبت کا دعوے دار ہے اور علی سے بغض رکھتا ہے۔

حدیث نمبر 28

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ مَنْ عَامَلَ النَّاسَ فَلَمْ يَظْلِمْهُمْ وَحَدَّثَهُمْ فَلَمْ يَكْذِبْهُمْ وَوَعَدَهُمْ فَلَمْ يُخْلِفْهُمْ كَانَ مِمَّنْ حُرِّمَتْ غِيبَتُهُ وَكَمَلَتْ مُرُوءَتُهُ وَظَهَرَ عَدْلُهُ وَوَجَبَتْ أُخُوَّتُهُ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے جو کوئی لوگوں پر حاکم ہو چاہیے کہ ان پر ظلم نہ کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ نہ بولے اور وعدہ کرے تو اسے پورا کرے ایسے شخص کی غیبت کرنا حرام ہے اور اس سے مروت کرنا لازم ایسے شخص سے عدالت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی اخوت واجب ہوتی ہے۔

حدیث نمبر 29

عَنْهُ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) ثَلاثُ خِصَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ اسْتَكْمَلَ خِصَالَ الإيمَانِ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُدْخِلْهُ رِضَاهُ فِي بَاطِلٍ وَإِذَا غَضِبَ لَمْ يُخْرِجْهُ الْغَضَبُ مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَعَاطَ مَا لَيْسَ لَهُ۔

فرمایا عبداللہ بن حسن نے کہ روایت کی میری والدہ فاطمہ بنت الحسین بن علی علیہما السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا تین خصلتیں جس میں ہوں گی اس کا ایمان کامل ہو گا اول جب وہ کسی سے راضی ہو تو رضامندی اسے باطل امر کی طرف نہ لے جائے اور جب غضبناک ہو تو غصہ اس کو اس امر حق سے نہ ہٹا دے۔ تیسرے جب قدرت رکھتا ہو تو اپنے لیے وہ نہ لے جا اس کا حق نہیں۔

حدیث نمبر 30

عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيهِ السَّلام) إِنَّ لأهْلِ الدِّينِ عَلامَاتٍ يُعْرَفُونَ بِهَا صِدْقَ الْحَدِيثِ وَأَدَاءَ الأمَانَةِ وَوَفَاءً بِالْعَهْدِ وَصِلَةَ الأرْحَامِ وَرَحْمَةَ الضُّعَفَاءِ وَقِلَّةَ الْمُرَاقَبَةِ لِلنِّسَاءِ أَوْ قَالَ قِلَّةَ الْمُوَاتَاةِ لِلنِّسَاءِ وَبَذْلَ الْمَعْرُوفِ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَسَعَةَ الْخُلُقِ وَاتِّبَاعَ الْعِلْمِ وَمَا يُقَرِّبُ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ زُلْفَى طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَ‏آبٍ وَطُوبَى شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَصْلُهَا فِي دَارِ النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) وَلَيْسَ مِنْ مُؤْمِنٍ إِلا وَفِي دَارِهِ غُصْنٌ مِنْهَا لا يَخْطُرُ عَلَى قَلْبِهِ شَهْوَةُ شَيْ‏ءٍ إِلا أَتَاهُ بِهِ ذَلِكَ وَلَوْ أَنَّ رَاكِباً مُجِدّاً سَارَ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ مَا خَرَجَ مِنْهُ وَلَوْ طَارَ مِنْ أَسْفَلِهَا غُرَابٌ مَا بَلَغَ أَعْلاهَا حَتَّى يَسْقُطَ هَرِماً أَلا فَفِي هَذَا فَارْغَبُوا إِنَّ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَفْسِهِ فِي شُغُلٍ وَالنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ إِذَا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ افْتَرَشَ وَجْهَهُ وَسَجَدَ لله عَزَّ وَجَلَّ بِمَكَارِمِ بَدَنِهِ يُنَاجِي الَّذِي خَلَقَهُ فِي فَكَاكِ رَقَبَتِهِ أَلا فَهَكَذَا كُونُوا۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا اہل دین کے لیے کچھ علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں بات میں سچائی امانت کا ادا کرنا ، وعدہ کا وفا کرنا، صلہ رحم کرنا، کمزوروں پر رحم کرنا، عورتوں کے پاس کم رہنا اور ایک حدیث میں عورتوں کی اطاعت نہ کرنا، لوگوں پر احسان کرنا، حسن خلق سے پیش آنا، اخلاقی وسعت دکھلانا، علم کی پیروی کرنا اور وہ طریقہ اختیار کرنا جس سے خدا سے نزدیکی ہو، ان کے لیے سایہ طوبیٰ اور اچھی بازگشت ہے۔ طوبیٰ ایک درخت ہے جنت میں جس کی جڑ محمد مصطفیٰ کے گھر میں ہے اور ہر مومن کے گھر میں اس کی ایک شاخ ہے جس کے دل میں کسی شے کی خواہش ہو گی وہ اس کے پاس خود آئے گی اگر ایک سوار سو برس تک اس کے سایہ میں چلے گا تو اس سے باہر نہ ا سکے گا اور اگر کوا اس کے نچلے حصہ سے اڑے گا تو اس کے اوپر کے حصہ تک نہ پہنچ سکے گا یہاں تک کہ وہ تھک کر مر جائے گا۔ آگاہ رہو یہ وہ ہے جس کی طرف تم رغبت کرو، مومن اپنے کام میں مصروف رہتا ہے اور لوگ اس سے راحت میں رہتے ہیں جب رات کی تاریکی چھاتی ہے تو وہ اپنے چہرے کو فرش بناتا ہے سجدہ کرتا ہے اور اپنے پروردگار سے دعا کرتا ہے کہ نار جہنم سے بچا لے یہ ہے ایمان بس تم ایسے ہی ہو جاؤ۔

حدیث نمبر 31

عَنْهُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو النَّخَعِيِّ قَالَ وَحَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ سَيْفٍ عَنْ أَخِيهِ عَلِيٍّ عَنْ سُلَيْمَانَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) عَنْ خِيَارِ الْعِبَادِ فَقَالَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا وَإِذَا أُعْطُوا شَكَرُوا وَإِذَا ابْتُلُوا صَبَرُوا وَإِذَا غَضِبُوا غَفَرُوا۔

فرمایا امام محمد باقر علیہ السلام نے کہ رسول اللہ سے بہترین لوگوں کے متعلق سوال کیا گیا۔ فرمایا جب وہ نیکی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب گناہ کرتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں اور جب ان کو کوئی کچھ دیتا ہے تو شکریہ ادا کرتے ہیں اور جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں جب کسی پر غصہ ہوتے ہیں تو اپنی بخشش سے اس کا گناہ چھپاتے ہیں۔

حدیث نمبر 32

وَبِإِسْنَادِهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) إِنَّ خِيَارَكُمْ أُولُو النُّهَى قِيلَ يَا رَسُولَ الله وَمَنْ أُولُو النُّهَى قَالَ هُمْ أُولُو الأخْلاقِ الْحَسَنَةِ وَالأحْلامِ الرَّزِينَةِ وَصَلَةُ الأرْحَامِ وَالْبَرَرَةُ بِالأمَّهَاتِ وَالآبَاءِ وَالْمُتَعَاهِدِينَ لِلْفُقَرَاءِ وَالْجِيرَانِ وَالْيَتَامَى وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ وَيُفْشُونَ السَّلامَ فِي الْعَالَمِ وَيُصَلُّونَ وَالنَّاسُ نِيَامٌ غَافِلُونَ۔

فرمایا حضرت ابو جعفر علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے سب سے بہتر الوالنہی کون ہیں لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ الوالنہی کون ہیں۔ فرمایا صاحبان اخلاق حسنہ اور پختہ عقول والے اور صلہ رحم کرنے والے اور ماؤں اور باپوں سے نیکی کرنے والے اور فقراء کی خیر خبر لینے والے اور ہمسایوں اور یتیموں کی مدد کرنے والے وہ کھانا کھلاتے ہیں اور دنیا میں اسلام پھیلاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں جبکہ لوگ غافل پڑے سوتے ہیں۔

حدیث نمبر 33

عَنْهُ عَنِ الْهَيْثَمِ النَّهْدِيِّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ قَالَ قُلْتُ لأبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) أَيُّ الْخِصَالِ بِالْمَرْءِ أَجْمَلُ فَقَالَ وَقَارٌ بِلا مَهَابَةٍ وَسَمَاحٌ بِلا طَلَبِ مُكَافَأَةٍ وَتَشَاغُلٌ بِغَيْرِ مَتَاعِ الدُّنْيَا۔

کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کون سی خصلت آدمی کی زیادہ اچھی ہے۔ فرمایا وہ وقار جو بغیر ہیئت کے ہو وہ سخاوت جو بدلہ کی طلب کے بغیر ہو اور وہ مشغلہ جو متاع دنیا سے متعلق نہ ہو۔

حدیث نمبر 34

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي وَلادٍ الْحَنَّاطِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) يَقُولُ إِنَّ الْمَعْرِفَةَ بِكَمَالِ دِينِ الْمُسْلِمِ تَرْكُهُ الْكَلامَ فِيمَا لا يَعْنِيهِ وَقِلَّةُ مِرَائِهِ وَحِلْمُهُ وَصَبْرُهُ وَحُسْنُ خُلُقِهِ۔

فرمایا ابو عبداللہ علیہ السلام نے علی بن الحسین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کے کمال دین کا پہچاننا یوں ہے کہ وہ غیر متعلقہ امور میں کلام ترک کرے اور لوگوں سے بہت کم جھگڑا کرے حلم و صبر و حسن خلق سے کام لے۔

حدیث نمبر 35

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَرَفَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) أَ لا أُخْبِرُكُمْ بِأَشْبَهِكُمْ بِي قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ الله قَالَ أَحْسَنُكُمْ خُلُقاً وَأَلْيَنُكُمْ كَنَفاً وَأَبَرُّكُمْ بِقَرَابَتِهِ وَأَشَدُّكُمْ حُبّاً لِإِخْوَانِهِ فِي دِينِهِ وَأَصْبَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ وَأَكْظَمُكُمْ لِلْغَيْظِ وَأَحْسَنُكُمْ عَفْواً وَأَشَدُّكُمْ مِنْ نَفْسِهِ إِنْصَافاً فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا میں بتاؤں کہ تم میں مجھ سے زیادہ مشابہ کون ہے۔ لوگوں نے کہا ضرور یا رسول اللہ۔ فرمایا جو تم میں ازروئے خلق اچھا ہو اور پناہ دینے کے لیے سب سے زیادہ نرم ہو اور اپنے قرابتداروں کے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والا ہو اور اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ نیکی کرنے والا ہو دینی معاملہ میں اور امر حق میں تکالیف پر سب سے زیادہ صبر کرنے والا اور غصہ کا سب سے زیادہ پینے والا اور قصور کا سب سے زیادہ بخشنے والا اور اپنے نفس کے متعلق سب سے زیادہ انصاف کرنے والا خواہ حالت رضا ہو یا غضب۔

حدیث نمبر 36

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (عَلَيهِما السَّلام) قَالَ مِنْ أَخْلاقِ الْمُؤْمِنِ الإنْفَاقُ عَلَى قَدْرِ الإقْتَارِ وَالتَّوَسُّعُ عَلَى قَدْرِ التَّوَسُّعِ وَإِنْصَافُ النَّاسِ وَابْتِدَاؤُهُ إِيَّاهُمْ بِالسَّلامِ عَلَيْهِمْ۔

فرمایا حضرت علی بن الحسین علیہ السلام نے مومن کے اخلاق سے ہے بقدر اپنی تنگی کے راہِ خدا میں خرچ کرنا اور بلحاظ وسعت مال دولت مندی میں خرچ کرنا اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا اور اسلام میں ابتداء کرنا۔

حدیث نمبر 37

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ أَصْلَبُ مِنَ الْجَبَلِ الْجَبَلُ يُسْتَقَلُّ مِنْهُ وَالْمُؤْمِنُ لا يُسْتَقَلُّ مِنْ دِينِهِ شَيْ‏ءٌ۔

ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا مومن پہاڑ سے زیادہ سخت ہوتا ہے پہاڑ تو اپنے اجزاء کے ٹوٹنے پھوٹنے سے کم ہو جاتا ہے لیکن مومن کے دین سے کوئی شے کم نہیں ہوتی۔

حدیث نمبر38

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ الْمُؤْمِنُ حَسَنُ الْمَعُونَةِ خَفِيفُ الْمَئُونَةِ جَيِّدُ التَّدْبِيرِ لِمَعِيشَتِهِ لا يُلْسَعُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ۔

فرمایا حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے مومن لوگوں کی مدد اچھی طرح کرتا ہے اس کا خرچ ہلکا ہوتا ہے معاش کے حصول میں اس کی تدبیر اچھی ہوتی ہے اور وہ ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ یعنے پہلے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

حدیث نمبر 39

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُنْدَارَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ سَهْلِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الدِّلْهَاثِ مَوْلَى الرِّضَا (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا (عَلَيهِ السَّلام) يَقُولُ لا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ فِيهِ ثَلاثُ خِصَالٍ سُنَّةٌ مِنْ رَبِّهِ وَسُنَّةٌ مِنْ نَبِيِّهِ وَسُنَّةٌ مِنْ وَلِيِّهِ فَأَمَّا السُّنَّةُ مِنْ رَبِّهِ فَكِتْمَانُ سِرِّهِ قَالَ الله عَزَّ وَجَلَّ عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ وَأَمَّا السُّنَّةُ مِنْ نَبِيِّهِ فَمُدَارَاةُ النَّاسِ فَإِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَ نَبِيَّهُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلِه) بِمُدَارَاةِ النَّاسِ فَقَالَ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَمَّا السُّنَّةُ مِنْ وَلِيِّهِ فَالصَّبْرُ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ۔

راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ مومن بغیر تین خصلتوں کے نہ ہو گا۔ ایک سنت رب ہے ایک سنت نبی ہے اور ایک سنت ولی ہے۔ رب کی سنت یہ ہے کہ اس کے بھید کو چھپایا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ عالم الغیب ہے اس کے بھید سے کوئی واقف نہیں سوائے اس کے جس کو وہ رسولوں میں سے اس کام کے لیے چن لے۔ اور سنت نبی یہ ہے کہ لوگوں سے بخلق پیش آئے جیسا کہ خدا فرماتا ہے عفو سے کام لو اور نیکی کا حکم دو اور سنت ولی یہ ہے کہ مصیبت اور سختی میں صبر کرو۔